گوادر صوبہ بلوچستان میں پاکستان کی جنوب مغربی ساحلی پٹی پہ خلیج فارس کے داخلی راستے پر واقعہ ہے جو کہ ایک اہم تجارتی گزر گاہ ہے- یہ ایک ہیمر ہیڈ(ہتھوڑے کی شکل کا) جزیرہ نماہے مکران کی ساحلی پٹی پر واقع گوادر ، کراچی کے مغرب میں تقریبًا ۴۶۰ کلو میٹر ، ایران پاکستان بارڈر کے مشرق میں ۸۰ کلومیٹر، اور اومان کے شمال مشرق میں ۳۸۰ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے گواد رکا زیادہ تر علاقہ بنجر اور پہاڑی ہے انہی پہاڑیوں میں کوہِ باطل واقع ہے جو اس ہیمر ہیڈ کے اوپروالے کنارہ پر ہے جبکہ کوہ ِ مہدی جزیرہ نما کے مشرق میں واقع ہے- گوادر کی بندرگاہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے سٹریئجیکلی انتہائی اہمیت کی حامل ہے-
لفظ گوادر دراصل ’’گوا‘‘ اور ’’ در‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ’’ہوا کا دروازہ‘‘-
گوادر اور اس کے گرد ونواح کی تاریخ بہت پرانی ہے اس علاقہ کو وادی ٔ دشت بھی کہا جاتا ہے یہ مکران کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت کا حامل رہا ہے- کہا جاتا ہے کہ جب حضرت داؤدعلیہ السلام کے زمانے میں قحط پڑا تو وادیٔ سیناسے بہت سے افراد کوچ کر کے وادی مکران کے علاقے میں آگئے مکران کایہ علاقہ ہزاروں سال تک فارس کا حصہ رہا - فارس کے بادشاہ کائوس اور افراسیاب کے دور میں بھی یہ ان کی عملداری میں رہا- مؤرخین کے مطابق 325 قبل مسیح میں جب سکندر ِ اعظم بر صغیر سے واپس یو نان جا رہا تھا تو اس کی بحر ی فوج کے ایک جنرل Admiral Nearchos نے اپنے جہاز مکران کی بندر گاہ پر لنگر انداز کیے -اس نے یہاں کے علاقے کو خشک اور لوگوں کو Ichthyophagoi (مچھلی خور) پایا اور فارسی کے فقرے ماہی خوراں (مچھلی کھانے والے) سے اس علاقے کا نام ماہی خوراں مشہور ہوا جو بعد میں بدل کر مکران ہو گیا- 303 ق م تک یہاں سکندرِ اعظم کے جنرل Selukos Nikator کی حکومت رہی جس کے بعد یہ علاقہ موریہ سلطنت کا حصہ بن گیا-(۱)
ظہورِ اسلام کے بعد امیر المؤمنین سیّدنا عمر ؓ بن خطاب کے دور مبارک میںمکران 643 ء میں فتح ہوا اور اسلامی ریاست کا حصہ بنا- 711 عیسوی میں محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیاتو یہ علاقہ بھی اس کے زیرِ حکومت رہا- بر صغیر کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا- 16 ویں صدی عیسوی میں پر تگالیوں نے مکران کے متعدد علاقوں پر جن میں یہ علاقہ بھی شامل تھا،قبضہ کر لیا- 1581ء میں پر تگالیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو لوٹنے کے بعد جلا کر خاکستر کر دیا-یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بلیدی حکمران رہے اور کبھی اس پر رِندوں نے حکومت کی کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گچکیوں کو حکومت ملی، تاہم زیادہ تر حکمرانی میں بلیدی اور گچکی ہی رہے ہیں - جب گچکیوں کی حکمرانی خاندانی اختلاف کی وجہ سے کمزورپڑی تو خان آف قلات میر نصیر خان اوّل نے اس پر قبضہ کیا-
1783 ء میں مسقط کے بادشاہ سلطان بن احمد کا اپنے بھائی سعد بن احمد سے جھگڑا ہو ا- جس پر سلطان بن احمد نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی -چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طور پر آجانے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن بھی لامحدود وقت کے لیے سلطان کے نام کر دی(۲)-
جس کے بعد ابو سعد قبیلے سے تعلق رکھنے والے سلطان بن احمد نے گوادر میں آکر رہائش اختیار کر لی 1792 ء میں سلطان واپس مسقط چلا گیا اور عمان کی حکومت حاصل کر لی(۳)-
1804 ء میں سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے تو اس دور میں بلیدیوں نے ایک بار پھر گوادر پر قبضہ کر لیا- جس پر مسقط سے فوجوں نے آکر اس علاقے کو وا گزار کرایا- 1838ء کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقے پر ہوئی اور برٹش حکومت نے گوادر کی بندرگاہ استعمال کرنے کے لیے سعد سلطان سے رعایت حاصل کی اور بعد میں1863ء میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیا-
"To conduct Britain’s diplomatic relations with the Gulf rulers on a daily basis,the Resident maintained subordinate political agents at Muscat (c.1758–1971) Manama (c.1816–1971), Sharjah (1823–1953), Kuwait (1899–1961), Doha (1949–71), Dubai (1953–71), and Abu Dhabi (1957–71),as well as the Omani enclave of Gwadar in what is now Pakistan (1863 –1958)"(4)
چنانچہ بر صغیر میں بر طانیہ کی اسٹیم نیو یگیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندرگاہو ں کو استعمال کر نا شروع کر دیا- 1863ء میں گوادر میں پہلا تار گھر( ٹیلی گرام آفس) قائم ہوا جبکہ پسنی میں بھی تار گھر بنایا گیا- 1894ء میں گوادر میں پہلا پو سٹ آفس قائم ہوا- گوادر کا قلعہ عمانی دور حکومت میں تعمیر کیا گیا -
پاکستان کا 1947ء میں ایک الگ ریاست کے طو ر پر معر ضِ وجود میں آنے کے بعد مکران، خاران اور لسبیلہ کے سرداروں نے نظریہ پاکستان پر ایمان لاتے ہوئے ان ریاستوںکا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا- چند ماہ بعد خان آف قلات میر احمد یار خان نے قلات کے لو گوںکی اُمنگوں او ر زمینی حقائق(قلات کا لینڈلاک ہو جانا) کو مد نظررکھتے ہوئے باخوشی پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا- اس وقت گوادر کا علاقہ قلات کی ریاست کا حصہ نہ تھا اور عمان کے زیرِ حکمرانی رہا- 1954ء میں پاکستان نے امریکہ کے ادارے United States Geological Survey سے اپنی ساحلی پٹی کا سروے کروایا- USGSکے سروئیر ورتھ کانڈرک نے گوادر کو ایک ہیمر ہیڈ جزیرہ نما کے طو ر پر متعار ف کرایا جس رپوٹ کے مطابق گوادر قدرتی طور پر گہرے سمندر کی بندرگاہ (Deep see port) کے لیے انتہائی موزوں جگہ بتائی گئی(۵)-
تاریخی اور جغرافیائی پس منظر اور گوادر کے لوگوں کا پاکستان میں شمولیت کے مطالبہ پر پاکستانی حکومت نے گوادر کی ملکیت اومان سے پاکستان منتقل کر نے کے لیے سلطان آف عمان سعد بن تیمور سے باقاعدہ درخواست کی- چار سال کے تبادلہ خیال کے بعد پاکستان نے عمان سے گوادر کا علاقہ 30 لاکھ ڈالرکے عوض خرید لیا(۶)،(۷)-
اور اس طرح 174 سال کی حکمرانی کے بعد 8 دسمبر 1958 ء کو عمان نے گوادر پاکستان کے حوالے کر دیا-
جب وزیر اعظم فیروز خان نون نے 7 ستمبر 1958ء کو ریڈیو پاکستان کے ذریعے قوم سے خطاب کے دوران گوادر کی ملکیت پاکستان کو منتقل ہو نے کی خبر سنائی تو پوری قوم میں خو شی کی لہر دوڑ گئی اور گوادر کے لوگوں نے بھی اس خبر پر جشن منایا- وزیر اعظم کا ریڈیو پاکستان سے خطاب کی نقل ملا