قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی پاکستان کیلئے ویژن

قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی پاکستان کیلئے ویژن

قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی پاکستان کیلئے ویژن

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ فروری 2019

مسلم انسٹیٹیوٹ اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں 19 دسمبر 2018ء بروز بدھ ’’قائدِ اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا پاکستان کے لیےویژن‘‘کے موضوع پر کانفرنس کا اہتمام کیا- کانفرنس دو سیشنز پر مشتمل تھی جبکہ آخر میں کلامِ اقبال کی محفل کا انعقاد بھی کیا گیا- پروفیسر ڈاکٹر ناصر امین (وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد) نے افتتاحی سیشن کی صدارت کی جبکہ صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز (انچارج پروگرامز، مسلم انسٹیٹیوٹ) نے افتتاحی کلمات سے نوازا- پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چاولہ (ڈین ، چیئرمین شعبہ تاریخ و پاکستان سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی لاہور) اور عارف خٹک (اسسٹنٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف سائنسز اینڈ ہیومینیٹیز، فاسٹ یونیورسٹی، چنیوٹ) پہلے سیشن کےمہمان مقررین میں شامل تھے- ڈاکٹر عبدالقادر مشتاق (چیئر پرسن، شعبہ تاریخ و پاکستان سٹڈیز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد) نےافتتاحی سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-جناب صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز نے کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت کی جبکہ ڈاکٹر عبدالقادر مشتاق(چیئر پرسن، شعبہ تاریخ و پاکستان سٹڈیز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد) نے اظہارِ تشکر کیا- ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی (اسسٹنٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف کراچی)، پروفیسر ڈاکٹر ایم شفیق (ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری اینڈ سیویلائزیشن سٹڈیز، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان) اور جناب ادریس آزاد (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) دوسرے سیشن کے مہمان مقررین میں شامل تھے-محققین، سکالرز، طلباء، پروفیسرز، وکلاء، صحافیوں، سماجی کارکنان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کانفرنس میں شرکت کی-

مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے:

قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال دونوں ایسی شخصیات ہیں جن کے افکار اور نظریات،قومی اور ملی دونوں حیثیتوں میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں- علامہ اقبال نے بیسویں صدی میں شاعر مشرق اور مدبر مغرب کا کردار ادا کیا- قائداعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے فلسفہ یقین کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے ناممکن کو ممکن بنایا اور مسلمانان ہند کی بقاء  کے لئے الگ مملکت حاصل کی- قائد اعظم کی فکر اور ان کی تحریک آزادی پر علامہ اقبال کا گہرا اثر تھا - یہ دونوں شخصیات آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں- غیر ملکی رہنما جن کو ہماری پارلیمنٹ میں خطاب کا موقع ملا وہ اپنی بات کی ابتداء  یا اختتام علامہ اقبال پر کرتے ہیں کیونکہ وہ علامہ اقبال کو پاکستان کی شناخت کے حوالے سے جانتے ہیں- یہ بات اس امر سے بھی عیاں ہے کہ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں کلام اقبال کا ترجمہ ہوا ہے اور مختلف اقوام نے آ پ کے افکار سے استفادہ کیا ہے- ہمیں واضع ہونا چاہیے کہ پاکستان کی عالمی شناخت علامہ اقبال ہیں- آج بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے روا رکھے جانے والا امتیازی سلوک جہاں نام نہاد سیکولرازم کو بے نقاب کرتا ہے وہیں ہمیں یاد دہانی کرواتا ہے کہ بانیان پاکستان نے مسلمانان ہند کے لئے یہ ٹکڑا زمین حاصل کر کے مذہبی اور ثقافتی آزادی کے لئے بہت بڑا احسان کیا ہے- دو قومی نظریہ ہمارے لئے ڈھال ہے نیز ہماری بقاء اور پُر امن مستقبل کی ضمانت بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے- جو قائد اعظم کی خارجہ پالیسی سے بھی واضع ہے جس میں اپنے ہمسایہ ممالک سے برابری کی سطح پر اچھے تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اہم جزو ہے-

اقبال جس مرد مومن کی بات کرتے ہیں اگر اس کومجسم صورت میں دیکھنا ہوتو وہ محمد علی جناح ہیں-’’تجدیدِفکریاتِ اسلام‘‘  کا دیباچہ اس جملہ سے شروع ہوتا ہے ’’قرآن تصورات کی بجائے عمل پر زور دیتا ہے‘‘-اقبال ایک فکر کا نام ہے اور قائدِ اعظم عمل کا- اگر دونوں کو اکٹھا دیکھا جائے تو وہ فکروعمل ہیں-جب بھی قائدِ اعظم کی بات کی جائے تو آپ کی سیرت اور کردار کی بات ہو گی جبکہ اقبال کی فکر اور فلسفہ زیرِ بحث آئے گا- قائدِ اعظم نے ہمیشہ اپنے کردار کو سامنے رکھا اور کبھی اس پر سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سچ بول کے اپنی زندگی گزاری -

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بد قسمتی سے ہمارے قومی ہیروز کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے- آج یہ کہا جاتا ہےکہ پاکستان کیوں بنا؟اور قائداعظم کونسا پاکستان چاہتے تھے؟ جنہوں نے تاریخ پاکستان کو پڑھا اور سمجھا ہی نہیں، وہ اقبال اور قائد اعظم میں تضادات ڈھونڈتے ہیں- آپ ’’کابینہ مشن پلان‘‘ کا جائزہ لیں تو قائد نے اس میں پانچ میں سے ایک نشست پر ہندو کو نمائندگی دی جبکہ انڈین نیشنل کانگریس نے اپنی چھ کی چھ نشستوں پر ہندؤں کو نامزد کیا-ناقدین کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ قائداعظم پہلے دن سے ہی روشن خیال تھے اور آپ نے ہمیشہ چارٹر آف مدینہ کی بات کی-جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے کہا کہ پاکستان کو مغل فرماروا اکبرکے ماڈل کو اپنانا چاہیے تو انہوں نے واضع الفاظ میں فرمایا کہ ہمیں اصل ماڈل 13 سو سال قبل دے دیا گیا تھا-

علامہ اقبال نے اپنے خطبات کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کی سوچ کو تبدیل کردیا بلکہ مسلمانوں کی پستی کے اسباب کا بھی تفصیلی جائزہ لیا-چوہدری رحمت علی نے 1933ءمیں پمفلٹ ’’Now or Never ‘‘لکھا اور پاکستان کا لفظ بھی استعمال کرنا شروع کر دیا تو کسی نے علامہ اقبال کو لکھا کہ کیا آپ چوہدری رحمت علی کی تحریک کا حصہ ہیں؟ اقبال نےاثبات میں جواب دیا-اقبال نے یہ فکر اپنے خطبات میں دی تھی کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں مسلمانوں کے لیے ایک ملک تشکیل دیا جائے-اصل میں ہمیں اقبال کے خطوط اور قائد اعظم کی تقریریں بھی پڑھنے کی ضرورت ہے- علامہ صاحب اور قائد اعظم نے اسلامی جدید فلاحی ریاست کا نظریہ دیا جس کا قیام پاکستان کی وجہ سے ہی ممکن تھا -ابھی بھی ہم نے علامہ اقبال کے خواب کو پورا کرنا ہے اور قائداعظم کے ویژن کو سمجھنا ہے جس کے لیے ان تضادات سے نکلنا پڑے گا اور عہد کرنا ہو گا کہ ہم نے اسلامی جمہوری نظام قائم کرنا ہے اور پاکستان سے پیار کرنا ہے-

وقفہ سوال و جواب:

وقفہ سوال و جواب میں مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے:-

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام)سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)تک تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) نے دین اسلام ہی پیش کیا ہےاور توحید رسالت اور آخرت کی طرف دعوت دی ہے- اگر اس کی خوبصورت مثال دنیا میں کہیں مل سکتی ہے تو وہ ریاست مدینہ ہے ایک ایسی سوسائٹی جہاں کلچرل اور مذہبی تنوع تھا اور کس قدر ایک ہم آہنگی کے ساتھ ایک خوبصورت ریاست کا قیام عمل میں آیا-اسلام کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں فرقہ وارانہ تعصبات کی طرف نہیں جانا چاہیے -اگر اسلام کا اس کی اصل روح کے مطابق  نفاذ کیا جائے تو دنیا میں اس سے بہترین مثال اقلیتوں کے حوالے سے نہیں مل سکتی جو آپ(ﷺ) نےاپنی تعلیمات میں پیش کی ہیں-

قائد اعظم اور اقبال جس طرح کا پاکستان چاہتے تھے تو یقیناً ان کی اقوال کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں لیکن ہم عملی طور پر اس سے بہت دور ہیں- پاکستان کا مسئلہ محض قانون سازی نہیں بلکہ اس کا اطلاق ہے- اگر پاکستان کے اندر ہمارےادارے مضبوطی سے کام کریں تو یقیناً ہم قائد اور اقبال کے ویژن کے مطابق پاکستان کوآگے لے جا سکتے ہیں-

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘-حضرت علامہ اقبال بھی یہی بات فرماتے ہیں ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘‘،اسی طرح حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کے فرمان کے مطابق ’’نہ میں شیعہ نہ میں سنی میرا دوہاں تو دل سڑیا ھو‘‘ہمیں فرقہ پرستی سے اجتناب کرنا چاہیے-

 

٭٭٭

مسلم انسٹیٹیوٹ اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں 19 دسمبر 2018ء بروز بدھ ’’قائدِ اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا پاکستان کے لیےویژن‘‘کے موضوع پر کانفرنس کا اہتمام کیا- کانفرنس دو سیشنز پر مشتمل تھی جبکہ آخر میں کلامِ اقبال کی محفل کا انعقاد بھی کیا گیا- پروفیسر ڈاکٹر ناصر امین (وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد) نے افتتاحی سیشن کی صدارت کی جبکہ صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز (انچارج پروگرامز، مسلم انسٹیٹیوٹ) نے افتتاحی کلمات سے نوازا- پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چاولہ (ڈین ، چیئرمین شعبہ تاریخ و پاکستان سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی لاہور) اور عارف خٹک (اسسٹنٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف سائنسز اینڈ ہیومینیٹیز، فاسٹ یونیورسٹی، چنیوٹ) پہلے سیشن کےمہمان مقررین میں شامل تھے- ڈاکٹر عبدالقادر مشتاق (چیئر پرسن، شعبہ تاریخ و پاکستان سٹڈیز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد) نےافتتاحی سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے-جناب صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز نے کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت کی جبکہ ڈاکٹر عبدالقادر مشتاق(چیئر پرسن، شعبہ تاریخ و پاکستان سٹڈیز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد) نے اظہارِ تشکر کیا- ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی (اسسٹنٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف کراچی)، پروفیسر ڈاکٹر ایم شفیق (ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری اینڈ سیویلائزیشن سٹڈیز، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان) اور جناب ادریس آزاد (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) دوسرے سیشن کے مہمان مقررین میں شامل تھے-محققین، سکالرز، طلباء، پروفیسرز، وکلاء، صحافیوں، سماجی کارکنان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کانفرنس میں شرکت کی-

مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے:

قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال دونوں ایسی شخصیات ہیں جن کے افکار اور نظریات،قومی اور ملی دونوں حیثیتوں میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں- علامہ اقبال نے بیسویں صدی میں شاعر مشرق اور مدبر مغرب کا کردار ادا کیا- قائداعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے فلسفہ یقین کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے ناممکن کو ممکن بنایا اور مسلمانان ہند کی بقاء  کے لئے الگ مملکت حاصل کی- قائد اعظم کی فکر اور ان کی تحریک آزادی پر علامہ اقبال کا گہرا اثر تھا - یہ دونوں شخصیات آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں- غیر ملکی رہنما جن کو ہماری پارلیمنٹ میں خطاب کا موقع ملا وہ اپنی بات کی ابتداء  یا اختتام علامہ اقبال پر کرتے ہیں کیونکہ وہ علامہ اقبال کو پاکستان کی شناخت کے حوالے سے جانتے ہیں- یہ بات اس امر سے بھی عیاں ہے کہ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں کلام اقبال کا ترجمہ ہوا ہے اور مختلف اقوام نے آ پ کے افکار سے استفادہ کیا ہے- ہمیں واضع ہونا چاہیے کہ پاکستان کی عالمی شناخت علامہ اقبال ہیں- آج بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے روا رکھے جانے والا امتیازی سلوک جہاں نام نہاد سیکولرازم کو بے نقاب کرتا ہے وہیں ہمیں یاد دہانی کرواتا ہے کہ بانیان پاکستان نے مسلمانان ہند کے لئے یہ ٹکڑا زمین حاصل کر کے مذہبی اور ثقافتی آزادی کے لئے بہت بڑا احسان کیا ہے- دو قومی نظریہ ہمارے لئے ڈھال ہے نیز ہماری بقاء اور پُر امن مستقبل کی ضمانت بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے- جو قائد اعظم کی خارجہ پالیسی سے بھی واضع ہے جس میں اپنے ہمسایہ ممالک سے برابری کی سطح پر اچھے تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اہم جزو ہے-

اقبال جس مرد مومن کی بات کرتے ہیں اگر اس کومجسم صورت میں دیکھنا ہوتو وہ محمد علی جناح ہیں-’’تجدیدِفکریاتِ اسلام‘‘  کا دیباچہ اس جملہ سے شروع ہوتا ہے ’’قرآن تصورات کی بجائے عمل پر زور دیتا ہے‘‘-اقبال ایک فکر کا نام ہے اور قائدِ اعظم عمل کا- اگر دونوں کو اکٹھا دیکھا جائے تو وہ فکروعمل ہیں-جب بھی قائدِ اعظم کی بات کی جائے تو آپ کی سیرت اور کردار کی بات ہو گی جبکہ اقبال کی فکر اور فلسفہ زیرِ بحث آئے گا- قائدِ اعظم نے ہمیشہ اپنے کردار کو سامنے رکھا اور کبھی اس پر سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سچ بول کے اپنی زندگی گزاری -

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بد قسمتی سے ہمارے قومی ہیروز کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے- آج یہ کہا جاتا ہےکہ پاکستان کیوں بنا؟اور قائداعظم کونسا پاکستان چاہتے تھے؟ جنہوں نے تاریخ پاکستان کو پڑھا اور سمجھا ہی نہیں، وہ اقبال اور قائد اعظم میں تضادات ڈھونڈتے ہیں- آپ ’’کابینہ مشن پلان‘‘ کا جائزہ لیں تو قائد نے اس میں پانچ میں سے ایک نشست پر ہندو کو نمائندگی دی جبکہ انڈین نیشنل کانگریس نے اپنی چھ کی چھ نشستوں پر ہندؤں کو نامزد کیا-ناقدین کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ قائداعظم پہلے دن سے ہی روشن خیال تھے اور آپ نے ہمیشہ چارٹر آف مدینہ کی بات کی-جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے کہا کہ پاکستان کو مغل فرماروا اکبرکے ماڈل کو اپنانا چاہیے تو انہوں نے واضع الفاظ میں فرمایا کہ ہمیں اصل ماڈل 13 سو سال قبل دے دیا گیا تھا-

علامہ اقبال نے اپنے خطبات کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کی سوچ کو تبدیل کردیا بلکہ مسلمانوں کی پستی کے اسباب کا بھی تفصیلی جائزہ لیا-چوہدری رحمت علی نے 1933ءمیں پمفلٹ ’’Now or Never‘‘لکھا اور پاکستان کا لفظ بھی استعمال کرنا شروع کر دیا تو کسی نے علامہ اقبال کو لکھا کہ کیا آپ چوہدری رحمت علی کی تحریک کا حصہ ہیں؟ اقبال نےاثبات میں جواب دیا-اقبال نے یہ فکر اپنے خطبات میں دی تھی کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں مسلمانوں کے لیے ایک ملک تشکیل دیا جائے-اصل میں ہمیں اقبال کے خطوط اور قائد اعظم کی تقریریں بھی پڑھنے کی ضرورت ہے- علامہ صاحب اور قائد اعظم نے اسلامی جدید فلاحی ریاست کا نظریہ دیا جس کا قیام پاکستان کی وجہ سے ہی ممکن تھا -ابھی بھی ہم نے علامہ اقبال کے خواب کو پورا کرنا ہے اور قائداعظم کے ویژن کو سمجھنا ہے جس کے لیے ان تضادات سے نکلنا پڑے گا اور عہد کرنا ہو گا کہ ہم نے اسلامی جمہوری نظام قائم کرنا ہے اور پاکستان سے پیار کرنا ہے-

وقفہ سوال و جواب:

وقفہ سوال و جواب میں مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے:-

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور حضرت آدم (﷤)سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)تک تمام انبیاء کرام (﷩) نے دین اسلام ہی پیش کیا ہےاور توحید رسالت اور آخرت کی طرف دعوت دی ہے- اگر اس کی خوبصورت مثال دنیا میں کہیں مل سکتی ہے تو وہ ریاست مدینہ ہے ایک ایسی سوسائٹی جہاں کلچرل اور مذہبی تنوع تھا اور کس قدر ایک ہم آہنگی کے ساتھ ایک خوبصورت ریاست کا قیام عمل میں آیا-اسلام کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں فرقہ وارانہ تعصبات کی طرف نہیں جانا چاہیے -اگر اسلام کا اس کی اصل روح کے مطابق  نفاذ کیا جائے تو دنیا میں اس سے بہترین مثال اقلیتوں کے حوالے سے نہیں مل سکتی جو آپ(ﷺ) نےاپنی تعلیمات میں پیش کی ہیں-

قائد اعظم اور اقبال جس طرح کا پاکستان چاہتے تھے تو یقیناً ان کی اقوال کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں لیکن ہم عملی طور پر اس سے بہت دور ہیں- پاکستان کا مسئلہ محض قانون سازی نہیں بلکہ اس کا اطلاق ہے- اگر پاکستان کے اندر ہمارےادارے مضبوطی سے کام کریں تو یقیناً ہم قائد اور اقبال کے ویژن کے مطابق پاکستان کوآگے لے جا سکتے ہیں-

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘-حضرت علامہ اقبال بھی یہی بات فرماتے ہیں ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘‘،اسی طرح حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کے فرمان کے مطابق ’’نہ میں شیعہ نہ میں سنی میرا دوہاں تو دل سڑیا ھو‘‘ہمیں فرقہ پرستی سے اجتناب کرنا چاہیے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر