مَیں خصوصی طور پر مسلم انسٹیٹیوٹ کی کاوشوں کو سراہتا ہوں جس نے انتہائی پروفیشنل انداز میں ’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘ کی زیرِ نظر ڈیبیٹ ’’کیا آزادیٔ اِظہارِ رائے کسی کی توہین کی اجازت دیتی ہے؟‘‘ کا انعقاد کیا- مجھ سے پہلے آنے والے مقررین نے جامع انداز میں اس تھنک ٹینک کے تمام وسیع پراجیکٹس کا تذکرہ کیا ، مَیں خصوصی طور پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ان تمام لوگوں کو جو اس ڈیبیٹ پراجیکٹ میں شامل رہے کہ انہوں نے اسے ایک بامعنی و با مقصد ڈیبیٹ کی صورت میں مکمل کیا- موضوعات کے انتخاب کے حوالے سے بھی ان کے کام کو سراہتا ہوں-زیادہ تر لوگوں کی جانب سے کسی ایک نقطہ نظر کو مرکز بنا کر یک طرفہ کام کیا جاتا ہے ، لیکن جس انداز میں اس ڈیبیٹ کو پیش کیا گیا ، اس کا موضوع اور اس میں مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں سے نقطہ نظر لینا یہ سب اپنے آپ میں ایک منفرد چیز ہے - اس میں دونوں جانب کے دلائل کو سنا جا سکتا ہے اور اس طرح قانونی اور مدلل نکات بیان کیے گئے ہیں جس سے اس معاملے کی خاصی وضاحت ہوئی ہے -
یہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے کہ کیا آزادی اظہار رائے دوسروں کی توہین کا حق دیتی ہے ؟ میرے خیال میں ڈیبیٹ کی ابتدا میں قانونی نقطہ نظربیان کیا گیا ہے ، جس میں International Covenant on Civil and Political Rights (ICCPR)کے تین آرٹیکل18,19 اور 20 کا حوالہ دیا گیا ہے یہ وہ آرٹیکل ہیں جو آزادی اظہار رائے کے حق کو یقینی اور لازمی بناتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ مخصوص حالات میں قدغن بھی لگاتے ہیں- یہ آرٹیکل خاص طور پر جنگ کی ترغیب دینے سے منع کرتے ہیں چنانچہ آزادی اظہا ر رائے کے نام پر جنگ کو فروغ نہیں دیا جاسکتا ، آزاد ی اظہار رائے کسی ملک یا غیر ریاستی عنصر کو یہ حق نہیں دیتاکہ وہ جنگ کی ترغیب دیں یا اس کے لئے جواز فراہم کریں - اسی لیئے ICCPRمیں اس کی واضح ممانعت کی گئی ہے - چنانچہ عالمی کنونشن ’ جس کا کہ پاکستان بھی حصہ ہے ‘ اس میں جنگ کے فروغ کے لئے ہر قسم کے پروپیگینڈا کی ممانعت کی گئی ہے- دوسرامعاملہ جہاں اس پر حدود لگائی گئی ہیں وہ تشدد کا فروغ ہے جس کی اس کنونشن میں ممانعت کی گئی ہے ، کوئی بھی شخص ایسا اظہار یا عمل نہیں کر سکتا جس سے تشدد کو فروغ ملے - تشدد کا فروغ کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ، خواہ وہ تقریر کی صورت میں ہو ، ٹی وی پروگرام کی صورت میں ہویا ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ہو- ان تمام کو انٹرنیشنل کنونشن میں ممنوعات کے دائرے میں رکھا گیا ہے اور پاکستان کے آئین میں بھی حدود لگائی گئی ہیں کیونکہ یہ عالمی کنونشن کی ہی جھلک ہے - کوئی بھی ان کنونشنز کی روشنی میںمقامی قانونی ڈھانچہ تیار کرسکتا ہے چاہے وہ پیمراہو یا اسکے علاوہ دوسرے ادارے جو کہ ان ممنوعات کو لاگو کرسکتے ہیں -
اسکے علاوہ Official Secrets Actمیں بھی آزدی اظہار رائے پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں جس کے مطابق حلف اُٹھانے والا افسر دفتری معلومات افشاں نہیں کر سکتا - یہ ایکٹ ایک اور حد مقرر کرتا ہے کہ سرکاری راز میڈیا یا عوام کے سامنے افشا ںنہیں کئے جا سکتے- یہ وہ تمام حصہ ہے جو کم سے کم متنازعہ ہے- تشدد پر اُکسانے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی چیپٹر سات کے تحت قرارداد موجود ہے جس کے مطابق اگر آزادی اظہار رائے کے غلط استعمال سے تشدد کو فروغ مل رہا ہے تو اسے روکا جا سکتا ہے-
اسکے علاوہ جس حصے کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا وہ اس ڈیبیٹ کا مدعا بھی ہے یعنی ’’انسانی وقار‘‘- آزادی اظہار رائے کس حد تک انسانی وقار کا خیال رکھتی ہے یا اس میں مداخلت کر سکتی ہے؟ شخصی وقار کو ہتک عز ت اور بدنامی کے قوانین کے ذریعے عدالتی دائرہ کار میں شامل کیا گیا ہے - ایک شخص کسی بھی دوسرے شخص کی عزت یا وقار کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور متأثر ہونے والا شخص دعوائے ہرجانہ دائر کرنے کا مکمل حق رکھتا ہے اور وہ حق رکھتا ہے کہ ہتک عزت کرنے والے شخص سے نقصان کا ازالہ طلب کرے- ہمارے ہاں ہتک عزت اور اس کے ہرجانے سے متعلق قوانین اور خصوصی عدالتیں موجود ہیں اور یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ جیسے تمام ترقی یافتہ ممالک میں قوانین موجود ہیں جہاں لوگ کئی بلین ڈالر ہرجانہ کے دعوے دائر کرتے ہیں-چنانچہ عام آدمی کی عزت و وقار سے متعلق قوانین تمام دنیا میں موجود ہیں اور ان کو خاطر میں لایا جاتا ہے-
جب ہم مذہبی علامات، شخصیات اور عقائد کے وقار سے متعلق قوانین کی بات کرتے ہیں تو ہم یکسر ایک مختلف موضوع کی بات کرتے ہیں اور اسی لئے اس ڈیبیٹ نے اس بحث میں خاصا کردار ادا کیا ہے - اس ضمن میں کچھ سوالات یہ ہیں:
کیا مذہب کو بدنام کیا جانا چاہئے ؟
کیا آزادی اظہار رائے صرف اسلام نہیں بلکہ کسی بھی مذہب کی، مذہبی شخصیت ، عقیدہ یا علامت کی توہین کا حق دیتی ہے ؟
اس متعلق عالمی قوانین کیا ہیں ؟
ملکی قوانین کیا کہتے ہیں؟
ICCPRکے آرٹیکل 18,19اور 20کی صورت میں عالمی قانون موجود ہے -1960 سے لیکر اب تک مذہب کی توہین پر اقوامِ متحدہ کی 70سے زائد قرادادیں منظور ہوچکی ہیں - چنانچہ مذہبی توہین کی روک تھام کے متعلق قوانین واضح طور پر موجود ہیں - عالمی طور پر دلیل یہ ہے کہ عالمی سطح پر ارتقاء ہو رہا ہے اور مختلف معاملات پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے سیٹ کی نشاندہی کی جا سکتی ہے اور قراردادوں کے مختلف سیٹ موجود ہیں بالخصوص مذہبی توہین سے متعلق- اقوام متحدہ کی جنیوا کی انسانی حقوق کونسل کی خصوصی قراردادیں موجود ہیں پچھلے کئی سالوں سے اس نے قراردادوں کا سیٹ منظور کیا ہے- یہ قراردادیں قانو نی حدود فراہم کرتی ہیں کہ مذہبی علامات کی توہین نہیں کی جانی چاہئے- اس کے بعدحالیہ دنوں میں اقوام ِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایک خصوصی قرارداد16/18منظور کی ہے جس کے تحت قانونی ڈھانچہ ترتیب دیا گیا ہے اور اسے OICنے معاونت فراہم کی ہے اس معاملے میںOIC کا کرادر قابل ِ ذکر ہے ، اس میں موجود پاکستانی مندوب جناب ضمیر اکرم نے 16/18قرارداد کی منظوری کے لئے اپنا اہم کردار اد کیا ہے - حالیہ ایک واقعہ کے دوران، دو ہفتہ قبل جب میں جدہ میں موجود تھا، OIC نے ماہرین کا خصوصی سیشن بلایاجس میں دنیا بھر کی مسلمان برادری سے وکلاء ، بین الاقوامی تجزیہ نگار ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے صدر اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے رپورٹر موجود تھے اس دوران دو دن پر محیط کانفرنس میں اسی موضوع پر بحث کی گئی اور اس معاملے میں حدود کی نشاندہی کی گئی اوران حدود کی قدر کرنے پر بحث کی گئی اور یہ زیرِ غور آیا کہ یہ حدود مختلف ممالک کے قوانین میں نظر آتی ہیں- ہم نے ایک دوسرے سے ڈنمارک ، جرمنی ، فرانس اور دیگر ممالک میں موجود قوانین پر تبادلہ خیال کیا جن کے مطابق کسی مذہب یا مذہبی علامت کی توہین کرنے پر افراد یا گروہ کوسزا دی جا سکتی ہے - چنانچہ یہ مختلف ریاستوں کی جانب سے مختلف سطح پر توہین کے عالمی قانون پر عمل درآمد ہے-اس تھنک ٹینک(مسلم انسٹیٹیوٹ) کے آن لائن ڈیبیٹ فورم ’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘ کی حالیہ ڈیبیٹ نے عالمی سطح پر اس کیس کو مزید مضبوط بنایا ہے-
یہ وقت کی ضرورت ہے اور میری معلومات کے مطابق حالیہ حکومت اس کا اشارہ بھی دے رہی ہے کہ ایک بین الاقوامی فورم اور قانونی ڈھانچہ قائم کیا جائے جس پروہ لوگ جاکر اپنے شکوے کر سکیں جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور تشدد کی راہ نہ اختیار کریں - انہیں ایسے عالمی فورمز پر جا نا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ چارلی ہیبڈو یا کسی اور اخبار نے ایسی حرکت کی ہے جس سے ہماری توہین ہوئی ہے، ہمارے جذبات اور احساسات مجروح ہوئے ہیں اور ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے ؟ اور ایسا کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی؟ دفاع کرنے والے کو بھی وہاں آنے دیا جائے تاکہ وہ یہ کہہ سکے کہ مَیں معذرت خواہ ہوں، مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہمارے اس فعل سے لوگوں کے احساسات مجروح ہوئے یا ایسا کوئی فورم بھی موجود ہے- اس ڈیبیٹ میں ہونے والی بحث کی وجہ سے ہم اپنے دلائل میں پختگی کے اس مقام پر ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم اورOICکو چاہئے کہ وہ مسلم اُمہ اور دیگر برادریوںکو بھی درپیش مسائل کو اٹھانے کیلئے عالمی فورمزکی ممکنات پر غور کریں - اگر ایک برادری کو کسی دوسری برادری کے خلاف شکایت ہے تودونوں کو فورم کے استعمال کا برابر حق ہونا چاہئے- یہ فورم ہر ایک کو ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم مہیا کرے گا جس سے تشدد کو روکا جاسکے گا کیونکہ اگر مذہبی توہین کا معاملہ پیش آتا ہے اور اس کے بعد تشدد پھوٹتا ہے تو اس تشدد کے عمل سے بحث کا سلسلہ نئے سرے سے شروع ہو جاتاہے- چنانچہ مَیں یقین کرتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ ایسے عالمی فورمز کے قیام کی جانب غور کیا جائے-
مَیں اس پروگرام کے شرکاء اور منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہیں نے مجھے یہ موقع فرہم کیا-
(یہ کلمات تقریبِ رونمائی،ڈیبیٹ رپورٹ، ’’آزادی اظہارِ رائے، توہین کا حق دیتی ہے‘‘ کے موقع پر ۱۶ جولائی ۲۰۱۵ء کو دئیے گئے- تدوین: عُثمان حسن)
٭٭٭٭٭