تحقیقی ادارہ مُسلم انسٹی ٹیوٹ نے نیشنل لائبریری،ا سلام آباد میں ’’بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں پاک تُرک دفاعی تعاون‘‘کے موضوع پرایک سیمینار منعقد کیا جس میں پاکستان اور ترکی کے مایہ ناز دانشوروں نے شرکت کی - سابق چیف آف ائیر سٹاف ائیر مارشل (ر ) کلیم سعادت نے سیمینارکی صدار ت کی جبکہ ریئر ایڈمرل مختار خان جدون، سابق ایڈیشنل سیکرٹری وزارتِ خارجہ و سابقہ سفیر جناب اشتیاق حسین اندرابی،سابق سیکریٹری دفاع جنرل آصف یاسین ملک،ایسوی ایٹ ڈین NUSTیونیورسٹی ڈاکٹر تغرل یامین ، چیئرمین مُسلم انسٹی ٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ جناب طاہر محمود، سینئر ریسرچ فیلو یو ایس اے کے ) USAK) ترکی ڈاکٹر اتلے اَتلی (بذریعہ ویڈیولنک) اور سابق رکن ترکی اسمبلی جناب علی شاہین (بذریعہ ویڈیو لنک) نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا - سیمینار میں غیر ملکی وفود ، یونیورسٹیز کے پروفیسر و طلبا، مختلف اداروں کے محققین ،دانشوروں ،تجزیہ نگاروں اور صحافیوںنے حصہ لیا-
مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
مشترکہ عقائد ، تاریخ اور ثقافت پر مبنی مضبوط اور گہرے تعلقات پاکستان اور ترکی کے مابین عرصہ دراز سے قائم ہیں- پاک ترک دوستی کے نقوش صدیوں پر محیط برصغیر کے مسلمانوں اور خلافت ِ عثمانیہ کے درمیان روابط سے تشکیل پائے ہیں-قیامِ پاکستان کے بعد ترکی نے پاکستان کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات قائم کیے- ترک آج بھی پاکستانی عوام کے خلافتِ عثمانیہ کیلئے پُرخلوص اور پرُجوش حمایت کو تسلیم کرتے ہیں- دونوں ممالک کے ریاستی بندھن طویل تر روابط مختلف شعبہ جات مثلاً سیاسی، معاشرتی ،معاشی ،دفاعی ،تعلیمی، ثقافتی اور سیکورٹی میںنمایاں نظر آتے ہیں-
اپنے حالیہ دو رئہ پاکستان میں ترک وزیراعظم نے برملا اس امر کا اظہار کیا کہ ’’ ہم پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،پاکستان کی سکیورٹی ، ترکی کی سیکیورٹی ہے اورپاکستان کا جھنڈا ہمارا جھنڈا ہے- ‘‘ دونوں ممالک مختلف بین الاقوامی اور علاقائی اداروںمثلاً اقوامِ متحدہ، او آئی سی، ای سی او اوردیگر میں مل کر کام کررہے ہیں- دونوں ممالک متعدد مسائل جیسے مسئلہ کشمیر و سائپرس پر ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے درمیان علاقائی اور عالمی معاملات پر موقف میں بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے- دونوں ممالک اپنے خطے میں خاص جغرافیائی اہمیت کے حامل ہیں اور اُن میں بڑی حد تک مماثلت بھی ہے- دونوں کو کم وبیش ایک جیسے سیکورٹی کے خدشات کا بھی سامنا ہے -
دُنیا میں بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں نئے سیکیورٹی خطرات سامنے آئے ہیں-سرد جنگ کے خاتمہ اور اکیسویں صدی کے آغاز نے دُنیا میںامن وامان کی صورت حال کو بہتر نہیں بنایا جیسا کہ ہم توقع کررہے تھے بلکہ اس کے برعکس دُنیا میں سیکیورٹی کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں- اب بھی ہم اُفقی اور عمودی دونوں سمتوں میںسیکورٹی کے خطرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں ؛افقی وسعت میں عسکری خطرات کے علاوہ ماحولیاتی، معاشی، جغرافیائی ، دہشت گردی ، جرائم ،صحت ، معلومات ، نقل مکانی اور دیگر مسائل شامل ہیں- عمودی وسعت میں دیگر غیر ریاستی عوامل مثلاً نسلی گروہ بندی، مسلک کی بنیاد پر مبنی گروہ اورعالمی برادری وغیرہ شامل ہیں-سرد جنگ کے دوران ہم روایتی جنگ اور ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے پریشان تھے لیکن اب سیکورٹی کے مسائل کا دائرہ کارپہلے سے انتہائی وسیع تر ہے- اب ہمیں نہ صرف نئے خطرات بلکہ نئی قسم کے سازشی عناصر سے بھی نبردآزما ہونا ہے جسکی ایک شکل دہشت گردی ہے اور اکیسویں صد ی اس کے حالات اس کا واضح ثبوت ہے- عالمی طاقتوں نے دوسری ریاستوں کو اپنے تسلط میں لانے کیلئے روایتی جنگ کو جدید شکل دے دی ہے اور اب نت نئے غیر روایتی طریقے اور نظریاتی ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنے حریف ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کر رہی ہیں- مختلف ممالک اپنے مقاصد کیلئے نہ صرف مختلف گروہوں کی حمایت کرتے ہیں بلکہ ان کو مالی معاونت بھی فراہم کرتے ہیں- پاکستان اور ترکی دونوں ممالک غیر روایتی جنگ اور نظریاتی جارحیت کا شکار ہیںاورسیکیورٹی کے مسائل دونوں ممالک کیلئے انتہائی تشویشناک ہیں-پاکستان کے حوالے سے جنوبی ایشیاء میں سیکیورٹی کے مختلف مسائل در پیش ہیں مثلاً کشمیر لائن آف کنٹرول پہ بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ،فاٹا اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت، بھارت کی دُور مار بیلسٹک میزائل کی تیاری اور اسلحہ کی دوڑ اور افغانستان کی سیکیورٹی کی صورتحال جیسے مسائل شامل ہیں- جبکہ ترکی کے حوالے سے مشرق وسطیٰ بحیثیت مجموعی بحران کا شکار ہے جہاں مختلف ممالک میں پیدا ہونے والے بحران اور عرصہ دراز سے جاری اسرائیلی جارحیت علاقہ کے امن کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں-
پاکستان اور ترکی اپنے جغرافیائی سیاسی ماحول میں گھمبیر مسائل کاسامنا کر رہے ہیںجبکہ پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے انتہائی فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے- بدلتے ہوئے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے علاقے میں سیکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات اور مشترکہ حکمت عملی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں- عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے رجحانات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دونوں ممالک دیرینہ دفاعی تعاون کو پروان چڑھائیں-عالمی افق میں چین کا ایک طاقت کے طور پر ابھرنااور خطے میں اس کے مختلف منصوبہ جات مثلاً ایک خطہ ایک شاہراہ(One Belt One Road Project) جیسے منصوبے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کیلئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں- پاکستان کے چین کے ساتھ انتہائی گہرے مراسم ہیںاور ترکی کے بھی چین کے ساتھ تعلقات بہت تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں- پاکستان اور ترکی دونوں ممالک ون بیلٹ پراجیکٹ (چین سے پاکستان، مشرق وسطیٰ، ترکی اور یورپ) کے راستے پر واقع ہیں-گو یا ایک معاشی منصوبہ ہے مگرہر معاشی منصوبہ کے سیاسی اثرات بھی ہوتے ہیں- اس منصوبہ میں شریک تمام فریق ایک محفوظ اور مستحکم فضاء سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں-
پاکستان اور ترکی دونوں اطراف سے اس بات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ تاریخی اور دوستانہ تعلقات کو ایک موثر اور مضبوط شراکت داری میں تبدیل کرنا چاہئے-دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دفاع سے منسلک صنعتوں کو فروغ دینا چاہئے اور اس حوالے سے گزشتہ ایک دہائی میں کافی پیش رفت بھی ہوئی ہے- ترکی پاکستان کے ساتھ بکتر بند گاڑیوں ، ٹینک، عسکری مواصلاتی نظام اور بری نگرانی کی کشتیوںکی تجارت کرتا رہا ہے- دونوں ممالک میںاس حوالے سے مزید اتفاق پایا جاتا ہے کہ دوسرے دفاعی شعبہ جات مثلاً طیاروں کی پیداوار میں بھی باہمی تعلقات کو ایک عملی شکل دی جائے- ترکی ایک ابھر تی ہوی مع