بسم اللہ الرحمن الرحیم ! صدرِ مجلس جناب سینیٹر راجہ ظفر الحق صاحب ، محترم جنرل مرزا اسلم بیگ صاحب، لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم صاحب، جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب اور دیگر مہمانانِ گرامی ، السلام علیکم:
یہ اَمر باعث مسرت ہے کہ جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی خانوادہ حضرت سلطان باھُوؒ نے مسلم انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقد کی جانے والی گول میز کانفرنس میں بلوچستان کی صورتحال پر سیر حاصل گفتگو کی ہے- مسلم انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ریسرچر نے تاریخی حقائق کے حوالے سے بلوچستان کے بہت سے سیاسی و سماجی گوشوں سے پردہ اُٹھایا ہے- دراصل اس وقت بلوچستان میں گراس روٹ لیول پر عوام الناس کو اندرونی و بیرونی دہشت گردی کے حوالے سے بہت سے مسائل در پیش ہیںلیکن یا تو حکومتِ وقت بلوچستان کے اِن مسائل کو گیرائی و گہرائی سے سمجھ نہیں پا رہی ہے یا پھر ریاستی ادارے صوبائی سطح پر بلوچستان کے مسائل پر ایک صفحے پر نہیں ہیں - چنانچہ یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ بلوچستان میں بات صرف اندرونی خلفشار کی نہیں ہے بلکہ بیرونی عناصر اندرونی خلفشار کو ہوا دینے میں پیش پیش ہیں- مجھے یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ پاکستان کے آزمائے ہوئے دوست ملک چین کی جانب سے گوادر پورٹ کی ترقی بلوچ عوام کی ترقی کیلئے نئے راستے کھولے گی جو پاکستان کی دشمن طاقتوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے- چنانچہ بیرونی مداخلت کے سبب بلوچستان کے انتظامی اور سیاسی معاملات بہت زیادہ اُلجھے ہوئے نظر آتے ہیں اور بظاہر بیرونی مداخلت کے سبب بلوچستان کے کچھ علاقوں میں حکومتی رِٹ متأثر ہوئی ہے جس کی وجوہات جاننے کیلئے ہمارے غورو فکر کرنے والے اداروں کو قومی یکجہتی کو ممکن بنانے کیلئے بہت زیادہ سوچ و بچار و عملی اقدامات کی ضرورت ہے- یہ درست ہے کہ نئی سیاسی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنے کی بات کی گئی ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے بھی مسائل کے سیاسی حل کیلئے ابتدا کی گئی ہے لیکن جب تک مقتدر سیاسی حلقوں کی جانب سے اِس سیاسی پروسس کو آگے نہیں بڑھایا جاتا تو اس political initiative کا ممکنہ فائدہ نہیں ہوگا- ایک بات ضرور ہے کہ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں متوسط طبقے کی نمائندگی کرنے والی نیشنلسٹ پارٹی کی ایک اہم شخصیت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں- متوسط طبقے سے متعلقہ ایک شخصیت کا اقتدار میں آنا ایک خوش آئند بات ہے- چنانچہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی آنے کے بعد ایسی متحارب مقامی قوتیں جو بلوچستان میں بیرونی حوصلہ افزائی پر دہشتگردی یا تخریب کاری کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتی ہیں کو اپنے سوچ کے دائروں کو بدلنا ہوگا کیونکہ بلوچستان میں جمہوریت کی بحالی کے نتیجے میں جو ایک سیاسی راستہ ملا ہے تو جب بلوچستان میں جمہوری پروسس آگے بڑھے گا تو متحارب گروپس بھی ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے بجائے بلوچستان کی ترقی کیلئے عوامی حمایت سے اپنی حکومتیں قائم کر سکتے ہیں-
اندریں حالات ،چونکہ آئینی ترامیم کے بعد صوبائی خود مختاری دی جاچکی ہے اور لاء اینڈ آرڈرکے مسائل بھی مکمل طور پر صوبوں کے اختیارات میں ہیں تو ناراض سیاسی گروپوں کو بیرونی ڈکٹیشن لینے کے بجائے اپنے آپ کو جمہوری پروسس میں شامل کرنا چاہئے- جہاں تک دہشت گردی کے حالیہ واقعات خاص طور پر زیارت ریزیڈنسی پردہشت گردوں کے حملہ کا تعلق ہے اور جس کی ذمہ داری راء اور موسادکی حمایت یافتہ نے قبول کی ہے، تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں ؟ حقیقتاً ، ایسے عناصر کو منظم کرنے میں بیرونی مفادات کی حامل ایجنسیوں بالخصوص بھارتی راء اور اسرئیلی موساد کا ہاتھ ہے اور اِنہیں حساس اسلحہ اور فنڈز بھی اِنہی وطن دشمن ایجنسیوں کی جانب سے مہیا کئے جا رہے ہیں- بھارت اور اسرائیل ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں جبکہ یروشلم میں میر آزاد خان بلوچ کی قیادت میں بلوچستان کی نام نہاد آزاد حکومت کا خارجہ امور کا دفتر کھولا گیا ہے-چنانچہ بیرونی مفادات کی حوصلہ افزائی پر دہشت گرد عناصر ریاستی انتظامی مشنری اور عوامی بہبود کی انسٹالیشن کو نشانہ بنا رہے ہیں لہذا اِس کا منفی اثر بلوچستان کی ایڈمنسٹریشن پر ضرور منطبق ہوا ہے اور نتیجتاً، لاء اینڈ آرڈر کے مسائل سے بخوبی نمٹنے کیلئے انتظامی مشینری ضعف کا شکار نظر آتی ہے- گو کہ ملکی آئین و قانون کے تحت صوبائی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لاء اینڈ آرڈر کی بدترین صورتحال کے سبب بالخصوص فرقہ وارانہ دہشت گردی جس میں متحارب گروپس بیدردی سے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں ، تو حالات کی بہتری کیلئے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ فوج کو طلب کریں- فی الحقیقت دہشت گردوں کے پاس حساس اسلحہ موجود ہے اور وہ جہاں چاہیں کاروائی کرتے ہیں تو ایسے میں فوج ہی ایک ایسا منظم ادارہ ہے جو دہشت گردی کے کل پرزوں کو کنٹرول میں لا سکتا ہے (جس کا مظاہرہ اب آپریشن ضرب عضب میں بھی دیکھنے میں آیا ہے)- دہشت گرد عناصر کے اندرون ملک سرپرستوں کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ جب آپ جمہوری پروسس میں شامل نہیں ہوتے اور دہشت گردی کی راہ اپناتے ہیں تو پھر آپ جمہوری روایات اور انسانی حقوق کا تقاضا کیونکر کر سکتے ہیں-
اِس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ برٹش انڈیا کے زمانے میں بلوچستان دو واضح حصوں میں منقسم تھا- برٹش بلوچستان ڈیورنڈ لائن کیساتھ یعنی موجودہ پاکستان افغانستان بارڈر سے منسلک علاقے جنہیں لسبیلہ کے راستے کراچی کی بندرگاہ تک رسائی حاصل تھی کو خصوصی طور پر برطانوی حکومت ہند کی عملداری میں شامل کیا گیا تھا لیکن برٹش بلوچستان میں ریاست قلات و خاران و مکران وغیرہ شامل نہیں تھیں در حقیقت ڈیورڈلائن کیساتھ ساتھ یہ اِسٹریٹیجک علاقہ اکثریتی پشتون بیلٹ پر مشتمل تھا جبکہ پشتون آبادی کیساتھ ساتھ لسبیلہ تک کے علاقے میں موجود مری، بگتی اور مینگل قبائل وغیرہ ، برٹش بلوچستان میں براہِ راست مرکزی برطانوی حکومت ہند کے ماتحت تھے جس کے انتظامی امور قبائلی شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپلٹی کے ذریعے چلائے جاتے تھے - چنانچہ جب تین جون 1947 میں برطانوی وائسرائے کی جانب سے برٹش بلوچستان کی پاکستان یا بھارت میں شمولیت کیلئے ریفرنڈم کی بات آئی تو اس میں بھی بڑی وضاحت سے کہا گیا کہ اس کا فیصلہ شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپلٹی پر مشتمل انتخابی کالج کریگا جبکہ بلوچستان کی ریاستیں قلات، خاران اور مکران وغیرہ ہندوستان میں برطانوی حکومت ہند کی زیر حفاظت پانچ سو ساٹھ ریاستوں میں شامل تھیں -ِ ریاست قلات بلوچستان کی سب سے بڑی ریاست تھی جس کے وزیراعظم کا تعلق برطانوی ایڈمنسٹریٹو سروس سے تھا- چنانچہ تھوڑی بہت جمہوریت برٹش بلوچستان میں ہی نظر آتی تھی جہاں تقریباً 75 فیصد آبادی پشتون کاکڑ قبائل اور دیگر پشتونوں کی تھی جبکہ25 فیصد آبادی کا تعلق مری،بگٹی اور مینگل وغیرہ بلوچ قبائل سے تھا- جب برٹش بلوچستان کا پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کا مرحلہ درپیش آیا تو برطانوی حکومت ہند کے نمائندے کی موجودگی میں ریفرنڈم ہوا جس کی صدارت متعلقہ رولز کے تحت انگریز پی-اے ٹو گورنر جنرل مسٹر جیفرے نے کی جبکہ شاہی جرگے کی نمائندگی نواب محمد خان جوگیزئی نے کی جو اس وقت شاہی قبائلی جرگے کے وائس چیئرمین تھے جبکہ کوئٹہ میونسپلٹی کے تمام اراکین موجود تھے - اِس ریفرنڈم کے موقع پر مری، بگتی، مینگل قبائل کے نمائندوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا - ریفرنڈم کے وقت بلوچ سرداروں نے مسٹر جیفرے سے سوال کیا کہ کیا یہ ریفرنڈم ریاست قلات میں شامل ہونے کے حوالے سے ہے جس پر ریفرنڈم کی صدارت کرنے والے انگریز پی اے ٹو گورنر جنرل جیفرے صاحب نے لارڈ مائونٹ بیٹن کا حکم نامہ پڑھ کر سنایاکہ یہ ریفرنڈم وائسرے کے حکم سے برٹش بلوچستان کے پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کا ہے ، ریاست قلات کا اِس ریفرنڈم سے کوئی تعلق نہیں ہے -اُس پر بلوچ سرداروں نے کہا کہ اگر یہ قلات کے حوالے سے نہیں ہے تو ہم ہندو کے ساتھ شامل نہیں ہوں گے بلکہ پاکستان میں شامل ہونے کا ووٹ دیتے ہیں-چنانچہ اِس ریفرنڈم میں متفقہ رائے سے برٹش بلوچستان نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا-
دریں اثنا جب چند برس قبل دہشت گردی کے واقعہ میں زیارت ریز یڈنسی کو اڑایا گیا تو دہشت گرد عناصر اور بھارت کی جانب سے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ بلوچستان قائد اعظم کا نہیں ہے بلکہ یہ نہرو اور گاندھی کا بلوچستان ہے- اگر یہ نہرو اور گاندھی کا بلوچستان ہوتا تو دہشت گردی کے اِس بڑے واقعہ کی مخالفت میں سب سے بڑا جلوس زیارت اور کوئٹہ میں نہ نکالا جاتا- چنانچہ زیارت ریزیڈنسی پر دہشت گردی کے خلاف بلوچ عوام کا ردعمل یہی ظاہر کرتا ہے کہ بلوچ عوام کی قائد اعظم اور پاکستان کیساتھ عقیدت کو دہشتگردی کے واقعات سے ختم نہیں کیا جا سکتا-جہاں تک قلات، مکران ، خاران اور لسبیلہ کی ریاستوں کا سوال ہے تو قائد اعظم نے ریاست قلات کو موقع دیا کہ وہ حالات کے مطابق اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کریں- اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خان آف قلات قائداعظم کے ذاتی دوست بھی تھے اور برٹش انڈیا کے زمانے میں قائدِ اعظم خان آف قلات کے وکیل بھی رہے - قیام پاکستان کے بعد قلات کے علاوہ دیگر بلوچ ریاستوں کے نوابین تواتر سے قائداعظم کے پاس کراچی آتے رہے جن میں خاران، مکران اور لسبیلہ شامل ہیںلیکن قائد اعظم چاہتے تھے کہ قلات بھی اِن ریاستوں کیساتھ ہی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرے لیکن جب مارچ 1948میں آل انڈیا ریڈیو پر یہ فرضی خبر نشر ہوئی کہ خان آف قلات ہندوستان میں شمولیت کا اعلان کرناچاہتے ہیں تو قائد اعظم کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی چنانچہ انہوں نے اُن تینوں نوابین جو قائداعظم سے ملاقات کے منتظر تھے شرف ملاقات دیا اور قائداعظم سے ملاقات کے دوران اِن تینوں ریاستوں کے نوابین نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا- یہ ایک سٹریٹجک تبدیلی تھی جو بلوچستان کے حوالے سے رونما ہوئی کیونکہ مکران کوسٹ کی تمام ریاستوں کی پاکستان میں شمولیت کے بعد ریاست قلات لینڈ لاکڈ ریاست بن کر رہ گئی - ریاست قلات کے وہی انگریز وزیر اعظم جو پہلے قلات کی آزادی کیلئے کام کر رہے تھے انہوں نے خان آف قلات کو کہا کہ اب کوئی چارہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا جائے چنانچہ خان آف قلات نے قائداعظم کے نام خط میں اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھارت سے نہیں بلکہ پاکستان سے الحاق کرنا چاہتے ہیںلیکن خان آف قلات کے چھوٹے بھائی پرنس عبدالکریم جو بھارت کیساتھ رابطے میں تھے بغاوت پر اتر آئے لیکن چونکہ ریاست کے آئینی و قانونی معاملات خان آف قلات کے ہاتھ میں تھے اور آئینی طور پر الحاق کا اختیار بھی اُنہی کے ہاتھ میں تھا توجب انہوں نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا تو یہ چاروں بلوچ ریاستیں کسی طرح بھی گاندھی یا نہرو کے ویژن کے حوالے سے نہیں ہیں بلکہ قائد اعظم کی ویژن کے حوالے سے پاکستان میں شامل ہوئیں- در حقیقت خان آف قلات پاکستان میں ہی شمولیت چاہتے تھے اور اِس سے قبل وہ تحریکِ پاکستان کے زمانے میں قائداعظم کوچاندی میں تول کر مسلم لیگ کوچندہ دے چکے تھے-
بلوچستان میں چونکہ انتظامی معاملات بلوچ عوام کے بجائے سرداروں کے ہاتھ میں رہے ہیں چنانچہ بلوچستان میں بلوچ عوام کو ترقی میں وہ حصہ نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے - چنانچہ بیرونی عناصر بلوچ نوجوانوں کو پاکستان سے بدظن کرنے میں منظم پروپیگنڈے میں مصروف رہے ہیں جس کے باعث بلوچستان کے انتظامی معاملات اکثر و بیشتر خراب ہوتے رہے ہیں- حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان میں جمہوریت کے نام پر بلوچ سردار ہی حکومت کرتے رہے اور مختلف وزارتوں کے فنڈز عوام پر استعمال ہونے کے بجائے خواص کی نظر ہوتے رہے- یہ بڑی افسوس ناک بات ہے کہ بالخصوص بلوچستان میں عوامی بہبود کے سرکاری فنڈز کرپشن کی نظر ہوتے رہے ہیں - اگر عوام پر یہ رقم خرچ کی جاتی تو اس سے بلوچستان میں ترقی کی رفتار تیز ہو سکتی تھی - چونکہ بلوچستان میں دہشت گردی کا ناسُور بڑھتا جا رہا ہے- دہشت گرد جہاں چاہے حملہ کرتے ہیں اور عوام الناس اس کا نشانہ بنتے ہیں اور حکمران جو اُونچی فصیلوں میںمحصور ہو کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں دہشت گردی کے خلاف مناسب فیصلے کرنے سے قاصر ہیں- البتہ گوادر میں نئی بندرگاہ کی تعمیر کے سبب بلوچستان میں اہم تبدیلی آئی ہے اورگوادر پورٹ کے انتظامی معاملات چین کے حوالے کئے گئے ہیں جسے پاکستان آرمی کی محافظت حاصل ہے کیونکہ گوادر پورٹ پاکستان کی معاشی ترقی اور خودمختاری کیلئے اہم صلاحیت کی حامل ہے اور جس طرح صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ چین کی گوادر میں آمد سے وسطی ایشیائی ریاستوں اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کیلئے ایک بہت بڑی تجارتی راہداری کھلنے جا رہی ہے جس کا بیشتر فائدہ بلوچ عوام کو بھی ہوگا - چنانچہ موجودہ دور میں گوادر پورٹ کے حوالے سے ایک نئی ویژن چین اور شاہراہِ ریشم کے حوالے سے آ رہی ہے چنانچہ اِس کے فوائد شاہراہ ریشم کے راستے روس تک پہنچ سکتے ہیں- چنانچہ گوادر پورٹ نہ صرف اقتصادی طور پر بلکہ ملکی دفاع کے حوالے سے بھی پاکستان کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ جب 1971ء میں بھارتی نیوی نے کراچی کا گھیرائو کر لیا تھا تو اس گھیرائو کو توڑنامشکل ہو گیا تھا لیکن گوادر پورٹ بننے کے بعد انڈین نیوی کی ٹیل چونکہ بہت لمبی ہو جاتی ہے چنانچہ مستقبل میں بھارتی جارحیت کو ختم کرنے میں پاکستان ائیر فورس اہم کردار ادا کر سکتی ہے- چنانچہ دفاع کے حوالے سے نئی ہائی وے کی تعمیر بھی پاکستان کی قومی سلامتی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے- ایک امریکی تھنک ٹینک (سلیج ہیریسن) نے اپنے تجزیہ میں لکھا ہے:
"The strategic importance of Baluchistan has grown since China started building a port for Pakistan at the Baluch port of Gwadar, close to the 3 strait of Hormuz, with a projected 27 berths, enough for a major Pakistani Naval base that could be used by Beijing.
اندریں حالات ، بھارت اور اسرائیل کیساتھ ساتھ امریکہ کو بھی خطے میں اس اسٹریٹیجک تبدیلی سے بہت زیادہ پریشانیاں لاحق ہیں اور اسی حوالے سے جو بیرونی عنصر بلوچستان میں مقامی انتظامیہ کو ضعف پہنچانے کیلئے کام کر رہے ہیں اس میں موساد اور راء کیساتھ ساتھ سی- آئی- اے کی پر وردہ بلیک واٹر آرمی بھی سرگرم ہے جو بعض عاقبت ناندیشوں کی بے حکمت پالیسی کے سبب اس وقت بلوچستان میں تخریب کاری کی ایک بڑی فورس بن چکی ہے- بلیک واٹر آرمی نے سی- آئی-اے کی مدد سے عراق میں جنم لیا تھا جس نے عراق میں خاص طور پر فرقہ وارنہ دہشت گردی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا- چنانچہ امریکہ میں اُس وقت کی حکومتِ پاکستان کے متعین کردہ متنازعہ لاڈلے سفیر کے حوالے سے جب بلیک واٹر کے ہزاروں اہلکاروں کو بغیر کسی تحقیق کے ویزے جاری کئے گئے تو اُن میں ایک ریمنڈ ڈیوس بھی تھا-بلیک واٹر آرمی بھارتی راء اور اسرائیلی موساد کیساتھ مل کر بلوچستان میں بھی کام کر رہے ہیں- چونکہ ان کے پاس ڈالرز کی بہتات ہے چنانچہ انہوں نے مقامی سب کنٹریکٹ ایجنسیاں قائم کرکے مقامی ریکروٹوں کے ذریعے دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں- چنانچہ بلوچستان میں تخریب کاری کی وارداتیں بیرونی عناصر کی حوصلہ افزائی اور جدید اسلحہ کی فراہمی کے سبب ممکن ہوئی ہیں- اس حوالے سے ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کو کافی غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں یہ جائزہ بھی لینا چاہیے کہ کہ بلوچستان لبریشن آرمی کا ایک دفتر یروشلم میں کیوں قائم ہے ؟ اسی طرح مستی خان بلوچ کی قیادت میں شمالی امریکہ میں بھارتی اور اسرئیلی لابی کے ساتھ مل کر کیا کر رہا ہے ہیں ؟ اُنہیں کن حلقوں سے رقومات مل رہی ہیں اور بلوچستان کے سیاسی حالات کوخراب کرنے کیلئے عوامی حلقوں کی ڈِس انفارمیشن کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے - آخر میں مَیں آزاد خان بلوچ نے ایران اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک حالیہ انٹرویو میں جو کچھ کہا ہے اُس پر ہی اپنی گفتگو کو ختم کرتا ہوں جس پر ہمارے اداروں کو ضرور غور و فکر کرنا چاہیے-
The Government of Balochistan in exile is composed of a loose group of nationalist from around the world who are structuring a skeleton for a soveriegn Balochistan state. We are positioning GOB (exile) to interact with member countries of the United Nations. Our temporary office is located in Jewish quarters of Jerusalem and Jewish Baloch nationals are financially supporting us. We are incorporating the Baloch culture and are basing our system of government on democracy, libralism and secularism. The American special forces in the guise of black water are working along side the Baloch to destablize the Iranian Government in order to neutralize their nuclear threat to global peace.The Baloch are (also) positioned to destabilize Pakistan so the American (Black Water) can dismantle the Pakistani nuclear arms.
جلا وطن بلوچستان حکومت (GOB exile) دنیا کے مختلف حصوں سے قوم پرستوں پر مشتمل ہے جو خود مختار بلوچستان کیلئے ڈھانچہ بنا رہے ہیں۔ ہم جلا وطن حکومتِ بلوچستان کو اقوامِ متحدہ کے ممالک سے روابط کیلئے پوزیشن پر لارہے ہیں۔ ہمارا عارضی دفتر یروشلم کے یہودی کوارٹرز میں واقع ہے اور یہودی بلوچ قومیت کے لوگ ہماری مالی مدد کر رہے ہیں۔ ہم بلوچ ثقافت کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں اور اپنا نظامِ حکومت جمہوریت، لبرل ازم اور سیکولر ازم پر بنیاد کر رہے ہیں۔ امریکی سپیشل فورسز بلیک واٹر کی شکل میں بلوچوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں تا کہ ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کیا جائے اور ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے عالمی امن کو لاحق خطرات سے نمٹا جا سکے۔ بلوچ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بھی پوزیشن لئے ہوئے ہیں تا کہ امریکی (بلیک واٹر) پاکستانی نیوکلئیر پروگرام کو پاش پاش کر سکے۔