تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام "شام کے بے یار و مدد گار پناہ گزین اور عالمی برادری کی ذِمّہ داریاں " کے موضوع پر نیشنل لائبریری اسلام آباد میں رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا- نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے سابقہ صدر لیفٹینینٹ جنرل (ر) رضا محمد خان نے پروگرام کی صدارت کی - ڈسکشن میں مختلف ممالک کے سفارت کاروں، یونیورسٹیز کے پروفیسرز ، مختلف تحقیقی اداروں کے اسکالرز ، تجزیہ نگاروں ، ٹی وی اینکرز اور صحافیوں نے حصہ لیا- مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد وقفہ سوال وجواب کا بھی انعقاد ہوا جس میں مقررین نے حاضرین کے مختلف سوالات کے جوابات دیے- معروف ٹی وی اینکر جناب فیصل رحمان نے اس موقع پر ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے- پروگرام کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے-
ابتدائی کلمات:
صاحبزادہ سلطان احمد علی چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ
مَیں تمام احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں جو مسلم انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر آج کے پروگرام میں تشریف لائے - شام میں جاری تنازعات کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں جس کے باعث ایک سنگین انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے- اگرچہ شام کے ہمسایہ ممالک اور یورپی یونین کے ممبر ممالک شامی مہاجرین کی خاطرداری کر رہے ہیں لیکن اس ضمن میں عالمی برادری کو ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے- ہم نے افغانستان کے مہاجرین کے مسائل کا مشاہدہ کیا ہے اور ہمیں اس امر کا اندازہ ہے کہ مہاجرین کو زندگی کے مختلف شعبہ جات میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اپنے آبائی وطن کو چھوڑنا ، زندگی کی آسائشوں سے محرومی اختیار کرنا، کیمپوں میں زندگی گزارنااور غیر یقینی مستقبل کا سامنا کرنا وغیرہ تمام مہاجرین کے مشترکہ مصائب ہیں - شام کے تنازعہ کے حل کے لئے عالمی برادری کی کوششوں کے ساتھ ساتھ مہاجرین کی رہائش کے بہتر انتظامات کی خاطر عالمی امداد کو یقینی بنانے کیلئے زیادہ سے زیادہ کاوشوں کی ضرورت ہے-
ڈاکٹر تغرل یامین
ڈین، ڈپارٹمنٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ اسٹڈیز، نَسٹ اسلام آباد
یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے جو دراصل انسانیت کو متاثر کر رہا ہے- اس وقت ترکی میں بیس لاکھ سے زائد ، لبنان میں سترہ لاکھ، اردن میں چھ لاکھ پچیس ہزار اور مصر میں ایک لاکھ بتیس ہزار سے زائد مہاجرین موجود ہیں- یورپ میں اب تک 67,500مہاجرین اٹلی اور 68,000یونان پہنچ چکے ہیں جو آگے جرمنی کی جانب بڑھ رہے ہیں جس نے مہاجرین کو خوش آمدید کہا ہے- یورپی یونین نے مہاجرین کے ضمن میںایک اچھے سلسلے کا آغاز کیا ہے اور اسے مہاجرین کے ساتھ انسانی بنیادوں پر سلوک کرنا چاہئے- عالمی برادری بالخصوص اقوامِ متحدہ کو شام میں لازمی طور پر امن قائم کرنا چاہئے- ایسے ممالک جو مزید مہاجرین کو پناہ دے سکتے ہیں مثلاً امریکہ ، آسٹریلیا ،امیر مسلم ممالک اور دیگر کو زیادہ سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے -
جناب احمد قریشی
معروف ٹی وی اینکر ، ایکسپریس نیوز
میں نے پاکستان میں افغانستان اور کشمیر کے مہاجرین کی مد د کیلئے بہت سی این جی اوز کے ساتھ کام کیا ہے- شامی مہاجرین کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے عالمی برادی کو شام کا تنازعہ حل کرنا ہوگا- ہر کوئی اسے اپنا قانونی حق سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے اور اسی لئے اس کے پاس ’’پراکسی وار‘‘ کی کوئی نہ کوئی وجہ موجود ہے ، لیکن کیاشام کی عوام کا کوئی قانونی حق نہیں ہے ؟ شامی مہاجرین کے مسئلہ کی سب سے بڑی بدقسمتی معاملے کا سیاست کی نظر ہونا ہے- اس مسئلہ کے حل پر بحث کی بجائے ، اس بات پر بحث کی جارہی ہے کہ کس نے کیا کیا اور کتنا کیا؟ سیاست میں دوہرے معیارات ہیں مگر شام کے مسئلے پہ تو کوئی معیار قائم ہی نہیں کیا گیا کہ دوہرا معیار کہا جائے-
جناب کائی ملر برنر
فرسٹ سیکرٹری : سفارتخانہ وفاقی جمہوریہ جرمنی، اسلام آباد
ہمیں لوگوں کے ساتھ انسانیت کے ناطے سے سلوک روا رکھنا چاہئے چنانچہ لوگوں کی جانب سے حفاظت کی غرض سے کی گئی درخواست رد نہیں کی جا سکتی اور جرمنی اس اصول پر کاربند رہے گا- جرمنی میں بہت سے لوگ رضاکارانہ طور پر مہاجرین کی مدد کررہے ہیں - یورپ کا کوئی بھی اکیلا ملک ان تمام مہاجرین، یا زیادہ تر کو ، پناہ نہیں دے سکتا- یورپ میں اس وقت بہت گھمبیر بحث جاری ہے کہ مہاجرین کے مسئلہ پر آگے کیسے بڑھا جائے اور جرمنی نے اس بحث میں دس نکاتی پلان کے ساتھ حصہ لیا ہے جس میں مشترکہ رجسٹریشن سنٹرز ، مہاجرین کی منصفانہ تقسیم اور مہاجرین کے آبائی وطن اور جن ممالک کو وہ چھوڑ کر آ رہے ہیں ان کی صورتحال کا مقابلہ کرنا شامل ہیں- خانہ جنگی کی روک تھام اور تشدد کے خاتمہ کیلئے بھر پور توجہ کے ساتھ کوششیں جاری رہنی چاہئیں تا کہ اقتصادی ترقی کا حصول ہو سکے اور بالخصوص نوجوانوں کیلئے معاشی و معاشرتی مواقع پیدا کئے جا سکیں-
محترمہ آ ر دیمت سیکرسی اوگلو
ڈپٹی ہیڈ آف مشن : سفارتخانۂ ترکی، اسلام آباد
شام کا مسئلہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ بن چکا ہے - بیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے ساتھ ترکی سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک بن گیاہے - ترکی میں مہاجرین کو پچیس سے زائد عارضی پناہ گزین کیمپوںمیں پناہ دی گئی ہے جہاں انہیں کھانے پینے کی اشیاء، صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں- ترکی اب تک ان تمام کاوشوں کیلئے آٹھ بلین ڈالرز سے زائد کی رقم خرچ کر چکا ہے جبکہ عالمی برادری کی جانب سے صرف 471 ملین ڈالرز کی رقم فراہم کی گئی ہے چنانچہ یہ سب جاری رکھنا بہت مشکل ہے - ترکی نے بحیرہ روم میں مہاجرین کی حفاظت اور سیکیورٹی کیلئے آپریشن کا آغاز کیا ہے - انسانی اسمگلرز کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی ضرورت ہے - شام کے شمال میں مہاجرین کے لئے حفاظتی زون کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے وگرنہ مزید مہاجرین یورپ کا رخ کر سکتے ہیں-
جناب اینٹن چرنوف
فرسٹ سیکرٹری: سفارتخانۂ روس ، اسلام آباد
Geneva Communiqué میں واضح طور پر تحریر ہے کہ شام میں تبدیلی آنی چاہئے اور اس معاہدہ پر شام نے بھی دستخط کئے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عالمی قوانین کے مطابق جب ہم کسی تیسرے ملک میں طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو یا ہم اسے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں یا پھر اُس ملک کی درخواست پر جو ایسی مدد چاہتا ہو اور ایک ہفتہ قبل شامی<