پاکستان کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک ہم اس کی خوشحالی کیلئے کوشاں ہیں۔ اگرچہ پچھلی چند دہائیوں میں اس مقصد کیلئے کافی مخلصانہ کوششیں کی گئیںلیکن اب بھی ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے- عصرِ حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہمیں پاکستان کی ترقی کے جذبے سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے- اس ضمن میں معروف تھنک ٹینک مسلم انسٹیٹیوٹ نے (Institute of Cost & Management Accountants of Pakistan) ICMAP کی شراکت سے اسلام آباد میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کا موضوع "تحریک ِ پاکستان کے جذبے کی بحالی۔ وقت کی ضرورت" تھا۔ اس سیمینارکا انعقاد یومِ پاکستا ن اور قراردادِ لاہور کے ساتھ ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ء کی مناسبت سے کیا گیا تھا جس دن پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا گیا اور یہ دنیا کا پہلا اسلامی جمہوری ملک بنا-
سیمینار کی صدارت مسلم انسٹیٹیوٹ کے بورڈ آف انٹلکچولز کے سینیئر ممبر اور سابق سیکرٹری جنرل برائے خارجہ امور جناب اکرم ذکی نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی کے طور پرچیئر مین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس ،ریونیواینڈ اکنامک افیئرزجناب عمر ایوب خان تشریف لائے، ماہرِ اقبالیات ڈاکٹر ایوب صابر ، ایڈیٹر سائوتھ ایشین پلس جناب رانا عبدالباقی ، ممبر کارپوریٹ ریلیشنز اینڈ ٹیکنیکل سپورٹ کمیٹی نیشنل کونسل آف ICMAP جناب محمد عمران،پبلک ریلیشنز کوآرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ جناب طاہر محمود اور ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ جناب ایس ایچ قادری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- ممبر برانچ کونسل ICMAP (FCMA)جناب رضوان ارشد نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے- دانشور حضرات ، محققین، ممبران ِ پارلیمنٹ، یونیورسٹیز کے پروفیسرز ، طلبہ اور صحافیوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے اس سیمینار میں شرکت کی-
شرکاء نے اپنے خطابات میں کہا کہ
ہمیںاپنے تاریخی نظریات کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا جو ہمارے روشن اور پائیدار مستقبل کیلئے کی جانے والی تمام کوششوں کو بنیاد فراہم کرتے ہیں- ہمیں ہر پلیٹ فارم پر اپنے حقیقی نظریہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ اسے فروغ دینا چاہئے اور عوام الناس بالخصوص نوجوانوں میں اس کے متعلق آگاہی پیدا کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی مخلص کوششوں سے اس ملک کو روشن اور خوشحال بناسکیں- آج ہمارے نظریات میں بہت سے ابہام پیدا ہو گئے ہیں چنانچہ ہمیں نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے - اس سلسلے میں ہمیں ہر قسم کی غلط فہمیوں اور پراپیگنڈا سے نبرد آزما ہونا ہے جس کیلئے ہمیں اپنی بنیا د وں پر واپس لوٹنا ہو گا- نوجوان نسل حصولِ پاکستا ن کے مقصد سے بے خبر ہے اسی طرح مسلمان تاجروں اور صوفیاء کرام کی تاریخ سے بھی نا آشنائی پائی جاتی ہے - ہمیں اپنے آبائو اجداد کی قر بانیوں اور کاوشوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے-
اگر ہم واپس تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں دو قومی نظریہ وضاحت سے بیان کیا- ۱۹۳۰ء میں اِلہٰ آباد کے خطبے میں انہوں نے الگ مسلم مملکت کا تصور پیش کیا جس میں حقیقی معنوں میں اسلام کے اصولوں اور اس کی ثقافت کو اسکی اصل روح کے مطابق لاگوکیا جا سکے- انہوں نے مسلم امہ کے اتحاد اور عزم پر بھی زور دیا- علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں کہا کہ اسلام لوگوں کو جو ڑنے والی طاقت ہے جس نے لوگوں کو اخلاقیات اور سیاسی شناخت فراہم کی ہے - علامہ اقبال نے یہ بھی بیان کیا کہ الگ ملک کا مطالبہ کرنا مسلمانوں کا بنیادی حق ہے جہاں پر وہ آزادی کے ساتھ اپنے مذہب، تہذیب و تمدن اور ایمان کے ساتھ زندگی گزارسکیں گے اور اس مقصد کیلئے انڈیا کے مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے - انہوں نے پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل الگ مسلم مملکت کی تجویز پیش کی جہاں پر اسلامی قوانین کا مکمل اطلاق ہو- چنانچہ علامہ اقبال نے بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کی بنیاد رکھی - اس خطبہ کے بعد مسلمانوں کیلئے الگ ملک کے حصول کی راہ متعین ہو گئی اور تحریک پاکستان نے زور پکڑا-
اس نظریے کے تحت مسلمانانِ ہند نے قائد اعظم اور دوسرے گراں قدر رہنمائوںکی ایماندار قیادت میںحصولِ پاکستان کی پُر امن تحریک شروع کی- تحریکِ پاکستان کے متحرک کارکنان نے ۱۹۴۰ء میں ایک قرارداد منظور کی جسے قراردادِ لاہور اور قرار دادِ پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے- اس میں انہوں نے الگ مملکت کا مطالبہ کیا جو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہو اور وہاں پر مسلمان اپنی شناخت اور مرضی کے ساتھ رہیں - اور یہ بھی کہ اُس ریاست میں مسلمانوں کو یہ موقعہ میسر آئے گا کہ وہ اسلامی نظامِ حکومت کو عرب بادشاہت اور اسلامی کلچر کو عربوں کی علاقائی ثقافت سے ممتاز کر کے اپنا سکیں - ا ور ساتھ ساتھ اقلیتوں کو یکساں حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے-
آزادی کے بعد ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے قراردادِ مقاصدمنظور کی گئی-یہ قرارداد خطبہ اِلہٰ آباد اور قراردادِ لاہورکی روشنی میںتاریخ کی ایک اہم دستاویز بن گئی جس کے مطابق اقتدارِ اعلیٰ کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اورپاکستان کی ریاست کے تمام اختیارات قرآن و سنت کی روشنی میں سونپے جائیں گے- یہ اسلامی اصولوں اور قوانین کی روشنی میں جمہوریت ، مساوات، برداشت ، سماجی انصاف ،عالمگیر امن اورترقی کو فرغ دیتی ہے-اس کے مطابق اقلیتوں کو اپنے مذہب اور ثقافت پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہوگی اور پاکستان ایک فلاحی ریاست ہوگا-
دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں بننے والی سچر کمیٹی رپورٹ واضح طور پر ہندو شدت پسندی اور بھارت میں مسلمانوں کی زبوں حالی کوبیان کرتی ہے- اس رپورٹ میں بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار کو بہتر بنانے کے لئے ۷۲سفارشات پیش کی گئیںلیکن ۲۰۱۳ء میںشائع ہونے والی روزنامہ ہندو کی رپورٹ کے مطابق ان سفارشات پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا- سچر رپورٹ ہمیں قائداعظم کے چودہ نکات کا دوبارہ بغور مطالعہ کرنے پر مجبور کرتی ہے جس میں مسلمانوں کے سیاسی،معاشی اور معاشرتی حقوق کا مطالبہ کیاگیا تھاکیونکہ قائداعظم آل انڈیا کانگریس اور ہندوئوں کی تنگ نظری اور مسلم مخالف ذہنیت سے بخوبی واقف تھے (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قائدِ اعظم کے نزدیک ہندو ذہنیت سے مُراد ایک خاص مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ہندوستان کی وہ رولنگ ایلیٹ ہے جو اپنے ہم مذہبوں کے بغیر کسی دوسرے مذہب کا وجود سیاست ، معیشت و معاشرت کے میدان میں قبول نہیں کرتے - جس کی زندہ مثالیں شُدھی تحریک ، آریہ سماج ، ہندو توا اور اس طرح کی کئی تحریکیں ہیں- ) ایسے خیالات کی وجہ سے ہی قائداعظم نے آل انڈیا کانگریس چھوڑ کر آل انڈیامسلم لیگ میں شمولیت اختیا ر کی تھی-
ہماری سیاسی، معاشرتی ، اخلاقی اورتہذیبی اقدار ہندوازم سے بہت مختلف ہیں اور اسی لئے ہم دو مختلف قومیں ہیں اور اسی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا- اسلام صرف مسلمانوں کی ذاتی زندگی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی سے ہے اور یہ انہیں مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے اسی لئے پاکستان کا استحکام ہماری نظریاتی پختگی سے منسلک ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمدرسول اللہ ﷺ سے سچی وفاداری طلب کرتی ہے- ہمیں فرقہ واریت، لسانی ،نسلی اور جغرافیائی تفرقات کی تمام جھوٹی زنجیروں کو توڑ کر متحد ہونا ہوگا تاکہ اسلام کے عالمگیر اصولوں پر عمل پیر ا ہوکر امن،ہم آہنگی اور خوشحالی کا سفر طے کر سکیں- اسلام ہمیں انسانیت کے احترام اور تمام مذاہب و مکاتبِ افکار کو برداشت کرنے کا درس دیتا ہے - سائنس اور جدید تہذیب کے ا نقلابی نظریات کو اسلام نے ہی یورپ سمیت دنیا بھر میں متعارف کروایا-
آزادی کے بعد پاکستان کے پاس انفراسٹرکچر اور صنعتوں کی بنیادی سہولیات کا فقدان تھا لیکن چند دہایئوں میں اس نے خاطر خواہ ترقی کی- ہمارے پاس افرادی قوت اور قدرتی وسائل کی مد میں بہت صلاحیت ہے اورخطے میں ہماری ایک خاص سیاسی و جغرافیائی اہمیت ہے اور ہم دنیا کا تجارتی مرکز بن سکتے ہیں - پاکستان کے چین سے سدا بہار دوستانہ اور سٹریٹیجک تعلقات قائم ہیں - قراقرم ہائی وے اورزیرِ تعمیر معاشی راہداری سے پورے خطے میں سماجی و معاشی ترقی آئے گی لیکن اس کے حصول کیلئے پاکستان کا استحکام ضروری ہے جو کہ اس کے بنیادی نظریات پر مکمل یقین رکھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے ہمیں یہ اعتماد ہونا چاہئے کہ ہم ایک مضبوط قوم ہیں، ہمیں قومی ہم آہنگی ، مضبوط دفاع اور معاشی انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مسائل کو حل کر کے پائیدار ترقی اور کامیابی حاصل کر سکیں سب سے بڑھ کر ہمیں دیانت دار اور دوراندیش قیادت کی ضرورت ہے جو لوگوں کی مخفی صلاحیتوں کو اُبھار سکے جیسا کہ ہم نے قیامِ پاکستان کیلئے کامیابی سے ایسا کیا- ہمیں اس جذبے کو اُبھارنے کی ضرورت کہ ہم اپنے ملک کی حفاظت اور تعمیر اپنے حقیقی نظریے کے مطابق کریں گے- ہمیں تمام مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں - خاص کر معاشی و دفاعی طاقتوں سے اپنے تعلقات کو برابری و دوستی کے معیارات پہ قائم کرنا چاہئے - ہمیں ایمان ، اتحاداور تنظیم کے نعرہ کو عملی جامہ پہنانا چاہئے اور متحد ہو کر آگے بڑھنا چاہئے- ہم اسلام کے اصولوں پر مبنی حقیقی جمہوریت ، بہتر نظام ِ تعلیم ، معاشرتی بہتری ، مؤثر مقامی حکومتوں کے قیام اور سماجی و معاشی انصاف سے ترقی کر سکتے ہیں- نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقعوں کی فراہمی اور پائیدار معاشی پالیسی کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے - ہمارا ملک ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم جاگیردرانہ اور سرمایہ درانہ نظام کی بجائے اسلامی نظام پر عمل کریں تا کہ لوگوں کو مساوات اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے- لوگوں کے پاس مکمل سماجی و معاشی آزادی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرسکیں نہ کہ جاگیرداروں کی مرضی سے- آزادی کے وقت جذبات سے بھر پور ہمارانعرہ تھا"لیکر رہیں گے پاکستان - بن کے رہے گا پاکستان "- آج ہمیںاُسی جذبے کے ساتھ "مضبوط کریں گے پاکستان "کے نعرہ کی ضرورت ہے-
سوال و جواب:-
وقفہ سوال و جواب کے دوران مقررین نے شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیئے اور ان پرسیر حاصل گفتگو کی- شرکا کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ
پاکستان کی تکمیل ابھی ادھوری ہے جیسا کہ قائدِ اعظم نے بھی فرمایا تھا کہ پاکستان کا بن جانا منزل کا حصول نہیں بلکہ منزل کے حصول کی جانب ایک قدم ہے - مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے اسلامی جمہوریت کے جس تصور کی وضاحت کی ہے وہ اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ لوگوں کو مکمل سماجی و معاشی آزادی حاصل نہ ہو- پاکستان کی تکمیل اسی وقت ہوگی جب ہم قائد اور اقبال کی تعلیمات پر اس کی روح کے مطابق عمل کریںگے- اگر آج حقیقی معنوں میں اقبال اور قائد کا بتایا ہوا طرزِ حکومت قائم ہوجائے توکرپشن کی شرح میں بغیر کسی تاخیر کے خاطر خواہ کمی آ جائے گی- قرآن پاک نے ہمیں مشاہدہ کرنے اورسوچنے سمجھنے کی دعوت دی ہے اور یہی سوچ سائنس کی بنیاد ہے اسی لئے اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلمان سائنسدانوں نے بہت ترقی کی اِسی لئے تو اقبال نے کہا تھا کہ ’’The birth of Islam was a birth of inductive intellect.‘‘ -ہمیں معاشرے سے ہر قسم کی شدت پسندی کا سدِ باب کرنا ہوگااور اسی صورت میں ہم پاکستان کی تعمیر قائد اور اقبال کی اُمنگوں کے مطابق کر سکیں گے-
معاشی فلاح، سماجی و معاشی انصاف اور قومی یکجہتی پاکستان کی ترقی کے اہم جزو ہیں-ہمیں تعلیم، سائنسی اور تکنیکی ترقی پر توجہ دینی چاہئے تا کہ دنیا میں ایک نمائیاں قوم بن سکیں-