سمندر قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں جنہیں زمین کے دل اور پھیپھڑے ہونے کی حیثیت حاصل ہے- بلا شک و شبہ پانی کے بغیر کرہِ ارض پر زندگی کا تصور ناممکن ہے- نہ صرف زمین پر استعمال ہونے والے پانی کا 40 فیصد حصہ سمندر سے حاصل ہوتا ہے بلکہ سانس لینے کے لیے لازم کم و بیش 75 فیصد تک آکسیجن کا مآخذ بھی سمندر ہی ہے- یہی وجہ ہے کہ سمندروں کو زمین کا دل اور پھیپھڑے کہا جاتا ہے-
پانی کی دستیابی کے باعث انسان ہمیشہ سے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے اپنی بستیاں قائم کرتے آئے ہیں- اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں دنیا کی کل آبادی کا کم و بیش 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے تقریباً 100 کلومیٹر کے خطوں میں آباد ہے- مزید براں یہ کہ کروڑوں لوگوں کی روزمرہ زندگی کی ضروریات، کاروبار، خوراک، تجارت اور دفاع کا دار و مدار بھی سمندروں پر ہے- گو کہ سمندر اور انسان کی دوستی کی داستان بہت قدیم ہے مگر کئی وجوہات کی بنا پر سمندر انسان سے روٹھتا بھی چلا آ رہا ہے جس کی وجہ سے انسانوں سمیت دیگر زمینی حیوانات و نباتات کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے-
تاریخ کے مختلف ادوار میں ختم ہو جانے والے سمندروں کا احاطہ اس مضمون میں کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے اس مضمون میں چند مشہور سمندروں اور سمندر نما بڑی جھیلوں کے متعلق بیان کیا جائے گا جو قدرتی یا انسان کی بنائی وجوہات کی بنا پر یا تو مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں یا خشک ہونے کے قریب تر ہیں -
1. بحیرہ ارال (Aral Sea)
بحیرہِ ارال دراصل ہزارہا سال سے وسطی ایشیاء میں موجود کم و بیش68000 مربع کلومیٹر پر پھیلی دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی- یہ سمندر موجودہ از بکستان اور قازقستان کے علاقے میں موجود تھا- اس سمندر نما جھیل کا رقبہ موجودہ ملک آئرلینڈ کے برابر تھا- اس کے کنارے کئی انسانی بستیاں آباد تھیں- اس کی وسعت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سویت یونین کے دورِ حکومت میں اِس سلطنت کی تقریباً 20 فیصد سے زائد مچھلیاں اسی جھیل سے پکڑی جاتی تھیں اور ماہی گیروں سمیت لاکھوں لوگوں کا روز گار اسی سمندر سے وابستہ تھا- وسطی ایشیا کے دو مشہور دریا، ’’دریائے سائر‘‘ اور ’’دریائے آمو‘‘ اس میں گرتے تھے-اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے آخر تک نئے پانی کی آمد اور تبخیر ایک خاص توازن میں رہتے تھے جس کے باعث یہ بحیرہ اپنی حالت پر قائم تھا- سویت یونین کے دور میں زراعت کے بڑے بڑے منصوبہ جات کے ذریعے ’’دریائے سائر‘‘ اور ’’دریائے آمو‘‘سے نہریں نکال کر مختلف علاقوں کو سیراب کیا جانے لگا-اس کے باعث زراعت کو تو فائدہ ہوا مگر سمندر میں گرنے والے پانی کی مقدار کم ہونے لگی- دریاؤں کا رخ موڑ کر کھیتوں کو سیراب کرنے کے پیچھے سویت یونین کا مقصد ازبکستان کے وائٹ گولڈ(کپاس) کا حصول تھا[1]- یہی وجہ تھی کہ 1988ء میں ازبکستان دنیا کا سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والا ملک بن چکا تھا- مزید یہ کہ صرف دو عشروں میں ازبکستان اور ترکمانستان کا قابلِ کاشت علاقہ 6.4 ملین ایکڑ سے بڑھ کر 15.9 ملین ایکڑ ہو گیا تھا- البتہ دوسری طرف یہ نہریں نہ صرف بہت بڑی مقدار میں پانی کو بحیرہ ارال تک پہنچنے سے روک رہی تھیں بلکہ زمین میں پانی رسنے کی وجہ سے پانی کے ضیاع کا باعث بن رہی تھیں -
سرد جنگ کے ابتدائی دور میں اس سمندر کا پانی کم ہونا شروع ہو چکا تھا- سیاسی و عسکری مسائل کے وجہ سے کسی کی توجہ اس جانب نہیں گئی- مزید برآں دن بدن پانی میں نمک کا تناسب بڑھنا شروع ہو گیا جو 2004ء میں پانچ گُنا ہو چکا تھا- چونکہ نمک پانی کے بخارات کے ساتھ بخارات بن کر نہیں اڑتا چنانچہ جھیل کے خشک ہونے والے حصے میں نمک کی مقدار واضح دکھائی دینے لگی جس سے اس علاقے کا ایکوسسٹم بہت متاثر ہوا- ایک رپورٹ کے مطابق شہرِ موعیناق، جو آج بحری جہازوں کا قبرستان بن چکا ہے کبھی ماہی گیری سے متعلق ہزاروں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہوا کرتا تھا-ایسا علاقہ جہاں کبھی سو(100) فٹ گہرا پانی ہوا کرتا تھا آج سفید صحراء بن چکا ہے جس کی وجہ سے ساٹھ ہزار سے زائد لوگ بے روز گار ہو چکے ہیں[2]-
تاریخ کے اوراق کو پلٹنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ سرمایہ دار اور کمیونسٹ بلاکس کی سرد جنگ کے دوران جب نِت نئے انسان دشمن ہتھیاروں کے دریافت کی دوڑ جاری تھی، اس وقت بائیولوجیکل ہتھیاروں سمیت دیگر خطرناک ترین ہتھیاروں کے تجربات بھی اس جھیل پر واقع غیر آباد وژرژدینینا جزیرے (Vozrozhdeniya Island) پر کیے گئے- کچھ رپورٹس کے مطابق اینتھراکس، چیچک، طاعون، مالٹا بخار اور ٹولاریمیا جیسے ایجنٹس پر مشتمل بائیو لوجیکل ہتھیاروں کی کارکردگی کے تجربات کے لیے نہ صرف ایک نیا ائیر پورٹ بنایا گیا بلکہ 1500 لوگوں پر مشتمل کانٹوبک (Kantubek) نامی شہر بھی بسایا گیا[3]- ان تجربات میں استعمال ہونے والا زہریلہ مادہ سمند ر کی تَہ میں شامل ہوتا چلا گیا- اس سب کے ساتھ ساتھ اردگرد کے علاقوں میں فصلوں میں استعمال کی جانے والی کھادیں اور کیڑے مار ادویات بھی بالآخر مختلف ذرائع سے سمندر میں پہنچتی رہیں- المختصر! سمندر کے خشک ہونے پر پانی کی کمی کے اثرات اپنی جگہ مگر ساتھ ساتھ پانی میں موجود نمک اور زہریلے مادے زمین کی سطح کا حصہ بن گئے جو اب ہوائی و زمینی آلودگی کا باعث ہیں-ایک رپورٹ کی مطابق اس علاقے میں کینسر کی شرح بقیہ دنیا کی اوسط شرح سے 25گُنا زیادہ ہے- مزید یہ کہ ہر ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں سے تقریباً ستر سے اسی (70-80)بچے جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں- اس کے ساتھ لوگوں میں ٹی بی اور طاعون جیسی وبائی بیماریوں کا تناسب بھی زیادہ ہے -ایک طرف نمکیات کی وجہ سے زمین ناقابلِ کاشت ہے تو دوسری جانب دیگر کھیتوں میں پیدا ہونے والی فصلوں بالخصوص کپاس کی پیداوار کو شدید خطرات لاحق ہیں- سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آزاد ہونے والی ریاستوں، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، قازکستان اور کرغستان نے 1994ء میں بائیولوجیکل ہتھیاروں کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے اپنے سالانہ بجٹ کا ایک فیصد بحیرہ ارال کے مسئلے پر خرچ کرنے کا معاہدہ کیا[4]- یہ ممالک آج بھی اس قدرتی تحفے کی حفاظت کی کوشش کر رہے ہیں عالمی اداروں اور بڑے ممالک کو چاہیئے کہ وہ ان ممالک کے ساتھ مل کر اس مسئلے سے نمٹنے کی سعی کریں -
2. بحیرۂ مردار (Dead Sea)
بحیرہ مردار (Dead Sea) خشکی میں گھری دنیاکی سب سے بڑی نمکین جھیل ہے جس کے مغرب میں غزہ کا مغربی کنارہ اور مقبوضہ فلسطین جبکہ مشرق میں اردن واقع ہے- یہ دنیا میں سطح سمندر سے نچلاترین مقام ہے اور اس وقت 1380 فٹ نیچے واقع ہے- اس سمندر کی تاریخی اہمیت پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم میں مصری ملکہ قلو پطرہ کو یہ علاقہ بہت پسند تھا اور وہ اس علاقے کی تیار کردہ مصنوعات کو بہت شوق سے استعمال کرتی تھیں- اسی طرح رومی دورِ حکومت میں نمک کے وسائل کی وجہ سے اس علاقے کو خاصی اہمیت دی گئی جس کی ایک بڑی وجہ اس دور میں نمک کا پُر تعیش ہونا بھی تھا- تازہ پانی کی کمی اور موسمیاتی تغیرسے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث یہ سمندر بھی آہستہ آہستہ سکڑ رہا ہے- ایک اندازے کے مطابق بحیرہ مردارکی سطح میں سالانہ ایک سے تین میٹر تک کمی واقع ہو رہی ہے[5]- اس بحیرہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے پانی میں دیگر سمندروں کے مقابلے میں تقریباً 9گُنا زیادہ نمکیات پائے جاتے ہیں اور نمکیات و معدنیات کی زیادہ مقدار کی وجہ سے اس کا پانی زیتون و ریت کا مرکب نظر آتا ہے- مزید یہ کہ کثرت ِنمکیات و معدنیات کی وجہ سےنہ تو اس میں کوئی آبی حیوانات اور پودے پائے جاتے ہیں اور نہ ہی انسان اس سمندر میں ڈوبتا ہے- یعنی انسان قدرتی طور پر اس سمندر میں تیرتا رہتا ہے- گو کہ نمکیات کی کثیر مقدار کے باعث اس سمندر کا پانی شاید مکمل طور پر بخارات کی شکل نہ اختیار کر سکے البتہ اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو یہ خطرے کی حد تک سکڑ جائے گا جس سے شدید مشکلات جنم لیں گی[6]- بحیرہ مردار کے سکڑنے کی وجہ سے اردگرد کے علاقوں میں پڑنے والے گڑھوں میں قابلِ ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے- ان گڑھوں کی وجہ سے قریبی گھروں، سڑکوں اور ہوٹلوں کو خاطر خواہ نقصان پہنچ رہا ہے- ایک اندازے کے مطابق ان گڑھوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے[7]-
اس سمندر میں پانی کی کمی کی ایک وجہ سمندر میں آنے والے تازہ پانی کی کمی ہے- دریائے اردن کے بحیرہ مردار میں گرنے والے جنوبی حصے میں پانی کی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے بھی اس سمندر میں پانی کی مقدار میں کمی واقع ہو رہی ہے- در حقیقت اس علاقے میں دریاؤں پر تعمیر ہونے والے ڈیم بحیرہ مردار میں گرنے والے پانی میں کمی کی بڑی وجہ ہیں- اسرائیل دریائے اردن پر تعمیر کردہ ڈیم کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرتا ہے- اسرائیل مشرقِ وسطٰی کی سیاسی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پانی کو سٹریٹیجک اثاثے کے طور پر استعمال کر رہا ہے- جہاں دیگر علاقوں کے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے وہاں اسرائیل اپنے آبی ذخائر میں اضافہ کر رہا ہے- اسرائیل نے اس ڈیم کی تعمیر سے کئی سال قبل ہی دریائے اردن کے پانی کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا جس کے باعث مغربی کنارے میں آباد بہت سے فلسطینی کسانوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ ان تک پہنچنے والا پانی کاشتکاری کے لیے ناکافی تھا- مزید یہ کہ دریائے اردن میں پانی شام سے گزرنے والے دریائے یرموک سے آتا ہے جس پر شام کم و بیش چالیس ڈیم بنا چکا ہے- اس وجہ سے بھی دریائے اردن کے پانی میں کمی واقع ہوئی ہے - اسی طرح اردن نے بھی اپنی ملکی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس دریا پر مختلف ڈیم بنا رکھے ہیں- جو نتیجتاً بحیرہ مردار میں کمی کا باعث ثابت ہوئی ہے-
بحیرہ مردار کو صحرا بننے سے بچانے کے لیے ایک حالیہ منصوبے کے مطابق ایک پائپ لائن کے ذریعے بحیرۂ احمر سے پانی بحیرۂ مردار میں لایا جائے گا- اس کے ساتھ ساتھ پینے کا صاف پانی بھی مہیا کیا جا سکے گا[8]- البتہ سیاسی، مالی، تکنیکی و دفاعی مشکلات کے پیشِ نظر مستقبل قریب میں اس پروجیکٹ پر عمل درآمد بہت مشکل ہے-المختصر یہ کہ ہزاروں سالوں سے موجود بحیرہ مردار بیشتر قدرتی و انسانی وجوہات کی بناء پر خشک ہوتا چلا جا رہا ہے- گو کہ ماہرین کے مطابق نمکیات شدہ کثیف پانی کی وجہ سے یہ سمندر ایک خاص حد کے بعد خشک نہیں ہو گا لیکن اگر بروقت مثبت تدبیر نہ کی گئی تو گرد و نواح پر اس کے منفی اثرات ناقابلِ تلافی حد تک اثر انداز ہوں گے-
3. جھیل چاڈ (Lake Chad)
جھیل چاڈ براعظم افریقہ کے جنوبی حصے میں واقع ایک بہت بڑی جھیل ہ- اس جھیل کو اقتصادی سطح پر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونے کی وجہ اس کے گرد آباد 3کروڑ لوگوں پر مشتمل چار ممالک چاڈ، کیمرون، نائجر اور نائجیریا ہیں- اس جھیل کے پانی کا اہم ترین ذریعہ دریائے چری ہے جو اسے کم و بیش 90 فیصد تک پانی فراہم کرتا ہے- یہ جھیل 26 ہزار مربع کلومیٹر (ایک اور رپورٹ کے مطابق 28 ہزار مربع کلومیٹر)پر مشتمل دنیا کی چند بڑی جھیلوں میں سے ایک تھی البتہ پچھلے چالیس سال سے اس جھیل کے حجم میں بہت تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے-[9] ایک اندازے کے مطابق اس جھیل کا رقبہ 26 ہزار مربع کلومیٹر سے کم ہو کر 1500 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے یعنی 1960ء کے مقابلے میں 90 فیصد جھیل خشک ہو چکی ہے[10]- جبکہ یونیورسٹی آف ویسکونسن میڈیسن (University of Wisconsin-Madison) کے محققین کے مطابق یہ جھیل 35 سال پہلے اپنے حجم کے مقابلے میں صرف بیسواں حصہ باقی بچی ہے[11]- ایک تحقیق کے مطابق اس جھیل سمیت افریقہ بھر میں پانی کی کمی کی ایک بہت بڑی وجہ بارشوں میں واضح کمی ہے- مزید یہ کہ جھیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے نہری نظام میں ایک بڑی مقدار میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کے باعث یہ جھیل مسلسل سکڑ رہی ہے[12]- اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق اس جھیل کے سکڑنے کی وجہ سے گرد و نواح میں قحط سالی، زراعت میں کمی، مویشیوں اور مچھلیوں کی اموات، زمینی سیم و تھور سمیت دیگر کئی مسائل جنم لے رہے ہیں[13]- ایک حالیہ تحقیق کے مطابق نائجیریا اور چاڈ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس جھیل کو خشک ہونے سے بچانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں- اس منصوبے کے تحت وسطی افریقہ کے دریائے اوبانگی (Oubangi River) سے پانی اس جھیل تک لایا جائے گا- اس منصوبے میں آبپاشی و نقل و حمل کے نظام کو بہتر بنانے سمیت توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں- اس پورے پراجیکٹ پر کم و بیش 50 بلین ڈالر لاگت آئے گی جو کہ یوگنڈا (Uganda) کے سالانہ جی ڈی پی سے دوگنی ہے- اس منصوبے کے کارآمد ہونے کے امکانات کا صرف جائزہ لینے (Feasibility Study) کے لیے تحقیق پر ہی تقریباً 15 ملین ڈالر کی لاگت آئے گی[14]- المختصر! افریقہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید مسائل سے دوچار ہے جن میں پانی کا مسئلہ سرِ فہرست ہے- تیزی سے خشک ہوتی جھیل چاڈ اور جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن میں پانی کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو براعظم افریقہ کے بیشتر ممالک میں نظامِ زندگی مفلوج ہو سکتا ہے-
4. جھیل عظیم چاڈ ( Mega Chad Lake)
جھیل عظیم چاڈ موجودہ صحرائے صحارا کے لاکھوں کلومیٹر کے علاقے پر مشتمل تازہ پانی کی جھیل ہوا کرتی تھی- برطانوی محققین و سائنسدانوں کے مطابق یہ آج سے کم و بیش 1000 سال قبل تقریباً 3,60,000 مربع کلو میٹر کے وسیع و عریض رقبے پر محیط افریقہ کی سب کی بڑی جھیل ہوتی تھی- محققین کے مطابق یہ جھیل صرف چند سینکڑوں سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سکڑتی چلی گئی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی- یہ جھیل موجودہ تین افریقی ممالک چاڈ، نائجیریا اور کیمرون پر مشتمل تھی- 355 مربع کلومیٹر پر مشتمل ایک جھیل اس کی باقیات میں سے ہے- کبھی پانی کا ایک عظیم ذخیرہ ہونے والا یہ علاقہ آج ریت کے ٹیلوں میں تبدیل ہو چکا ہے- محققین کے مطابق صحرائے صحارا سے اڑنے والی ریت بحر اوقیانوس کے اوپر سے گزر کر جنوبی امریکہ کے بہت گھنے اور بڑے جنگل امیزون (Amazon) کو زرخیز بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے-[15]
5. بحیرہ ارومیہ ایران (Lake Urmia, Iran)
بحیرہ ارومیہ ایران کے شمال مغرب میں دو صوبوں صوبہ آذر بائیجان شرقی اور صوبہ آذربائیجان غربی کے درمیان نمکین پانی کا جھیل نما بحیرہ ہے- اپنے وقتِ عروج میں یہ مشرقِ وسطٰی کی سب سے بڑی جبکہ دنیا کی چھٹی بڑی نمکین پانی کی جھیل تھی- 140 کلومیٹر لمبی اور16 میٹر گہری اس جھیل کا کل رقبہ 5200 سے 6000 مربع کلو میٹر تھا[16]- اس جھیل میں کم و بیش 13 دریاؤں کا پانی گرتا ہے- یہ جھیل بحیرہ مردار کی طرح نمکیات و معدنیات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور تھی- اقوامِ متحدہ کے پروگرام برائے ماحولیات کے مطابق یہ جھیل 1995ء سے مسلسل خشک ہو رہی ہے- موسمیاتی تبدیلیوں، زمین میں پانی کے رسنے، ڈیموں اور آبپاشی کے لیے بنائی جانے والی نہروں کی وجہ سے یہ جھیل اپنے اصل حجم کے مقابلے میں صرف 10 فیصد باقی بچی ہے-اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011ء میں اس جھیل کا رقبہ 2366 مربع کلومیٹر تھا جو 2013ء (صرف دو سال کے مختصر حصے ) میں 700 مربع کلومیٹررہ گیا[17]- ڈیموں اور آبپاشی کے غیر موزو ں طریقہ کار کی وجہ سے تازہ پانی اس جھیل نما بحیرہ تک پہنچنا بند ہو رہا ہے جس کے سبب یہ مسلسل خشک ہو رہی ہے- ایران کے موسمیاتی ادارے کے ایک علاقائی افسر کے بقول اس بحیرہ میں 20 سال پہلے کی نسبت اب صرف 5فیصد پانی ہے جبکہ 95 فیصد بحیرہ خشک ہو چکا ہے[18]- اقوامِ متحدہ کے ڈیویلپمنٹ پروگرام اور ایران کے مشترکہ منصوبہ کے تحت اس جھیل کو بچانے پر کام شروع ہوا جس کا فنڈ جاپان کی حکومت نے دیا- گزشتہ چند سال میں اس علاقے میں بارشوں کے باعث یہ جھیل مکمل طور پر خشک ہونے سے بچ گئی ہے البتہ اس جھیل کو اپنے ابتدائی مقام تک لے جانے میں بہت احتیاط کے ساتھ منصوبہ بندی کرنی ہوگی-
6. جھیل پویانگ (Poyang Lake)
چین کے مشرقی میں واقع صوبہ جیانگشی (Jiangxi Province) میں واقع چائنہ کی سب سے بڑی جھیل ’’جھیل پویانگ‘‘ بھی خشک سالی کا شکار ہے- یہ جمہوریہ چین کی صاف پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے- چین کے تین دریاؤں، دریائے گین، دریائے ژن اور دریائے ژیو (Gan, Xin, and Xiu rivers) کا پانی دریائے یانگتسی (Yangtze River) میں شامل ہونے کے بعد اس جھیل میں گرتا ہے- یہ جھیل 4500 مربع کلومیٹر پر محیط ہوا کرتی تھی لیکن موسمیاتی تبدیلیوں، ڈیموں کی ذریعے دریائے یانگتسی کا رخ یکسر بدلنے اور دیگر صنعتی سر گرمیوں کی وجہ سے اس کا کل رقبہ 200 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے[19]- اس جھیل کی ایسی جگہیں جہاں 25 میٹر گہرا پانی ہوا کرتا تھا اب مکمل طور پر خشک ہو کر ایک نخلستان کا روپ دھار چکی ہیں اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو وہ وقت دور نہیں جب یہ صحرا میں تبدیل ہو جائے گی جس کی پیش گوئی بہت سے چینی محققین پہلے ہی کر چکے ہیں[20]-
7. اچھڑو تھر
اچھڑو تھر پاکستان کے صوبہ سندھ میں 23 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا وہ صحرا ہے جو کبھی پانی کا ایک عظیم ذخیرہ ہوا کرتا ہے- یہ صحرا عمر کوٹ، سانگھڑ، بینظیر آباد، خیرپور، سکھر اور گھوٹکی کے مختلف علاقوں پر مشتمل ہے- دراصل یہ صحرا چولستان اور تھر کے درمیان اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے- ایک مشہور محقق امر لغاری کے مطابق، زمینی پلیٹوں کی حرکت سے ستلج اور جمنانے اپنے بہاؤ تبدیل کیے جس وجہ سے 2000 قبل مسیح سے 1500 قبل مسیح تک سرسوتی بالکل خشک ہو گئی، راجستھان کے ریگستان کے ظاہر ہونے یا ویران ہونے کا بھی یہی زمانہ ہے- سیٹلائٹ کی تصویروں سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ یہ ریگستانی پٹی اصل میں گمشدہ سرسوتی دریا کا قدیم بہاؤ ہے[21]- مختلف محققین کی رائے میں موجودہ اچھڑو تھر کے علاقے میں ایک دریا کے ساتھ کبھی ایک شہر آباد ہوا کرتا تھا- اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دریائے سندھ کے کناروں پر ملنے والی انسانی بستیوں کے آثار سرسوتی کے کناروں پر ملنے والےبستیوں کے آثار سے 4 گُنا کم ہیں-
المختصر! ماضی میں پانی کے عظیم ذخائر وقت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی غفلتوں کی وجہ سے آج صحرا بن چکے ہیں -
زمین پر موجود پانی کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے- ہالینڈ میں ڈیلٹریز ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق گزشتہ 30 سال میں ایک لاکھ 73 ہزار مربع کلومیٹر زمینی علاقہ پر سے پانی کے چھوٹے بڑے ذخائر ختم ہو چکے ہیں جبکہ کہ اس وقت ایک لاکھ 15 ہزار مربع کلومیٹر زمین پر پانی موجود ہے[22]- کرہِ ارض پر موجود پانی کے ذخائر میں ہونے والی تبدیلیاں لمحہ فکریہ ہیں -پانی قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے مگر دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور ضروریات، انسانی غفلتوں اور پانی کے ضیاع کی وجہ سے یہ نعمت ہمارے لیے زحمت بنتی چلی جا رہی ہے- اس تمام پسِ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہو گی -
٭٭٭
[1]https://www.nationalgeographic.com/magazine/2015/06/vanishing-aral-sea-kazakhstan-uzbekistan/.
[2]https://www.aljazeera.com/programmes/aljazeeraworld/2012/08/2012857324531428.html.
[3]http://www.bbc.com/future/story/20170926-the-deadly-germ-warfare-island-abandoned-by-the-soviets۔
[4]https://iea.uoregon.edu/treaty-text/1999-statuteinternationalaralseafundentxt
[5]https://www.theguardian.com/global-development-professionals-network/gallery/2016/dec/09/the-lakes-of-the-world-are-disappearing-in-pictures
[6]https://www.smithsonianmag.com/science-nature/the-dying-of-the-dead-sea-70079351/
[7]https://www.bbc.com/news/world-middle-east-36477284
[8]https://www.theguardian.com/world/2013/dec/09/dead-sea-pipeline-water-red-sea.
[9]https://www.britannica.com/place/Lake-Chad#ref39292
[10]https://qz.com/africa/917282/as-africas-largest-lakes-shrink-rapidly-space-technology-and-drones-are-needed-to-fight-drought/
[11]https://www.theguardian.com/global-development-professionals-network/gallery/2016/dec/09/the-lakes-of-the-world-are-disappearing-in-pictures۔
[12]https://www.bbc.com/news/world-africa-43500314
[13]https://www.smithsonianmag.com/science-nature/world-vanishing-lakes-180949645/
[14]https://qz.com/africa/917282/as-africas-largest-lakes-shrink-rapidly-space-technology-and-drones-are-needed-to-fight-drought/
[15]https://www.dailymail.co.uk/news/article-3143617/Scientists-discover-Sahara-Desert-contained-world-s-largest-lake-named-Mega-Chad-1-000-years-ago-evaporated-just-years.html
[16]https://www.britannica.com/place/Lake-Urmia
[17]https://www.dailymail.co.uk/wires/afp/article-6539239/Iran-sees-revival-imperilled-Lake-Urmia.html
[18]https://www.smithsonianmag.com/science-nature/world-vanishing-lakes-180949645/
[19]https://www.theguardian.com/global-development-professionals-network/gallery/2016/dec/09/the-lakes-of-the-world-are-disappearing-in-pictures
[20]http://www.chinadaily.com.cn/a/201804/19/WS5ad7faeaa3105cdcf651938b_1.html
[21]https://www.dawnnews.tv/news/1045942
[22]https://www.bbc.com/urdu/science/2016/08/160826_earth_surface_water_shifting_land_sz