سکھّ مذہب کے پیروکار ہندوستان کی دو فیصد سے بھی کم آبادی پر مشتمل ہیں لیکن ا نگریزوں کیخلاف آزادی کی جدّوجہدمیںانکی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں- آزادی کی تحریک میں وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کیساتھ تیسرے فریق کے طور پرپیش پیش رہے انکی اس ساری کدّو کاوش کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ اپنے لئے، ہندوؤں اور مسلمانوں کی طرح ایک آزاد وطن، جسے بعد میں انہوں نے ’’خالصتان‘‘ کا نام دیا ،حاصل کرسکیں- آزادی کی تحریک کے دوران ہندو اکثریّت نے سکھّوں کیساتھ قریبی تعلقات بنائے رکھے اوران سے اس تعاون کے بدلے ان سے و عدہ کیا کہ تقسیمِ ہند کے بعد انکے حقوق کا خاص خیال رکھا جائیگا- گاندھی اور نہرو نے متعدد بار سکھّوںکیساتھ اپنے پرخلوص بھائی چارے کا ذکرفخر کیساتھ کیا اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ پنجاب میں سکھّوں کی حکومت سے کسی کو انکار نہیں ہو گا اور ہندوستان کے آئین میں بھی سکھّوں کے مفادات کی مکمل حفاظت کی جائے گی اور انکے حقوق کو خصوصی طور پر مدِّنظر رکھا جائے گا-
آزادی حاصل کرنے کے بعدہندوستانی رہنماؤں نے حسبِ معمول نظریں پھیر لیں اور روایتی ہٹ دھرمی اور وعدہ شکنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکھّوں کی تمام تر خدمات اور تعاون کویکسر فراموش کردیا- انگریزوں نے توسکھّوں کو ہندوؤں سے الگ مذہب کے پیروکار کے طور پر تسلیم کیا تھا لیکن ہندوؤںنے سب سے پہلے انکی علیحدہ قومی شناخت پر ہی کاری ضرب لگائی اور انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے بال ترشوا کر اپنی ظاہری شناخت سے دستبردار ہو جائیں تو انہیں حقوق مل سکتے ہیں جو دوسرے لفظوں میں انکے مذہبی شعائر کا مذاق اڑانے کے برابر تھا- علاوہ ازیںبالادست ہندوؤں نے تمام اخلاقی حدود کی پامالی کرتے ہوئے سکھ مذہب کو ہندومت کی شاخ قرار دے دیا- ہندوستان کے آئین میں انہیں’’لمبے بالوں والے ہندو‘‘ قرار دے کر انہیں اپنے مذہب میں ضم کردیاجسکی وجہ سے انکے الگ وطن کے مطالبے کو بھی غلط قرار دیدیا گیا-سکھّوںکو ،جنہوں نے آزادی کی تحریک میں ہندوؤں کے شانہ بشانہ خاطر خواہ قربانیاں دیں تھیں اور جن کے متعلق ہندوؤں کو بہت اچھی طرح معلوم تھا کہ ’’وہ اپنے حقوق کی حفاظت کرنا بخوبی جانتے ہیں‘‘ آہستہ آہستہ دیوار کیساتھ لگانے کی کوششیں کی جانے لگیں اور وہ سکھ برادری جنہیں تقسیمِ ہندسے پہلے خود نہرو اورگاندھی اپنا مخلص دوست کہا کرتے تھے اب زیرِ عتاب آنے لگی- انہیں ہندوستان کا ’’مجرم اورلاقانونیت کا حامل گروہ‘‘قرار دیکر یہ سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا کہ ’’ـانہیںاب معلوم ہوجانا چاہیے کہ کون آقا ہے اور کون غلام یا کون حاکم ہے اور کون عوام-‘‘
بالا دست ہندو اکثریت کی جانب سے اس کھلی وعدہ شکنی نے سکھّوں کی آزادی کی تحریک کو دوسرا جنم دیا-اب انکی جنگ ہندوستان کے خلاف تھی- سکھّوں نے ہندوستان کے1950ء کے اس آئین کو تسلیم نہ کیا جس میں سکھّوں سے کئے گئے تمام وعدوں سے انکارکرتے ہوئے ان کے الگ تہذیبی اور ثقافتی وجود کو مٹانے کی کوشش کی گئی تھی- اسی طرح جب سکھّوں کے مفادات کو یکسر پسِ پشت ڈالتے ہوئے 1966ء میں بھارتی پنجاب کو اس طرح تقسیم کر دیا گیا کہ اس سے سکھّوں کے خالصتان کے تصوّر کو شدید زِک پہنچی تو وہ ایک بار پھر سراپا احتجاج بن گئے- بھارتی حکومت نے بتدریج ایسی استحصالی پالیسیاں اپنائیں جن سے ریاست پنجاب جوکبھی خوشحال ترین ریاستوں میں شمار ہوتی تھی بدحالی کا شکار ہوتی چلی گئی اور کچھ ہی عرصے میں پنجاب کا شمار ہندوستان کی پسماندہ ترین ریاستوں میں ہونے لگا-
ستّر کی دہائی میں سکھّوں کی خالصتان تحریک میں ،جس کا نصب العین بھارتی پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور گجرات او راجھستان کے پنجابی بولنے والے علاقوں پر مشتمل علاقوں میں سکھوں کی آزاد ریاست کا قیام تھا ، تیز ی آتی چلی گئی جسے دبانے کیلئے جگہ جگہ ان کا قتلِ عام کیا گیا-1978ء میں امرتسر اور کانپور میں سکھّوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی- اسّی کی دہائی میں شدّت اختیار کر تی خالصتان تحریک کو پوری ریاستی طاقت سے کچلنے کی ٹھان لی گئی- یہیں سے اس سانحہ کی شروعات ہوتی ہے جسے سکھ ’’سانحۂ گولڈن ٹمپل‘‘ کہتے ہیں- اندرا گاندھی جی کی قیادت میں کانگرسی حکومت نے، جو اَب خالصتان تحریک کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتی تھی، پنجاب بھر میں سکھّوں کو نشانِ عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا- ہندوستان کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے پنجاب میں سکھّوں کے خلاف فوجی آپریشن کا حکم دیا جسے ’’آپریشن بلیو سٹار‘‘ کا نام دیا گیا اور جس کا مرکز سکھّوں کا مقدّس مقام گولڈن ٹمپل تھا-
پچیس مئی 1984ء کو پورے پنجاب میں گولڈن ٹمپل سمیت اہم گُردواروں پر ایک لاکھ فوجیوں کو تعینات کر دیا گیا- یکم جون سے ہزاروں کی تعداد میں سکھ یاتری گُرو اَرجن دیو کا تہوار منانے کیلئے گولڈن ٹمپل جمع ہونا شروع ہو گئے جو تین جون کو منایا جانا تھا اور خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما بھنڈرانوالہ بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے- اس آپریشن کے وقت پنجاب کا دیگر ریاستوں کیساتھ مواصلاتی رابطہ مکمل طور پر کاٹ دیا گیا-فائرنگ شروع ہوئی تو وہاں موجودکئی ہزار سکھ یاتری اس بلا امتیازفائرنگ کی زد میں آگئے- ٹینکوں اور آرمڈگاڑیوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس سے گولڈن ٹمپل کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا - آخر کار6 جون کو بھارتی افواج گولڈن ٹمپل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی-
تین سے چھ جون 1984ء تک پنجاب میں سکھّوں کے خلاف جس انداز میں فوجی آپریشن کیا گیا اور سکھّوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹمپل کے علاوہ ایک سو پچیس دیگر مذہبی مقامات کی جس طرح بے حرمتی کی گئی، ہزاروں معصوم اور بے گناہ سکھّوں کا بے دردی سے قتلِ عام کیا گیا اور سکھّ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی اس کا ذمّہ دار وہ کانگرس کی حکومت کو سمجھتے تھے-اس کے علاوہ اس آپریشن کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کیا گیاتھا جب پورے ہندوستان سے بڑی تعداد میں سکھ نوجوان، بوڑھے، عورتیں اور بچّے’’ گُرو اَرجن دیو‘‘ کی شہادت کا تہوار منانے کی غرض سے گولڈن ٹمپل میں جمع تھے یہی وجہ تھی کہ سکھّوں کا جانی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا تھا-’’آپریشن بلیو سٹار‘‘چونکہ ہندوستان کی اس وقت کی وزیرِ اعظم اندراگاندھی جی کے حکم پر کیا گیا اسلئے انکے خلاف سکھوں میں شدید غم و غصّہ کی لہردوڑ گئی- جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکتیس اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی جی اپنے سکھ باڈی گارڈز ستونت سنگھ اور بینت سنگھ کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں- بینت سنگھ کو تو موقع پر ہی گولی مار دی گئی جبکہ ستونت سنگھ کو 6 جنوری 1989ء کو اسکے ایک اور ساتھی کیہر سنگھ کے ہمراہ تہاڑ جیل میں پھانسی دیدی گئی- اندرا گاندھی کے قتل کے بعد توحکومتی اہلکاروں اور کانگرسی کارکنوں کے ہاتھوں میںسکھّوں کیساتھ زیادتی کا ایک ٹھوس جواز آگیا اور سکھّوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا- 1984ء میں سکھّوں کا پورے ہندوستان میں جس بے دردی کیساتھ قتل کیا گیا اسکی مثال ملنا مشکل ہے - اسکے بعد سے آج تک قتل وغارت گری کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے- ایک محتاط ا ندازے کیمطابق 1984ء سے اب تک 2,50,000 بے گناہ و بے قصور سکھّوں کویا تو قتل کر دیا گیا یا وہ ابھی تک لاپتہ ہیں- اِس طرح کے کئی مقدمات کانگریس کی قائد سونیا گاندھی جی سمیت متعدّد کانگریسی رہنماؤں کیخلاف بین الاقوامی عدالتوں میں چل رہے ہیں -
سکھوّں کے مقدّس اور مذہبی مقام پر حملے اور انکے قتلِ عام کو انتیس سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی وہ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں اور انصاف کے حصول میں مسلسل ناکامی پر سراپا احتجاج ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سکھ برادری آج ،بھارت کی ہردلعزیز وزیرِاعظم اندرا گاندھی جی کے قاتلوں کو اپنا عظیم ترین شہید اور ہیرو مانتی ہے اور ان کی شہادت کے دن کو تہوار کے طور پر مناتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کراپنے مقدّس ترین مقام گولڈن ٹمپل کی بے حُرمتی کرنیوالے عناصر سے قرار واقعی بدلہ لے لیا- اب تو سکھّ اس بات کے بھی رودار نظر نہیں آتے کہ وہ پندرہ اگست کے دن کو ہندوستان کی آزادی کا دن منائیں کیونکہ سکھ تو آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں- آج بھی انکے ساتھ وہی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے جو انگریز سرکارکیاکرتی تھی- آج بھی وہ بھارت کے دوسرے درجے کے شہری ہیں - آج بھی وہ اِن بنیادی حقوق سے محروم ہیں جنکے حصول کیلئے انہوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی اور ہزاروں جانوں کا نذرانہ دیا تھا- آج بھی انہیں ہندوستان کا وفادارتسلیم نہیںکیا جاتا - آج بھی ہندوستان کے فلمی میڈیا میں سکھوں کو بیوقوف اور مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور اُن کی چاردیواریوں کے متعلق ایک مخصوص جنسی نظریہ قائم کرنے کی انگریزانہ ذِہنیت کے مطابق کوشش کی جاتی ہے -آج بھی انکی تذلیل کی جاتی ہے- آج بھی سکھوں کے اس قتلِ عام کے مجُرم آزاد پھر رہے ہیں- سکھّوں کے حقوق پر جس دیدہ دلیری اور مکّاری کیساتھ ڈاکہ ڈالا گیااور ان کیساتھ جس طرح وعدہ خلافی کی گئی ہے وہ سکھّوں کیلئے کسی صورت قابلِ قبول نہیں- دن بدن فروغ پاتی خالصتان تحریک کے متعلق آج بھی وہ پُرامید ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب انہیں حقیقی آزادی نصیب ہو گی اور وہ اپنی مرضی اور عزّت کیساتھ جینے کا حق اور اپنی علیحدہ شناخت کو دوبارہ حاصل کر لیں گے-