پاک روس دو طرفہ تعلقات : ممکنہ توقعات

پاک روس دو طرفہ تعلقات : ممکنہ توقعات

پاک روس دو طرفہ تعلقات : ممکنہ توقعات

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ مارچ 2015

تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام "پاک روس دو طرفہ تعلقات ؛ممکنہ توقعات" کے مو ضوع پر بروز جمعرات 12 فروری 2015ء کو نیشنل لائبریری اسلام آباد میںسیمینار منعقد ہوا- اس سیمینا ر میں زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی جن میں مختلف ممالک کے سفیروں اور اعلیٰ سطحی سفارتکاروں ، تحقیقی اداروں اور میڈیا کے نمائندگان، سینیٹرز ، اراکینِ پارلیمنٹ ، یونیورسٹیز کے اساتذہ و طلباء اور دانشور حضرات شامل ہیں-

سیمینار کے انعقاد کا مقصد ایک ہی خطے میں واقع پاکستان اور روس کے مابین باہمی تعاون کے مختلف پہلوئوں کواُ جاگر کرنا تھا- سابق سیکرٹری جنرل وزارتِ خارجہ پاکستان جناب اکرم ذکی، سفارتخانۂ روس کے اعلیٰ سطحی سفارتکار جناب اینٹن شرنوو، دفاعی تجزیہ نگار ائیر مارشل (ر) مسعود اختر، چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، روس میں پاکستان کے سابق سفیر جناب خالد خٹک اور شعبہ بین الاقوامی تعلقات نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے سربراہ ڈاکٹر محمد خان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- ان کے علاوہ سابق سفیر جناب اسلم رضوی ، ڈائریکٹر ریسرچ  ISSRA ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر سیف الرحمان اور ڈین نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) میجر جنرل شاہد حشمت نے بھی وقفہ سوال میں سیمینار کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا- سیمینار میں زیرِ بحث آنے والے اہم نکات درج ذیل ہیں-

پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات میں نئی گرم جوشی محسوس کی جا رہی ہے-ماضی میں دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے کئی مواقع ضائع ہوئے اور باہمی تعاون کے میسر آنے والے کئی مواقع سے فائدہ نہ اُٹھا یا جاسکا-پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے کے بعد چند دہائیوں تک دو طرفہ تعلقات میں کافی پیشرفت ہوئی۔ پاکستان سٹیل ملز ، آئل و گیس ڈویلپمنٹ کمپنی میں روسی مشینری کا استعمال اور پاکستان کی دفاعی ضروریات کے لیے روسی ہیلی کاپٹرز کی فراہمی اس کی چند مثالیں ہیں-سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران تعلقات نچلی ترین سطح پر آ گئے-سرد جنگ کے دوران عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی توازن کے باعث ان کے درمیان کوئی براہ راست جنگ تو نہیں ہوئی لیکن کئی ممالک کے محاذ پر ان کے درمیان بالواسطہ جنگ جاری رہی اور اس دوران غیر ریاستی عناصر کا استعمال شروع ہوا جن کا دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی استعمال ہوا-

21دسمبر 1991ء کو سویت یونین کے رسمی طور پرتحلیل ہونے سے قبل پاکستان میں اس کے سفارت خانے کو تبدیل کر کے رشین فیڈریشن کے سفارتخانہ میں تبدیل کر دیا گیا-چنانچہ پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے رشین فیڈریشن کو باقاعدہ طور پر سوویت یونین کی جگہ پر تسلیم کیا-1991ء کے بعد سے پاکستان اور روس کے مابین تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا-

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک نئی صورتحال نے جنم لیا اور علاقائی تعلقات، خطوں میں استحکام اور ہم آہنگی کی اہمیت بڑھ گئی- پاکستان نے اس وقت بدلتے حالات کا ادراک کرتے ہوئے کچھ اقدامات کئے اوروسطی ایشیاء کے چھے ہمسایہ ممالک کو ای-سی-او (Economic Cooperation Organization) میں شامل کیا گیا- 1991ء کے بحران کے بعد روس نے نئے تعلقات کیلئے اوقیانوس(مغرب) کی سمت میں رخ کیااور اپنے یورپی تشخص پر زور دینا چاہا لیکن 1996 ء تک روس کو یہ باور ہوچکا تھا کہ اسے اپنے مستقبل کے لئے مشرق سے تعلقات استوار کرنے ہیں اور اس کے بعد اس کی ایشیائی شناخت زیادہ نمایاں ہوئی-

(کمال کی بات ہے کہ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب جاوید نامہ میں روسی قوم کو مخاطب کر کے یہی پیغام دیا تھا :

باز آئی سوئے اقوامِ شرق

بستہ ایّامِ تُو با ایّامِ شرق

’’روسیو ! لوٹ کر مشرق کی طرف آؤ ، کہ تمہارا مستقبل مشرق کے ساتھ جُڑا ہے ‘‘-)

روس اور چین نے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ملکر Shanghai Five اور بعد میں ایس -سی-او ( Shanghai Cooperation Organization) کا قیام عمل میں لایا۔اِس وقت روس اس تنظیم میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مکمل رکنیت کیلئے حمایت کر رہا ہے-

گزشتہ چند سالوں میں دونوں ممالک کے مابین مختلف شعبہ جات میں تعلقات کو فروغ دینے کیلئے اعلیٰ سطحی وفودکے تبادلے ہوئے ہیں- انہی کے نتیجے میں روس نے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے- گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان میں ایل-این-جی گیس پائپ لائن بچھانے کے 1.7بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں-روسی کمپنیاں پاکستان میں توانائی کے شعبے میں کئی منصوبوں پر مشترکہ تعاون کیلئے تیار ہیں جن میں مظفر گڑھ پاور پلانٹ کی کوئلے پر منتقلی ، جامشورو پاور پلانٹ پر کام، پاکستان سٹیل ملز کی اپ گریڈیشن،آئی ۔ پی گیس پائپ لائن اور نئے تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش شامل ہیں-روس پاکستان کو بجلی کی پیداوار کیلئے ایٹمی ری ایکٹرز بھی فراہم کر سکتا ہے-

اس وقت دنیا میں حالات تبدیل ہورہے ہیں اور یہ روس اور پاکستان کے پاس اپنے تعلقات بہتر کرنے کا سنہری موقع ہے- تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں تمام اہم ممالک ، خصوصاً خطے میں موجود ممالک سے تعلقات کو فرو غ دینا ضروری ہے - یہ پاکستان اور روس کا جائز حق ہے کہ وہ باہمی تعلقات کی مضبوطی کے لئے پرُ اُمید ہوںاور اس کیلئے پوری کوشش کریں جس میں دو نوں ممالک کی عوام اور خطے کی امن و سلامتی کا بھی فائدہ ہے -

پاکستان اور روس دونوں کثیرالمرکزی عالمی نظام (زیادہ سے زیادہ اقوام کی شمولیت سے چلنے والے نظام) اور اقوامِ متحدہ کی افادیت بڑھانے پر متفق ہیں- پاکستان اور روس دونوں افغانستان کے مسئلہ کے حل کی اور وہاں مفاہمتی عمل کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ عمل افغان عوام کی رضامندی اور انہی کی جانب سے ہو اور اس کے نتیجے میں پُر امن اور جمہوری افغانستان کا قیام عمل میں آئے- امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کا کردار اس خطے میں کتنا ضروری ہے ، روسی حکام اس سے پوری طرح باخبر ہیں-پاکستان اور روس کے مابین کئی شعبوں میں تعاون متوقع ہے، جس میں دہشت گردی کی روک تھام،سیکیورٹی، معاشی تعاون اور توانائی سمیت کئی شعبے شامل ہیں-

روس کی ایس- سی -او کی سربراہی کے دوران کئی شعبہ جات کو ترجیح دی جا رہی ہے جن میں توانائی ، ٹرانسپور ٹ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے شامل ہیں جو پاکستان اور پاکستانی معیشت کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں-ایس-سی-اوکے تجارتی فورم کے تجارتی مراکزاور خطے میں مختلف پراجیکٹس کے قیام مثلاً سلک روڈ کی معاشی بیلٹ کی جانچ پڑتال کو ترجیح دی جا رہی ہے- اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا تناسب دونوں ممالک کی صلاحیت سے بہت کم ہے اور اس ضمن میں روسی اور پاکستانی حکومتوں کے مابین تجارت، معیشت، سائنس، اور تکنیک کیلئے قائم کمیشن اسے بڑھانے کیلئے کوشاں ہے-روس ایس-سی-او میں انسدادِ منشیات کے معاملے پر پاکستان کے کردار کو بہت اہمیت دے رہا ہے- روس کے کئی معروف ماہرین منشیات کی روک تھام کے لئے کئی درجن پاکستانی آفیسرز کو ٹریننگ دے چکے ہیںاور گزشتہ سال پاکستان کے انسدادِ منشیات کے ادارے کی معاونت کیلئے خصوصی پروگرام بھی تجویز کیا گیا-

مستقبل کے حوالے سے پاکستان روس سے خلائی، دفاعی، سول ٹیکنالوجی ، تیل و معدنی ذخائر، لوہے کے ذخائر اور اس کی کان کنی، کشید کاری اور ریفائنری جیسے کئی شعبوں میں استفادہ کرسکتا ہے- دوسری جانب روس بھی پاکستان کی بھی بہت سی اقسام کے خام مال، زرعی اَجناس، سستی افرادی قوت، ٹیکسٹائل اور لیدر کی خام و تیارشدہ مصنوعات سے استفادہ کر سکتا ہے- دونوں ممالک کے عوام کے درمیان باہمی روابط سے کئی شعبوں میں ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں جس کا حصول ثقافتی وفود، طلباء، ماہرینِ تعلیم، پیشہ وارانہ افراد، دانشور حضرات اور اراکینِ پارلیمینٹ کے تبادلہ سے ممکن ہے-پاکستانی راہداری کی سہولت خطے بھر میں معاشی بہتری کا سبب بن سکتی ہے- وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا کے درمیان توانائی کی ترسیل کے لئے پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور یہ تعلق قدرتی ہے کیونکہ وسطی ایشیائی ممالک قدرتی ذرائع سے مالا مال ہیں اور جنوبی ایشیا کو توانائی کی ضرورت ہے-

اس وقت دنیا میں طاقت کا توازن ایک تکون کی شکل اختیار کر چکا ہے،جو کہ روس، امریکہ اور چین پر مشتمل ہے-یہ اس وقت کی ضرورت ہے کہ تعلقات کو فقط دوستی اور دشمنی کے معنوں میں نہ سمجھا جائے- کسی بھی ملک کا کسی بھی معاملے پر دوسرے ملک سے اتفاق یا اختلاف ہوسکتا ہے- ضرورت اس امر کی ہے کہ اتفاق کے دائرہ کو وسیع تر اور اختلاف کے دائرہ کو مختصر ترکیا جائے- طاقت کے اس کثیرالمرکزی دور میں ہر ملک کو امن، استحکام، تعاون، خیر سگالی، ترقی اور لوگوں کی فلاح و بہبود پہ توجہ دینی چاہئے-

پاکستان کو دنیا کے لئے پرکشش ہونا چاہئے لیکن اس مقصد کیلئے اسے اندرونی استحکام کی ضرورت ہے اور اس کے حصول کیلئے اسے چار قومی مفادات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے( ۱) دفاع اور سیکیورٹی (۲)  عوام کی معاشی و معاشرتی بہتری (Socio-Economic Justice) ( ۳) فائدہ مند علاقائی و عالمی صورتحال( ۴)قومی اقدار کی ترقی-

حالیہ دور میں’’اتحادی‘‘ بننے کے متعلق سوچنے کی بجائے مؤثر سفارتکاری(network diplomacy ) پر زور دیناچاہئے اور معاملات کو الگ الگ اپنی نوعیت کے مطابق کسی بھی ملک سے بات چیت کرنی چاہئے اور اسی کے مطابق سفارتی ذرائع استعمال کرنے چاہئیں-

وقفہ سوال و جواب  (Interactive Session)

وقفہ سوال و جواب کے دوران پاکستان اور روس کے دو طرفہ تعلقات اور علاقائی تعاون کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی- زیرِ بحث آنے والے چند نکات درج ذیل ہیں:

 افغانستان کے مسئلہ کے دیر پا حل کیلئے علاقائی حل نکلنا بہت ضروری ہے- کیونکہ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے امریکہ ، مغرب یا خود افغانی اکیلے حل کر سکیں- اس مسئلہ پر پاکستان اور روس مداخلت نہیں کریں گے اور انہیں سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہئے - پاکستان اور روس کی ایک دوسرے کیلئے اہمیت جغرافیہ کے پیش نظر بھی ہے- آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما عبداللہ گیلانی کی طرف سے کشمیر کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے روسی سفارتخانہ کے نمائندہ نے کہا کہ رشیَن فیڈریشن نے کبھی بھی کشمیریوں کی مخالفت نہیں کی اگر آپ سوویت یونین کی بات کررہے ہیں تو وہ اس سے متعلقہ نہیں کیونکہ ۱۹۹۱ء میں رشین فیڈریشن کے قیام کے بعد روس کا یہی مؤقف رہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک کو کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سمیت تمام مہیا دستاویزات کی بنیاد پر بات چیت سے حل کرنا چاہئے-

انسدادِ منشیات کے معاملے پر پاکستان اور روس کا تعاون بہت مضبوط ہے اور دونوں نے اس مسئلہ پر بہت سے مشترکہ اقدامات کئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب نیٹو یا ایساف فورسز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اس مسئلہ سے نمٹنا ان کی اولین ترجیح نہیں ہے اور یہ اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ ہے-

 کسی بھی دو ممالک کے مابین تعلقات کے حوالے سے تعاون کے ذرائع پرائیویٹ سطح پر منتقل ہو رہے ہیں اور بڑے کاروبار ممالک کے مابین تجارتی اور معاشی تعاون کا فیصلہ کر رہے ہیں اور اس میںریاست کا عمل دخل کم ہوتا جا رہا ہے-

پاکستان کی داضلی صورتحال پر ایئرمارشل مسعود اختر نے ایک سوال کے جواب پر کہا کہ حضور نبی اکرمﷺ نے جب میثاقِ مدینہ کا معاہدہ فرمایا تو اس وقت وہاں موجود تمام لوگوں کو ایک قوم فرمایا گیا اور سب کیلئے یکساں حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا اس کی دوسری شق بیان کرتی ہے کہ ہر کوئی اپنا عقیدہ رکھ سکتا ہے- تیسرا آرٹیکل ایک انقلاب سے کم نہ تھا جس میں یہ بیان کیا گیا کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے ، تمام کیلئے یکساں حقوق ہوں گے- قومی سطح پر اس طرح کے عقائد سے ہمارے مسائل حل ہوں گے جن کا سامنا آج پاکستان کو ہے-

سفارشات:

 سیمینار میں ہونے والی گفتگو سے درج ذیل سفارشات مرتب کی گئی ہیں-

(۱)  پاکستان اور روس کو اپنے باہمی تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں اور باہمی اعتماد کی فضا پیدا کی جانی چاہئے-یہ تعلقات کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں-

(۲)  پاکستان کو توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی روسی پیشکش ،جن میں مظفر گڑھ پاور پلانٹ کو کوئلے پر منتقل کرنا ، جامشورو پاور پلانٹ پر کام، پاکستان سٹیل ملز کی اپ گریڈیشن، تیل ، گیس، معدنیات اور دھاتوں کے نئے ذخائر کی تلاش، ان کو نکالنا اور استعمال میں لانا شامل ہیں، کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان پر کام کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں-

(۳)  پاکستان کے دفاع، میٹالرجیکل(metallurgical ) ، ٹیلی13:43:35 کمیونیکیشن کے شعبہ جات، سول، ایروناٹیکل اور ہیلی کاپٹر بنانے کی انجینئرنگ صلاحیتوں میں اضافہ کیلئے میں دو طرفہ تعاون بڑھایا جانا چاہئے-

(۴)  مختلف پاکستانی اشیاء مثلاً خام مال، زرعی اجناس، ٹیکسٹائل اور لیدر کی خام و تیارشدہ مصنوعات اور سستی افرادی قوت کی روس کوفراہمی پر توجہ دینی چاہئے-

(۵)  دونوں ممالک کے مابین حکومتی اور نجی شعبہ جات سے وفود کا تبادلہ ہونا چاہئے جو باہمی تعاون کو مضبوط کرنے کیلئے پالیسی بنانے اور اس پر عمل درآمد کے ذمہ دار ہوں-

(۶)  طلباء، اساتذہ، پیشہ ور افراد، ماہرین ، اراکینِ پارلیمنٹ اور ثقافتی وفود کا تبادلہ ہونا چاہئے تا کہ دونوں ممالک کے عوام کا آپس میں رابطہ بہتر ہو سکے-

(۷)  پاکستان،روس انٹر گورنمنٹ کمیشن برائے تجارت، معیشت ، سائنس و تکنیکی تعاون، پاکستان،روس تجارتی فورم اور اس طرح کے دیگر اداروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ یہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری کیلئے عملی کردار ادا کریں-

(۸)  وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا کی جانب توانائی کی منتقلی کیلئے پاکستان کو اہم کردار ادا کرنا چاہئے اور اس ضمن میں پاک روس تعاون خطے بھر میں معاشی بہتری لا سکتا ہے-

(۹)  انسدادِ منشیات، سیکیورٹی اور ان جیسے علاقائی مشترکہ دلچسپی والے شعبہ جات میں علاقائی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔ روس ایس۔سی۔او میں پاکستان کی مکمل رکنیت کی حمایت کرتا ہے اور یہ ادارہ علاقائی مسائل مثلاً انتہا پسندی، منشیات کی سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور سرحد پار جرائم سے موثر طریقے سے نمٹ سکتا ہے-

(۱۰)  پاکستان اور روس کو افغانستان کے مسئلہ کے پر امن اور جمہوری حل کیلئے مثبت طور پر سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہئے اور یہ مسئلہ افغان عوام کی مرضی و منشا سے حل ہونا چاہئے-

(۱۱)  پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں بہتری کیلئے دونوں ممالک کے میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا چاہئے-

(۱۲)  پاکستان کو نیٹ ورک ڈپلومیسی ( معاملات کو الگ الگ اپنی نوعیت کے مطابق حل کرنا) اختیار کرنی چاہئے تا کہ کسی بھی ملک کے ساتھ اتفاق اور تعاون کے دائرہ کار کو بڑھایا جائے اور تنازعات کے دائرہ کو کم سے کم کیا جائے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر