معروف تھنک ٹینک مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ’’پاک بھارت مذاکرات میں ڈیڈلاک اور خطے پر اس کے ممکنہ اثرات‘‘کے موضوع پر 2 ستمبر 2015 کو نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد میں سیمینار کا انعقا د کیاگیا جس کی صدارت چئیر مین سینیٹ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کی جبکہ سابق وفاقی وزیر اور چئیرمین نیشنل اسمبلی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امورِخارجہ سردار اویس احمد خان لغاری نے بطور مہمان ِ خصوصی شرکت کی- چئیر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی ، نئی دہلی میں پاکستان کے سابق سفیر جناب اشرف جہانگیر قاضی ، سابق سیکرٹری برائے دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک، ایمبیسیڈر آصف ایزدی، ایمبیسیڈر خالد خٹک اور تحریکِ حریت جموں کشمیر کے کنوینئر جناب غلام محمد صفی نے بھی سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کیا- اسلام آباد کے مختلف تھنک ٹینکس کے سربراہان، دوست ممالک کے سفارت کاروں، یونیورسٹیز کے پروفیسرز، دفاعی اور خارجہ پالیسی کے تجزیہ کاروں، سابق اعلیٰ فوجی افسران ، سول سوسائٹی کے نمائندگان اور صحافی بھی اس موقع پر موجود تھے-
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا:
پاک بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین ہونے والی ملاقات بھارت کی جانب سے پیشگی شرائط اور پاکستانی حکام کی کشمیری رہنمائوں سے طے شدہ ملاقات پر اعتراضات کے سبب منسوخ ہوئی ہے- بھارت کے ساتھ جامع مذکرات کی بحالی کے لئے پاکستان ایک واضح اور جاندار موقف رکھتا ہے- در حقیقت بھارت تب تک مذاکرت کی میز پر آنا ہی نہیں چاہتا جب تک کہ پاکستان اس کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دے اور خطے میں بھارت کی اجارہ داری قبول کرتے ہوئے مذاکرات کے لئے بھارتی شرائط و ضوابط کو قبول کرلے - بھارت کی جانب سے پاکستانی حکام کی کشمیری حریت رہنمائوں سے ملاقات کو صرف ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا کیونکہ اس قبل یہ روایت رہی ہے کہ بھارت میں ہونے والے ہر مذاکرات سے قبل پاکستان ، کشمیری رہنمائوں کو مسئلہ کا بنیادی فریق سمجھتے ہوئے اعتماد میں لیتا ہے- کشمیریوں کو حق خوداردیت دینے والی اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اہلِ کشمیر کو اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے چنانچہ پاک بھارت مذاکرات کو کامیاب اور مؤثر بنانے کیلئے اس میں کشمیریوں کی شمولیت لازمی ہے- بھارت اپنے بڑے سائز اور عالمی طاقتوں کے اس سے وابستہ معاشی فوائد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے حق میں کرنے اور اور پاکستانی موقف کو پسِ پشت ڈالنے کی کوشش کرتا ہے- کشمیر پر پاکستانی موقف اصولی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے عالمی برادری نے پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کی ہے اور جرمن وزیر خارجہ کا حالیہ بیان اسی امر کی عکاسی کرتا ہے- کشمیر دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے- مذاکرات میںڈیڈلاک سے مذاکراتی عمل میں کشمیری رہنمائوں کی شمولیت اور ان کے حق خود ارادیت کی اہمیت اُجاگر ہوئی ہے-
پاک چین اقتصادی راہداری، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب حکمت علی، افغان حکام اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کا کردار اور بلو چستان اور کراچی میں حالات کی بہتری اس وقت کی اہم ترین پیش رفت ہے جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ پاکستان تیزی سے معاشی ترقی اور استحکام و سلامتی کی جانب بڑھ رہا ہے- لوگ اب پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پُر اُمید ہیں- اس تمام پیش رفت سے نہ صرف خطے بھر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا قد بڑھا ہے جس کے سبب بھارت کی جانب سے منفی ردِ عمل سامنے آرہا ہے- بھارت پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتااور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے اس امر کا برملا اظہار کیا جاچکا ہے-
ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ بی جے پی سرکار نے اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد بھارتی آئین میں موجود کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دیں گے لیکن ان کا یہ منشور کشمیری عوام کو انتخابات میں اپنے حق میں قائل کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور اوروہ وہاں اپنی حکومت نہ قائم کرسکی- ایسی ذلت کے بعد انہوں نے کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال شروع کردیا ہے اسکے علاوہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو بڑھایا ہے تاکہ اپنی عوام کی جانب سے آنے والے ردعمل کو روکا جا سکے- اسی طرح بی جے پی کا معاشی ایجنڈا بھی کامیاب نہیں ہو سکا اور بھارت کی معاشی ترقی اس سطح پر نہیں ہوئی جسکے دعوے کیے جارہے تھے- اب بھارت ایک سیکولر ریاست نہیں رہا بلکہ ایک انتہا پسندہندو پارٹی کے ہاتھ میں آ گیا ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام اقلیتوں کے خلاف ہے - بھارتی وزیراعظم کے آبائی شہر گجرات سمیت کئی علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں، بھارت مخالف تحریکیں مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہیں- مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچموں کے تسلسل سے لہرائے جانے سے یہ بات واضح ہے کہ کشمیریوں نے بھارتی اجارہ داری کو یکسر مسترد کردیا ہے- ایسے حالات میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور مذاکرات میں ڈیڈلاک سے بھارت کی پاکستان مخالف منفی ذہنیت واضح ہوئی ہے -
یہ بات قابلِ غور ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت اور سرحدی خلاف ورزی ، عوامی توجہ ہٹانے کا پرانا ہتھکنڈہ ہے- جب بھی بھارت کو اندرونی سطح پر دبائو کا سامنا ہوتا ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کردیتا ہے ، خاص طور پر لائن آف کنٹرول اور کشمیر کے معاملے پر- سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچھلے دو ماہ میں بھارت نے ستر مرتبہ سیز فائر اور سرحدی خلاف ورزی کی ہے- پاکستان نے اقوام متحدہ کے نمائندگان کو سیز فائر کی خلاف ورزی میں بھارتی جارحیت سے متأثر ہونے والے علاقہ کا دورہ کروایا ہے اسکے علاوہ پاکستان نے اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت عالمی سطح پر اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے- ان حا لات میں اندرونی و بیرونی دبائو کا سامنا کرنے کیلئے مذاکرات سے بھاگنے کے علاوہ بھارت کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھااس لئے اس نے جامع مذاکرات کو مسترد کردیا-
رواں سال مئی میں بھارتی وزیر دفاع نے پراکسی وار کے استعمال کا تذکرہ کیا، لیکن پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں سے بھارت کی یہ چال ناکام ہو رہی ہے- پاکستان نے ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور دیگر مسلح کاروائیوںمیں بھارتی ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات میںیہ
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں