عالم آشکارا حقیقت ہے کہ عالمی امن وسکون اوراحترامِ انسانیت کے لئے سرمایہ داری اور سرمایہ دارانہ نظام ایک بڑا اورحقیقی خطرہ ہے علاوہ ازیں عصرِ حاضرمیں انسانیت کو در پیش جنگ وجدل،ظلم ،جبراوربربریت کی بھی بڑی وجہ مذکورہ سرمایہ داری کی ہوس ہے مزیدبرآں موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں سرمایہ دارانہ نظام کو موردِ الزام ٹھہرانا مبنی بر حقائق و درست ہے محض مخالفت برائے مخالفت نہیں -یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سطح زمین کاگیلااورترہونا،آسمان پربادلوں اوربارش کاحاصل ہوتاہے علاوہ ازیں آسمان پرآفتاب کی تمازت اورتیز دھوپ سطح زمین کے خشک ہونے کاپیش خیمہ ہے - المختصرآسمان کے حالات میں کسی بھی تبدیلی اورتغیرکاعکس اورپرتوزمین کے حالات میں تبدیلی اورتغیرسے نمایاں ہوتاہے سادہ الفاظ میں یوں کہئیے زمین کے موسم براہِ راست آسمانی حالات کے محکوم ہیں بعینہٖ زمین کے باسی جس نظام ہائے حیات کو خود پر مسلط کریں گے انہیں مجموعی طورپراُسی طرز حیات کے شیریں یاتلخ پھل سے بہر حال محظوظ ہوناپڑتا ہے-بہرکیف عصرِحاضر میں زمین کے باسی جن ہولناک اورسنگین حالات سے برسرپیکارہیں وہ حالات سرمایہ دارانہ نظام ہی کی ضوفشانیوں اورخودمختاری کاشاخسانہ ہیں یہ امردلچسپی سے بھرپورہے کہ زمین پرمروجہ ہمہ قسم کے الہامی طرزہائے حیات،سرمایہ دارانہ نظام کوانسانیت کے لئے زہرقاتل کے مترادف قراردیتے ہیں مگرمذکورہ طرزہائے حیات کے پیروپوری شدومدسے سرمایہ دارانہ نظام کواپنائے ہوئے ہیں مزیدبرآں سرمایہ داری کی ہوس نے انسانوں کومحض ایک خودکارمشین بنادیااورسرمایہ داری کی حرص نے زمین کے باسیوں کے جذبات کوہمہ قسم کی لطافت سے یکسر محروم کردیاحتٰی کہ انسان کااپنے خداسے تعلق بھی مادہ پرستی سے کثیف ہوا،صدحیف وافسوس!زمین کے باسی اپنی ہونیوالی تکذیب ، تذلیل اور تضحیک کوگلدستہ طاق نسیان کرتے ہوئے تاحال سرمایہ داری کے سحر میں گم اورسرمایہ دارانہ نظام کی دلدل میں مزید سے مزید تر دھنسے جانے کے لئے بے قرار ہیں مذکورہ بالاانسانیت کی اندوہ گیں صورتحال سے محض تیسرافریق شیطان ہی محظوظ اورانگشت نمائی میں مصروف کار ہے - ضرورت اس امر کی ہے کہ زمین کے تمام باسی بالعموم اورمسلمان بالخصوص اپنی اندوہ ناک زندگی میں بہتری کی ضرورت محسوس کریں اپنی زندگی کے حاصل کاغیرجانب دار تجزیہ کریں تاکہ وہ مائل بااصلاح ہوں اورانسانیت کے مستقبل کومزیدخون ریزی اوراستحصال سے محفوظ کیا جا سکے - یہ امرروزِروشن کی مانندعیاں ہے کہ دنیاکے تمام الہامی طرزہائے حیات اورخاص کردینِ اسلام زمین کے کُل باسیوں کی خیراوربھلائی کے خواہاں ہیں مگریہ بھی ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ دین اسلام اورسرمایہ دارانہ نظام دریاکے دوکناروں کی مثل متوازی خطوط پرگامزن اوررواں دواں ہیں مزیدبرآں جیسے کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ دریاکے دونوں کناروں پربیک وقت اورآن کی آن مقیم ہوکیونکہ کہ دونوں کناروں میں ایک ابدی حدفاصل ہے اوریہی حدِفاصل دریاکے اجزائے ترکیبی میں شامل ہے بعینہٖ دین اسلام اورسرمایہ دارانہ نظام کے بیچ حدفاصل آفاقی ساختہ اورخدائی نوعیت کی ہے مذکورہ حدفاصل کی آفاقیت کی صراحت حضرت سلطان باھُویوں بیان کرتے ہیں-
دین تے دُنیاں سکیاں بھیناں تینوں عقل نہیں سمجھیندا ھُو
دونْویں اکس نکاح وچ آون تینوں شرع نہیں فرمیندا ھُو
سرمایہ داری کوزیادہ وسیع مفہوم میں ’’دنیا‘‘کی اصطلاح سے متعارف کرواناقرینِ انصاف ہے مزیدبرآں سرمایہ داری کو اصطلاح ’دنیا‘گرداننابھی قرینِ قیاس ہے المختصر!مذکورہ بالابیت میں حضرت سلطان باھوصراحت کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت میں بیک وقت دوسگی بہنوں سے نکاح کرناامرمحال ہے چونکہ حضرت سلطان باھو نے دین اسلام اورسرمایہ داری کوسگی بہنیں گرداناہے اس سے ایک امرخاص کی وضاحت کی کہ ایک خالص اورحقیقی اسلامی معاشرے اورریاست میں سرمایہ دارانہ نظام کاپنپنابھی امرمحال ہے قرآن مجیدکی آیت کریمہ بھی درج بالاامرپر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے ارشادِباری تعالیٰ ہے کہ
{وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلِ الْعَفْوَط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اﷲُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَo}
’’ اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لیے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو-‘‘( سورۃ البقرہ:۲۱۹)
اللہ تبارک وتعالیٰ مذکورہ بالاآیت کریمہ میں سرمایہ داری کی ممانعت کی ہے اور ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کاحکم دیاہے درج ذیل حدیث میں حضورنبی اکرمﷺنے بھی سرمایہ داری کی ممانعت کی ہے حضورنبی اکرم کاارشادگرامی ہے کہ
{لَیْس لاِبْنِ اٰدمَ حَقٌ فیِ سِرَی ھٰذِہِ الْخِصالِ بَیْتٌ یَسکُنُہُ وَثَوْبٌ یُوَارِی عَوْرَتَہُ وَ جِلفُ الْخُبْرِوَالْمَائِ}
’’بنی آدم کاان چیزوں کے علاوہ کوئی حق نہیں(۱)رہنے کے لئے گھر(۲)تن ڈھانپنے کے لئے مناسب کپڑا(۳)روٹی اورپانی پینے کے برتن-‘‘(جامع ترمذی،جلددوم،صفحہ نمبر۱۰۴،ابواب زہد )
درج بالافرمان باری تعالیٰ کواگرجانچنااورسمجھنامقصودہوتوآفتاب حیات نبویﷺسے ہرآن اورہرلمحہ کامل فقرکی کرنیں سرمایہ داری کی تیرگی شب کومنورکررہی ہیں بعدازحیات نبویﷺ جب فتوحات شام ،مصراورعراق کے غلبے سے وافرسازوسامانِ دنیاکی فراہمی ممکن ہونے لگی تو مسلمانوں کی ضروریاتِ زندگی نے حضورنبی اکرمﷺ کی مقررکردہ ضروریاتِ زندگی کے حصاراورحدودکوپھلانگناچاہاتوامت مسلمہ کوپہلی بار سرمایہ دارانہ نظام کاخطرہ درپیش آیادریں اثناشمعِ نبوتﷺ کے بے باک جان بازحضرت ابوذرغفاریؓ نے نعرۂ فقربلندکیااورامت مسلمہ کوسرمایہ دارانہ نظام کے درپیش خطرات کوللکارااورسرمایہ داری کے خلاف جد و جہد کی سنت نبویﷺ کااحیاء کیا- سترہویں صدی عیسوی میں مروجہ سرمایہ دارانہ نظام نے صنعتی انقلاب کی کوکھ سے جنم لیایہ امر پیشِ نظررہے کہ سائنسی علوم وفنون کی آبیاری اورابلاغیات کاسہرہ اسلام اورمسلمانوں کے ہی سررہاالبتہ یورپ صنعتی انقلاب کی مصنوعات کی پیداوار سے حاصل ہونے والے بے تحاشہ روپے پیسے سے سرمایہ دارانہ نظام کی داغ بیل ڈالی -دریں اثنااللہ تبارک وتعالیٰ نے سرمایہ دار نظام کے مذموم مقاصد اورزمین کے باسیوں کوسرمایہ دارانہ نظام کے ممکنہ درپیش خطرات کے تدارک اورنعرہ فقربلند کرنے کے لئے سلطان الفقرپنجم حضرت سلطان باھو کومنتخب کیا - کیوں کہ جب مغربی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی تخم ریزی ہورہی تھی یہ وہی دورتھاجس میں سلطان باھونے اپنی تعلیمات کو سطراوراوراق سے مزین کیا-سلطان باھو نے حق ملکیت کے بے جااوربے دریغ استعمال کوانسان دشمن برائی(سرمایہ دارانہ نظام)کی جڑگرداناآپ کاموقف تھاکہ حق ملکیت کاناجائز استعمال ہی سرمایہ دارانہ نظام کی تقویت کاباعث ہے آپ حق ملکیت پر قدغن لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
’’جو فقیر ذکرِ اَللّٰہُ سے ہٹ کر کسی چیز یا جائے رہائش کو اپنی ملکیت قرار دیتا ہے وہ کافرِمطلق ہے، فقیری و درویشی میں اُس کا کوئی حصہ نہیں- اے اولادِ آدم ؑ! کتے سے تو کمتر نہ ہوکہ کتا کسی چیز یا رہائش گاہ کو اپنی ملکیت قرار نہیں دیتا - مفادِ عامہ کے لئے وقف کی گئی چیز کسی کی ملکیت نہیں ہوتی جس طرح کہ مسجد کسی کی ملکیت نہیں - اہل ِ اَللّٰہُ فقیر بھی لا ملک ہوتا ہے اور مسجد کی طرح ہوتا ہے-‘‘(عین الفقر:۳۳۹)
مذکورہ عبارت میں سلطان باھو نے کافر مطلق کی جو اصطلاح استعمال کی ہے اس سے مراداس کامعنوی مفہوم ہے یعنی وہ انسان جو راہ ِخداکوبالکل ترک کرکے فقط دنیاوی زیب زینت کوہی اپنی زندگی کاواحد مقصود بنالیتاہے اور مفاد عامہ سے صریحاً ہاتھ کھینچ لیتا ہے -
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی فروعات اورمذموم مقاصد میں دین اسلام سے متضاد طرزعمل کامدعی ہے یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ دین اسلام کے ثمرات اورفیوض وبرکات سے پوری طرح مستفید اورمستفیض نہیں ہوپارہی -ضرورت اس امر کی کہ زمین کے باسی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کریں اورسرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکاراپاناہی زمین کے باسیوں کانصب العین ہوناچاہیے - حضرت سلطان باھو عصرِحاضر میں جارح اورحریص اقوام عالم کے طرزعمل کی عکاسی اپنے بیت میں یوں کرتے ہیں کہ
دنیاں ڈھونڈن والے کتے در در پھرن حیرانی ھُو ہڈی اتے ہوڑ تنہاں دی لڑدیاں عمر وہانی ھُو
عقل دے کوتاہ سمجھ نہ جانن پیون لوڑن پانی ھُو باجھوں ذکر ربے دے باھُوؔ کوڑی رام کہانی ھُو