صحیح مسلم شریف کے باب ’’فضل المدینہ و دعا النبی ﴿w﴾ ‘‘ میں سیّدنا انس بن مالک (رض) سے مروی حدیث پاک ہے کہ آقائے دوجہان ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص بھی مدینہ منوّرہ میں فتنہ کا کوئی کام کرڈالے گا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے - قیامت کے دن اس کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہ ہو گا‘‘-
اِسی طرح امام نسائی نے ’’سنن الکبریٰ‘‘ میں سیّدنا سعد بن ابی وقاص (رض) سے حدیث پاک روایت کی ہے کہ آقا کریم ﴿w﴾ نے فرمایا:
’’ جو شخص اہل مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ دوزخ میں اسے اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے - ‘‘
یہ احادیث پاک بغیر کسی تبصرہ و تشریح کے اپنا مُدّعا آفتابِ نیم روز کی طرح واضح کر رہی ہیں کہ کوئی بھی بد بخت اگر مدینہ طیّبہ کی حرمت و تقدّس کو پامال کرتا ہے ، وہاں فتنہ و فساد کا کوئی عمل کرتا ہے یا ایسا فعل کرتا ہے جس سے اُس دیارِ شریف کے رہنے والوں کو تکلیف پہنچے تو اُس پہ دُنیا و آخرت میں محبوبِ دو جہان ﴿w﴾ نے فیصلہ سُنا دیا -
جس دِن یہ بد نصیب اور غم انگیز خبر مِلی کہ شہرِ رسول اللہ ﴿w﴾ میں اور وہ بھی روضۂ اقدس پہ حملے کی ناپاک جسارت کی گئی ہے ، اُس وقت رِہ رِہ کر دِل میں خیال آیا کہ کیا اِسی دِن کا دیکھنا آج اسلامیانِ عالَم کی قسمت میں رہ گیا تھا ؟ کہ ہمارے آقا و مولیٰ کی مسجدِ پاک اور ہمارے عقیدہ و عقیدتوں کے مرکز میں ایک مسلمان کہلانے والا کئی مسلمانوں کی جان لینے کے ساتھ ساتھ اُس پاک اور طیّب دھرتی کا تقدّس پامال کرے -
اِس قبیح عمل نے تو قلب و روح مجروح کئے ہی ہیں اِس سے بڑھ کر اِس بہت بڑے سانحہ پہ اُمّت کی پُر اسرار اور ناقابلِ فہم خاموشی نے گہرے صدمے سے دوچار کیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی سیاسی و نیم سیاسی رنجشوں پہ تو ہم احتجاج کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور بیان پہ بیان داغتے ہیں لیکن کیا گنبدِ خضریٰ سے ہمارا تعلُّق اِس قدر ماند پڑ گیا ہے اس درجہ کمزور ہو گیا ہے کہ ہزاروں مصلحتیں ہماری زبانوں کی تالا بندی کر کے کھڑی ہو گئیں - کسی نے سوالِ وصل کیا نہ عرضِ غم کی ، نہ حکایت کی نہ شکایت کی ، اِس پُر اَسرار خاموشی سے یوں محسوس ہوا کہ ہمارے ایمان سے ’’دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے‘‘ - حرمِ نبوی ﴿w﴾ میں دھماکے نے جہاں دل اور جگر زخمی کئے وہیں اِسلامیانِ عالَم کی خاموشی نے اُن زخموں پہ نمک پاشی کی - اُس دِن سیّدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے لیکر حضرت بلالِ حبشی(رض) ، اور حضرت اویسِ قرنی(رض) تک ایک ایک عاشقِ روئے حبیب اور فدائے کوئے حبیب کا نام آنکھوں کے سامنے ابھر ابھر کے آتا رہا - رِہ رِہ کر حضرت امام زین العابدین ، حضرت عبد الرحمٰن جامی اور حضرت علّامہ اقبال یاد آتے رہے کہ اِن عُشّاق نے کس کس طرح اپنے حبیب ﴿w﴾ کے شہرِ پُر نور اور روضۂ اقدس سے اپنی محبت و عقیدت کے نغمے لکھے ، یہ پاکباز رُوحیں جب خود وہاں نہ پہنچ پاتیں تو نسیمِ صبحگاہی سے دوستی کرلیتیں اور اُس سے کبھی یہ تقاضا ہوتا کہ میرا سلام روضۂ اقدس میں عرض کرنا کبھی یہ تقاضا کہ خود مجھے اُڑا کر لیجا اور ’’فدائے روضۂ خیر البشر‘‘ کر دے - سیّدنا امام زین العابدین سلام اللہ علیہ اپنے نانا جان کی طرف چہرہ کر کے مسافری و غریب الدّیاری میں فرماتے ہیں :
اِنْ نَلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْماً اِلیٰ اَرْضِ الْحَرَم
بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فِیْہَا النَّبِیُّ الْمُحْتَرَم
ترجمہ: اے بادِ صبا ! اگر کسی دِن تیرا گزر حرم کی سرزمین پہ ہو ، تو اُس روضۂ اقدس میں میرا سلام پہنچا دینا جس میں نبی محترم ﴿w﴾ تشریف فرما ہیں -
اَکْبَادُنَا مَجْرُوْحَۃٌ مِنْ سَیْفِ ھِجْرِ الْمُصْطَفےٰ
طُوْبیٰ لِاَھْلِ بَلْدَۃٍ فِیْہَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم
ترجمہ: ہمارے جگر زخمی ہو چکے ہیں مصطفےٰ کریم ﴿w﴾ کے ہجر کی تلوار سے ، مبارکباد ہے اُس شہر کے بسنے والوں کیلئے کہ جس ﴿شہر﴾ میں نبی محتشم ﴿w﴾ تشریف فرما ہیں -
حضرت امام جامی علیہ الرحمہ بھی بادِ نسیم سے یہی کہتے ہیں کہ کسی طرح مجھے اُٹھا کر ، میری جانِ بے تاب کو اُس طیّب زمین پہ پہنچا اور یوں میرا انجام کر کہ مجھے میرے محبوب پاک ﴿w﴾ کے روضہ شریف پہ قربان کر دے - امام جامی رحمۃ اللہ علیہ کی معروف نعت کا شعر ہے :
بَبُر ایں جانِ مُشتاقَم دَر آنجا
فدائے روضۂ خیر البشر کُن
عندلیبِ باغِ حجاز حضرت اقبال علیہ الرحمہ بھی ایسی ہی بادِ صبا کی تلاش کرتے ہیں جو اُنہیں دیارِ محبوب میں جا پہنچائے جہاں ان کے وجود کے اجزأ غُبار بن کر حجاز شریف کی راہوں میں بکھر جائیں:
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال!
اُڑا کے مجھ کو غُبارِ رہِ حجاز کرے
پھر اقبال کہتے ہیں کہ ﴿اَز درَت خیزَدْ اگر اجزائے من﴾ کہ سیّدی یا رسول اللہ ﴿w﴾ ! اگر جناب کے درِ اقدس سے قیامت کے دِن میرے اجزأ اُٹھائے جائیں ’’کیا بات ہو میرے آج کی اور کیا خوش نصیبی میرے کل کی ﴿وائے امروزم خوشا فردائے من﴾ -
فرّخا شہرے کہ تو بودی دراں
اے خنک خاکے کہ آسُودی دراں
’’مسکنِ یار است و شہرِ شاہِ من
پیشِ عاشق ایں بود حُبّ الوَطن‘‘
ترجمہ : خوش نصیب ہے وہ شہر جہاں آپ ﴿w﴾ جلوہ فرما ہیں ، واہ وہ ٹھنڈی خاک ! جہاں آپ ﴿w﴾ آرام فرما ہیں - عاشق کے نزدیک حُبِّ وطن یہ ہے کہ وہ اپنے دوست کے مسکن اور اپنے شاہ کے شہر کو پہنچے -
آج اِن عُشّاق میں سے کوئی بقیدِ حیات نہ تھا وگرنہ خُدا جانے اُن کے دِل پہ کیا بیتتی - دردِ اُمّت کی امین روحیں جنہوں نے ہزاروں لاکھوں فرزندانِ توحید کے سینے عشق و جذبہ سے معمور کئے اور اُمّت کو زندگی کے بُلند ترین مقاصد سے آشنا کیا جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی آقا علیہ السلام کی اُمت کی اجتماعی حیات کی بقا کی جنگ لڑی وہ اپنی زندگی کی عظیم ترین کامیابی اِس میں سمجھتے ہیں کہ وہ فدائے روضۂ اقدس ہو جائیں ، وہ نثارِ گنبدِ خضریٰ ہو جائیں - یہ محبت اُن کی اختراع یا توہم نہ تھا بلکہ اُنہیں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ پاک سے جو عشق تھا اُس نے انہیں یہ طریق سکھلایا کہ محبوب سے منسوب ہر اک چیز بھی محبوب ہوتی ہے اِس لئے محبوب کا شہر بھی ہر ایک شہر سے محبوب تر ہے - جیسا کہ سیّدنا عبد اللہ ابن امیر المؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے روایت کیا :
﴿طَلَعَ النَّبِیُّ ﴿w﴾ عَلَی الْمَدِیْنَۃِ قَافِلًا مِّنْ سَفَرٍ اِلَّا قَالَ: یَا طَیِّبَۃُ! یَا سَیِّدَ الْبُلْدَانِ!﴾ ﴿کنز العمال﴾
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بھی کسی سفر سے قافلہ کی صورت میں تشریف لاتے ہوئے مدینہ داخل ہوتے تو ﴿مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے﴾ فرماتے ، اے پاکیزہ شہر ! اے تمام شہروں کے سردار شہر! ‘‘-
امام عبد الرؤف المناوی(رح) نے ’’فیض القدیر شرح جامع الصغیر‘‘ میں حدیث پاک نقل کی کہ ایک مقام پہ سیّدی رسول اللہ ﴿w﴾ نے مدینہ منوّرہ کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ﴿وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٰ تُرْبَتہاالْمُؤْمنَہ﴾’’ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے مدینہ کی مٹی بھی مومن ہے ‘‘ -اِسی طرح حضرت امام بُخاری(رح) نے ’’الجامع الصحیح‘‘ کی کتاب ’’فضائل المدینہ ‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت درج کی ہے کہ ایک مرتبہ :-
قَالَ: اَللَّھُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِیْنَۃِ ضِعْفَی مَا جَعَلْتَ بِمَکَّۃَ مِنَ الْبَرَکَۃِ -
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ ! مدینہ منورہ میں اس سے دو گنابرکت عطا فرما جتنی تو نے مکہ مکرمہ میں رکھی ہے ‘‘-
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مُسند میں حضرت جابر (رض) کی روایت نقل کی ہے کہ آقا کریم ﴿w﴾ نے مدینہ منوّرہ کی فضیلت جاری کرتے ہوئے فرمایا :
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے درمیان مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں‘‘-
اِسی طرح اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے امام مسلم (رح) نے الجامع الصحیح کی کتاب الحج میں درج کیا کہ آقا کریم ﴿w﴾ نے بارگاہِ رب العزت میں دُعا کی :
﴿اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا اْلمَدِیْنَۃَ کَمَا حَبَّبْتَ مَکَّۃَ اَوْ اَشَدَّ وَ صَحِّحْھَا﴾
’’ اے اللہ ! جس طرح تونے ہمارے نزدیک مکہ کو محبوب کیا ہے مدینہ کو بھی اسی طرح محبوب کردے بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب کردے اور مدینہ کو صحت کی جگہ بنادے ‘‘-
ابو سعید المفضل بن محمد الجندی ﴿المتوفی: ۸۰۳ھ﴾ کتاب، ’’فضائل مدینہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ مروان بن حکم نے مکہ شریف میں خطاب کیا جس میں مکہ شریف اور اس کی فضیلت کا ذکر کیا اور اس بارے میں بڑی لمبی گفتگو کی - آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ منبر کے پاس ہی بیٹھے تھے ، انہوں نے مروان کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا :
﴿ فَقَالَ ذَکَرْتَ مَکَّۃَ وَ فَضْلَھَا وَھِیَ عَلَی مَا ذَکَرْتَ وَلَمْ أَسْمَعْکَ ذَکَرْتَ الْمَدِیْنَۃَ ﴾
’’ تم نے مکہ اور اس کی فضیلت کا تذکرہ کیاہے اور وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ تم نے ذکر کیا ہے - میں نے تجھے نہیں سنا کہ تم نے مدینہ کا تذکرہ کیا ہو‘‘-
پھر حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
﴿ أَشْھَدُ لَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٰ وَسَلَّم یَقُولُ: اَلْمَدِیْنَۃُ أَفْضَلُ مِنْ مَکَّۃَ﴾
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٰ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مدینہ مکہ سے افضل ہے‘‘-
امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم رحمہ اللہ نے ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ کتاب الہجرت میں سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے حدیث پاک نقل کی ہے کہ جب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکۃ المکرمہ سے مدینۃ المنوّرہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو بارگاہِ رب العزت میں دعا کرتے تھے :
﴿’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ اَخْرَجْتَنِیْ مِنْ اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیَّ فَاَسْکِنِیْ اَحَبَّ الْبِلَادِ اِلَیْکَ‘‘- فَاَسْکَنَہُ اللّٰہُ الْمَدِیْنَۃَ﴾
’’اے اللہ ! اگر تو مجھ کو اس جگہ سے باہر لاتا ہے جو میرے نزدیک محبوب مقامات میں سے ہے ﴿یعنی مکہ مکرمہ سے﴾ تو پھر میری سکونت ایسی جگہ پہ کرنا جو تیرے نزدیک تمام مقامات میں سے محبوب ترین ہو ، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ منورہ میں سکونت عطا کی ‘‘-
جنوبی اور وسطی ایشیا کے جمیع اَحناف کے نزدیک مُسلّمہ ، سلف صالح شخصیّت اور حضرت شاہ ولی اللہ محدّثِ دہلوی کے جدِّ امجد شیخِ محقّق حضرت شاہ عبد الحق محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہما نے فارسی میں ایک مربوط و مبسوط کتاب ’’جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب ﴿فی تاریخ مدینۃ النبی w﴾‘‘ اِسی موضوع پہ تصنیف فرمائی- اُس میں آپ امام حاکم کی ’’المستدرک‘‘ کی درج بالا حدیث پاک نقل کرنے کے بعد اس پہ اپنا مُحدّثانہ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’چنانچہ اس دُعا کے مستجاب ہو جانے ﴿یعنی درجۂ قبولیّت پا جانے﴾ کے بعد یہ مقام ﴿یعنی شہرِ مدینہ﴾ اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب ﴿w﴾ کے نزدیک محبوب ترین مقامات میں سے ہو گیا- اور اِسی وجہ سے فتح مکہ کے بعد بھی آپ ﴿w﴾ نے اس ﴿مکہ مکرمہ﴾ کی طرف عُود نہیں فرمایااور مدینہ مُنوّرہ ہی کے قیّام پر استقامت کی ‘‘ - ﴿جذب القلوب ، ص ۸۱﴾
اِس سے چند صفحات قبل شاہ عبد الحق محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’امیر المؤمنین سیّدنا عمر(رض) بن خطاب ، آپ کے فرزند سیّدنا عبد اللہ ابن عمر(رض) کا بھی عقیدہ یہی ہے ، نیز دیگر جیّد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت اور حضرت امام مالک (رض) اور اکثر علمائے مدینہ فضیلت میں مکہ مکرمہ پر مدینہ منورہ کو زیادہ جانتے ہیں ‘‘ - ﴿ایضاً: ص ۴۱﴾
’’خُلاصہ یہ ہے کہ حضرت سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم کو اس شہر شریف سے جتنی زیادہ محبت ہے اُتنی کسی ﴿اور شہر﴾ سے نہیں- اِسی میں آپ ﴿w﴾ نے اقامت اختیار فرمائی اور یہیں آپ ﴿w﴾ نے فتوحاتِ عظیمہ حاصل کیں اور یہیں کمالاتِ شریفہ موعودہ کو پہنچے ، یہی جگہ اِسلام کی قُوّت ، دین کے رواج ، تمام اوّل و آخر خیر و برکات کا سر چشمہ اور جملہ کمالاتِ ظاہر وباطن کا معدن اور سعادتِ عُظمیٰ اور نعمتِ کُبریٰ کا مبدأ ہے - اِنہی تمام وجُوہات کی بِنا پر یہ ﴿شہرِ مدینہ ﴾ آسمان و زمین کے تمام قطعات سے ممتاز ہے ‘‘ -
﴿ایضاً: ص ۵۱﴾
صاحبِ تفسیرین ، شارحِ صحیحین علامہ غُلام رسول سعیدی(رح) نے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت والی درج بالا حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے ’’شرح صحیح مسلم ‘‘ میں لکھا ہے کہ :
’’اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ مدینہ محبوب ہے- اس استدلال پہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کے معارض یہ حدیث ہے: ﴿اِنَّ مَکَّۃَ خَیْرُ بِلَادِ اللّٰہِ﴾ کہ’ تمام شہروں سے بہتر مکہ ہے‘- اور ایک روایت میں ہے : ﴿اِنَّ مَکَّۃَ اَحَبُّ اَرْضِ اللّٰہِ اِلَی اللّٰہِ﴾ ’اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکہ تمام روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے‘- علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ ﴿علامہ نور الدین علی بن احمد السمہودی، صاحبِ وفا الوفا، متوفی ۱۱۹ھ﴾ نے ان احادیث کے جواب میں فرمایا ہے کہ یہ احادیث ہجرت سے پہلے زمانے پر محمول ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مکہ سب سے زیادہ محبوب تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد مدینہ سب سے زیادہ محبوب ہو گیا- اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مدینہ میں اقامت فرض کی ہے- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو مدینہ میں رہنے اور وہیں مرنے پر ابھارا ہے- پس مدینہ کیونکر افضل نہ ہوگا‘‘- ﴿شرح صحیح مسلم، ج:۳، ص:۶۳۷، لاہور﴾
اِن اَحادیث مبارکہ ، ارشادات و اَحکامات اور اقوال کے پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ یہ اَمر ہمارے قلوب و اذہان میں پختہ ہو جائے کہ مدینہ طیّبہ کوئی عام مقام نہ ہے بلکہ اُمّت ِ اسلامی کے ایک جیّد ترین و معتبر ترین طبقہ کے نزدیک روئے زمین پہ سب سے زیادہ مُقدّس مقام ہے ، جس کی حُرمت و عظمت کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے - کس قدر بد بختی کا عروج اور اوج ہے کہ اُسی مقدّس ترین مقام پہ یہ اندوہ ناک و ناپاک جسارت کی گئی ہے اِس کی تلافی ممکن ہی نہیں - چاہئے تو یہ تھا کہ اِس مِلّت کا ہر وہ فرد جو اپنے نبی اکرم محبوبِ دو عالَم ﴿w﴾ سے محبت رکھتا ہے وہ اِس موقعہ پہ تحفظِ روضۂ اقدس اور تقدسِ گنبدِ خضریٰ کی محافظت کا عہد کرتا مگر بد قسمتی سے اُلجھنے کیلئے اور اپنے آپ کو الجھانے کیلئے ہم نے اتنے سارے محاذ کھول رکھے ہیں کہ مِلّت کے ہاں یہ بات ترجیحات میں آ ہی نہیں سکی -
اِس میں ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہود و ہنود و نصاریٰ کی سازشوں کو سمجھنے میں ہم ناکام ہو گئے ، اُن کی سب سے بڑی کوشش کامیاب ہوئی کہ اِن کو اندر سے تقسیم در تقسیم کر کے اتنا زیادہ کمزور کر دیا جائے کہ یہ اپنے اصل مسائل پہ غور تو کیا کچھ سوچ بھی نہ سکیں - اِس لئے ہمارے درمیان ’’فنڈڈ فرقہ واریت‘‘ کروائی گئی - ہمیشہ فنڈ اُس کام کو کیا جاتا ہے جو کام فطری طور پہ ہونا ممکن نہ ہو یا جس کی بُنیادیں اتنی کمزور ہوں کہ وہ زیادہ دیر پنپ نہیں سکے گا اِس لئے اُس پہ دُشمن کی جانب سے بے دریغ رقم لٹائی جاتی ہے تاکہ اُس بے بنیاد چیز کو بڑھاوا دیا جا سکے - طریقِ عبادات میں اختلافات کے باوجود ، طریقِ معاملات میں اختلافات کے باوجود ، عقائد میں اختلافات کے باوجود مسلمان صدیوں تلک ایک مستحکم قوم بن کر رہے اور دُنیا کے ہر میدان میں کامیابیاں ان کے قدم چومتی رہیں - دُشمن نے یہی اندازہ لگایا کہ ان میں اختلافات کے با وجود برداشت ہے لہٰذا اُس برداشت کو ختم کر کے اِن میں شدّت اور تشدد کو بھڑکایا جائے تاکہ یہ کسی قانون کے پابند ہونے کی بجائے خود کو قانون سمجھتے ہوئے قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور خیر و شر کے امتیاز و نفاذ کا فیصلہ ریاستی عملداری کی بجائے بندوق کی نالی سے کریں اور مدِّ مقابل کو واجب القتل سے کم کسی درجہ پہ نہ رکھیں - یہی انتشاری سازش پھیلانے کیلئے انگریز نے ایسے لوگوں کو مضبوط ہونے میں ’’تزویراتی مدد‘‘ دی جنہوں نے پوری اُمتِ اِسلامی میں فسادات کے شعلوں کو بھڑکایا ، اور آج وہی آگ بد قسمتی سے حرمین شریفین تک جا پہنچی - یہ لمحۂ فکریّہ ہے کہ حرمین کے تقدّس کو خطرہ یہود و ہنود و نصاریٰ کے فوجیوں سے نہیں بلکہ خود کو مسلمان کہلانے والوں سے ہے - لیکن ایک بات کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ جو حملہ اواخرِ رمضان المبارک میں مدینہ شریف میں ہوا ہے اس کا ہدف ’’مسجدِ نبوی‘‘ نہ تھا بلکہ اس کا ہدف روضۂ شریف تھا ، لہٰذا یہ خاص سانحہ ’’تقدسِ حرمین‘‘ کے ایشو میں ’’جرنلائز‘‘ نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک ’’سپیسیفک‘‘ مسئلہ اور ’’تقدسِ گنبدِ خضریٰ‘‘ پہ ’’سپیسیفک اٹیمپٹ‘‘ تھی -
اِس لئے آج علمائے دین کی یہ ذِمّہ داری بنتی ہے کہ حرمین شریفین کے تقدّس کو عامۃ المسلمین کے دلوں میں جاگزین کیا جائے اور آقا کریم ﴿w﴾ کی ذاتِ پاک کی محبت و تعظیم اور ادب و تکریم کو اُجاگر کیا جائے - خاص کر اسلاف اور سلف صالحین نے بارگاہِ مصطفےٰ ﴿w﴾ میں حاضری کے جو آداب اِختیار کئے انہیں سیکھا جائے اور عام کیا جائے - وہ اشیا اور مقامات جو آقا کریم ﴿w﴾ کی ذاتِ گرامی سے منسوب ہیں اُن کا جو ادب قرآن و سُنّت نے طے کیا ہے اُس کو حاصل کیا جائے کیونکہ ﴿ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ﴾ - یہ آداب خود قرآن کریم نے سکھائے ، قرآن کریم اُن لوگوں کو انعام و اکرام اور مغفرت کی خوشخبری سُناتا ہے جو اپنی آواز کو بارگاہِ رسول اللہ ﴿w﴾ میں آہستہ اور پست رکھتے ہیں - سورہ الحجرات میں حکم صادر ہوتا ہے کہ :
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ﴾ ﴿الحجرات،۳﴾
’’بے شک جو لوگ رسول اﷲ ﴿w﴾ کی بارگاہ میں ﴿ادب و نیاز کے باعث﴾ اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے- اُن ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے‘‘-
متعدد آئمۂ دین کے فتاویٰ ثبوت اور استشہاد کے طور پہ پیش کئے جا سکتے ہیں جنہوں نے لازم فرمایا کہ مسجدِ نبوی شریف میں آواز کو پست رکھنے کا حکم آج بھی اُسی طرح قائم ہے جس طرح کہ ظاہری حیاتِ نبوی﴿w﴾ میں اُس وقت تھا - لہٰذا غور کا مقام ہے کہ اگر کوئی شخص بارود ، بم یا کسی طرح کا آتشیں اسلحہ حرمِ نبوی کی حدود کے اندر چلاتا ہے جس سے اِس بڑے پیمانے پہ دھماکہ اور آواز پیدا ہو وہ حُکمِ قُرآنی کے مطابق اُن لوگوں میں ہوگا جن پہ الحجرات ہی میں فرمایا گیا کہ ﴿اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْن﴾ یعنی ’’﴿بارگاہِ مصطفےٰ ﴿w﴾ میں آواز آہستہ نہ کرنے کے سبب﴾ اُن کے تمام اعمال برباد کردیئے جائیں گے اور انہیں خبر ہی نہ ہو گی‘‘ - اِسی سبب سے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیسیوں روایات اور مثالیں موجود ہیں کہ وہ کوئی بھی ایسا کام ﴿مثلاً لکڑی کو ٹھونک بجا کر یا کاٹنا﴾ جس سے بلند آواز پیدا ہوتی وہ کام مدینہ شریف سے باہر جا کر کرتے تاکہ آرامِ گاہِ رسول ﴿w﴾ پہ شور شرابہ پیدا نہ ہو - ماضی میں ترکی کے عُثمانی خلیفوں نے جس طرح مسجد نبوی شریف اور گنبدِ خضریٰ شریف کی تعمیر کی وہ بھی ایک پڑھنے اور سبق حاصل کرنے کے لائق بات ہے - کہ کٹائی وغیرہ ، پتھروں کی تُڑائی اور ٹھونکنے بجانے کا سارا کام مدینہ شریف سے بارہ کوس کے فاصلہ پہ قائم کارخانہ میں ہوتا تھا - اگر کوئی پتھر بڑا کٹا ہوا ہے جو اپنی جگہ پہ فٹ نہیں آ رہا یا لکڑی کا کوئی ٹکڑا کٹنے میں بڑا چھوٹا رہ گیا ہے تو اُسے وہیں ہتھوڑی وغیرہ سے درست کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ اُس پہ قلم سے نشان لگا کر سواری پہ لاد کر بارہ کوس دور قائم شدہ کارخانے میں لے جایا جاتا وہاں اُس کی حسبِ نشان درستگی کر لی جاتی اور پھر اُسے واپس مسجد شریف میں لا کر چُنا جاتا - اِس لئے بارگاہِ مُصطفےٰ کریم ﴿w﴾ میں ادب تو شرطِ اوّل ہے :-
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
رہ گم کردہ می آید جُنید و بایزید ایں جا
ترجمہ: روضۂ رسول ﴿w﴾ زیرِ آسمان عرش سے بھی نازک تر مقام ہے ، کہ یہاں جنیدِ بغدادی اور بایزید بِسطامی جیسی شخصیّات بھی ﴿شدّتِ ادب سے﴾ عاجز ہو کر آئے -
سیّدی رسول اللہ ﴿w﴾ کا مزارِ مبارک اُس مقام پہ واقع ہے جہاں آپ ﴿w﴾ کاوصالِ مبارک ہوا ، اور سیّدنا ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کی تصدیق کے ساتھ سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم کا قولِ مبارک موجود ہے کہ آپ نے فرمایا کہ دُنیا کا سب سے مقدّس مقام وہ ہے جہاں آقا علیہ السلام کی روحِ مبارک نے پرواز فرمائی ہے - اور اِسی مقام اور اس کے عین قرب و جوار کے مقامات کیلئے آقا علیہ السلام نے جو اَفْضَلیّت فرمائی وہ سمجھنے کے لائق ہے ، کہ ایسے مقدّس مقام پہ کسی قسم کی ’’ڈی کنسٹرکشن‘‘ یا منفی سوچ رکھنا خود پہ حوضِ کوثر کا جام اور دروازۂ جنّت حرام کرنے کے مترادف ہے - صحیح بخاری شریف میں ’’کتاب الاعتصام بالکتاب والسُنّہ‘‘ میں سیّد نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے فرمانِ مصطفےٰ ﴿w﴾ موجود ہے :-
﴿عَنْ أبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ : قَالَ رَسَوْلُ اللّٰہِ ﴿w﴾ : مَا بَیْنَ بَیْتِی وَ مِنْبَرِی رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ ، وَ مِنْبَرِی عَلَی حَوْ ضِیْ﴾
’’ حضرت ابوہریرہ (رض)سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔‘‘
جو لوگ مسجد نبوی شریف یا روضۂ رسول ﴿w﴾ کی بے حرمتی کرتے ہیں یا آئندہ کرنے کا خفیف سا ارادہ بھی رکھتے ہیں اُن کی تو بات اظہر من الشّمس ہے کہ وہ قرآن و سُنّت کی روشنی میں کہاں کھڑے ہیں؟ اور اُن کا دُنیا ، برزخ اور آخرت میں کیا عبرت ناک انجام ہو گا ؟ اب ایک اور پہلو سے دیکھیں کہ مسجد شریف یا روضہ پاک نہیں بلکہ جو لوگ اہلِ مدینہ یعنی مدینہ شریف کے رہائشیوں کی بھی بد خواہی کرے گا یا اُن کو ایذا و تکلیف دے گا آقا کریم ﴿w﴾ نے اُن کیلئے بھی اپنی ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ، اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾ کی زُبانِ گوہر فشان سے سخت احکامات جاری فرمائے ، اور اہلِ مدینہ کے حق میں دُعا فرمائی اور اہلِ مدینہ کو ستانے والے کی ہلاکت کی دُعا فرمائی - ایسے دعاؤں کے ذخیرہ میں سے چند ایک اَحادیث مبارکہ بطورِ مثال ملاحظہ ہوں :
﴿۱﴾ حضرت زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﴿w﴾نے ارشاد فرمایا : ﴿ المصنف عبد الرزاق، کتاب الاشربۃ و الظروف﴾
﴿اَللّٰھُمَّ مَنْ اَرَادَ الْمَدِیْنَۃَ بِسُوْئٍ فَاذُبْہُ کَمَا یَذُوْبُ الرُّصَاصُ فِی النَّارِ اَوْ کَمَا یَذُوْبُ الْمِلْحُ فِی الْمَآئِ﴾
’’اے اللہ ! جو مدینہ سے کسی برائی کا ارادہ کرے تو اسے ایسے پگھلا دے جیسے سیسہ آگ میں پگھلتا ہے اور جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے ‘‘-
﴿۲﴾ حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ پہنچے تو اپنے ہاتھوں کو دُعا کیلئے اتنا بلند فرمایا کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آگئی،پھر ﴿دعا کرتے ہوئے ﴾ فرمایا
﴿اَللّٰھُمَّ مَنْ اَرَادَنِیْ وَ اَھْلَ بَلْدِیْ بِسُوْئٍ فَعَجِّلْ ھَلَاکَہُ﴾
’’ اے اللہ ! جو مجھ سے اور میرے شہر والوں سے برائی کا ارادہ کرے تو اسے جلداز جلد ہلاک کر دے‘‘-
﴿۱:خلاصتہ الوفا ئ با خبار دارالمصطفیٰ، فصل الثالث - ۲:سبل الھدی والرشاد فی سیر ۃ خیر العباد - ۳: تاریخ مدینۃ النبی از شیخ محقق﴾
﴿۳﴾ ’’معجم الکبیر ‘‘میں امام طبرانی (رح) نے حضرت سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہٰ وسلم نے فرمایا :
﴿اَللّٰھُمَّ مَنْ ظَلَمَ اَھْلَ الْمَدِیْنَۃِ وَ اَخَافَھُمْ فَاَخِفْھُمْ وَ عَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَ الْمَلَآئِکَتِہٰ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾
’’اے اللہ ! جس نے اہلِ مدینہ پر ظلم کیا اور انہیں ڈرایا تو تُو بھی انہیں خوفزدہ کر دے ، اور اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘-
﴿۴﴾ امام جلال الدین سیوطی نے ’’جامع الکبیر‘‘ میں آقا کریم ﴿w﴾کی یہ دعا نقل کی ، کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا:
﴿اَللّٰھُمَّ مَنْ اَرَادَ ھُمْ بِسُوْئٍ فَاذُبْہُ کَمَا یَذُوْبُ الْمِلْحُ فِی الْمَآئِ﴾
’’اے اللہ ! جو بھی اِن ﴿اہلِ مدینہ﴾ کے بارے بُرا سوچے تو تُو اسے ایسے پگھلا دے جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے‘‘-
تاجدارِ مدینہ﴿w﴾ کے بد خواہ کو تو قرآن میں انجام سے آگاہ کیا جا چکا ہے ، ساتھ ہی ساتھ شہرِ مدینہ کے بد خواہ اور اہلِ مدینہ کے بد خواہ کو بھی اپنے سخت انجام کا سوچنا چاہئے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہئے - شیخ محقق شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ’’جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب فی تاریخ مدینۃ النبی ﴿w﴾‘‘ میں پورا ایک مدلل و مفصّل باب رقم کیا اُن لوگوں کے برے انجام پہ کہ جنہوں نے ہجرتِ مصطفےٰ ﴿w﴾ کے بعد بالفاظِ دیگر اِس شہر کے ’’مدینۃ النبی ﴿w﴾ بن جانے کے بعد اِس شہر پہ چڑھائی کی یا اس میں قتل و غارت اور فتنہ و فساد کیا - شیخِ محقق نے تاریخی مستند حوالوں سے یہ واضح کیا کہ جو بد بخت بھی ایسی بد بختی کا مرتکب ہو ا اُسے بارگاہِ پروردگار سے سخت گرفت اور عذاب کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اِس شہر پہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائے مبارک کا پہرہ ہے -
مدینہ منوّرہ کی عظمت کی بات ہو یا اِس کی برکات کی ، یا اِس کے فضائل و مناقب کا تذکرہ ہو یہ ایک نہایت لطیف ، باریک اور محبت سے لبریز موضوع ہے کیونکہ اِس موضوع کی نسبت تاجدارِ مدینہ سرُورِ قلب و سینہ﴿w﴾ کے وجودِ مبارک سے ہے ، اور اِس شہر کا گوشہ گوشہ ، گرد و نواح آقا کریم ﴿w﴾ کی خوشبو سے معطّر ہے - اور اہلِ دِل کا یہ عقیدہ ہے کہ جہاں وہ لازوال و بے مثال خوشبو پہنچ جائے وہاں کی تعطیر اور مہک کی مثال تلاش ہی نہیں کی جا سکتی :
دراں زمیں کہ نسیمے دُزَد طرۂ دوست
چہ جائے دم زَدنے نافہائے تاتاریست
ترجمہ: جہاں کہیں کسی بھی زمین میں محبوب کی زُلفوں کی خوشبو پہنچ جائے ، وہاں تاتاری ہرنوں کے نافے کی کستوری کی خوشبو کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے-
حضرت ابو عبد اللہ العطار رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا تھا :
بِطِیْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ طَابَ نَسِیْمُہَا
فَمَا لِلْمِسْکِ وَ الْکَافُوْرِ وَ الصَّنْدَلِ وَ الرَّطْبِ
ترجمہ: اِس ﴿شہرِ مدینہ﴾ کی ہوا سیّدی رسول اللہ ﴿w﴾ کی خوشبو کی وجہ سے خوشبو دار ہو گئی ، پس اس جیسی خوشبو مشک ، کافور، صندل و رطب میں بھی نہیں -
اور یہ بات یعنی خوشبو اور پاکیزگی اِس شہر کو مصطفےٰ کریم ﴿w﴾ کی آمد و قیام کے انعام میں بارگاہِ الٰہی سے عطا ہوئی - مدینہ منوّرہ کے ’’پاک‘‘ ہونے اور طیّب ہونے کی گواہی آقا کریم ﴿w﴾ کی زُبانِ مقدس سے خود خالقِ اکبر نے جاری کروائی - جس طرح کہ صحیح مسلم کتاب الحج میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
﴿اِنَّ اللّٰہ سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ طَابَۃً﴾
’’اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے ‘‘-
یعنی آقا علیہ السلام بیان فرما رہے ہیں کہ اِس شہر کا نام ’’طابہ‘‘ اللہ تعالیٰ نے خود رکھا ہے - حضرت شیخِ محقق دہلوی(رح) نے مدینہ شریف کے ایک سو سے زائد نام کہے ہیں جن میں سے منتخب اسما پہ انہوں نے تشریح و توضیح بھی پیش کی - ’’طابہ‘‘ پہ آپ حضرت وہب بن منبّہ کی روایت سے لکھتے ہیں کہ توریت شریف میں بنی اسرائیل کو خاتم النبیّین﴿w﴾ کی جو بشارتیں عطا کی گئیں اُن میں آخری رسول ﴿w﴾ کے شہرِ ہجرت کا نام ’’طابہ ، طِیْبہ اور طیّبہ‘‘ ذکر کئے گئے ہیں - اِسی طرح آپ اپنا محدثانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اِن ناموں کا بولنا اِس شہر کی طہارت کے سبب ہے ، اِس لئے کہ یہ سر زمین شرک کی نجاست سے پاک ہے اور طبائع سلیمہ کے موافق ہے ، نیز اِس کی آب و ہوا نہایت پا کیزہ ہے - بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اِس بُقعۂ شریف کے رہنے والے اِس شہر کی مٹی اور اس کے در و دیوار سے ایسی خوشبو پاتے ہیں جس کی مثال دُنیا کی کوئی خوشبو پیش نہیں کر سکتی - اِس شہر کے مکینوں کے علاوہ دیگر صادقان اور مشتاق محبان کے شائبۂ ذوق میں بھی اِس کی تھوڑی خوشبو ضرور پہنچتی ہے - شبلی ایک صاف باطن اور اہلِ دِل علما میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ’’مدینہ پاک کی مٹی میں ایک خاص خوشبو ہے جو مشک و عنبر میں نہیں پائی جاتی ‘‘- اور یہ کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے ، اِس لئے کہ جہاں پر حضرت حبیبِ خُدا ﴿w﴾ کے مبارک سانسوں کی ہوا پہنچی ہو وہاں مشک و عنبر کی کیا حقیقت ہے ‘‘ -
اِس کے بعد آپ نے اِسی صفت کی تشریح میں فرمایا ہے :
’’حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص مدینہ پاک کی زمین کو عدمِ طیّب ﴿یعنی پاک نہ ہونے﴾ سے نسبت کرے اور اس کی ہوا کو ناخوش کہے وہ واجب التعزیز ہے اُس کو قید کیا جائے - یہاں تک کہ وہ صحیح توبہ نہ کر لے ‘‘-
اِسی لئے مدینہ منوّرہ کو اس کے سابقہ نام ’’یثرب‘‘ سے پکارنے کی ممانعت کی گئی ہے کیونکہ اُس کا مطلب اِس کے عدمِ طیّب اور عدمِ شفا کی طرف اشارہ کرتا ہے - ابو سعید المفضل بن محمد الجندی ﴿المتوفی: ۸۰۳ھ﴾ کتاب’’ فضائل مدینہ‘‘ میں حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم نے فرمایا کہ:-
﴿مَنْ سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ یَثْرِبَ فَلْیَسْتَغْفِرْ اِلَی اللّٰہِ ثَلَاثاً ھِیَ طَیْبَۃٌ- ﴿مَرَّتَیْنِ﴾﴾
’’ جس نے ’’مدینہ‘‘ کو ’’یثرب ‘‘کہا پس وہ اللہ تعالیٰ سے تین مرتبہ استغفار کرے - وہ پاک شہر ہے، وہ پاک شہر ہے‘‘-
جس طرح یہ شہر پاکیزگی کا مرکز ہے اِسی طرح شفا کا بھی مرکز ہے - ’’جامع الاحادیث‘‘ میں امام جلال الدین سیوطی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا ارشادِ گرامی نقل فرمایا:-
﴿غُبَارُ الْمَدِیْنَۃِ شِفَائٌ مِنَ الْجَذَامِ﴾ ﴿جامع الاحادیث، کنزالعمال﴾
’’مدینہ منورہ کی خاک، کوڑھ کی بیماری کے لیے شفائ ہے‘‘-
حضرت شیخِ محقق دہلوی اپنی(رح) کتابِ مذکورہ میں فرماتے ہیں:
’’مدینہ منوّرہ کے سو سے زائد اسمأ میں سے ایک نام ’’شافیہ‘‘ بھی ہے جس کا مطلب ہے شفا بخشنے والا ! حدیث پاک میں آیا ہے کہ خاکِ مدینہ ہر مرض کیلئے شفا ہے ، یہاں تک کہ جذام اور برص کیلئے بھی - مدینہ پاک کے پھلوں سے شفا حاصل کرنا حدیثِ صحیح سے ثابت ہے - اور بعض علمائے متقدمین کے بقول : کتاب اسمائے مدینہ اور اس کے حاشیوں سے بخار کے مریض کے شفا یاب ہونے پہ بھی حدیث آئی ہے ، اور امراضِ قلب اور گناہ کی بیماریوں سے بھی شفا یاب ہونا لازم ہے ‘‘-
مدینہ منوّرہ ، اُس کے تاجدار ، اس کے مکین ، اس کے در و بام ، اس کی مسجد ، اس کا گنبد ، اس کی خاکِ پاک ، اس کے درخت اور جھاڑیاں ، اس کے پرندے ، اس کے قبرستان اور اس کے مدفون ، اس کے زائر اور اُس کے محبین ، اس کا ماضی حال اور مستقبل ، یہ موضوعِ سعید ایسا ہے کہ جس پہ جتنا لکھا جائے کم ہے ، بات وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے اور اَلفاظ جامۂ ادب اوڑھے دل و نظر کے ساتھ جھکتے چلے جاتے ہیں ، روح اپنی خوابیدگی سے بیدار ہو جاتی ہے ، عقل کے بے لگام سر پٹ دوڑتے گھوڑے کو تعظیم کی لگام ڈل جاتی ہے ، زُبان الفاظ کی بُہتات کی بجائے کمالِ احتیاط کو اختیار کر لیتی ہے ، دِل کی گمراہ دھڑکنیں محبت کا راستہ پا کر اپنی بے ترتیب روانی کو ایک ترتیب سے گرتی آبشار کی نغمگیّت میں بدل دیتی ہیں ، تقدس و احترام کی لطیف چادر ننگے سر کو اپنی لطافت سے ڈھانپ دیتی ہے - غرض کہ وجود کا ہر ایک پہلو محبت کے تقاضوں میں ڈھل کر با ادب ، با ملاحظہ ہوشیار ہو جاتا ہے کیونکہ تاجدارِ دوعالم حبیبِ خُدا سرورِ انبیا ﴿w﴾ کا ذکرِ خیر بطورِ خاص اِس موضوع سے جڑا ہوا ہے - تقدسِ مدینہ منوّرہ اور تحفظِ گنبدِ خضریٰ کا موضوع شروع ہی کریم آقا ﴿w﴾کے ذکر سے ہوتا ہے ، اپنا ہر درمیانی زینہ کریم آقا ﴿w﴾ کے ذکر سے ہی درجہ بدرجہ طے کرتا ہے اور اِس کا اختتام بھی کریم آقا ﴿w﴾ کے ذکرِ پاک ہی پہ ہوتا ہے -
اِس لئے جب اِس مقامِ عظیم بلکہ مقامِ اعظم پہ اِس طرح کی ظالمانہ و بہیمانہ بلکہ حقیقتاً بے ایمانہ حرکت ہو جائے اور اُمّتِ اسلامی کے خورد و کلاں ، مِلّتِ اسلامی کے برنا و پیر ، مرد و خواتین زمانے کی گردشوں میں اپنے سر اور دل و دماغ کو یوں گردشیں دے رہے ہوں کہ انہیں یہ صدمہ ، صدمہ نہ لگے ، یہ دُکھ ، دُکھ نہ لگے ، یہ غم ، غم نہ لگے ، یہ سانحہ کوئی مرگِ جواں سال نہ لگے تو دل ڈوب سا جاتا ہے نظریں بے اختیار عرشِ اعظم کی جانب اُٹھ جاتی ہیں زبانِ دِل پکار اٹھتی ہے کہ میرے مولا ! اے ارض و سما کے خالق ! اے واحد معبود و مسجود ! اے لا شریک ! آج تیرے محبوب کی اُمّت کو کیا ہو گیا ہے ؟ کیا اِن میں دل نہیں رہا ؟ یا یہ درد کھو بیٹھے ہیں ؟ میرے مالک ! ہمارے حال پہ رحم فرما ، ہمیں یوں بے حال ہونے سے بچالے کہ تیرے حبیب ﴿w﴾ کی تُربتِ شریف کے سامنے یہ واقعہ ہو جائے اور اُمّت اپنی موج مستیوں میں مست و سر گرداں ہو -
در حقیقت یہ بم مسجدِ نبوی میں نہیں بلکہ اُمّتِ اسلامی کے کلیجے پہ پھٹا ہے - ہائے ! مگر کلیجے کیسے پتھر ہو گئے ہیں کہ انہیں احساسِ درد ہی نہیں ، احساسِ غم ہی نہیں ، احساسِ زیاں ہی نہیں -
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
آخر میں چند ایک احادیثِ نبوی کو دیکھ لینا چاہئے تاکہ ہمیں یہ اندازہ ہو جائے کہ اِس موضوع پہ کس قدر تواتر سے آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادات فرمائے ہیں ، اور آپ کو یہ شہرِ مقدس کس قدر عزیز تھا -
احادیث مبارکہ فضائلِ مدینہ منوّرہ:
قُربِ قیامت اور حفاظتِ مدینہ:
﴿ۃ﴾ عَنْ أبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) أنَّ رَسَوْلَ اللّٰہِ ﴿w﴾ قَالَ :نَّ ال یمَانَ لَیَأْرِ زُ لَی الْمَدِیْنَۃِ ، کَمَا تَأْرِ زُالْحَیَّۃُ لَی جُحْرِھَا
﴿صحیح بخاری ، کتاب فضائل المدینہ﴾
’’ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﴿ قیامت کے قریب ﴾ ایمان اِس طرح مدینہ منورہ کی طرف سمٹ جائے گا جیسے سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے- ‘‘
﴿ۃ﴾ عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیّ
ö قَالَ :قَالَ لَا یَدْخُلُ الْمَدِیْنَۃَ رُعْبُ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ، لَھَا یَومَئِذٍ سَبْعَۃُ أَبْوابٍ، عَلَی کُلِّ بَابٍ مَلَکَانِ ﴿مصنّف ابن ابی شیبہ ، صحیح ابن حبان﴾
’’ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسیح دجال کا رعب مدینہ کے اندر داخل نہیں ہو گا اس دن اس ﴿شہر﴾ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے مقرر ہوں گے- ‘‘
﴿ۃ﴾ عَنْ أبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ : قَالَ رَسَوْلُ اللّٰہِ ﴿w﴾ قَالَ: رَسُوْلُ اللّّٰہِ ﴿w﴾: عَلَی أَنْقَابِ الْمَدِیْنَۃِ مَلَائِکَۃٌ لَا یَدْخُلُھَا الطَّاعُوْنُ وَلَا الدَّجَّال ﴿مؤطا امام مالک، صحیح بخاری کتاب الفتن﴾
’’ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مدینہ منورہ کے راستوں پر فرشتے ﴿ بطور محافظ مقرر﴾ ہیں لہٰذا طاعون اور دجال اس ﴿ مقدس شہر ﴾ میں داخل نہیں ہوں گے - ‘‘
مدینہ منورہ کی عظمت اور اس کا حضورِ اکرم ﴿w﴾ سے بطورِ خاص منسوب ہونا:
﴿ۃ﴾ عَنْ جَابِرٍ(رض) قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ö : نَّ بْرَاھِیْمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَ نِّی حَرَّمْتُ الْمَدِیْنَۃ َ ﴿مسند امام احمد بن حنبل﴾
’’ حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے درمیان مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں ‘‘-
﴿ۃ﴾حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو رسول اللہ ﴿w﴾ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو حضور نبی کریم ﴿w﴾ اس کو قبول کرنے کے بعد فرماتے :
﴿اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَافِیْ ثَمَرِنَا وَ بَارِکْ لَنَا فِی مَدِیْنَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِی صَاعِنَا وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا﴾
﴿صیحح مسلم ، کتاب الحج - سنن ترمذی کتاب الدعوات﴾
’’اے میرے اللہ ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما ہمارے مدینہ میں برکت فرما ہمارے ’’صاع‘‘ میں برکت فرما اور ہمارے ’’مد‘‘ میں برکت فرما‘‘-
﴿اَللّٰھُمَّ اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ عَبْدُکَ وَ خَلِیْلُکَ وَ نَبِیُّکَ وَ اِنِّیْ عَبْدُکَ وَ نَبِیُّکَ وَ اِنَّہ، دَعَاکَ لِمَکَّۃَ وَ اِنِّیْ اَدْعُوْکَ لِلْمَدِیْنَۃِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّۃَ وَ مِثْلَہُ مَعَہُ﴾
’’اے میرے اللہ : حضرے ابراھیم علیہ السلام تیرے بندے تیرے خلیل او