زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شِیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
زندگی کیا ہے؟
گداگر کی طرح کاسائے گدائی اٹھائے ضمیر کچل کر ہر ایک سے لقموں کی بھیک مانگنے کا نام زندگی نہیں نہ ہی عشرت کدوں کے تعیش اور استراحت خانوں کی راحت سے لطف اندوز ہونے کا نام زندگی ہے-
زندگی کے تقاضے کیا ہیں؟
کولہو کے بیل کی طرح کنوے کے گرد چکر کاٹتے رہنا زندگی کے تقاضوں کا نام نہیں - نہ ہی اطلس و کمخواب کے نرم بستر کا سکون اور ساحل دریا کے غروبِ آفتاب کے وقت ہمدم و احباب کے پہلو میں غزل گنگنانا زندگی کے تقاضے ہیں -
حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اگر تُو زندگانی کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے تو کوہکن (فرہاد) کے دل سے پوچھ!کہ زندگانی کیا ہے؟اور زندگی کے تقاضے کیا ہیں؟
’’جوئے شِیر‘‘ دودھ کی نہر کو کہتے ہیں جو زمانے کے سنگِ گراں کو یقین اور اُمید کے تیشہ سے توڑ کر نکالنی ہے-
جوئے شِیر منزل ہے، تیشہ راستہ ہے اور سنگِ گراں رکاوٹ ہے - جبکہ کوہکن صاحبِ یقین مومن ہے، تیشہ جُہدِ مسلسل کا نام ہے ، اُمید واثق اور یقینِ کامل کا نام ہے ، ہمت آزمانے اور محدود ترین وسائل کے باوجود آگے بڑھتے چلے جانے کا نام ہے ، محنت، مشقت اور ترکِ آسانی و ترکِ راحت کا نام ہے - جس نے یہ تیشہ اُٹھایا اور راستے کی رکاوٹوں کو کاٹنا شروع کیا ، جُہدِ مسلسل اختیار کی اور نامیدی اور بے یقینی کو اپنے قریب سے بھی نہ گزرنے دیا وہی تو ہوتا ہے جو سنگِ گراں کاٹ کر جوئے شِیر لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے -
وہ قوم جو اپنے بچوں اور نونہالوں کو تیشہ و سنگِ گراں کی کشمکش (جو ازل تا ابد جاری و ساری ہے) سے آگاہ نہ کرے ، وہ قوم جو ہر چیز میں شارٹ کٹ تلاش کر کے ’’ ڈنگ ٹپانے‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہو ، وہ قوم جس کے نوجوانوں کے پاس احتجاج کاسب سے بڑا طریقہ سوشل میڈیا پر فریقِ مخالف کی کردار کُشی رہ جائے ، وہ قوم جو گزشتہ تین صدیوں کی دردناک و الم ربا تاریخ سے منہ موڑے ،جذباتی تقریروں پر تالیاں بجا دینے کو تین سو سال کے درد و الم کا علاج اور مداوا سمجھ بیٹھے ، جس میں مسلسل جدو جہد، ترکِ آسانی اور اختیار مشقت کی روش عام نہ رہے ، جسے زندگی کی حقیقت اور زندگی کے تقاضوں سے نپٹنے کیلئے سوائے مسلکی جھگڑے اور فرقہ وارانہ مباحث کے کوئی گفتگو نہ سوجھے ، جس قوم کے آفاقی طور پر مقرر کردہ لمحاتِ عبادت پر بنون و بناتِ ہوس و دولت قابض ہو جائیں، جو قوم تصنّع اور بناوٹ کے پُتلوں کو ’’ برکاتِ رمضان ‘‘ اور فیضانِ رمضان‘‘ بانٹنے کا ذریعہ سمجھ بیٹھے، جس قوم کے ٹیلی وژن چینلز کی ریٹنگ رمضان جیسے بابرکت مہینے میں بھی بندگانِ ہوس و دلدادگان ہویٰ کے ہونے نہ ہونے پر منحصر ہو، جو قوم نام نہاد مبلّغوں اور مبلّغاؤں (بالفاظِ صحیح اداکاروں اور اداکارائوں) کی بے معنی و لا یعنی بناوٹ بھری گفتگو کو تلاوت و تہجد کا متبادل سمجھ بیٹھے ------اس قدر آرام طلبی------اس قدر ترکِ جُہد ------ اس قدر ترکِ ریاضت و مشقت ------ حقیقتِ زندگی سے اس قدر اجتناب ------زندگی کے تقاضوں سے اس قدر بے اعتنائی ------کیا ایسا ذلت آمیز ’’حال ‘‘ اس قوم کا مقدر نہیں بنے گا؟
اگر یہ ذلت تذلیل اپنے مقدر کے طور پر قبول ہے تو ٹھیک ہے پھر یہ سب ڈرامہ جاری رہے-
لیکن اگر قومی مقدر بدلنا ہے تو قومی مقدر افراد کی مسلسل کاوش، مشقت، محنت، ہمت آزمائی اور میدانِ عمل میں ترکِ تعیّش اور ترکِ آرام سے بدلتا ہے-
یہ ہیں زندگی کی حقیقت کو پانے کے تقاضے !
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شِیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی