مسلم انسٹیٹیوٹ اور یونیورسٹی آف لاہور نے 27 نومبر 2018ء’’مولانا رومی اور علامہ اقبال‘‘ کے موضوع پر یونیورسٹی آف لاہور میں کانفرنس کا انعقاد کیا- اس موقع پر صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)، پروفیسر ڈاکٹر سید محمد اکرم (پروفیسر ایمریٹس اقبال سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی لاہور)، پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر(ڈین، فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ، پنجاب یونیورسٹی لاہور) اور ڈاکٹر غلام شمس الرحمٰن (چیئرمین، ڈیپارٹمنٹ آف عریبک اینڈ اسلامک سٹڈیز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد) مہمان مقرر تھے- مس ماریہ رفیع (پیٹرن پیام سوسائٹی اور لیکچرار یونیورسٹی آف لاہور) نے افتتاحی کلمات ادا کیے جبکہ عدنان ایچ ستی (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیے- کانفرنس کے اختتام پر یونیورسٹی کے طلباء نے مترنم کلام پیش کیا-محققین، سکالرز، طلباء، پروفیسرز، وکلاء، صحافیوں، سماجی کارکنان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کانفرنس میں شرکت کی-
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:
آج کی اس کانفرنس کا مقصد اپنی نوجوان نسل کو علامہ اقبال اور مولانا رومیؒ کے افکار سے آگاہ کرنا ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل کو علامہ اقبال اور رومی کی شخصیت اور کردار کے بارے میں پتا چل سکے جو پوری دنیا اور عالمِ اسلام کے لیے رول ماڈل ہیں- پاکستان کے لوگوں کی یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ اللہ پاک نے اس خطہ سر زمین کو اقبال جیسی شخصیت سے نوازا ہے- علامہ اقبال فرماتےہیں میں اقبال نہ ہوتا اگر مولانا رومیؒ میرے استاد نہ ہوتے -رومی دنیا کی تاریخ کے واحد فلسفی ہیں جو بظاہراً بات چھوٹی سی کرتے ہیں لیکن اس چھوٹی سی بات کی وضاحت کی جائے تو وہ ایک سمندر کی طرح ہے-
اس وقت کرۂ ارض پر اربوں انسان موجودہیں- پوری دنیا میں اگر آپ دیکھیں تو روزانہ لوگ ہزار برس کی تہذیب میں مرتے رہے اور پیدا ہوتے رہے اور انسانیت کا سفر چلتا رہا اور ایک آدمی جب دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے گھر والے جن سے اس کا خونی رشتہ ہوتا ہے وہ اس کو تھوڑی دیر کے لئے یاد رکھتے ہیں یا اگر کسی نے کوئی ایسا کام کیا ہےتو تھوڑے عرصے تک اسے یاد رکھا جاتا ہے اور اگر کسی نے بہت بڑا کام بھی کیا ہے تو ایک دو صدی تک اس کا کام مؤثر رہتا ہے -اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کی ضرورت ختم ہوتی جاتی ہے اور وہ غیر مؤثر ہو تا جاتا ہے - اکنامکس کے طلباء اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہر بیس (20)پچیس (25)برس بعد ایک نئی تھیُوری آجاتی ہے اور گزشتہ ساری چیزیں محض ایک تدریسی حوالہ کے طور پر رہ جاتی ہیں -دنیا ایک نئی ڈگر پہ چل پڑتی ہے - لیکن اگر 850سال گزرنے کے باوجود آج بھی جرمنی، برطانیہ، امریکہ اور ترکی میں رومی کی کتب سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں شامل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت عظیم شخصیت تھے کہ 850سال کے بعد بھی ان کا کلام انسانی معاشرے میں اتنا ہی مؤثر ہے -
مشرق میں رومی کو ہم نے جامعات کے شعبہ فارسی تک محدود کر دیا ہے جبکہ مغرب کے ادبی حلقوں میں رومی کا وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا جاتا ہے-مغربی معاشرہ اس وقت مادیت پرست رجحانات کا شکار ہے -جو بھی چیز ان کی مادیت پرستی کو متاثر کرتی ہے، وہ اس کو قریب نہیں آنے دیتے اور باوجود اس کے کہ رومی ایک عظیم صوفی ہیں،روحانیت کی دنیا کی بات کرتے ہیں ،مادے سے بڑھ کے کسی اور جہاں کی بات کرتے ہیں، مغرب کا رومی پہ یہ اتفاقِ رائےہے کہ رومی کی فکر ان کی مادی زندگی کو نقصان نہیں پہنچاتی اور رومی کے ذریعے وہ پرواز حاصل کرتے ہیں- رومی کے ذریعے وہ ایک اور دنیا کی طرف سفر کرتے ہیں- مولانا رومی کی یہ عظمت ہے کہ چاہے مسلمان ہے یا غیر مسلم، روحانیت پہ یقین رکھنے والے لوگ ہیں یامادیت پرست رجحان کے مالک لوگ ہیں،رومی سب کے ہاں ایک جیسے مقبول ہیں -
علامہ اقبال اور مولانا رومی کا پیغام انسانوں اور نوجوانوں کی تربیت سے ایک اعلیٰ معاشرے کا قیام ہے - قرآن میں بھی سب سے زیادہ انسان کو ہی مخاطب کیا گیا ہے اور اس کو درد دل کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے -اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہےاور انسانوں کی فلاح کے لئے اللہ تعالی نے جو نظام تخلیق کیا وہ بھی انسانوں کے ذریعہ ہے یعنی پیغمبر بھی انسان بھیجے -مرشد و مرید کا تصور بھی انسانوں کے حوالے سے ہے -
اپنی ایک مثنوی میں مولانا جلال الدین رومیؒ نے بتایا ہے کہ ایک شیخ چراغ ہتھیلی پر لیے کوچہ و بازار میں پھر رہا تھا اورکَہ رہا تھا کہ مجھے کسی انسان کی تلاش ہے کیونکہ میں شیطان و حیوان سے بیزار ہوں-لوگوں نے کہا کہ ایسا نہیں ملتا تو اس نے پھر تاکید کی مجھے ایسے ہی انسان کی تلاش ہے جو نہیں ملتا یعنی مجھے ایک کامل انسان کی تلاش ہے -
مولانا کے شاندار کلام کو ان کے شارحین نے حیاتِ جادوانی بخشی- ان کے سب سے بڑے شارح مولانا جامی تھے - بیسویں صدی میں مولانا کا ایک شارح ہندوستان سے ظاہر ہواجن کا نام محمد اقبال تھا- علامہ محمد اقبال نے کبھی ان کا نام پیر یا مرشد کے سوا نہیں لیا - مولانا رومی اپنےکلام میں فرماتے ہیں کہ بانسری کو سنیے جب وہ اپنی حکایت بیان کرتی ہے،بانسری ہے کیا ؟ جنگل سے بانس سے جدا کی ہوئی ایک لکڑی - بانسری کو سنو وہ کیسے اپنے فراق کی گفتگو کر رہی ہے-جب وہ جنگل سے جدا ہوئی اور اب شہر کے اندر لوگ اس بانسری کو سنتے ہیں اور اس سے وہ لطف حاصل کرتے ہیں -لیکن بانسری کو تو سنیُے-بانسری تو چیخ رہی ہے کیونکہ وہ اپنے اصل سے جدا ہوگئی- بانسری کی بات آپ کو اس وقت تک سمجھ نہیں آتی جب تک کہ آپ کا اپنا دل پارہ پارہ نہ ہو،اس اصل کی طرف جانے کے لیے جس سے آپ جدا ہو گئے -مولانا جامی مثنوی کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک عام کتاب نہیں بلکہ فارسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا گیا ہے-اب بیسویں صدی میں جس شخص کا دل پارہ پارہ تھا اورجو بانسری کی بات سمجھ سکتا تھا اس کا نام علامہ اقبال ہے-لہذا رومی کی جتنی زیادہ شرح اقبال نے کی ہے شاید ہی موجودہ دور کے کسی اور شاعر نے کی ہو-
علامہ محمد اقبال بہت بڑی شخصیت ہیں جنہوں نے مسلمانو ں میں قرآنی روح پھونکی-ان کو قدرت نے مرشد بھی رومی جیسا عطا فرمایا - غزل میں رومی کے 40000 ہزار اشعارجس میں 36000 غزل کے اور 4000 رباعیات کے اشعار ہیں- اس بات کو علامہ اقبال نےبھی دہرایا-’’اسرار خودی‘‘علامہ کی ایک انقلابی مثنوی ہے-
رومی کی وسعتِ علم، قوتِ تخیل اور قدرتِ بیان نے ہر دور میں اہل دانش کو متا ثر کیا - فارسی ادب کی تا ریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی- رومی کا زمانہ دنیائے اسلام کے انتہائی زوال و انحطاط کا زمانہ تھا -ساتویں صدی جس میں چنگیزی تاتاری حملہ ہوا اور مسلمانوں کا سب کچھ ختم ہو گیا-اقبال کا زمانہ بھی اتفاق سے ایسا ہی تھا - انگریزوں نےہندوستان پر قبضہ کر کے مسلمانوں سے حکومت چھین لی اور ان کو جبر و استبداد کا نشانہ بنایا- رومی اور اقبال دونوں نے دل شکستہ ملت کو اپنے روح پرور کلام سے زندگی کا نیا حوصلہ دیا اور افسردہ دلوں میں امید کے چراغ روشن کیے-
آپ اگر دنیا کی باقی قوموں کو دیکھیں تو وہ اپنے سافٹ امیج پر کام کرتی ہیں -جیسے ترکی رومی کو ، چائنا کنفیوشس کو، ہندوستان اپنی فلم انڈسٹری اور یوگا پریکٹس کو اور ایران اپنے ایرانی میوزک اور کیلیگرافی کو اپنے سافٹ امیج کے طور پر استعمال کرتاہے -پاکستان کاسافٹ امیج کیا ہے؟ آج تک کونسی ایسی چیز ہے جس کو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہو-اس میں سب سے پہلے ہمارے حوصلہ مند نوجوان شامل ہیں-دوسرا سیاحت ہےاور یورپ میں ہمارے شمالی علاقہ جات کا تعارف ہے- اسی طرح نصرت فتح علی خان کوپاکستان کا سافٹ امیج سمجھا جاتا ہے-اس کے بعد اقبال اور صوفی قوالی پاکستان کا سافٹ امیج ہیں-اس لیےہمیں اپنے سافٹ امیج کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے- خاص طور پر ہماری یونیورسٹیز میں جو سرگرمیاں ہوتیں ہیں ان لوگوں کو اس پر کام کرنے کے لیے اکسایا جائے -ہماری یونیورسٹیز میں جدید مضامین کے ساتھ ساتھ ہمارے اجداد،جیسا کہ رومی اور اقبال، کی تھیوریز کی دورِ حاضر میں مطابقت پر کام ہونا چاہیے-
وقفہ سوال و جواب:
وقفہ سوال و جواب میں مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیالات کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے:
اگر کوئی شخص اپنے باطن کو تسخیر کرنا چاہتا ہے تو اخلاص اس کے لیے پہلی شرط ہے- اس مقصد کے لیے دل میں طلب کا ہونا بہت ضروری ہے- طلب کے بغیر گمراہی ممکن ہے- اس سلسلے میں کچھ بنیادی پریکٹسز ہیں جیسا کہ مراقبہ، اس بنیادی طریقہ کار کو اختیار کر کے تلاشِ حق کے ساتھ دنیاوی ذمہ داریوں کو بھی نبھایا جا سکتا ہے-توازن اس طریقہ کی خوبصورتی ہے جس کے ذریعے انسان اپنے قریبی رشتہ داروں جیسا کہ ماں باپ، بہن بھائی ، بیوی اور خاوند کے حقوق بھی ادا کرے اور اپنا روحانی سفر بھی جاری رکھے- رومی کے فلسفہ میں یہ شگفتگی ہے کہ وہ انسان کے مادی تقاضوں کو چھیڑے بغیر راہنمائی فراہم کرتا ہے اور ایک شخص اپنی روزمرہ زندگی کو ڈسٹرب کیے بغیر روحانی راستے پر گامزن ہو سکتا ہے- اس کے لیے اسے ایک کامل رہنما چاہیےجو اس کی تربیت کرے- رومی ایک ایسے روحانی پیشوا کی بات کرتے ہیں جو اس راہ طریقت کی تمام مشکلات سے واقف ہو-
حضرت علامہ محمد اقبال نے اس توازن کو کیسے برقرار رکھا؟ آپ ایک ماہرِ قانون اور شاعر ہونے کے ساتھ ایک ماہر سیاسی تجزیہ کار بھی تھے- آپ وسیع حلقہ احباب کے علاوہ مختلف لوگوں سے رابطہ رکھتے تھے؛ آپ اہل خانہ کے ساتھ بھی وقت گزارتے تھے - علامہ اقبال سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو مفکرِ امت کا رتبہ کیوں دیا گیا ہے- آپ نے جواب دیا کہ اللہ عزوجل نے ان کو امت کے راز عطاء کیے ہیں- اس نے دوبارہ استفسار کیا کہ آپ کو ہی کیوں اس کام کے لیے چنا گیا- اقبال کا جواب تھا کہ آپ نے بارگاہِ رسول (ﷺ) میں ایک کروڑ مرتبہ درودِ پاک کا نذرانہ پیش کیا ہے- یہ حضرتِ اقبال کی اس عبادت گزاری کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ پر سربستہ رازوں کا انکشاف کیا گیا - ایک فرد اپنی روحانی اور ظاہری زندگی میں توازن پیدا کر سکتا ہے اگر وہ اپنے وقت کا تعین دانشمندی سے کرے-
٭٭٭
مسلم انسٹیٹیوٹ اور یونیورسٹی آف لاہور نے 27 نومبر 2018ء’’مولانا رومی اور علامہ اقبال‘‘ کے موضوع پر یونیورسٹی آف لاہور میں کانفرنس کا انعقاد کیا- اس موقع پر صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)، پروفیسر ڈاکٹر سید محمد اکرم (پروفیسر ایمریٹس اقبال سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی لاہور)، پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر(ڈین، فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ، پنجاب یونیورسٹی لاہور) اور ڈاکٹر غلام شمس الرحمٰن (چیئرمین، ڈیپارٹمنٹ آف عریبک اینڈ اسلامک سٹڈیز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد) مہمان مقرر تھے- مس ماریہ رفیع (پیٹرن پیام سوسائٹی اور لیکچرار یونیورسٹی آف لاہور) نے افتتاحی کلمات ادا کیے جبکہ عدنان ایچ ستی (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیے- کانفرنس کے اختتام پر یونیورسٹی کے طلباء نے مترنم کلام پیش کیا-محققین، سکالرز، طلباء، پروفیسرز، وکلاء، صحافیوں، سماجی کارکنان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کانفرنس میں شرکت کی-
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:
آج کی اس کانفرنس کا مقصد اپنی نوجوان نسل کو علامہ اقبال اور مولانا رومی ()کے افکار سے آگاہ کرنا ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل کو علامہ اقبال اور رومی کی شخصیت اور کردار کے بارے میں پتا چل سکے جو پوری دنیا اور عالمِ اسلام کے لیے رول ماڈل ہیں- پاکستان کے لوگوں کی یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ اللہ پاک نے اس خطہ سر زمین کو اقبال جیسی شخصیت سے نوازا ہے- علامہ اقبال فرماتےہیں میں اقبال نہ ہوتا اگر مولانا رومیؒ میرے استاد نہ ہوتے -رومی دنیا کی تاریخ کے واحد فلسفی ہیں جو بظاہراً بات چھوٹی سی کرتے ہیں لیکن اس چھوٹی سی بات کی وضاحت کی جائے تو وہ ایک سمندر کی طرح ہے-
اس وقت کرۂ ارض پر اربوں انسان موجودہیں- پوری دنیا میں اگر آپ دیکھیں تو روزانہ لوگ ہزار برس کی تہذیب میں مرتے رہے اور پیدا ہوتے رہے اور انسانیت کا سفر چلتا رہا اور ایک آدمی جب دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے گھر والے جن سے اس کا خونی رشتہ ہوتا ہے وہ اس کو تھوڑی دیر کے لئے یاد رکھتے ہیں یا اگر کسی نے کوئی ایسا کام کیا ہےتو تھوڑے عرصے تک اسے یاد رکھا جاتا ہے اور اگر کسی نے بہت بڑا کام بھی کیا ہے تو ایک دو صدی تک اس کا کام مؤثر رہتا ہے -اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کی ضرورت ختم ہوتی جاتی ہے اور وہ غیر مؤثر ہو تا جاتا ہے - اکنامکس کے طلباء اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہر بیس (20)پچیس (25)برس بعد ایک نئی تھیُوری آجاتی ہے اور گزشتہ ساری چیزیں محض ایک تدریسی حوالہ کے طور پر رہ جاتی ہیں -دنیا ایک نئی ڈگر پہ چل پڑتی ہے - لیکن اگر 850سال گزرنے کے باوجود آج بھی جرمنی، برطانیہ، امریکہ اور ترکی میں رومی کی کتب سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں شامل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت عظیم شخصیت تھے کہ 850سال کے بعد بھی ان کا کلام انسانی معاشرے میں اتنا ہی مؤثر ہے -
مشرق میں رومی کو ہم نے جامعات کے شعبہ فارسی تک محدود کر دیا ہے جبکہ مغرب کے ادبی حلقوں میں رومی کا وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا جاتا ہے-مغربی معاشرہ اس وقت مادیت پرست رجحانات کا شکار ہے -جو بھی چیز ان کی مادیت پرستی کو متاثر کرتی ہے، وہ اس کو قریب نہیں آنے دیتے اور باوجود اس کے کہ رومی ایک عظیم صوفی ہیں،روحانیت کی دنیا کی بات کرتے ہیں ،مادے سے بڑھ کے کسی اور جہاں کی بات کرتے ہیں، مغرب کا رومی پہ یہ اتفاقِ رائےہے کہ رومی کی فکر ان کی مادی زندگی کو نقصان نہیں پہنچاتی اور رومی کے ذریعے وہ پرواز حاصل کرتے ہیں- رومی کے ذریعے وہ ایک اور دنیا کی طرف سفر کرتے ہیں- مولانا رومی کی یہ عظمت ہے کہ چاہے مسلمان ہے یا غیر مسلم، روحانیت پہ یقین رکھنے والے لوگ ہیں یامادیت پرست رجحان کے مالک لوگ ہیں،رومی سب کے ہاں ایک جیسے مقبول ہیں -
علامہ اقبال اور مولانا رومی کا پیغام انسانوں اور نوجوانوں کی تربیت سے ایک اعلیٰ معاشرے کا قیام ہے - قرآن میں بھی سب سے زیادہ انسان کو ہی مخاطب کیا گیا ہے اور اس کو درد دل کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے -اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہےاور انسانوں کی فلاح کے لئے اللہ تعالی نے جو نظام تخلیق کیا وہ بھی انسانوں کے ذریعہ ہے یعنی پیغمبر بھی انسان بھیجے -مرشد و مرید کا تصور بھی انسانوں کے حوالے سے ہے -
اپنی ایک مثنوی میں مولانا جلال الدین رومی ()نے بتایا ہے کہ ایک شیخ چراغ ہتھیلی پر لیے کوچہ و بازار میں پھر رہا تھا اورکَہ رہا تھا کہ مجھے کسی انسان کی تلاش ہے کیونکہ میں شیطان و حیوان سے بیزار ہوں-لوگوں نے کہا کہ ایسا نہیں ملتا تو اس نے پھر تاکید کی مجھے ایسے ہی انسان کی تلاش ہے جو نہیں ملتا یعنی مجھے ایک کامل انسان کی تلاش ہے -
مولانا کے شاندار کلام کو ان کے شارحین نے حیاتِ جادوانی بخشی- ان کے سب سے بڑے شارح مولانا جامی تھے - بیسویں صدی میں مولانا کا ایک شارح ہندوستان سے ظاہر ہواجن کا نام محمد اقبال تھا- علامہ محمد اقبال نے کبھی ان کا نام پیر یا مرشد کے سوا نہیں لیا - مولانا رومی اپنےکلام میں فرماتے ہیں کہ بانسری کو سنیے جب وہ اپنی حکایت بیان کرتی ہے،بانسری ہے کیا ؟ جنگل سے بانس سے جدا کی ہوئی ایک لکڑی - بانسری کو سنو وہ کیسے اپنے فراق کی گفتگو کر رہی ہے-جب وہ جنگل سے جدا ہوئی اور اب شہر کے اندر لوگ اس بانسری کو سنتے ہیں اور اس سے وہ لطف حاصل کرتے ہیں -لیکن بانسری کو تو سنیُے-بانسری تو چیخ رہی ہے کیونکہ وہ اپنے اصل سے جدا ہوگئی- بانسری کی بات آپ کو اس وقت تک سمجھ نہیں آتی جب تک کہ آپ کا اپنا دل پارہ پارہ نہ ہو،اس اصل کی طرف جانے کے لیے جس سے آپ جدا ہو گئے -مولانا جامی مثنوی کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک عام کتاب نہیں بلکہ فارسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا گیا ہے-اب بیسویں صدی میں جس شخص کا دل پارہ پارہ تھا اورجو بانسری کی بات سمجھ سکتا تھا اس کا نام علامہ اقبال ہے-لہذا رومی کی جتنی زیادہ شرح اقبال نے کی ہے شاید ہی موجودہ دور کے کسی اور شاعر نے کی ہو-
علامہ محمد اقبال بہت بڑی شخصیت ہیں جنہوں نے مسلمانو ں میں قرآنی روح پھونکی-ان کو قدرت نے مرشد بھی رومی جیسا عطا فرمایا - غزل میں رومی کے 40000 ہزار اشعارجس میں 36000 غزل کے اور 4000 رباعیات کے اشعار ہیں- اس بات کو علامہ اقبال نےبھی دہرایا-’’اسرار خودی‘‘علامہ کی ایک انقلابی مثنوی ہے-
رومی کی وسعتِ علم، قوتِ تخیل اور قدرتِ بیان نے ہر دور میں اہل دانش کو متا ثر کیا - فارسی ادب کی تا ریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی- رومی کا زمانہ دنیائے اسلام کے انتہائی زوال و انحطاط کا زمانہ تھا -ساتویں صدی جس میں چنگیزی تاتاری حملہ ہوا اور مسلمانوں کا سب کچھ ختم ہو گیا-اقبال کا زمانہ بھی اتفاق سے ایسا ہی تھا - انگریزوں نےہندوستان پر قبضہ کر کے مسلمانوں سے حکومت چھین لی اور ان کو جبر و استبداد کا نشانہ بنایا- رومی اور اقبال دونوں نے دل شکستہ ملت کو اپنے روح پرور کلام سے زندگی کا نیا حوصلہ دیا اور افسردہ دلوں میں امید کے چراغ روشن کیے-
آپ اگر دنیا کی باقی قوموں کو دیکھیں تو وہ اپنے سافٹ امیج پر کام کرتی ہیں -جیسے ترکی رومی کو ، چائنا کنفیوشس کو، ہندوستان اپنی فلم انڈسٹری اور یوگا پریکٹس کو اور ایران اپنے ایرانی میوزک اور کیلیگرافی کو اپنے سافٹ امیج کے طور پر استعمال کرتاہے -پاکستان کاسافٹ امیج کیا ہے؟ آج تک کونسی ایسی چیز ہے جس کو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہو-اس میں سب سے پہلے ہمارے حوصلہ مند نوجوان شامل ہیں-دوسرا سیاحت ہےاور یورپ میں ہمارے شمالی علاقہ جات کا تعارف ہے- اسی طرح نصرت فتح علی خان کوپاکستان کا سافٹ امیج سمجھا جاتا ہے-اس کے بعد اقبال اور صوفی قوالی پاکستان کا سافٹ امیج ہیں-اس لیےہمیں اپنے سافٹ امیج کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے- خاص طور پر ہماری یونیورسٹیز میں جو سرگرمیاں ہوتیں ہیں ان لوگوں کو اس پر کام کرنے کے لیے اکسایا جائے -ہماری یونیورسٹیز میں جدید مضامین کے ساتھ ساتھ ہمارے اجداد،جیسا کہ رومی اور اقبال، کی تھیوریز کی دورِ حاضر میں مطابقت پر کام ہونا چاہیے-
وقفہ سوال و جواب:
وقفہ سوال و جواب میں مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیالات کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے:
اگر کوئی شخص اپنے باطن کو تسخیر کرنا چاہتا ہے تو اخلاص اس کے لیے پہلی شرط ہے- اس مقصد کے لیے دل میں طلب کا ہونا بہت ضروری ہے- طلب کے بغیر گمراہی ممکن ہے- اس سلسلے میں کچھ بنیادی پریکٹسز ہیں جیسا کہ مراقبہ، اس بنیادی طریقہ کار کو اختیار کر کے تلاشِ حق کے ساتھ دنیاوی ذمہ داریوں کو بھی نبھایا جا سکتا ہے-توازن اس طریقہ کی خوبصورتی ہے جس کے ذریعے انسان اپنے قریبی رشتہ داروں جیسا کہ ماں باپ، بہن بھائی ، بیوی اور خاوند کے حقوق بھی ادا کرے اور اپنا روحانی سفر بھی جاری رکھے- رومی کے فلسفہ میں یہ شگفتگی ہے کہ وہ انسان کے مادی تقاضوں کو چھیڑے بغیر راہنمائی فراہم کرتا ہے اور ایک شخص اپنی روزمرہ زندگی کو ڈسٹرب کیے بغیر روحانی راستے پر گامزن ہو سکتا ہے- اس کے لیے اسے ایک کامل رہنما چاہیےجو اس کی تربیت کرے- رومی ایک ایسے روحانی پیشوا کی بات کرتے ہیں جو اس راہ طریقت کی تمام مشکلات سے واقف ہو-
حضرت علامہ محمد اقبال نے اس توازن کو کیسے برقرار رکھا؟ آپ ایک ماہرِ قانون اور شاعر ہونے کے ساتھ ایک ماہر سیاسی تجزیہ کار بھی تھے- آپ وسیع حلقہ احباب کے علاوہ مختلف لوگوں سے رابطہ رکھتے تھے؛ آپ اہل خانہ کے ساتھ بھی وقت گزارتے تھے - علامہ اقبال سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو مفکرِ امت کا رتبہ کیوں دیا گیا ہے- آپ نے جواب دیا کہ اللہ عزوجل نے ان کو امت کے راز عطاء کیے ہیں- اس نے دوبارہ استفسار کیا کہ آپ کو ہی کیوں اس کام کے لیے چنا گیا- اقبال کا جواب تھا کہ آپ نے بارگاہِ رسول (ﷺ) میں ایک کروڑ مرتبہ درودِ پاک کا نذرانہ پیش کیا ہے- یہ حضرتِ اقبال کی اس عبادت گزاری کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ پر سربستہ رازوں کا انکشاف کیا گیا - ایک فرد اپنی روحانی اور ظاہری زندگی میں توازن پیدا کر سکتا ہے اگر وہ اپنے وقت کا تعین دانشمندی سے کرے-
٭٭٭