انسانی تاریخ کے آغاز سے انسان ہی دوسرے انسانوں کے ساتھ نا روا سلوک رکھ رہا ہے-تمام انسانیت سوز مظالم کی وجہ لالچ اور خود غرضی ہے - طاقتور انسانوں نے ہمیشہ کمزور انسانوں کو اپنا غلام بنایا ہے ، بغیر معاوضے کے جبری مشقت، بنیادی حقوق کو سلب کرنا اور قتل تک کے مرتکب ہوئے، لیکن کبھی کسی کو سزا نہیں ہوئی- انسان کی ارتقاء اور انسانی حقوق کی بہتر آگاہی کی وجہ سے یہ قدیم غلامی کی روایات اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں-انسان میں جدت لانے کی ایک حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے اور بڑے منظم انداز میںقدیم غلامی کی روایات کو انسانی اسمگلنگ کی صورت میں تبدیل کر دیا گیا ہے ، جس میں انسانوں کو جبری مشقت ، انسانی اعضاء کی فروخت اور جسم فروشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے-اقوامِ متحد ہ کے مطابق انسانوں کی ہر قسم کی نقل وحمل جوکہ طاقت کے ذریعے، جبر کے ذریعے ، اغواء کے ذریعے ، دھوکہ دہی کے ذریعے ، کسی کی مجبوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اور رقم کی لین دین کے ذریعے استحصال کیا جائے وہ انسانی اسمگلنگ کہلاتاہے- انسانی اسمگلنگ کسی بھی شخص کے خلاف جرم ہے کیونکہ اس سے اُسکی مجبوری کا فائدہ اُٹھایا کر استحصال کیا جاتاہے- انسانی اسمگلنگ اندرونِ ملک بھی ہوسکتی ہے اور بیرونِ ملک بھی- اقوامِ متحدا کے ادارے (UNODC)کی رپورٹ کے مطابق تقیریباً ہر ملک انسانی اسمگلنگ سے متأثر ہے-
ایک اور انسانیت سوز ظلم تارکینِ وطن کی اسمگلنگ ہے ، جس سے اس روئے زمین کا ہر ملک متأثر ہے- اس سے اُن ممالک کی ساکھ بھی متأثر ہو تی ہے اور ہر سال لاکھوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں- UNODCکے مطابق کسی بھی شخص کو مالی یا ذاتی فائدے کی خاطر کسی دوسرے ملک میں غیر قانونی طور پر لے کر جانا ، تارکینِ وطن کی اسمگلنگ کہلاتا ہے-
سال 2010ئمیںانسانی اسمگلنگ کے ذریعے تقریباً 31.6بلین ڈالر کی تجارت کی گئی-اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2008ئمیں تقریباً 2.5ملین لوگوں کو 127ملکوں سے 137مختلف ملکوں میں اسمگل کیا گیا-
نقشے میں دکھائی دینے والے انسانی اسمگلنگ کے اعدادو شمار سے یہ بات ثابت ہے کہ تارکینِ وطن کو ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں اسمگل کیا جاتا ہے- اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ دُنیا میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے غریب لوگ اس ظلم کا شکار ہوتے ہیں - متزلزل معاشی صورتِ حال، بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے لوگ اسمگلرز کے ہاتھوں یرغمال بنتے ہیں- انسانی اسمگلنگ کو ترویج دینے والی دوسری وجوہات میں معاشرتی بے انصافی ، عدم تحفظ اور مغرب میں بڑھتی ہوئی جسم فروشی شامل ہے ،اسکے علاوہ بڑھتے ہوئے عالمی انضمام نے منڈیوں کی حدود میں کئی گنااضافہ کر دیا ہے اور عالمی منڈی کے دروازے ہر قسم کی مصنوعات کے لئے کھل گئے ہیں-عالمی منڈیوں تک ہر کسی کی رسائی کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کی سر گرمیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ، خصوصاً انسانی اسمگلنگ میں-منڈی کے مطابق اسمگل کیا گیا شخص ایک پروڈکٹ ہے اور اُس کے مالکان اپنے حریفوں پہ سبقت لے جانے لے لئے اُس کا استحصال کرتے ہیں-
اسمگل کئے گئے لوگوں کو بیرونِ ملک نوکری کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں - اسمگلنگ کے لئے نوکری کے اشتہارات اور میرج بیوروز کا سہارا لیا جاتا ہے، بعض اوقات اسمگل کئے جانے والے لوگوں کو اُن کے کام کی نوعیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے ، لیکن انہیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس سے بے خبر رکھا جاتا ہے اور اکثر لوگ اپنی ساری جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیںاور اسمگلرزکے مقروض بن جاتے ہیں-
اس آرٹیکل میں ہم OICممالک میں جاری انسانی اسمگلنگ کا جائزہ لیں گے - Organization of Islamic Coperation جسکا سابقہ نام Organization of Islamic Conference ہے ، اقوامِ متحدہ کے بعد دُنیا کا سب سے بڑا بین الممالکی اتحاد و ادارہ ہے ، جس کے 57رکن ممالک ہیں- OICکے چارٹر کے مطابق دہشت گردی کی ہر سطح پر روک تھام ، جرائم کا خاتمہ، منشیات کی روک تھام ، کرپشن کا سدِ باب، منی لانڈرنگ کی روک تھام اور انسانی اسمگلنگ کا خاتمہ اس کے مقاصد میں شامل ہے-OICچارٹر کے بر عکس رُکن ممالک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے-
OICمیں شامل زیادہ تر ممالک ترقی پذیر ہیں سوائے انڈونیشیا، ترکی، سعودی عرب اور ملائیشیا کے- مشر قِ وسطیٰ کی داخلی صورتِ حال کسی افراتفری سے کم نہیں- عراق ، لیبیا اور یمن بد ترین بحران کا شکار ہیں ، افریقہ دنیا کا سب سے غریب برِ اعظم ہے- غربت، تعلیم کا فقدان، غذائی قلت ، صاف پانی کی قلت اور صحت کے مسائل سے زیادہ تر آبادی متأثر ہے- سیاسی کشمکش، خانہ جنگی ، بیروزگاری ، لاقانونیت اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے قوانین کا فقدان ان ممالک میں جرائم کی بڑی وجہ ہے -
International Organization of Migration (IOM) کے مطابق انڈونیشیاکے تقریباً 3سے 4.5ملین لوگ دوسرے ممالک میں اسمگل کئے گئے ہیں، اِن میں زیادہ ترمقروض ہونے کی وجہ سے ابتر حالات میں مشرقِ وسطیٰ، ملائیشیا، سعودی عرب، سنگاپور، کویت، شام اور عراق میں جبری نوکری کر رہے ہیں-انڈونیشن عورتوںکو خاص طور پر لیبر اور جسم فروشی کے لئے اسمگل کی جاتا ہے- ایک اندازے کے مطابق انڈونیشیا کے بیرونِ ملک ورکرز میں سے 65سے 70فیصد کی تعداد عورتوں پر مشتمل ہے اور یہ زیادہ تر گھریلو ملازمت کرتی ہیں - 2010ء میں رپورٹ ہونے والے کیسز کے مطابق انڈونیشین خواتین کو دورانِ ملازمت جنسی زیادتی کا نشانہ بنا یا گیا اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے - 2010ء کے ایک سروے کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں جنسی زیادتی کا شکارہونے والی انڈونیشین خواتین جب وطن واپس لوٹیں تو اُن میں 471حاملہ تھیں اور 161بچے کے ساتھ تھیں-
پاکستان اور بنگلہ دیش سے چار سال تک کی عمر کے بچوں کو اغوا یا اونٹ رانی کے جھوٹے وعدے کر کے مشرقِ وسطیٰ لے جایا جاتا ہے- اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئے بہت سے خاندان اسمگلرز کے دھوکے میں آجاتے ہیں - اونٹ رانی کے لئے استعمال ہونے والے ان بچوں کے سا تھ اسمگلرز کے ناروا سلوک اور ٹارچرکے واضح ثبوت موجود ہیں ، اسکے علاوہ جسمانی تشد د اور مناسب خوراک سے بھی محروم رکھا جاتا ہے - اونٹ رانی کے لئے بچوں کو استعمال کرنا انتہائی خطرناک فعل ہے اور اس سے شدید چوٹ آ سکتی ہے یا موت بھی واقع ہو سکتی ہے- اپنے خاندان سے جدا کئے گئے بچوں کو دوسرے ملکوں میں اسمگل کیا جا تا ہے ، زبان اور رہن سہن سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ بچے تشدد کی رپورٹ درج نہیں کراسکتے- گلوبل الائینس اگینسٹ ٹریفک اِن وومن (GAATW) اور یو این اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیااینڈ پیسیفک (UN ESCAP) کے مطابق تقریباً 3لاکھ بنگلہ دیشی خواتین کو بھارت اسمگل کیا جاچکا ہے-عراق لوگ کئی عشروں سے جاری جنگ اور پابندیوں سے تباہ حال اپنے انفراسٹکچرکی بحالی میں مصروف ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری اور کم اُجرت پہ کام کرنے والے ورکرز کی تعداد میں اضافے سے انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے- جسم فروشی کے لئے عراقی عورتوں کی کراس بارڈر اسمگلنگ اور آئی ڈی پیز کا مسئلہ اور اِس طرح کے کئی مسائل درپیش ہیں مگر مستقبل قریب میں اِن مسائل کے حل کی بجائے اِن میں اضافے کی توقع زیادہ کی جارہی ہے -
وسطی ایشیا کی پانچ ریاستیں قازقستان، کرغستان، تاجکستان ، ترکمانستان اور ازبکستان خطے کے اسٹریٹیجک اعتبار سے چائنہ ، روس، جنوبی ایشیا اور کاکسس کے درمیان واقع ہیں - تیل اور معدنیات کے بے بہا ذخائر ہونے کے باوجود ، اس خطے میں عام آدمی کے حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں- ان وسطی ایشیائی ریاستوں سے جبری مزدوری اور جسم فروشی کے لئے اسمگل ہونے والے لوگوں کو زیادہ تر متحدہ عرب امارات ، اسرائیل اور جنوبی کوریا لے جایا جاتاہے، جبکہ صرف جسم فروشی کے لئے ترکی، یونان اور مغربی یورپ میں اسمگل کیا جاتا ہے - حالیہ سالوں میں سینیگال میں سونے کی کانوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ، جسکی وجہ بیرونی سرمایہ کاری اور غیر ملکی مزدوروںکی آمد میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے- سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مالی ، جینیا، گیمبیا، گھانا، برکینا فاسو، ٹوگواور نائجیریا سے مزدوروں کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کر رہی ہے اور زیادہ تر لوگ بے روز گار ہیں- سونے کی کانوں کی حالت مخدوش ہے اور اسکے علاوہ گورنمنٹ اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے مزدوروں کا استحصال ہو تا ہے،سب سے زیادہ استحصال بچوں کا ہوتا ہے ، جنہیں جبری مشقت کی غرض سے اسمگل کر کے سونے کی کانوں میں لایا جاتا ہے -ازبکستان ، کرگستان ، قازکستان ، آزر بائجان، ایتھوپیا، صومالیہ، یوگنڈا ، عراق، ایران، مراکش اور پاکستان سے عورتوں کو جسم فروشی اورجبری گھریلو ملازمت کے لئے متحدہ عرب امارات اسمگل کیا جاتا ہے - خاص کر پاکستان میں تو بہت بڑے پیمانے پر ایسے مکروہ لوگ موجود ہیں جنہیں با اثر خُفیہ ہاتھوں کی پُشت پناہی میسّر ہے ، ایسے واقعات اکثرو بیشتر اخبارات میں شائع بھی ہوتے رہتے ہیں - انسانی اسمگلنگ کا ایک اور تاریک پہلو ، انسانی اعضاء کی خرید و فروخت ہے ، جس میں دن بد ن اضافہ ہو رہا ہے - Global Observatory کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً ایک لاکھ مریضوں میںانسانی اعضاء کو ٹرانسپلنٹ کیا جاتا ہے - ٹرانسپلنٹ میںکئی ایک مسائل حل طلب ہیں ، لیکن اعضاء کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ ہے-اس سنگین مسئلے کی وجہ سے Organs, Tissues and cells (OTC) کو اسمگل کیا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر انسانوں کو اعضاء کی خرید و فروخت کی غرض سے اسمگل کیا جاتا ہے - انسانوں کی اسمگلنگ جبراً ہو یا مرضی سے ، دونوں صورتوں میں پیسے کی خاطر انسانوں کی تجارت کی جاتی ہے-گذشتہ دہائی سے لوگوں کی غیر قانونی نقل وحر کت میں کئی گنا اضافہ ہوا اور اس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں غیر قانونی امیگریشن بڑھ گئی ہے- پیسے کے عوض غیر قانونی طور پر بارڈر پار کرنے والے لوگ اچھی نوکری، غر بت ، قدرتی آفات یا اپنی جان بچانے کی غرص سے کرتے ہیں - شمالی ، مشرقی اور مغربی افریقہ سے ہر سال 55,000لوگ غیر قانو نی طور پر یورپ میں داخل ہوتے ہیں، جس سے جرائم پیشہ عناصرکو تقریباً 150ملین ڈالر کی آمد ن ہوتی ہے-1996ء سے2011ء کے دوران صحرا پار کرتے ہوئے تقریباً 1691 ہلاک ہوئے اور صرف 2008ء میں 1000لوگ سمندر پار کرتے ہوئے ہلاک ہوئے کیونکہ لوگوں کی اسمگلنگ انتہائی خفیہ طریقے سے کی جاتی ہے ، اس لئے اس ضمن میں معلومات تک رسائی بہت محدودبلکہ نہ ہونے کے برابر ہے - قابلِ تصدیق اعداد و شمار تک رسائی ناممکن ہے اور اسمگل کئے گئے لوگوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں-
اوپر بیان کئے گئے مسائل کے علاوہ OICممالک میں خانہ جنگی اور داخلی حالات کی مخدوش حالت کی وجہ سے آئی ڈی پیز کیمپوں میں بد ترین زندگی گزاررہے ہیں - اس انسانی المیہ کے حل کے لئے ثابت قدمی اور وسیع تر منصُوبہ بندی کے ساتھ ساتھ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس کی ترجیحات صرف ذاتی سیاست اور ذاتی مفادات تک محدود نہ ہوں -
انسانی اسمگلنگ کے اس گھناؤنے فعل کو روکنے کے لئے سفارشات مندرجہ ذیل ہیں -:
یٔ اپنے ممبر ممالک میں انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے OICکو ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئے جوکہ اس جرم کی روک تھام کے لئے رکن مما لک کو قوانین مرتب کرنے اور اُن کی استعداد بڑھانے میں معاونت کرے -
یٔ اقوامِ متحدہ کا کنونشن جوکہ اس انسانی اسمگلنگ کی روک تھام اور سزا کے قوانین کو وضع کرتا ہے ، تمام رکن ممالک کو اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہئے-
یٔ تمام رکن ممالک کو چاہئے کہ وہ اپنے قانون نافذ کرنے والے افسران کو انسانی حقوق کی مکمل تربیت دیںاور خصوصاً اسمگلنگ سے منسلک مسائل پر-
یٔ ریاستوں کو آپس میں معلومات کے تبادلے کا میکانزم ترتیب دینا چاہئے، جس سے مجرموں کی شناخت،تفتیش اور اسکے ملک بدر کرنے میں آسانی پیدا ہوسکے- اسکے لئے پولیس ، باررڈر کنٹرول آفیسرز، امیگیریشن آفیسرزاور حکومت کے دیگر اداروں کے ملازمین کو تکنیکی تربیت فراہم کرنی چاہئے- ریاست کو اُن ملازمین اور لوگوں کو روکنے کا میکانیزم تیار کرنا چاہئے ، جوکہ داخلی اور خارجی راستوں پہ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور اسمگلرز کو کھلا راستہ فراہم کرتے ہیں- فی الحال اسمگلنگ کو روکنے لے لئے تمام تدابیر اس کی طلب و رسد تک محدود ہیں-
ان تمام ممالک میں لیبراور تعلیم کی پالیسی کوبہتر بنانا چاہئے ، تا کہ نوجوانوں کو اُن کے آبائی علاقوں میں ہی معقول روزگار فراہم ہوسکے اور کسی کو بھی کا م کی غرض سے اپنا ملک نہ چھوڑنا پڑے، ترقی کے لیے ریاستوں کو غربت سے نمٹنے کی پالیسیز مرتب کرنی چاہئے، اس مقصد کے لئے جامع پر وگرام ترتیب دینا چاہئے اور اُن علاقوں میں روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہئے ، جہاں پہ عورتیں اور بچے سب سے زیادہ ان اسمگلرز کا شکار بنتے ہیں -
انسانی اسمگلنگ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ منافع کمانے والوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ متأثرین کو ہر جانہ اداکریں اور ملزمان کے خلاف ہر قسم کی قانونی کاروائی ہونی چاہئے- تمام ملکوں میں عوام کی سطح پر کمیٹیاں قائم ہونی چاہئیں ، جوکہ ان جرائم پیشہ عناصر پہ نظر رکھیں- خصوصی طور پہ وہ عورتیں اور بچے جنہیں جبری گھریلو ملازمت اور جسم فروشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے - کراس بارڈر اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے تمام ملکوں کو ایک مفاہمتی یادداشت پہ دستخط کرنے چاہئیں جس سے مشترکہ تفتیش اور ملزمان کی حوالگی میں آسانی پیدا ہوسکے -
جیسا کہ ایک بات واضح ہے کہ طلب اور رسد دجیسے عوامل جو کہ اسمگلنگ کو فروغ دیتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ ریاستوں کو ان عوامل پربھی غور کرنا ہوگا جو کہ عورتوں اور بچوں کو جبری گھریلو ملازمت اور جسم فروشی کی نہج پہ پہنچاتے ہیں- انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے صرف طلب اور رسد کے عوامل کوروکنا کافی نہیں ہے- عام مصنوعات کی طلب جو کہ صارف کے دل و دماغ میں ہوتی ہے ، اس کا اسمگل کئے گئے لوگوں کی طلب سے موازنہ کرنا درست رویہ نہیں- صارفین کو مختلف مصنوعات یا سروسز کی ضرورت ہوسکتی ہے ، لیکن ان ضروریات کو قانونی تقاضوں کے ساتھ پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے نہ کہ انسانی اسمگلرز کی- وہ صارفین یا تاجر جوکہ کسی ایسی مصنوعات یا سروسز کی طلب پیدا کرتے ہیں ، جو کہ صرف اسمگل شدہ لوگ ہی پوری کرسکیں ، ایسے لوگوں پر بھاری جرمانے عائد کرنے چاہئیں- اسی طرح ایسے لوگوں کی معا ونت فراہم کرنے والی کمپنیوںیا افراد کو بھی سزا ملنی چاہئے-
زیادہ تر ملکوں میں موجود قوانین ناکافی ہیں اور ان کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے -تمام ملکو ں کو انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے جامع اور مؤثر قوانین مرتب کرنے چاہیئں ، تا کہ ان اسمگلرز ااور ان کی مدد کرنے والے اداروں کو قانون کے شکنجے میں لایا جاسکے جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے کہ اسمگلنگ کے بنیادی اسباب ہر بدلتے دن کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں ، اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ تمام ممالک اپنے قوانین میں موجود خامیوں کو دورکریں تاکہ دورِ جدید کی اسمگلنگ کو عا لمی قوانین کی روشنی میں ختم کیا جاسکے -
وہ تمام لیگل فریم ورک جو کہ اسمگلنگ کو صرف جسم فروشی کے زُمرے میں دیکھتے ہیں ، انہیں اس جبری مشقت یا مزدوروں کے استحصال کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے، تمام ملکوں کو عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ پہ بھاری جرمانے عائد کرنے چاہئیں- قوانین مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں عملی طور پر نافذ کرنے پربھی خصوصی توجہ دینی چاہئے-
ضرورت مند افراد بہتر زندگی کے لئے قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں میں بھیجنے کا ریاست کی سطح پہ انتظام ہونا چاہئے- امیگریشن کے عمل کو سادہ بنا کر بیوروکریسی کی حوصلہ شکنی ہونا چاہئے-
بچوں کی امیگریشن ، جس میں اسمگلنگ کا خدشہ ہو اس کی روک تھام ہونی چاہئے اور اس سے عام لوگوں کو آگاہی فراہم کرنی چاہئے، گھریلو ملازمت کے معاملے میں ریاست کو ایک قانونی معاہدے کو تشکیل دینا چاہئے ، جس میں کا م کے اوقات ، حالات، تنخواہ ، چھٹیاں ، صحت کی سہولت اور زخمی ہو نے کی صورت میں معا وضے کی تمام شرائط درج ہوں -
ریاست کو جبری مشقت اور مزدوروں کے استحصال کی شکایت درج کرانے کا میکانیزم وضع کرنا چاہئے- بارڈر کے پار اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ ریاستوں کو ملک کے اند ر مزدوروں کے استحصال اور جسم فروشی کی روک تھام کرنی چاہئے-
وہ تما م لوگ جو کہ جسم فروشی کے لئے بچوں کو استعمال کرتے ہیں ، اُنہیں قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے-