لاہور کے آزادی چوک میں کبھی گذر ہو تو شاہی قلعہ کے عالمگیری دروازے کے شمال کی جانب ایک کنکریٹ کا جدید ڈھانچہ کھڑا دکھائی دیتا ہے- ساٹھ کی دہائی میں بنایا جانے والا یہ مینار چاند ستارے میں کھڑا ایک ایسا گلدان ہے جو ہمیں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک سالانہ اجلاس کی یاد دلاتا ہے جس میں ایک قرار داد منظور ہوئی- صرف قرار داد ہی کیا منظور ہوئی ٹھیک سات سال بعد اس قرار داد کا عملی نمونہ بھی پاکستان کی صورت میں سامنے آگیا- ہندو ذہنیت میں نہ اس وقت کوئی تبدیلی آئی نہ آج تک آئی ہے- در اصل جس قوم کے پاس زندگی کا کوئی واضح نصب العین اور نظریۂ حیات نہیں ہوتا وہ قوم دوسری اقوام کی مخالفت کو ہی اپنا مقصدِ وحید بنا لیتی ہے- فکر ونظر سے فراغت رکھنے والے قلوب و اذہان اکثر دنگا فساد، لڑائی جھگڑا اور تخریب کاری میں مصروف رہ کر خود کو مطمئن رکھنے کی بے سود سعی کرتے رہتے ہیں-
ہندو ذہنیت:
اِس سے پہلے کہ کسی کے ذہن میں ’’رلیجئس ڈسکریمینیشن‘‘ کا شُبہ جائے میں یہ وضاحت کردوں کہ تاریخ میں جس چیز کو ’’ہندو ذِہنیّت‘‘ کہا گیا ہے اُس سے مُراد کسی مذہب کا مخصوص مذہبی رویّہ نہیں بلکہ اُس مذہب کے پیروکاروں میں سے ایک خاص طبقے یعنی ’’رولنگ ایلیٹ‘‘ کی مخصوص شاطرانہ و مکّارانہ ذہنیّت ہے جو سرزمینِ پاک و ہند پہ اپنے مذہب کے سوا کسی بھی اور مذہب کا وجُود نجس سمجھتے ہیں اور اُسے ختم کردینا چاہتے ہیں - ہندو سائیکی کو سمجھنے کے لیے اُن کی صدیوں پرانی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ضروری ہے کیونکہ یہ وہ خطہ ہے جس طرف جب محمد بن قاسم بمع لشکر تشریف لا رہے تھے تقریبا ًانہی لمحات میں طارق بن زیاد سپین کی طرف روانہ ہو رہے تھے پھر جہاں برصغیر میں مسلم حکمرانی قائم ہوتی ہے تو پورے اُندلس میں بھی مسلمانوں کا ڈنکا بجنے لگتا ہے- وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اُندلسی مسلمان بے عملی کا شکار ہوجا تے ہیں تو یہاں بھی یہی وباء پھیل جاتی ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے سپین سے مسلمان نسیا منسیا ہو جاتے ہیں لیکن برصغیر کے ایک حصے پر تحفظات کے باوجود آج بھی مسلمان ہی حکمرانی کر رہے ہیں- لفظِ ’’تحفظات‘‘ کا اضافہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اگرچہ حکمران مسلمان ہی ہیں لیکن طرزِ حکمرانی مثالی مسلمانوں جیسی نہیں ہے (بلکہ غیر مثالی مسلمانوں جیسی بھی نہیں بلکہ .... ) - الغرض اس خطے میں مسلمانوں کے وجود کو برقرار رکھنے میں بہت سے عوامل میں سے ایک ہندو ذہنیت بھی ہے- مسلسل مخالفت نے ہمارے ایمان کا دیا کبھی بجھنے نہیں دیا اور آج بھی اگر کوئی ایسا لمحہ آتا ہے تو ہمارا ایمان پھر سے تازہ ہو جاتا ہے:-
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے (۱)
برصغیر کا خطہ قدیم زمانہ سے بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہا ہے اس خطے کی زرخیزی اور دولت کی بدولت جنگجو اس میں بطور سلطنت قیام کرتے آئے ہیں- ان حملہ آوروں میں ایک آریا نسل بھی ہے جو آریا ہندو سماج کہلاتی ہے- آریا ہندو سماج کا شمار برصغیر جنوبی ایشیاء میں بطورِ فاتح داخل ہونے والی قدیم تہذیبوں میں ہوتا ہے- اس کے پیروکار سترہ سو سے پندرہ سو قبل مسیح کے زمانے میں وسطِ ایشیاء میں بحیرہ کسپین (Caspian Sea) کے اِرد گرد کے علاقوں سے فاتحین کے طور پر جنوبی ایشیاء میں آئے اور افغانستان میں پہلا قیام کیا- دوسرے مرحلے میں سندھ و پنجاب میں دراوڑی نسل کی ہندی تہذیب کو اُجاڑنے کے بعد آریا نسل کے لوگ بتدریج برصغیر ہندوستان پر نہ صرف قابض ہوئے بلکہ ہندوستان کو اپنی دیو مالائی کہانیوں میں بھارت ماتا کا رُوپ دے کر جنوبی ایشیاء کو اپنی سیاسی، معاشرتی اور نفسیاتی حصار کا محور بنانے میں کامیاب ہوئے- (۲)
آریا نسل کے اس ظلم کا تذکرہ کرتے ہوئے ظفر چوہدری اپنے ایک نایاب کتابچہ ’’ہندوستان کے لوگ‘‘ میں رقمطراز ہیں:-
’’اچھوت ہمارے سماج کا ایک ایسا عنصر ہیں جنہیں شاہراہِ ترقی پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں- ہندوستان کی تاریخ غلامی اور تشدد کی تاریخ ہے- آج کے اچھوت زمانہ قدیم کے وہ آزاد ہندوستانی ہیں جنہیں آریہ حملہ آوروں نے مغلوب اور محکوم کیا- آبادی کا ایک حصہ تو حملہ آوروں کے خوف سے ملک کے جنوبی حصوں میں بھاگ کر چلا گیا- جو نہ بھاگ سکے ، معمولی کاموں پر معمور کئے گئے- تقسیمِ محنت کی اس سیدھی شکل نے مورثی بن کر ایسی پیچیدہ شکل اختیار کر لی کہ وہ بنی انسان کے لیے ایک آفت بن کر رہ گئی- غریب شودروں سے جو معمولی خدمت پر معمور تھے مجلسی بائیکاٹ برتا جانے لگا- نسلی برتری اور رنگ کا امتیاز اپنے جوہر دکھانے لگا- یہ ہے وہ سوغات جو آج کے متمدن سماج کو اپنے قدیم سماج سے ورثہ میں ملی ہے-‘‘ (۳)
اچھوت کی وجہ تسمیہ اور ان پر ظلم و ستم کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:-
’’اچھوتوں پر کئی قسم کے ظلم روا رکھے جاتے ہیں- مجلسی تشدد کے باعث اسے اچھوت کا نام دیا گیا ہے- ہندوئوں کے اعلیٰ طبقات اسے نجس سمجھتے ہیں- مندروں کے دروازے اس پر بند ہیں- اونچی جاتی کنوئوں سے انہیں پانی لینے کی اجازت نہیں ، چند دیہاتی علاقوں میں سڑکیں تک جدا ہیں- مدرسوں میں داخلہ بند ہے اور یہ لوگ اپنی علیحدہ بستیوں میں رہتے ہیں- جاتی کی یہ اونچ نیچ باطن کی پاکیزگی پر منحصر نہیں کہ اعلیٰ وہ ہے جس کا باطن صاف ہے اور ادنیٰ وہ جس کا باطن کثیف ہے- یہ مجلسی ناروائی موروثیت کی ان روایات پر قائم ہے جس کا ہمارا سماج حامل ہے- یورپ میں کتوں سے بھی اس سے بہتر سلوک کیا جاتا ہے-‘‘ (۴)
ہندو ازم دراصل اپنی مسلسل سماجی، سیاسی اور نفسیاتی جدوجہد کی بنا پر ہی ہندو دھرم کو ہندوستان میں قائم و دائم رکھنے میں کامیاب ہوا ہے- اس نے دو وجوہات کی بنا پر اپنا اَثر و رسوخ برقرار رکھا- مثلاً جب یہ اقتدار کے منصوبوں پر ہوتا تو مخالف قوتوں کو شدت پسندی سے کچل دیتا اور باقی ماندہ کو ہندو ازم میں جذب کر لیتا جب بیرونی حملہ آور کامیاب ہو جاتے تو ان کی چاپلوسی کرتے ہوئے وقتی طور پر ہندو ازم کو دفاعی حصار میں اندرونی سماجی شدت پسندی سے قائم و دائم رکھتا- پھر جیسے ہی فاتح قوموں پر زوال کے آثار نمودار ہوتے تو ہندو ازم اپنے حصار سے نکل کر اقتدار کے منصوبوں پر غالب ہو جاتا اور مخالف قوموں کو کچل کر ہندو سماج میں جذب کر لیتا-
مسلمانوں کے ساتھ نبٹتے ہوئے اس کا معاملہ برعکس ثابت ہوا کیونکہ پہلی مرتبہ اس کا سامنا کسی قوی الایمان تہذیب سے ہوا تھا- پہلی مرتبہ اسے مسلمانوں کی صورت میں ایک مضبوط حریف ملا- جب یہ اسلامی تہذیب کو مکمل طور پر اپنی ساحری میں جکڑنے سے بری طرح ناکام ہوا تو ہندو ذہنیت نے اسلام اور مسلمانوں کو ہی اپنا دشمنِ اوّلین قرار دے دیا- ہندو ازم کی اسی سائیکی کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک ہندو دانشور نراد چوہدری اپنی کتاب Hinduism میں لکھتے ہیں:-
’’ہندو دھرم کی امتزاج کی قوت نے ہزاروں برس تک بے شمار فاتح قوموں کو اپنے اندر جذب کیا لیکن مسلمانوں کی شکل میں بالآخر ایک ایسا خطرناک دشمن سامنے آگیا جو کسی طرح بھی ہندو تہذیب میں جذب ہونے کے لیے تیار نہیں تھا بلکہ جس نے ہندو تہذیب کو ایک ایسے نئے خطرے سے دوچار کردیا جو تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ہندو سماج کے سامنے نہیں آیا، یعنی پہلے تو مسلمانوں نے برصغیر میں اپنی سماجی قوت کو تسلیم کرایا اور پھر تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو دھرم براہِ راست اسلامی تہذیب کے بھر پور حملے کی زد میں آیا-‘‘ (۵)
جب تک مسلمان حکمران رہے ، ہر ایک اپنے عقیدے اور مذہب کے مطابق زندگی بسر کرتا رہا جیسے ہی اورنگ زیب عالمگیر کی آنکھ بند ہوئی تو اس کے نا اہل جانشین تخت حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے باہم دست و گریبان ہونے لگے- ان کی اس غیر ذمہ دارانہ روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں سیاسی طور پر افرا تفری کا غبار چھا گیا اور ہندوستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی- جب تک دہلی میں قومی اور منظم حکومت قائم رہی تو صوبیداروں کو مرکزی جلال اور رعب کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہ تھی- جب انہوں نے دیکھا کہ مرکزی حکومت بے دست و پا ہوتی جارہی ہے اور میدان صاف ہے تو ہر ایک ملک کی بدنظمی اور ابتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اپنی جگہ پر خود مختار حکمران بن بیٹھا- اس دور کو طوائف الملوکی کا دور کہا جاتا ہے- مغلوں کے زوال سے ہندوستان کی حکومت خود بخود صوبوں میں منقسم ہو گئی-
’’ایسٹ انڈیا کمپنی شاطرانہ دماغ کی مالک تھی- نفع و نقصان ترازو میں تول کر قدم اٹھاتی تھی- ہندوستانی ریاستیں کم زرخیز اور دشوار گزار علاقے تھے کمپنی کو ابتدائی طور پر ساحلی یا ایسے قطعات اراضی کی ضرورت تھی جو زرعی پیداوار سے مالا مال ہوں- سمندر سے بآسانی دسترس پذیر اور جہاں یورپی اشیاء بآسانی زیادہ سے زیادہ لگ سکیں- کمپنی ان نسبتاً غریب اور دشوار گزار علاقوں کو محنت کش کسانوں اور ان کے حکمرانوں پر چھوڑ دینے کو تیار تھی اگر وہ باقی ہند میں ان کے جارحانہ عزائم کی راہ میں روڑے نہ اَٹکائیں---- ۱۸۵۷ء میں ہماری آزاد ریاستوں نے وہی پارٹ ادا کیا جس کے لیے وہ آج جان بُل کی منظور نظر ہیں- انقلاب میں ریاستوں نے انگریزوں کا پورا پورا ساتھ دیا جس کے عوض میں تاجِ برطانیہ نے پرانی قلمروئوں کی ہستی تسلیم کر لی اور اس طرح حیدر آباد اور دوسری غدار ریاستوں نے پھونک مار کر مغلیہ حکومت کے آخری چراغ کو گُل کر دیا-‘‘ (۶)
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ برطانوی کمپنی نے ہندوستان میں بیشتر مسلمانوں پر فتح آریا سماج کے ہی اونچی ذات کے ہندوئوں کی استعانت سے حاصل کی تھی اس لیے اپنے اقتدار کی پائیداری کے لیے انہوں نے انہی کو ترجیح دی کیونکہ انگریزوں کو یہی خطرہ لاحق تھا کہ مسلمان کبھی بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں اور دوبارہ بر سر اقتدار آنے کی کوشش کر سکتے ہیں - تاریخ کے بہت ہی مُستند حوالوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ’’مُغل / مرزا / بیگ‘‘ لکھوانا یا کہلوانا انگریز دور میں موت کے پروانے پہ دستخط کرنے کے مُترادف تھا بہت کم خاندان ایسے تھے جنہوں نے اپنی شناخت کی جنگ لڑ کر اسے باقی رکھّا - دوسرا اس کا ایک پہلو جس پر تفصیلی بحث تو یہاں ممکن نہیں صرف اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ انگریزوں کو ہندوؤں سے صرف برِّصغیر میں سامنا تھا جبکہ مسلمانوں سے دُنیا کے اکثر خطوں میں سامنا تھا اس لئے مسلمان انگریزی سامراج کا فطری دُشمن اور ہندو انگریزی سامراج کا فطری دوست تھا - متعدد ہندوستانی مؤرخین نے کھُل کر اس پہ لکھا ہے کہ ہندوؤں نے اِس لئے انگریز کا ساتھ دِیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان تو ایک ہزار سال سے مسلمانوں کی کالونی بنا ہوا ہے لہٰذا انگریز کی مدد کی جائے تاکہ ہم ہندوستان کو واپس ’’مہا بھارت‘‘ شناخت دِلوا سکیں جو کہ انگریزوں کی اوٹ پیچھے چھُپ کر ہی کیا جا سکتا تھا - اِس لئے ہندو رولنگ ایلیٹ نے ایسے مسلمانوں کو تو بادلِ نخواستہ برداشت کرلیا جو اُنہی کی طرح انگریزی سامراج کے دوست ہوئے اور مذہبِ اِسلام و ارضِ وطن سے غدّاری کے مُرتکب ہوئے یعنی جنہوں نے حُریّت و آزادی پہ انگریز کی غُلامی کو ترجیح دی وہ بھی صرف چند مرلوں اور چند ٹکّوں کی خاطر - انیسویں صدی کی مسلمان نسل کو ہندو ذہنیت کا اصل تجربہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد ہوا جب انگریزوں کی عنایات اور عنادات کھل کر سامنے آگئیں- آئین ٹالبوٹ نے پاکستان کی پچاس سالہ تاریخ مرتب کرتے ہوئے لکھا ہے:-
’’انگریزوں نے ان قومیتوں کی ہر طرح سے اعانت کی جنہوں نے ۱۸۵۷ء کے معرکے کے دوران ان کا ساتھ دیا تھا اور شانہ بشانہ ہر سرگرمی میں حصہ لیا تھا لیکن وہ ان افراد یا قومیتوں کو بھی ہرگز نہیں بھولے تھے جنہوں نے ان کے خلاف بغاوت کی تھی یا ان کے حریفوں کا ساتھ دیا تھا- ۱۸۵۷ء کے بعد پنجاب کے بہت سے دیہی خاندان انگریزوں کی وفاداری کے طفیل دولت و طاقت میں کھیلنے لگے تھے- دولت و طاقت کی ان کے ساتھ وابستگی عصرِ حاضر تک بر قرار ہے-‘‘ (۷)
دو قومی نظریہ :
محی الدینِ ہند اورنگزیب عالمگیر کی وفات (۱۷۰۷ء) کے بعد سے لیکر ۱۸۵۷ء تک کسی نہ کسی صورت میں حقِ حکمرانی مسلمانوں کے پاس ہی رہا- یہ مسلمان اب کوئی خارجی نہیں تھے یہیں کے باشندے تھے ، قدیمی ہندوستان کے اصل باشندے جنہیں آریا نسل نے اچھوت بنا دیا تھا لیکن اسلام نے انہیں عزت دی اور انہوں نے اپنے ہی خطے میں اپنے ہی دین کی ایک اسلامی تاریخ رقم کی- نیز صرف اچھوت ہی نہیں اعلیٰ ذاتوں کے، آریا نسل کے کثیر لوگ بھی مسلمان ہوچکے تھے- جنگ آزادی میں ناکامی کی سب سے تلخ حقیقت جو مسلمانوں کی تاریخ پر مرتب ہوئی وہ مسلمانوں کے حقِ حکمرانی کا کلیتاً خاتمہ تھا- ملکہ وکٹوریہ کے فرمان (۱۸۵۸ء) میں جو وعدہ کیا گیا کہ آنے والے وقتوں میں اس ملک کو اس کے باشندوں کے حوالے کر دیا جائے گا ، اس فرمان کو جمہوری نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس میں مسلمانوں کو اقتدار کی منتقلی اور حقِ حکمرانی کو شامل نہیں کیا جاسکتا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ نو آبادیاتی نظام کے آنے کی وجہ سے برصغیر میں مسلمانوں کا حقِ حکمرانی زائل ہوا تھا نہ کہ آریا نسل ہندوئوں کا اس لیے کانگرس کی تحریکِ آزادی اور مسلم لیگ کی تحریکِ آزادی میں بنیادی فرق تھا کہ کانگرس کے نزدیک برصغیر سے انگریز کا اخراج ہی آزادی ہے جبکہ اس صورت حال میں مسلمانوں کے کھوئے ہوئے حقِ حکمرانی کے واپس ملنے کی کوئی امید نہ تھی- اپنے اسی حقِ حکمرانی کا تذکرہ کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے فرمایا تھا:-
’’ہمارا شمار ان قوموں میں ہوتا ہے جو گر چکی ہیں، اور ہم نے نہایت برے دن دیکھے ہیں- اٹھارویں اور انیسویں صدی کی زبر دست تباہی میں مسلمان خاکستر بن چکے تھے ----- مغل سلطنت کے خاتمے سے لے کر اب تک مسلمانوں کو اتنی بڑی ذمہ داری سے کبھی سابقہ نہیں پڑا جو پاکستان کی ذمہ داری قبول کرنے سے پیدا ہوا ہے ----- ہم نے اس برصغیر کی سر زمین پر آٹھ سو سال حکومت کی ہے اور ہمارا مطالبہ ہندوئوں سے نہیں کہ یہ برصغیر کبھی ہندوئوں کی عمل داری میں نہیں رہا ----- صرف مسلمانوں ہی نے اس پورے خطۂ زمین پر حکومت کی ہے ---- انگریزوں نے اس برصغیر کو مسلمانوں سے حاصل کیا تھا اس لیے ہمارا مطالبہ ہندوئوں سے نہیں، انگریز سے ہے کیونکہ یہ ملک اب ان کے قبضے میں ہے-‘‘ (۸)
اس تناظر میں قائد اعظم کے اُس فرمان پر غور فرمائیں جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ پاکستان اسی وقت قائم ہوگیا تھا جب برصغیر کا پہلا باشندہ مسلمان ہوا تھا- آپ نے برصغیر کے باشندے کی بات کی ہے یہ نہیں فرمایا کہ پاکستان اسی وقت قائم ہوگیا تھا جب عرب کا پہلا مسلمان تاجر یا مبلغِ اسلام اس خطہ میں داخل ہوا تھا-
ایک تو اس خطہ کے مسلمانوں کا حقِ حکمرانی زائل ہوا دوسرا مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ مذہبی فرقہ واریت، سماجی نسل پرستی، معاشرتی عدمِ مساوات ، بد اعمالی، بے اعتقادی جیسے عوامل کی بدولت اندرونی طور پر خطرناک حد تک بکھر چکے تھے- انہیں نہ تو کسی فرقہ کی بنیاد پر متحد کیا جا سکتا تھا نہ کسی دولت کی بنیاد پر اور اگر مسلمان اپنے حقِ حکمرانی کے حصول کی جدوجہد بھی نہ کرتے جیسا کہ کانگرس اور کچھ مسلمان راہنمائوں کی خواہش تھی تو آج برصغیر بھی اندلس کی دوسری تصویر ہوتا- کیونکہ آریا نسل کے غاصبوں نے مسلمانوں کے وجود کو کبھی برداشت نہ کیا تھا انہوں نے ہی قومی تفریق کی بنیاد رکھی، انہوں نے ہی مسلمانوں کو اچھوت، ملیچھ تک قرار دیا، انہوں نے ہی یہ نظریہ دیا کہ اگر چور تمہارے گھر میں گھس آئے اور تم اسے نکالنے کی سکت نہیں رکھتے تو گھر کو آگ لگا دو- گھروں کو آگ لگانے کا نظریہ انہی کا تھا کیونکہ ان کے نزدیک اگنی جگہ کو پاک کرتی ہے- وہ ہندوستان کے اصل باشندوں کو چور سمجھتے تھے جو ان کے گھر یعنی ہندوستان میں وارد ہو چکے تھے جبکہ اپنا غاصبانہ قبضہ انہیں یاد نہ تھا-
لہٰذا نظری و فکری جنگ کے اس دور میں ایک ایسی حقیقت جو صدیوں سے موجود تھی صرف اسے الفاظوں کا جامہ یوں پہنایا گیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور ہندو ایک الگ قوم ہیں- یہی وہ دو قومی نظریہ ہے جسے بعض کج فہم نظریہ ضرورت سے بھی تمثیل دیتے ہیں کہ چونکہ مسلمانوں کو اقتدار کی ضرورت تھی لہٰذا اس نظریہ کو اقتدار کے حصول کے لیے گھڑ لیا گیا اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب اقتدار مل گیا تو یہ نظریہ ختم ہوگیا- یہ عقل و فکر کی کم ظرفی اور حقائق سے منہ موڑنا ہے کیونکہ دوقومی نظریہ کی بنیاد مسلمانوں کی برصغیر میں آٹھ سو سالہ رہن سہن ،برتائو ، رسم و رواج کا گہرا تاریخی مشاہدہ تھا جس میں مسلمان اور ہندو کبھی ایک نہیں ہوئے تھے- یہ دو الگ الگ قوموں کی صورت میں رہتے رہے- مسلمان حکمرانوں کی وسعتِ قلبی تھی کہ ان آٹھ صدیوں میں برصغیر کا ہر مذہبی گروہ پوری آزادی سے اپنے مذہب پر عمل پیرا رہا- مسلمانوں کے دورِ حکمرانی میں کوئی تہذیبی تصادم نہ ہوا کیونکہ انہیں اپنی جاندار تہذیب کا خوب ادراک تھا- وہ تہذیبی طور پر کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار نہ تھے اور نہ ہی اس کی وسعتِ ظرفی پر انہیں کوئی شبہ تھا جبکہ نو آبادیاتی نظام نے مسلمانوں کو وہ آزادی نہ دی جو مسلمان حکمرانوں نے سب کو دے رکھی تھی- اس لیے مسلمان حکومتِ برطانیہ سے اس کے باوجود بھی خوش نہ تھے کہ انہوں نے پنجاب میں سکھوں کی حکومت سے مسلمانوں کی جان چھڑائی تھی- رہی بات ہندوئوں کی حکمرانی کی تو میں آج کے بھارت کی ہی مثال دینا چاہوں گا جہاں کہا جاتا ہے کہ ایک مسلمان صدر بھی بن سکتا ہے اور وزیرِ اعظم بھی لیکن کیا ہندوستان کا مسلمان صدر یا وزیر اعظم بن کر اقتدارِ اعلیٰ اپنے خالقِ حقیقی اور رب واحد اللہ تعالیٰ کی ذات کو منتقل کر سکتا ہے؟ کیا حاکمِ اعلیٰ کے آئین کو پورے بھارت کا آئین بنا سکتا ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو قائد اعظم کی جدوجہد پر تحفظات رکھنے والے حق بجانب ہیں اگر جواب نفی میں ہے تو آئیے قائدِ اعظم کے اُس خطاب کے چند اقتباسات بنظرِ غائر دیکھ لیں جو انہوں نے ۲۲ مارچ ۱۹۴۰ء کے ’’تاریخ ساز ‘‘ دِن ارشاد فرمائے تھے:-
ہزارسال کے گہرے روابط کے باوصف اگرقوموں (ہندو اورمسلمانوں )میںاس قدرفاصلے ہیں،جتنے کہ آج ہیں ، تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی بھی وقت صرف اس لئے ایک قوم بن جائے گی کہ ان پر ایک جمہوری دستورمسلط کردیاگیاانہیں برطانوی پارلیمانی قانون کے غیرقدرتی اورمصنوعی طریقوں کے ذریعہ زبردستی یکجا کردیاگیا-فی الحقیقت یہ مختلف اورنمایاں معاشرتی نظام ہیں اوریہ ایک خواب ہے کہ ہندو اورمسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی سلک میں منسلک ہوسکیں گے اور اگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظرثانی نہ کرسکے تو یہ کُل انڈیا کو تباہی سے ہمکنارکردے گا-
ہندوئوں اورمسلمانوں کادومختلف مذہبی فلسفوں ،معاشرتی رسم رواج اورادب سے تعلق ہے -نہ وہ آپس میں شادی کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کرکھاتے پیتے ہیں- دراصل وہ دومختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اورتصورات پراستوار ہے -یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندواور مسلمان تاریخوں کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں ان کی رزم مختلف ہے،ہیروالگ ہیں اورداستانیں جدا-اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہیرو دوسرے کادشمن ہوتاہے اوراسی طرح ایک کی کامرانیاں دوسرے کی ناکامیاں اور ایک کی ناکامیاں دوسرے کی کامرانیاں بن جاتی ہیں -ایسی دوقوموں کوایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کاجن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اوردوسری اکثریت ہو،نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا اورآخرکاروہ تاناباناہی تباہ ہوجائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لئے بنایاجائے گا-
اب مسٹر گاندھی دیانتداری کے ساتھ کیوں تسلیم نہیں کرلیتے کہ کانگرس،ہندوکانگرس ہے اوروہ ہندوئوں کی ٹھوس تنظیم کی نمائندگی کرتے ہیں -مسٹر گاندھی کو یہ کہنے میں فخرہوناچاہیے کہ ’’میں ہندو ہوں ‘‘کانگرس کوہندوئوں کی زبردست حمایت حاصل ہے -مجھے(قائداعظم محمدعلی جناح کو )یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک مسلمان ہوں-اب تو ایک اندھے کوبھی اب تک یقین ہوگیاہوگا کہ مسلم لیگ کومسلمانانِ ہند کی زبردست حمایت حاصل ہے -تو پھر (گاندھی اور ہندوئوں کے)یہ تمام جھانسے کیوں ؟یہ تمام چالاکیاں کیوں؟پھرمسلمانوں کا تختہ پلٹنے کے لیے انگریزں پردبائوڈالنے کے طریقے کیوں اختیار کئے جارہے ہیں ؟سول نافرمانی کی دھمکی کیوں دی جارہی ہے ؟مجلس دستورساز کے لئے لڑائی کیوں لڑی جارہی ہے -وہ(گاندھی جی)ہندو رہنماکی حیثیت سے کیوں نہیں آتے؟وہ(گاندھی جی)فخر کے ساتھ اپنے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے آئیں اورمجھے (قائداعظم محمدعلی جناح کو) فخر کے ساتھ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملاقات کاموقع دیں- جہاں تک کانگرس کاتعلق ہے مجھے یہی کہناتھا-(۹)
۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کا دن مملکتِ خداداد پاکستان کی حقیقی میراث اوراساس ہے -ملک پاکستان کی پالیسیوں خاص کرخارجہ اورداخلہ پالیسیوں میں جو انتشار وانحطاط دَرآیا ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اکابرینِ تحریک پاکستان کے نظریات سے انحراف ہے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ملکی پالیسیوں کو ان خطوط پراستوارکریں جن کی وضاحت اکابرینِ تحریک پاکستان خاص کرعلامہ محمداقبال اورقائداعظم محمدعلی کے فرمودات ونظریات میں وافر موجود ہیں-
٭٭٭
حوالہ جات:
(۱)صادق سیالکوٹی،مجموعہ برگ سبزبحوالہ کالم ناصرزیدی،بادشمال روزنامہ پاکستان18/01/2013
(۲) (رانا عبدالباقی، ’’اکھنڈ بھارت، جوہری بالا دستی اور ڈاکٹر عبد القدیر خان‘‘ ، ص:۶۴)
(۳) (ہندوستان کے لوگ، ظفر چوہدری، ص:۸۱، جنتا پبلشرز لمیٹڈ لاہور)
(۴) (ہندوستان کے لوگ، ظفر چوہدری، ص:۸۱،۸۲، جنتا پبلشرز لمیٹڈ لاہور)
(۵) (رانا عبدالباقی، ’’اکھنڈ بھارت، جوہری بالا دستی اور ڈاکٹر عبد القدیر خان‘‘ ، ص:۶۴)
(۶) (ہندوستان کے لوگ، ظفر چوہدری، جنتا پبلشر لمیٹڈ لاہور، ص:۸۵،۸۴)
(۷) (تاریخ پاکستان (۱۹۴۷ء تا ۱۹۹۷ء)ص:۱۰۶، تخلیقات لاہور)
(۸) (قائدِ اعظم اور آزادی کی تحریک، پروفیسر جیلانی کامران، ص،۲۳،۲۴، مجلس ترقی ادب لاہور)
(۹)آل انڈیامسلم لیگ کے ۲۷ویں سالانہ اجلاس لاہورمیں قائداعظم کاخطاب۲۲مارچ۱۹۴۰