آزادی اظہارِ رائے، توہین کا حق دیتی ہے؟

آزادی اظہارِ رائے، توہین کا حق دیتی ہے؟

آزادی اظہارِ رائے، توہین کا حق دیتی ہے؟

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جولائی 2015

تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے آن لائن ڈیبیٹ فورم ’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘کے زیرِ انتظام’’ آزادی اظہارِ رائے، توہین کا حق دیتی ہے ‘‘ کے موضوع پر آن لائن ڈیبیٹ کا اہتمام کیا گیا- آکسفورڈ فارمولہ کے تحت منعقد کی جانے والی یہ آن لائن ڈیبیٹ 4مئی 2015سے لیکر 24مئی 2015تک جاری رہی- عالمی وکیل اور لنڈن سکول آف اکنامکس (لندن - برطانیہ) کی ریسرچ فیلو محترمہ ہیلری سٹافر نے ڈیبیٹ کے سوال کے حق میں جبکہ پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ میں سیاسیات و گورننس کے پروفیسر ڈاکٹر جیمسن ڈبلیو ڈوئیگ  نے موضوع کی مخالفت میں دلائل دیے - ڈیبیٹ میں مہمانانِ خاص کے طور پر تین لوگوں نے حصہ لیا- جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی (برطانیہ) کے شُعبہ فلسفہ کے سینئیر ٹیوٹر اور سینیئر محقق ڈاکٹر برائن کلگ ، یونیورسٹی آف شکاگو (امریکہ) میں قانون کے سینئر پروفیسر ڈاکٹر جیفری آر سٹون اور برطانیہ سے تعلُّق رکھنے والی نو مسلم خاتون صحافی اور ہیومن رائیٹ ایکٹیوسٹ محترمہ لارن بوتھ نے حصہ لیا اور موضوع کے متعلق اظہارِ خیال کیا - مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ بیرسٹرعاطف الیاس میاں نے ڈیبیٹ میں ماڈریٹر کی خدمات سرانجام دیں- ڈیبیٹ میں اپنے ووٹ اور رائے کے ذریعے ستر سے زائد ممالک کے لوگوں نے بھی حصہ لیا - ڈیبیٹ کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے-

ڈیبیٹ کا ابتدائی حصہ                           ۴ تا ۱۲ مئی ۲۰۱۵ء

بیرسٹر عاطف میاں نے ڈیبیٹ کا آغاز کرتے ہوئے آزادی اظہارِ رائے کے متعلق عالمی قوانین پر روشنی ڈالی - انہوں نے کہا کہ آزادی اظہارِ رائے کے متعلق عالمی حلقوں میں مباحثہ جاری ہے اور ابھی یہ بحث ختم ہونے سے بہت دور ہے - چارلی ہیبڈو، صلیب یا قرآن مجید کا جلایا جانا، لسانی تعصبات پر مبنی نعرے اور اس طرح کے دیگر متنازعہ واقعات اس موضوع پر مزید بحث کی طلب کرتے ہیں - انہوں نے ڈیبیٹ کے شرکاء کے سامنے موضوع کے متعلق کچھ سوالات اٹھائے مثلاً کہ آزادی اظہار کا حق کہاں تک ہے اور کب توہین شروع ہوتی ہے ؟ کیا کسی کا حق ہے کہ وہ دوسروں کی توہین کرے؟ کیا اس آزادی کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے عقائد کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ؟ کیا آزادی اظہار کے حق کو مسلسل دوسروں کے مذہبی یا ذاتی حقوق پر حاوی ہونا چاہئے؟ کہاں حد متعین ہونی چاہئے ؟ کیا یہ فقط کچھ مکاتب کی جانب سے عدم برداشت اور ضرورت سے زیادہ رد عمل ہے؟ وغیرہ

موضوع کے حق میں دلائل دیتے ہوئے لندن سکول آف اکنامکس کی ریسرچ فیلو محترمہ ہیلری سٹافر نے اپنے ابتدائی کلمات میں چند اہم نکات بیان کئے - آزادی اظہارِ رائے کے حوالے سے انہوں نے امریکی موقف بیان کیااور اسکے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کیلئے سرگرم چند اہم عوامل پر روشنی ڈالی جو آزادی اظہار رائے کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں - انہوں نے کہا کہ آج دنیا میںایک آزادی اظہار ِ رائے کہیں بھی بغیر قدغن کے مکمل طور پر میسر نہیں ہے اور اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے ذہن میں تبدیلی اور سوچ میں ارتقاء اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ ہمارے تعصبات کو آزمایا نہ جائے اور اُکسایا نہ جائے - محترمہ ہیلری سٹافر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اکثرعوام اس چیز کا انتخاب کرتی ہے کہ حکومت یا مذہبی رہنمائوں کی جانب سے انہیں بتایا جائے کہ وہ کیسے سوچیں یا محسوس کریں،اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا کرنے کا اختیار رکھنے والوں کے اپنے مفادات ایسا کرنے میں پوشیدہ ہوں - محترمہ ہیلری سٹافر نے یہ بھی واضح کیا کہ انکا موقف یہ نہیں ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے غلط نتائج مرتب نہیں ہوسکتے ، لیکن اس پر لگائی جانے والی قدغن کو اس کے ممکنہ نتائج کے مطابق ہو نا چاہئے- چارلی ہیبڈو کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ اسے ذاتی سطح پر توہین سمجھتی ہیں ، لیکن آزادی اظہارِ رائے کی علمبردار ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس معاملے کا ایک ہی حل نکالا، کہ اس میگیزین کو نہ خریدا جائے اور اسکی ویب سائیٹ وزٹ نہ کی جائے-

موضوع کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر ڈاکٹر جیمسن ڈبلیو ڈوئیگ نے کہا کہ آزدی اظہارِ رائے پر سنسرشپ کی نشاندہی ہونی چاہئے - آزادی اظہارکے ممکنہ غلط استعمال کی صورت میں امریکی قوانین میں سزائیں موجود ہیں - انہوں نے کہا کہ پہلی آئینی ترمیم کی امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے وضاحت کے نتیجے میں’’توہین کے حق ‘‘کو آئینی تحفظ حاصل ہو گیا ہے - ڈاکٹر جیمسن ڈبلیوڈوئیگ نے 1969کے Bredenburg v Ohioکیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں توہین کو قانونی طور پر قابل قبول قراردیا گیا جب تک کہ اس سے متعلقہ شخص یا گروہ کے خلاف براہِ راست نقصان کا خطرہ نہ ابھارا گیا ہواور ایسا عمل بہت حد تک ممکن ہو- اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی افریقی امریکی شخص کے صحن میں صلیب کو جلانا، افریقی امریکی لوگوں کے کارٹون چپکانا، کالج طلباء کے دروازوں پر نیگرو لکھنااور فحش مواد کی اشاعت ، ان سب اقدامات کو آزادی اظہار رائے کے نام پر تحفظ حاصل ہے - توہین آمیز کلمات کی اجازت دینے سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کے کچھ افراد یہ سمجھیں کہ امتیاز برتنے کا پیغام دیا جا رہا ہے اور اس سے اقلیتی گروہوں کے خلاف تشددد اور انتشار کی فضا پیدا ہوسکتی ہے- انہوں نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ امریکی معیار Brandunburgاور کنیڈین معیار Brian Dicksonکو استعمال کرتے ہوئے ، چارلی ہیبڈو کے خاکوں کو نفرت انگیز اورغیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے-

 آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر برائن کلگ نے مہمانِ خصوصی کے طور پر حصہ لیتے ہوئے اظہارِ خیال کیا- انہوں نے معاشرے میں معیارِ زندگی کی اہمیت پر زور دیا- انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایسا معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں جو ان اصولوں پر مبنی ہو کہ ہر ایک شخص کو عزت اور برابری ملے- اسی لئے وہ برابری کے اصول کے مطابق آزادی اظہارِ رائے پر یقین رکھتے ہیں جب کہ توہین کے حق پر نہیں- ڈاکٹر برائن کلگ نے مزید کہا کہ جس طرح ہم جھوٹ، دھوکہ بازی، کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور بے حسی کو حق نہیں سمجھتے ، یہی اصول کسی کی توہین کرنے کے متعلق بھی لاگو ہوتا ہے- ڈاکٹر برائن کلگ نے ’’حقِّ ہتک‘‘ کے حوالے سے کہا کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا یہ کسی قسم کا ’’حق‘‘ ہے ؟ کیا کسی بھی جگہ اِس کو انسانی حقوق میں شمار کیا گیا ہے ؟ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائیٹس (UDHR) اَقوامِ مُتحدّہ کے دیگر کنونشنز اور چارٹرز میں کسی بھی جگہ ہتک یا توہین کرنے کو اِنسانی حق تسلیم نہیں کیا گیا - اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائیٹس چارٹر کا پری امبل اس بات کو یقینی بنانے پہ زور دیتا ہے کہ ’’ انسانی کنبے کے درمیان انسانیّت کا پیدائشی وقار بہر صورت یقینی ہو ‘‘ - اس کے ساتھ ہی اسی ڈاکیومنٹ کا آرٹیکل نمبر ایک کہتا ہے کہ ’’تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ جذبے کو قائم رکھیں گے ‘‘ - تو یو این چارٹر کے ان دونوں حوالوں سے عالمی قوانین و ضوابط کے تحت حقِّ ہتک کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا - ڈاکٹر کلگ نے مزید کہا کہ اکثر اوقات قانون ہمیں جھوٹ بولنے، دھوکہ دینے ، کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے ، بے حس اور سنگ دل ہونے کی اجازت دیتا ہے اور اس کو ایسا ہی ہوناچاہئے - لیکن کیا ہم جھوٹ ، دھوکہ دہی ، فریب کاری اور بے حس ہونے کے حق کی توثیق کرسکتے ہیں؟ نہیں! کیونکہ یہ توثیق حقوق کی آواز کو بے قدر کردی گی - توہین کے حق پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے - (یعنی اس کو کسی کا حق ماننے کی توثیق نہیں کی جا سکتی- )

شکاگو یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر جیفری آر سٹون نے مہمانِ خاص کے طور پر حصہ لیتے ہوئے کہا کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ نفرت انگیز کلمات (کم از کم وہ جن کی جانب ڈاکٹر ڈوئیگ نے اشارہ کیا ہے) "واضح اور موجودــخطرات" کے ٹیسٹ پر پورا اُترتے ہیں- چنانچہ آزادی اظہارِ رائے کے حق کو قائم رکھتے ہوئے نفرت انگیز کلمات پر سزا کی اجازت کی صرف ایک وجہ ہے کہ اگر کوئی وثوق کے ساتھ یہ دلیل دے سکے کہ ایسے خیالات حقیقتاً "گھٹیا (low value) " ہیں-

ڈیبیٹ کا درمیانی حصہ              ۱۲ تا ۲۰ مئی ۲۰۱۵ء

ماڈریٹر بیرسٹر عاطف میاں نے ڈیبیٹ کے ابتدائی حصہ میں دونوں جانب سے دیئے گئے دلائل اور مہمانانِ خاص کی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا- انہوں نے گرلانڈ، ٹیکساس میں ہونے والے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات سے زیرِ بحث موضوع کی اہمیت واضح ہوتی ہے- انہوں نے اس وقت تک کی ووٹنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ مجموعی طور پر لوگ اس موضوع کی مخالفت میں ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں ووٹنگ سے آنے والے ردِّ عمل سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ آزادیٔ اِظہار کے نام پر کسی کو کسی کی توہین کا حق نہیں پہنچتا - انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈیبیٹ کے اگلے مرحلہ میں شرکاء کی جانب سے اپنے موقف کی وضاحت کیلئے مزید دلائل پیش کئے جائیں گے-

ڈیبیٹ کے درمیانی حصہ میں محترمہ ہیلری سٹافر نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ توہین کے حق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ توہین کرنا ذمہ داری بن جاتی ہے اور حقیقت میں اگر کسی کو یہ آزادی میسر ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ لازمی توہین کر ے - انہوں نے کہا عین ممکن ہے کہ سخت اور توہین آمیز بات کرنے والے ہی سچائی بیان کر رہے ہوں اور معاشرے کو اسکی دقیانوسی سوچ سے آزادی دلا رہے ہوں اور ایسی آوازوں کو دبا دینے سے ایمانداری کا گلا بھی گھونٹنا ہو سکتا ہے- انہوں نے واضح کیا کہ کسی شخص یا اقلیتی گروہ کی توہین کے پیمانہ سے آزادی اظہارِ رائے کی حدود متعین نہیں کی جا سکتیں- انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ توہین آمیز کلمات اور نفرت انگیز کلمات میں فرق ہے- نفرت انگیز کلمات لوگوں کو کسی کے خلاف اکسا کر حقیقتاً نقصان کر سکتے ہیں جبکہ توہین آمیز صرف آپ کے جذبات مجروح کرتی ہے جسے آسانی سے برداشت کیا جا سکتا ہے-

ڈاکٹر جیمسن ڈبلیو ڈوئیگ نے محترمہ ہیلری سٹافر کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت کے قوانین کسی بھی شخص کو جرم ثابت کرنے کیلئے سچائی بیان کرنے کی اجازت دیتے ہیں - انہوں نے کہا کہ کسی افریقی امریکی کے گھر کے قریب صلیب جلانے پر سزا ملنی چاہئے - انہوں نے امریکہ کے ایک اور کیس کا حوالہ دیا جس میں خاوند کو اپنی بیوی کو بدنام کرنے پر سزا ملی حالانکہ خاوند کا کہنا تھا کہ اس نے ارادتاً ایسا نہیں کیا - ڈاکٹر جیمسن ڈبلیو ڈوئیگ نے Pamela Geller اور اس کے ساتھیوں کی مذمت کی اور بتایا کہ نیویارک ٹائمز نے ان کے اقدامات کو مسلمانوں کے خلاف ہٹ دھرمی اور نفرت انگیزی پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ ان سے شدت پسندوں کو مزید تقویت ملے گی- چنانچہ انہوں نے پہلی ترمیم کے تحت ایسے لوگوں کو تحفظ ملنے کی مخالفت کی جو کئی ملین سچے مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں جبکہ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- کینیڈا میں موجود آزادی اظہارِ رائے کے قوانین کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز اظہارِ رائے پر پابندی لگاتے ہوئے ہمیں شخصی وقار اور ثقافتی اور طبقاتی شناخت کو اہمیت دینی چاہئے-

محترمہ لارن بوتھ نے مہمانِ خاص کے طور پر ڈیبیٹ میں حصہ لیتے ہوئے اپنے اور اپنے بچوں کا معاشرے میں نفرت انگیز رویوں کا سامنا کئے جانے کے واقعات بیان کئے اور کہا کہ آخر کیوں ہمارے معاشرے میں کسی کو ٹھیس پہنچانے، کسی شخص، عقیدہ یا انتہائی چاہے جانے والی رُوحانی شخصیت کی توہین کرنے کا تحفظ کیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ذلت آمیز مواد پر مبنی میگزین کو نہ خریدنے اور ایسے خیالات کا اظہار کرنے والے چینل تبدیل کر لینا اس کے اثرات سے نمٹنے کیلئے کافی نہیں ہے - انہوں نے یہ پوائنٹ بھی اٹھایا کہ اس قسم کے توہین آمیز مواد سے لوگوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ بھی اس قسم کے اقدامات دوہرا سکتے ہیں- انہوں نے کہا کہ توہین، آزادی اظہار رائے کا دفاع نہیں ہے بلکہ یہ شخصی وقار کا پاس رکھنے میں ناکامی ہے -

ڈیبیٹ کا اختتامی حصہ               ۲۰ تا ۲۴ مئی ۲۰۱۵ء

 ماڈریٹر عاطف میاں نے اس وقت تک کے شرکاء کے دلائل کا خلاصہ پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ بتایا کہ ابتدا سے ہی ووٹنگ کی شرح سوال کی مخالفت کی جانب زیادہ رہی ہے-

اپنے اختتامی کلمات میں محترمہ ہیلری سٹافر نے مسلمانوں کے حوالہ سے کہا کہ شاندار ماضی اور تنوع رکھنے والے مسلمان چند جاہلوں کی جانب سے کی جانے والی حرکتوں کے سامنے اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں - انہوں نے کہا کہ ردعمل ظاہر نہ کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن اگر ردعمل نہ دیا جائے تو ایسی حرکات کا اثر وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود ہی ختم ہو جائے گا - انہوں نے مختلف نظریات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سات ارب کی آبادی میں یہ ناممکن ہے کہ مختلف نظریات کے لوگ کبھی بھی توہین کا سامنا نہ کریں - انہوں نے کہا کہ حکومتیں ہمیشہ چاہتی ہیں کہ ان پر تنقید نہ ہو اور اگر توہین کے قوانین کے پیچھے چھپنے کا موقع ملے تو وہ اسے ضرور استعمال کریں گی - آزادی اظہار رائے پر کسی بھی قسم کی پابندی لازمی طور پر اس کے ممکنہ نقصانات کے مطابق ہونی چاہئے - آخر میں انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کے بنیادی حق کو ختم نہیں کرنا چاہئے، تعصب اور بد نیتی پر مبنی خیا لات وقت کے ساتھ خود ہی دم توڑ جاتے ہیں اور ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے-

 اپنے اختتامی خیالات میں ڈاکٹر جیمسن ڈبلیو ڈوئیگ نے آزادی اظہارِ رائے کے حوالے سے ڈیبیٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ توہین آمیز اورعمومی طور پر نفرت انگیز کلمات کے مسائل سے متعلق خیالات کا شاندار تبادلہ تھا -انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مسلمانوں اور کالوں کی اقلیت کو باقی اکثریت کے توہین آمیز رویہ سے بچانا چاہئے تا کہ انہیں برابر کے حقوق میسر آ سکیں - انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ ممالک کے قوانین اتنے سخت ہیں جو کسی کی آزادی مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں اور وہ ان کے بھی خلاف ہیں - انہوں نے کہا کہ وہ اس حق میں ہیں کہ توہین آمیز کلمات کیلئے ضابطے مقرر کئے جائیں جس سے معاشرے میں تعفن پھیلنے سے روکا جا سکے - انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اپریل میں ایک ڈچ فٹبال گیم کے دوران نازیوں کے نعرے لگانے والوں پر جرمانہ ہونا چاہئے تھا اور مستقبل میںایسا کرنے والوں کیلئے مزید بھاری جرمانہ ہونا چاہئے- انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں حقِّ توہین کو بہر صورت ختم ہونا چاہئے تاکہ انسانوں کی وسیع دُنیا میں تنازعات کو کم کر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے میں مددگار ماحول بنایا جاسکے -

ڈیبیٹ سے متعلق تبصرے:

دنیا کے محتلف حصوں سے لوگوں نے اس ڈیبیٹ پر اپنے خیالات کا ااظہار کیا جن میں سے چند کا انتخاب کیا گیا ہے -

جیس بورینگ(Jes Broeng)

---ہر شخص کو پالیسی، مذہبی عقائد، ملکی پالیسیوں اور اقدامات ، اقوام، مذاہب اور ثقافت وغیرہ سے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے اور وہ اس اختلاف کے لئے کئی وجوہات دے سکتا ہے کہ اسے اختلاف کیوں ہے ؟ لیکن کسی تک اپنی بات پہنچانے کے لئے توہین کرنے کی ضرورت نہیں ہے-

سمیرا خالد(Sumaira Khalid)

---اگر محض کسی کے اظہار ِ رائے سے بڑے پیمانے پر افراتفری ، نفاق، فساد اور مذہبی شدت پسندی کو تقویت ملے اور مذہبی اور نسلی تفرقات کو تقویت ملے تو ایسے اظہار کو کسی بھی قانون یا کنونشن کے ذریعے تحفظ نہیں ملنا چاہئے-

این خان(N. Khan)

---کوئی بھی شخص سیاست ، حکومتی پالیسیوں، ذاتی احساسات یا کسی قانون کے خلاف یا حق میں اپنی رائے دے سکتا ہے اور آواز اٹھا سکتا ہے- البتہ اس قانون کی بھی کچھ حدود ہیں اور کسی کو بھی بغیر ثبوت کے ہتک عزت، کسی ایک فرد یا گروہ کو تکلیف دینا ، کسی کے عقیدہ کی توہین کرنا وغیرہ کا اختیار حاصل نہیں -

یاسر خان(Yasir Khan)

فرانس، جہاں پر چند افراد نے نفرت پھیلائی ، وہاں نفرت انگیز تقریراُس صورت میں غیر قانونی ہے جب اس سے تشدد کو فروغ ملے - (چارلی ہیبڈوکے ) حملوں کے بعد سات ملین شماروں کی اشاعت نے عین ایسا ہی کیا اور مسلم دنیا میں پر تشدد مظاہروں کو جنم دیا (جو کہ خود فرانس کے اپنے قوانین کے خلاف تھا ) - یہی ہیں دوہرے معیارات---

محمد علی شہباز(Muhammad Ali Shahbaz)

---ہم ایک گلوبل ورلڈمیں رہ رہے ہیں جہاں توضیحات کے طور پرکسی کو توہین کی اجازت دینا اور جارحیت پر اکسانے اور نفرت کا احساس پیدا کرنے کی چھوٹ دینا حقیقی طور پر تہذیبوں کے مابین تصادم کا باعث بن سکتا ہے-

عرفانہ بروین محمد اسحاق(Irfana Barveen Mohamed Ishak)

---کسی بھی ملک میں قوانین کو معاشرے کو نقصان سے بچانے کے لئے اہم کردار ادا کرنا چاہئے اگرچہ خطا کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے - تاہم قوانین کو آزادی اظہارِ رائے کے نام پر توہین کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے-

ابو طاہر الحقیقی (Abu Tahir Al-Haqeeqi)

---اظہارِ رائے کی آزادی کا نظریہ اصولی طور پر ناقص ہے جبکہ عملی طور پر سیاسی بن چکا ہے- میری رائے میں آزادی اظہار پر لازمی طور کچھ بندشیں ہونی چاہئیں وگرنہ یہ معاشرے کی توڑ پھوڑ کا باعث بنے گا-

اظہارِ رائے کی آزادی=فعل کی آزادی =حملہ کرنے یا مارنے کی آزادی=معاشرے اور انسانیت کی تباہی

واجد علی(Wajid Ali)

---معاشروں میں قوانین اور قاعدے مشکلات کو کم کرنے اور قصور وار کو عبرت دلانے کے لئے بنائے جاتے ہیں - وہ نشانہ بننے یا حملہ ہونے پر ردِ عمل دینے کے مقصد کے ساتھ نہیں بنائے جاتے--- آزادی اظہارِ رائے کے متعلق قوانین اتفاق رائے کے ساتھ بنائے اور لاگو کئے جانے چاہئیں تاکہ معاشرے میں بے چینی سے بچا جائے اورمعاشرے اور دنیا میں باہمی ہم آہنگی اور امن و امان کی فضاء قائم کی جا سکے-

سوزک سیجو(Susic Sejo)

آزادی اظہارِ رائے کی حدود ہونی چاہئیں- جب کسی ایک کی آزادی، کسی دوسرے کی آزادی کے لئے خطرہ بن جائے یا اسے نقصان پہنچائے یا اسے کم کر دے تو یہ آزادی نہیں کہلائی جاسکتی بلکہ یہ توہین کے زمرے میں آتی ہے یا اس سے بھی کوئی بد تر چیز--- اسی لئے ہنگامی بنیادوں پر توہین کے خلاف قوانین کو نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے---

عدنا ن ایچ ستی(Adnan H Satti)

---میں یہ تجویز کروں گا کہ ایک معاشرے کے افراد اور ساتھ ساتھ مختلف نظریات رکھنے والے دوسرے معاشروں کے مابین امن و امان اورباہمی آہنگی پیدا کرنے کے لئے ہمیں خود عمل کرنا ہو گا اور دوسروں کو تعلیم دینا ہو گی کہ اپنے (نقطہ نظر کا) اظہار پُر ادب طریقے سے کیا جائے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے ---

ڈینیئلا پی(Daniella P.)

---کوئی بھی موقف کسی ایک گروہ کے لئے اظہارِ آزادی اور دوسرے کے لئے توہین ہوسکتا ہے-یہ سب آپ پہ منحصر ہے کی آپ کس گروہ میں شامل ہیں اور یہ کہ آپ کس جانب کے دلائل سننا چاہتے ہیں اور کن کو آپ برداشت نہیں کر سکتے--- اگرآزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگادی جائے تو یہ کبھی بھی’’آزادی‘‘ نہیں کہلائے گی---

کوواکس فرینزی نیومی(Kovacs-Ferenczi Noemi)

---خالصتاً کتابی بات کرتے ہوئے ،توہین ، آزادی اظہارِ رائے کی تلخ مگر ضروری ضمنی پیداوار ہے ٹھیک اسی طرح جیسے توہین، ایمانداری کاتلخ مگر ناقابلِ فراموش پہلو ہے --- میرا ماننا ہے کہ آزادی اظہارِ رائے کی کھلی اور قطعی اجازت ہونی چاہئے- اس سے پیدا شدہ مسائل سے بعد میں نمٹا جاسکتا ہے- اس آزادی کو یقینی بنانے کے لئے ریاست کو اچھی تعلیم، خاطر خواہ قوانین اور عوامی مباحثے اور نفرت انگیز کلمات کی تعریف ذرا واضح کر کے مہیا کرنی چاہئے---

نتیجہ:

۲۴ مئی ۲۰۱۵ء کو ماڈریٹر نے ڈیبیٹ کے نتائج کا اعلان کیا- مجموعی طور پر19فیصد لوگوں نے ڈیبیٹ کے موضوع کے حق میں جبکہ 81فیصد لوگوں نے مخالفت میں ووٹ دیا اور اس طرح موضوع کی مخالفت میں دلائل دینے والے پروفیسر ڈاکٹر جیمسن ڈبلیو ڈوئیگ نے کامیابی حاصل کی - اس کے ساتھ ساتھ موضوع کے حق میں دلائل دینے والی محترمہ ہیلری سٹافر کے دلائل اور موضوع کے حق میں ووٹ دینے والے 19 فیصد لوگوں نے بھی اپنی رائے کا کھُل کر اِظہار کیا - یہ ڈیبیٹ چونکہ آن لائن تھی اِس میں دُنیا کے ہر رنگ و نسل ، ہر عقیدے و مذہب ، ہر تہذیب و ثقافت کے لوگوں نے ستر ممالک سے بھر پور حصہ لیا جس کا 81% برتری کے ساتھ یہ نتیجہ سامنے آیا کہ اِظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر توہین کا حق یا ہتک کی آزادی کسی صُورت نہیں دی جاسکتی ، نیز یہ بھی ، کہ آزادیٔ اِظہار کے نام پر توہین کا حق صرف کسی ایک مذہب کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دُنیا کے چھ برِّ اعظموں میں پھیلے ہوئے انسانوں کو نفرتوں کی سلگتی ہوئی آگ میں جھونکنے کا سبب بن سکتا ہے- بعض شُرکا نے توہین کی روک تھام کیلئے بین الاقوامی سطح پہ قانون سازی اور سزاؤں کے اجرأ کا مُطالبہ بھی کیا تاکہ اِس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی شخص اپنے ذاتی تعصُّبات کو اِظہارِ رائے کی آڑ میں پھیلا کر تہذیبوں کت تصادُم کی راہ ہموار نہ کر سکے - ڈیبیٹ میں دئیے گئے دلائل اور وضاحتوں کی روشنی میں اس موضوع سے متعلقہ بہت سے نئے زاویے سامنے آئے-اسی طرح منطقی دلائل سے قارئین کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور اُمید ہے کہ یہ ڈیبیٹ آنے والے دنوں میں اس موضوع پر کام کرنے والے دنیا بھر کے محققین اور پالیسی سازوں کے لئے ایک اچھی دستاویز ثابت ہو گی-

دونوں طرف کے مقررین کی مکمل گفتگو ، مہمانوں کے اظہارِ خیال اور تبصرے پڑھنے کے لئے 

http://www.themuslimdebate.com/debates/freedom-of-expression/  وزٹ کریں-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر