سیلاب اورپیشگی بندوبست
اسے بدقسمتی ہی کہاجائے گا کہ ہر سال جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں سیلاب آتاہے توحکومت کی طرف سے بڑے بلندبانگ دعوے کئے جاتے ہیں کہ انشاء اللہ اگلے سال وہ اس کاپیشگی تدارک کریں گے لیکن اگلے سال پھر سیلاب آتاہے اورتباہی کی مزید داستان رقم کرکے ہماری اجتماعی وقومی بے بسی کامذاق اڑاکراپنا راستہ ناپتاہے-
ایمانداری کی بات تویہ ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد آج تک کسی حکومت نے اس مسئلے کوسنجیدگی سے لیاہی نہیں ہمارے ہاں حکومتوں کاچلن بہت عجیب رہاہے سیلاب کی تباہ کاری روکنے کاایک عجیب وغریب نُسخہ اُن کے ہاتھ لگ گیا ہے جویہ ہے کہ جیسے ہی سیلاب کاپانی کسی شہرکی طرف بڑھنے لگے بلادریغ اُس کے مضافاتی اورملحقہ دیہاتی علاقوں پر سیلاب کی یہ تباہی تقسیم کرکے شہری بابوئوں کوبچالیاجائے -یہ بے ہودہ نُسخہ اور اِس کے پیچھے دی جانے والی بھونڈی منطق کسی عقل کے اندھے ایجاد ہے اوراس کوآج تک جاری ساری کیوں رکھاگیا؟ سمجھ سے بالاترہے -شائد ہمارے حکمرانوں کے لئے دیہاتوں میں بسنے والے پاکستانی کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے -ہرسیلاب پرلاکھوں ایکڑزرعی اراضی کوفصلوں سمیت بربادکرنا ،مال مویشی ،گھر بار کی تباہی اورانسانی جانوں کے ضیاع کے بعد ہمارے بادشاہانِ سلامت ہیلی کاپٹربیٹھ کرآتے ہیں اورمقامی ایم این اے اورایم پی اے کے رشتہ داروں ،چمچوں اورملازمین میں چیک اورآٹے کی بوریاں تقسیم کرکے لمباچوڑابھاشن دینے کے بعد اپناراستہ ناپتے ہیں - اور بعض سرکاری افسران حکمرانوں کو ماموں بناتے ہیں اور جعلی کیمپ وغیرہ لگا کر جعلی متاثرین سے بھر دیتے ہیں اور حکمرانوں کے چلے جانے کے بعد نہ کیمپ نہ متاثرین بلکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ سموسہ پیٹ کے اندر، چوانی جیب کے اندر -
بے چارے کسان اوردیگر دیہاتی سال بھر کانقصان پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ اگلاسیلاب اُن کی تباہی کاسامان لے کرآجاتاہے -سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر ہماری حکومتیں اسی مسئلے کی سنگینی اوراہمیت کوکیوں نہیں سمجھتیں ؟کیا اس طرح ڈنگ ٹپائو پالیساں ہمارا مقدر بنی رہیں گی -ظاہرہے یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلتادکھائی نہیں دیتا-جہاں تک پاکستان خصوصاً پنجاب میں آنے والے سیلابوں کاتعلق ہے اس میں سب سے اہم کردارہمارے ازلی دشمن بھارت کاہوتاہے -بدقسمتی سے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہنے والے تین اہم دریاراوی،چناب ،جہلم اور کسی حد تک بیاس بھی بھارت کے کنٹرول میں ہیں -ایک طرف توبھارتی حکومت نے ایک شیطانی منصوبہ کے تحت پاکستان کوبنجر کرنے کی ٹھان ہوئی ہے اورہمارے دریاقریباً خشک کر دیے ہیں -پاکستان میں پانی کاقحط پیدا کردیاہے -صدیوں سے بہنے والے دریایاتو جوہڑوں میں تبدیل ہوکربیماریاں پھیلارہے ہیں یاپھر اُن کانام و نشان ہی مٹ چکاہے -ہمارے مسلسل واویلاکرنے اورساری دنیاکے سامنے چیخ وپکارکرنے کے باوجود کوئی اس پر کان دھرنے کوبھی تیار نہیں تقدیر کا دوسرا رُخ کتنا بھیانک ہے کہ بھارت جب چاہے ان دریائوں کاسیلابی ریلا عذاب اورتباہی بناکر ہماری طرف منتقل کردیتاہے اورہم بے بسی سے اپنی بربادی کانظارہ کرتے رہتے ہیں -کوئی بین الاقوامی فورم ایسانہیں جس پرہم نے ڈھنگ سے اس ظلم کے خلاف احتجاج بھی کیاہواس کے برعکس ہمارے ہاں چونکہ غداروں کی کمی نہیں ابھی ماضی میں جماعت علی شاہ نام کے ایک غدار نے جوبظاہر اس مسئلے کاچمپئین بناہواتھا بین الاقوامی عدالت میں ہمیں ذلیل کروانے اوربھارت کوفتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا-ایسے غداروں کی کبھی کمی نہیں رہی -پاکستان کابچہ بچہ اس تلخ سچائی سے آگاہ ہے کہ کالاباغ ڈیم ہمارے مسائل کاواحد حل ہے لیکن ایک ضد ،ہٹ دھرمی اوراصل میں پاکستان دشمن تحریک ہے جوا سکے مخالفین نے بعض معتبر صحافیوں کے بقول بھارت سے کچھ لے دے کر چلارکھی ہے -یہ ڈیم سیلاب کے پانی کوذخیرہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے لیکن معتبر صحافی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ بھارتی حکومت اس کی تعمیر روکنے کے لئے اب تک اربوں روپے خرچ کرچکی ہے اوریہ سلسلہ جاری ہے -پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاری بندوں کے پشتے بنانے یابھل صفائی سے نہیں رک سکتی کیونکہ اس کے پیچھے شیطانی ذہن اورسازش کارفرما ہے اُسے روکنے کے لئے یاکم از کم اس کی تباہی میں کمی کے لئے ہمیں کوئی انقلابی فیصلہ کرناہوگااوریہ فیصلہ سوائے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے اورکچھ نہیں ہوسکتا-
این جی اوزکاسیلاب اور بھیانک کردار
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بہت سنجیدگی سے اس مرتبہ پاکستان میں سرگرم این جی اوز سے متعلق سوالات اُٹھائے ہیں کہ اُن کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے ؟اُن کی سرگرمیاں کیاہیں ؟ اور جن این جی اوز کے متعلق انٹیلی جنس ملک دشمنی کے ثبوت بھی فراہم کردیتی ہے وہ اتنی طاقتور کیوں ہیں ؟ حکومتِ پاکستان اُن کی سرگرمیاں پاکستان میں روک نہیں سکتی ؟یہ مسئلہ ایک خاص این جی او کے حوالے سے شروع ہوا -اس تنظیم نے پاکستان کوعالمی سطح پرذلت سے دوچار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا -پاکستان کی تاریخ کے انتہائی متنازعہ سانحے میں مرکزی کردار اداکرنے والی اس این جی او نے اُسامہ بن لادن کے سی آئی اے کے ہاتھوں اغوا اوراُس کے بعد صورتحال کی بنیاد رکھی -بتایاجاتا ہے کہ یہی وہ این جی اوتھی جس کے ورکرز کے لبادے میں سی آئی اے کے تنخواہ دارایجنٹ اُس رہائش گاہ تک پہنچے ،جہاں اُسامہ بن لادن مقیم تھا-یہاں سے ٹیسٹ کے بہانے ڈی این اے حاصل کیاپازٹیورزلٹ آنے پر سی آئی نے اس کے اغواہ کامنصوبہ بنایاجس نے پاکستان کی سا لمیت کے لئے مسائل پیداکئے اورجس سے ہم عالمی سطح پررُسواہوئے -ایسی این جی اوز کواس کے باوجود پاکستان میں کام کرنے کی آزادی میسر تھی جب کہ اس کے خلاف انٹیلی جنس کی رپورٹیں بڑی تشویشناک اورچونکا دینے والی تھیں -
بات صرف اتنی ہی نہیں، یہی این جی اوز ہی تو ہیں جو اِس مُلک کی نظریاتی و رُوحانی اَساس کی سب سے بڑی دُشمن اور باغی ہیں ، یہی این جی اوز ہی تو ہیں جو پاکستان کی اسلامی شناخت کو ہر سطح پہ ہر طرح سے مسخ و مجروح کرنے میں ہر جگہ پہ پیش پیش رہیں ، یہی تو ہیں جنہوں نے جنون اور عشق سے حاصل کئے گئے پاکستان کی خاطر قُربانیاں دینے والوں کا مذاق اُڑایا اور تحریکِ پاکستان کے کرداروں کو مطعون کیا اور بھارت دوستی کا دَم بھرتی ہیں ، ہمارے قومی لیڈروں کو یہ کہنے پہ مجبور کرتی ہیں کہ ’’ہم تو ایک تھے نہ جانے یہ لکیریں کہاں سے آ گئیں؟‘‘ (یہ قائدِ اعظم کی مسلم لیگ کے جانشینوں کے اَلفاظ ہیں) - یہی نہیں ، اِن این جی اوز کے ٹکڑے خور ٹی وی پہ بیٹھ کر بانیٔ پاکستان حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح اور مفکرِ پاکستان حضرت حکیم الاُمّت علّامہ محمد اقبال کو گالیاں بکنے اُن کی کردار کُشی کرنے اور اُن کی شخصیّات پہ نازیبا جُملے کَسنے اور اُن کی بے داغ قیادت پہ کیچڑ اُچھالنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں - یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کو ہر طرح کی طعنہ زنی سے مجبور کرتے ہیں کہ فلسطین ، میانمار ، کشمیر ، گجرات ، آسام ، سوڈان اور دیگر مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز نہ اُٹھائی جائے بلکہ وہ جعلی شورشیں جو اندرونِ پاکستان بھارت جاری کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے اُنہیں ہوا دی جائے اور انٹرنیشنالائز کیا جائے - اِن کو مشرقی پنجاب میں بھارت سے آزادی کیلئے چلائی جانے والی سکھّوں کی تحریک نظر نہیں آتی جو اِن دِنوں بامِ عرُوج پہ ہے اور دُنیا بھر کے سِکھ سڑکوں پہ ہیں ، گزشتہ ہفتے برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے ایک لاکھ کے لگ بھگ سکھوں نے کئی گھنٹے بھارت سے آزادی کے حق میں مظاہرہ کیا ، جنیوا میں انسانی حقوق کے حالیّہ سیشن کے دوران سکھوں کی آزادی کی بازگشت بہت گرم رہی ، نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں آئے روز سکھ مظاہرے کر رہے ہیں ، کینیڈا تو تقریباً خالصتان کی آزادی کے بیس کیمپ کی صورت اختیار کرگیا ہے مگر آپ کبھی بھی پاکستانی میں بیٹھی اِن این جی اوز کے ویب سائیٹس ، سوشل میڈیا اور مضامین میں اس طرح کا کوئی تذکرہ نہیں سُنیں گے بلکہ یہ لوگ زیارت میں حضرت قائدِ اعظم کی ریزیڈنسی تباہ کرنے والوں کا دِفاع کر رہے ہونگے ، اُنکے فارن فنڈڈ لانگ مارچوں کو ہائی لائیٹ کر رہے ہونگے اور اُن کیلئے کسی بھی طرح کا جھوٹ مکر کہہ کر سچا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہونگے -
ایسے لوگوں کی موجودگی میں بھلا بیرونی جاسوسوں کی کیا گنجائش رِہ جاتی ہے ؟ اور ایسے وطن فروش ملّت فروش دین فروش لوگوں کو ایک لمحے کیلئے بھی کیوں اس دھرتی پہ برداشت کیا جاتا ہے ؟ یہ لوگ معززینِ مُلک بنا کر کیوں ٹی وی سکرینوں پہ بٹھائے جاتے ہیں ؟ کیوں جھوٹے اور مکار و غدّار طبقے کو بے نقاب نہیں کیا جاتا؟ کیوں اِن کی مشکوک و مذموم سرگرمیوں پہ پابندیاں لگانے میں تاخیر کی جاتی ہے ؟ کیوں ان کی ویب سائیٹس اور سوشل میڈیا کمپینز بند نہیں کی جاتیں ؟ کیوں پاکستان کی سالمیّت و استحکام کے مخالف اِن کے جھوٹے پروپیگنڈے لائیو نشر کرنے پہ چینلز کے لائسنس منسُوخ نہیں کئے جاتے ؟ کیوں پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں کی جھوٹی کردار کشی پر اِن لوگوں کو مُلک کا باغی اور غدّار قرار نہیں جاتا ؟ کیوں پاکستان کی قومی سلامتی کے محافظ اداروں اور پاکستان کی بقا کی خاطر ہزاروں قرنیاں دینے والوں کا دِفاع نہیں کیا جاتا ؟ وقت آن پہنچا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور پاکستان کی محترم اعلیٰ عدالتیں اِن کا احتساب کریں اور اِس صف سے کالی بھیڑوں کو علیحدہ کریں اور اُن کے کالے کرتوت اس قوم کے سامنے بے نقاب کئے جائیں - انٹرنیشنل انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ان کے دیرینہ و ثابت شُدہ مراسم کو قوم کے سامنے لایا جائے کہ کس طرح این جی اوز اور ان کے کارندے و کرتے دھرتے سی آئی اے ، را ، موساعد ، خاد ، کے جی بی اور دیگر دُشمن ایجنسیوں سے مختلف مدّات میں فنڈ لیتے اور اُن کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں ، کیا یہ آئینِ پاکستان ، قوانینِ پاکستان اور بقائے پاکستان کے خِلاف نہیں ہے ؟ کیا یہ پاکستان کی آئندہ نسل کا مُستقبل تاریک کرنے کی گھناؤنی سازش نہیں ہے؟ کیا یہ ہمارے مُلک کی سلامتی اور تحفظ کے تقاضوں پہ سمجھوتہ نہیں ہے ؟ کیا یہ بیرونی دُشمنوں کی ایما پر مُلک دُشمنی کا اِرتکاب نہیں ہے ؟
یہ تو صرف چند ایک مثالیں ہیں ایسی درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیںپاکستان میں این جی اوز کے کردار کے حوالے سے یہ بحث عرصہ سے موجود رہی ہے بظاہر جو دکھایا جاتا ہے وہ ان کی اصلیت نہیں بلکہ اصل میں یہ ملک دشمن ایجنسیوں کا ایک’’طریق واردات‘‘ہے جو بظاہر بڑا معصومانہ اور سیدھا سادا لیکن اصل میں بڑا تباہ کن ہے - درجنوں کی تعداد میں نائن الیون کے بعد مختلف ناموں سے غیر ملکی امداد سے چلنے والی اور بیرُونی ٹکڑوں پہ پلنے والی اِن این جی اوز کی کمانڈ عموما ًماڈرن اور سیکولر حضرات و خواتین کو سونپی جاتی ہے جو مختلف سلوگنز کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں -ان این جی اوزکے پاکستان کے تین بڑے شہروں اسلام آباد ،کراچی اورلاہور کے دفاتر کی کی شان بان دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے دفاتر ہیں جہاں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے ماڈرن خواتین اورحضرات اپنے کام میں مصروف ہیں -
پاکستانی معاشرے میں متعلقہ ٹارگٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی بھی پاکستان دشمن ایجنسی کے لئے اس سے زیادہ محفوظ Cover نہیں ہوسکتا جس کی آڑ میں وہ اپنادھندہ جاری رکھ سکیں -ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ذاتی اورسیاسی مفادات ایک طرف رکھ کر قومی مفادات کے تابع اس مسئلے پرسنجیدگی سے غور کیا جائے اور اِس سیلاب کے سامنے بند باندھا جائے تاکہ غیر مُلکی ایجنڈا کی راہ روکی جا سکے - ہمیں ان این جی اوز کی کوئی ضرورت نہیں - یہاں الحمدللہ اسلام انسانی فلاح وبہبود کاایک شاندار نمونہ ہے -زکوٰۃ کانظام ہی اگر مؤثر طریقے سے لاگو ہواوراس کااستعمال خوف خدا اوردینی جذبہ سے کیاجائے توپاکستان میں موجودہ تمام مسائل ختم ہوسکتے ہیں جن کے لئے یہ این جی اوز کام کررہی ہیں -