پاکستان ائرفورس کو اپنی استعداد اور جنگی صلاحیت آزمانے کا پہلا موقعہ ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں سامنے آیا جب سترہ اٹھارہ دنوں کی اس جنگ میں پاکستان ائر فورس نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے سازو سامان کی کمی کے باوجود اپنی طاقت کا لوہا منوایا- اس جنگ میں بھارت سو کے قریب اپنے قیمتی جنگی جہازوں سے محروم ہوگیا- اس جنگ کی کامیابی میں بلند فضائوں میں پرواز کرنے والی پاک فضائیہ کا عظیم کردار ہے- بھارت ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پاکستان پر قبضہ کر لے گا لیکن پاک فضائیہ کے مجاہدوں نے اس خیالِ باطل کو ان کے دماغوں سے اوپر اٹھنے ہی نہ دیا-
قبل ازیں امریکہ نے پاکستان سے جو سینٹو اور سیٹو معاہدات کئے تھے ان کے مطابق امریکہ کو ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران پاکستان کی مدد کرنی چاہیے تھی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ امریکہ نے حد درجے کی بے وفائی کرتے ہوئے اس جنگ کے دوران پاک افواج بشمول پاک فضائیہ کی ہمہ قسم کی امداد روک لی تھی لیکن پاک فضائیہ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس وقت کے عالمی پریس نے خراجِ تحسین پیش کیا کہ بھلے پاکستان کی فضائی طاقت بھارت سے کم تھی مگر پائلٹوں کی پیشہ وارانہ تربیت ، فنی مہارت اور لڑنے کے جذبے نے ہی پاک فضائیہ کو بھارتی فضائیہ پر فوقیت دی- پاک فضائیہ کی فنی مہارت کو کئی ممالک نے سرکاری سطح پر بھی تسلیم کیا کیونکہ سات ستمبر کے دن ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت میں بھارت نے پاکستان کے ہوائی اڈوں پر چھ چھ بار حملے کیے لیکن پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے کمال مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر بار انہیں مار بھگایا- پاک فضائیہ نے لاہور سیالکوٹ سرگودھا کے نہ صرف ہوائی اڈوں کو ان حملوں سے محفوظ کیا بلکہ ان شہروں کو بھی عظیم تباہی سے بچایا-
ان مجاہدین میں سے ایک نام جس کے بغیر پاک فضائیہ کی تاریخ نامکمل ہے اور جسے مورخین ہمیشہ سنہری حروف سے یاد کرتے رہیں گے، ستارۂ جرأت کے مالک ، ریٹائرڈ ائر کمانڈر ایم ایم عالم ہیں جنہیں ہم سے بچھڑے دو سال ہی ہوئے ہیں- ائر کمانڈر محمد محمود عالم کا شمار صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے عظیم پائلٹوں میں کیا جاتا ہے- انہوں نے ۱۹۵۲ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی، ۱۹۵۴ء میں بطور سکارڈن پائلٹ اپنے کیریئر کا آغاز کیا- مختلف کورسز میں کامیابیاں سمیٹنے کے بعد ۱۹۶۳ء میں انہیں فائٹر لیڈر سکول میں بطور ائر گنری اور ٹکٹیکل انسٹرکٹر تعینات کیا گیا جو کہ آپ کی فائرنگ میں مہارت کی عکاسی ہے- ان کا کمال یہ تھا کہ یہ ہمیشہ ہارمنائزیشن بٹ پر موجود رہتے تھے جسے ٹپر کے ساتھ منظم کیا جاتا تھا تاکہ تمام گنز کے نشانے ایک ہی جگہ پر لگیں اور آپ خود اپنے ہاتھ سے ان کو ایک تناسب میں درست کرتے تاکہ تمام گنز ایک ہی ٹارگٹ کو نشانہ کر سکیں-ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کو اپنے سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ طاقت رکھنے والے دشمن کا سامنا تھا اور ان کی ائرفورس بھی پاکستان کی ائر فورس سے تقریبا ساڑھے تین گناہ زیادہ مضبوط تھی- چھ ستمبر کو ایم ایم عالم اپنی سکوارڈن کے ساتھ بھارت کی فضائوں میں گرجے ، بھارتی ہوائی اڈہ آدم پور ان کا ٹارگٹ تھا- آدم پور سے کچھ پہلے بھارت کے جہازوں سے مد بھیڑ ہوئی جہاں انہوں نے دشمن کے دو جہازوں کو زمین بوس کیا اور تین کو نقصان پہنچا کر عیب زدہ کر دیا-
سات ستمبر کے دن جب ایم ایم عالم نے فضائی جنگ میں پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے ساٹھ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ ہاکر ہنٹر فائٹرزجہازوں کو نشانہ بنا کر گرا دیا جو دنیا میں فضائی جنگ کی تاریخ میں آج بھی عالمی ریکارڈ ہے جو گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج ہے- ان پانچ جہازوں میں سے پہلے چار کو تیس سیکنڈ میں ہی ڈھیر کر دیا گیاتھا جس سے دشمن کے دل پر پاکستانیوں کی قوتِ ایمانی کی دھاک بیٹھ گئی اور انہوں نے پسپائی اختیار کر لی- ایم ایم عالم پر نہ صرف ان کے سکارڈن کو ناز ہے کہ آپ اس کا حصہ رہے ہیں بلکہ پوری پاک فضائیہ کو سات ستمبر کے اس پورے دن پر فخر ہے اور پاکستان یومِ فضائیہ کو سرکاری دن کے طور پر مناتا ہے کیونکہ پاکستان کی پوری قوم پاک فضائیہ کو اپنا محسن قرار دیتی ہے-
پاکستان ائرفورس نہ صرف پاکستانی قوم کے لیے ایک فخر کی علامت ہے بلکہ عالَمِ اسلام کے لیے بھی اُمید کی ایک کرن ہے- شاعرِ مشرق کا ’’پیامِ مشرق‘‘ میں مسلمان قوم کو دیا ہوا یہ مُژدۂ جانفزا پاک فضائیہ کے عزم کی علامت بھی ہے اور طاقت کا ترجمان بھی کہ:-
’’صحراست کہ دریاست تہِ بال و پرِِ ماست‘‘
’’صحرا ہو کہ سمندر ، ہماری طاقتِ پرواز کے نیچے ہے-‘‘
پاکستان ائرفورس کو اپنی استعداد اور جنگی صلاحیت آزمانے کا پہلا موقعہ ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں سامنے آیا جب سترہ اٹھارہ دنوں کی اس جنگ میں پاکستان ائر فورس نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے سازو سامان کی کمی کے باوجود اپنی طاقت کا لوہا منوایا- اس جنگ میں بھارت سو کے قریب اپنے قیمتی جنگی جہازوں سے محروم ہوگیا- اس جنگ کی کامیابی میں بلند فضائوں میں پرواز کرنے والی پاک فضائیہ کا عظیم کردار ہے- بھارت ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پاکستان پر قبضہ کر لے گا لیکن پاک فضائیہ کے مجاہدوں نے اس خیالِ باطل کو ان کے دماغوں سے اوپر اٹھنے ہی نہ دیا-
قبل ازیں امریکہ نے پاکستان سے جو سینٹو اور سیٹو معاہدات کئے تھے ان کے مطابق امریکہ کو ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران پاکستان کی مدد کرنی چاہیے تھی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ امریکہ نے حد درجے کی بے وفائی کرتے ہوئے اس جنگ کے دوران پاک افواج بشمول پاک فضائیہ کی ہمہ قسم کی امداد روک لی تھی لیکن پاک فضائیہ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس وقت کے عالمی پریس نے خراجِ تحسین پیش کیا کہ بھلے پاکستان کی فضائی طاقت بھارت سے کم تھی مگر پائلٹوں کی پیشہ وارانہ تربیت ، فنی مہارت اور لڑنے کے جذبے نے ہی پاک فضائیہ کو بھارتی فضائیہ پر فوقیت دی- پاک فضائیہ کی فنی مہارت کو کئی ممالک نے سرکاری سطح پر بھی تسلیم کیا کیونکہ سات ستمبر کے دن ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت میں بھارت نے پاکستان کے ہوائی اڈوں پر چھ چھ بار حملے کیے لیکن پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے کمال مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر بار انہیں مار بھگایا- پاک فضائیہ نے لاہور سیالکوٹ سرگودھا کے نہ صرف ہوائی اڈوں کو ان حملوں سے محفوظ کیا بلکہ ان شہروں کو بھی عظیم تباہی سے بچایا-
ان مجاہدین میں سے ایک نام جس کے بغیر پاک فضائیہ کی تاریخ نامکمل ہے اور جسے مورخین ہمیشہ سنہری حروف سے یاد کرتے رہیں گے، ستارۂ جرأت کے مالک ، ریٹائرڈ ائر کمانڈر ایم ایم عالم ہیں جنہیں ہم سے بچھڑے دو سال ہی ہوئے ہیں- ائر کمانڈر محمد محمود عالم کا شمار صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے عظیم پائلٹوں میں کیا جاتا ہے- انہوں نے ۱۹۵۲ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی، ۱۹۵۴ء میں بطور سکارڈن پائلٹ اپنے کیریئر کا آغاز کیا- مختلف کورسز میں کامیابیاں سمیٹنے کے بعد ۱۹۶۳ء میں انہیں فائٹر لیڈر سکول میں بطور ائر گنری اور ٹکٹیکل انسٹرکٹر تعینات کیا گیا جو کہ آپ کی فائرنگ میں مہارت کی عکاسی ہے- ان کا کمال یہ تھا کہ یہ ہمیشہ ہارمنائزیشن بٹ پر موجود رہتے تھے جسے ٹپر کے ساتھ منظم کیا جاتا تھا تاکہ تمام گنز کے نشانے ایک ہی جگہ پر لگیں اور آپ خود اپنے ہاتھ سے ان کو ایک تناسب میں درست کرتے تاکہ تمام گنز ایک ہی ٹارگٹ کو نشانہ کر سکیں-ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کو اپنے سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ طاقت رکھنے والے دشمن کا سامنا تھا اور ان کی ائرفورس بھی پاکستان کی ائر فورس سے تقریبا ساڑھے تین گناہ زیادہ مضبوط تھی- چھ ستمبر کو ایم ایم عالم اپنی سکوارڈن کے ساتھ بھارت کی فضائوں میں گرجے ، بھارتی ہوائی اڈہ آدم پور ان کا ٹارگٹ تھا- آدم پور سے کچھ پہلے بھارت کے جہازوں سے مد بھیڑ ہوئی جہاں انہوں نے دشمن کے دو جہازوں کو زمین بوس کیا اور تین کو نقصان پہنچا کر عیب زدہ کر دیا-
سات ستمبر کے دن جب ایم ایم عالم نے فضائی جنگ میں پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے ساٹھ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ ہاکر ہنٹر فائٹرزجہازوں کو نشانہ بنا کر گرا دیا جو دنیا میں فضائی جنگ کی تاریخ میں آج بھی عالمی ریکارڈ ہے جو گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج ہے- ان پانچ جہازوں میں سے پہلے چار کو تیس سیکنڈ میں ہی ڈھیر کر دیا گیاتھا جس سے دشمن کے دل پر پاکستانیوں کی قوتِ ایمانی کی دھاک بیٹھ گئی اور انہوں نے پسپائی اختیار کر لی- ایم ایم عالم پر نہ صرف ان کے سکارڈن کو ناز ہے کہ آپ اس کا حصہ رہے ہیں بلکہ پوری پاک فضائیہ کو سات ستمبر کے اس پورے دن پر فخر ہے اور پاکستان یومِ فضائیہ کو سرکاری دن کے طور پر مناتا ہے کیونکہ پاکستان کی پوری قوم پاک فضائیہ کو اپنا محسن قرار دیتی ہے-
پاکستان ائرفورس نہ صرف پاکستانی قوم کے لیے ایک فخر کی علامت ہے بلکہ عالَمِ اسلام کے لیے بھی اُمید کی ایک کرن ہے- شاعرِ مشرق کا ’’پیامِ مشرق‘‘ میں مسلمان قوم کو دیا ہوا یہ مُژدۂ جانفزا پاک فضائیہ کے عزم کی علامت بھی ہے اور طاقت کا ترجمان بھی کہ:-
’’صحراست کہ دریاست تہِ بال و پرِِ ماست‘‘
’’صحرا ہو کہ سمندر ، ہماری طاقتِ پرواز کے نیچے ہے-‘‘