’’پاکستان کی نظریاتی و رُوحانی اساس‘‘ کے عنوان سے مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام یکم جون 2019ء کو نیشنل لائبریری اسلام آباد میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا- یہ سیمینار کا انعقاد 27 رمضان المبارک کو قیامِ پا کستان کا دن منانے کے حوالے سے کیا گیا کہ جب رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسلمانانِ ہند کا آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور وہ عظیم قربانیوں اور کوششوں کے بعد اپنا وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے-
اس موقع پر مہمانِ خصوصی جناب علی محمد خان، وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور تھے اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم چیئر مین سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار نے سیشن کی صدارت کی- سیّد عزیز اللہ شاہ ایڈووکیٹ، ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے -
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیالات کا خلاصہ ذیل ہے:
افتتاحی کلمات
صاحبزادہ سلطان احمد علی( چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
سورہ البقرہ میں بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے آسمان سے اترنے والی من و سلوٰی کی اعلیٰ خوراک کو زمین سے حاصل ہونے والی ادنیٰ ترین خوراک پہ ترجیح نہ دی-اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اس کے نتیجے میں ان کے اوپر ذلت کو طاری کر دیا- اس کو اقبالؒ کے نظریے میں ’’earth rootedness‘‘کہا گیا ہے یعنی ارضی پیوستگی- کوئی بھی چیز زمین کے جتنا قریب اُگتی ہے اپنی طاقت میں کم ہوتی ہے- اس کے برعکس جو چیز ارضی پیوستگی سے دور ہے اس کی طاقت زیادہ ہے- مثلاً گاجر اور کھجور میں پائی جانے والی کیلوریز کی تعداد میں اتنا زیادہ فرق اس بات کی دلیل ہے- کوئی بھی قومی نظریہ زمین سے جتنا جڑا ہوگا اتنا ہی ادنی اور ناپائیدار ہوگا اور جس نظریہ کی بنیاد روحانی شناخت ہو وہ اتنا ہی زیادہ مضبوط ہے - جغرافیہ، رنگ و نسل اور زبان تینو ں زمینی پیوستگی رکھتی ہیں اس لیے یہ بنیادیں کمزور ہیں-اس کے مقابلے میں ہماری روحانی شناخت بہتر اساس ہے اور یہ ہمارے لیے من و سلوٰی کا درجہ رکھتی ہے جس کو نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے-
معزز مہمان مقرر
جناب رانا عبدالبا قی( چئیرمین جناح اقبال فکری فورم )
قائد اعظمؒ نے ایک مشہور برطانوی صحافی کوانٹریو دیتے ہوئے پاکستان کی خصوصیات اس طرح بیان کی کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور اسلام صرف مذہبی عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے - جب مسلمانوں کو ایک کہا جاتا ہے تو زندگی کی تمام ضروریات اور شعبے میرے پیش نظر ہوتے ہیں- مسلمان ایک الگ قوم ہیں ہماری تاریخ، ہمارے ہیرو الگ ہیں اور ہمارا آئین بھی ہندؤوں سے مختلف ہے- قائداعظمؒ نے اس وقت جو کہا تھا آج بھی سچ ثابت ہو رہا ہےکہ ہندوستان میں محض گائے کا گوشت کھانے پر جس طرح مسلمان اقلیتوں پر تشدد کیا جا رہا ہے وہ قابل افسوس ہے-14 اگست 1948ء کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قائداعظمؒ نے فرمایا ہم نے سال بھر کی مشکلات کا مقابلہ بڑے حوصلے اور عزم سے کیا ہے اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو ناکام بنا کر جو کامیابی ہم نے حاصل کی وہ حیرت انگیز ہے - یہ سازشیں آج بھی پاکستان کے خلاف ہو رہی ہیں اس میں افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس میں ہمارے کچھ معتبر سیاست دان پاکستان میں اندرونی خلفشار پیدا کرر ہے ہیں اور بھارت اقتصادی طور پر اور امن خراب کر نے کے لئے جو سازشیں رچا رہا ہے اس حوالے سے ہمیں قومی یکجہتی اور علامہ اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلنا ہوگا-
معزز مہمان مقرر
جناب کنور محمد دلشاد (سابق فیڈرل سیکرٹری الیکشن کمیشن پاکستان)
جب ہم اپنی نظریاتی اساس سے پیچھے ہٹیں گے تو جس طرح غزوۂ احد میں تیر انداز اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ گئے اور مسلمانوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح آج ہمیں بھی نقصان اٹھانا پڑے گا-جب ہم اپنے مقصد نظریہ پاکستان سے پیچھے ہٹے تو مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آگیا- میثاقِ مدینہ کے 63آرٹیکلز ہیں اگر ان کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنا دیا جائے تو پاکستان ایک فلاحی ریاست بن سکتا ہے -میثاقِ مدینہ کا آرٹیکل 62 کہتا ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو امن و حفاظت حاصل ہو - قائداعظم نے 11 اگست کی تقریر میں جو کچھ کہا تھا وہ میثاق مدینہ کے حوالے سے ہی کہا تھا اور اسی کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کی بات کی-قائداعظم کو جو روحانیت کا درجہ حاصل تھا اس کا اندازہ کچھ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر (جیلانی رضی اللہ عنہ) کے گدی نشین کے پاس غازی صاحب (قائداعظم کی خدمت میں رہنے والے صاحب) حاضر ہوئے - ان کو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) کے گدی نشین نے یہ حکم دیا کہ تم بمبئی چلے جاؤ اور وہاں ایک بہت بڑی شخصیت جو مسلمانوں کی ریاست کے لئے کام کر رہی ہے؛ تم نے اس کے ساتھ سائے کی طرح رہنا ہے- پھر وہ صاحب بمبئی آئے اور قائداعظم کے ساتھ سائے کی طرح رہے-
معزز مہمان مقرر
جناب غلام محمد صفی
( سابق کنوینر، آل پارٹیز حریت کانفرنس، آزاد جموں و کشمیر چیپٹر)
ہماری یہ ایک بہت بڑی بد قسمتی ہےکہ ہم نے قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ کو حقیقی طور پر نہیں سمجھا- قائد اعظم کے دل میں کیا تھا وہ ان کی اکتوبر 1939ء کی اس تمنا سے ظاہر ہوتا ہے جب وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل سے خطاب کر رہے تھے- انہوں نے کہا کہ میری ایک دلی تمنا ہے کہ مَیں مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں-مَیں چاہتا ہوں کہ مَیں جب مروں تو اس یقین اور اطمینان کے ساتھ مروں کہ اللہ یہ گواہی دے کہ جناح نے اپنا کام پورا کیا اور اسلام کا حق ادا کیا-
آپؒ جب کشمیر آئے تو وہاں پر بھی ابوالکلام آزاد جیسا ایک شخص کانگرس نے پال رکھا تھا جس کا نام شیخ محمد عبداللہ تھا اور وہ کانگریس سے تعلق رکھتا تھاجس کی بدولت اس نے وہاں مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر دیا- قائداعظمؒ نے کشمیر آکر ایک جامع تقریر کی بجائے اختصار سے بس اتنا کہا کہ مسلمانوں! ہمارا اللہ ایک، ہمارا نبی ایک ، ہمارا قرآن ایک ،تو پھر ہمیں بھی ایک ہونا چاہیے-
معزز مہمان مقرر
لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب( ممتاز دفاعی تجزیہ نگار)
پاکستان کے دشمن کو یہ اندازہ ہے کہ اگر پاکستان کی سالمیت کو ختم کرنا چاہیں تو آج کے زمانے میں یہ ممکن نہیں ہے، لہٰذا اب اندرونی طور پر قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر یہ سازش رچائی جا رہی ہے- بدقسمتی سے جغرافیہ اور مذہب کو تو ہم نے اکٹھے رکھا لیکن لسانیت اور قومیت کا زہر ہماری رگوں میں سرایت کر چکا ہے -جب 1947ء میں پاکستان بنا تو بڑے مشکل حالات تھے لیکن بہت جلد ہی یہ مشکلات دور ہوتی گئیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے مقامی لوگوں نے اسلامی جذبے کا مظاہرہ کیا انہوں نے کھلے بازوؤں سے مہاجرین کا استقبال کیا اور انہیں رہنے کی جگہ مہیا کی- بے سر و سامانی کے عالم میں بھی ہم اس جذبے اور نظریاتی اساس کے تحت بہتر قوم تھے- ہمیں گزر بسر میں دشواریاں تھیں- حکومت کہتی تھی تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں لیکن جذبہ یہ تھا کہ تنخواہ نہیں تو پھر بھی کام کریں گے - لیکن اس وقت کسی کی زبان پر اپنے ذاتی مطالبات نہیں تھے یہ شکایت نہیں تھی کہ مجھے یہ کیوں مہیا نہیں کیا گیا -اس وقت فرائض کی بات ہوتی تھی حقوق کی نہیں- آج فرائض کوئی بھی ادا نہیں کرتا صرف حقوق کی بات کرتےہیں- ہمیں آج پاکستان کی ترقی کے لیے پھر وہ ہی جذبہ درکار ہے-
معزز مہمان مقرر
ڈاکٹر محمد خالد مسعود( سابق سربراہ، اسلامی نظریاتی کونسل )
شبِ قدر سے پاکستان کی تاریخ کے باب کا آغاز خود ایک روحانی بنیاد ہے- شب قدر میں وقت تیزی سے گزرتا ہے اور ایک رات کو ایک ہزار ماہ کے برابر قرار دیا گیا ہے- اسی طرح پاکستان کا قیام بھی بڑے قلیل عرصے میں ممکن ہوا- اگر پاکستان کی روحانی بنیاد اتنی مضبوط ہے تو آج تک پاکستان مختلف بحرانوں سے کیوں نہیں نکل سکا؟ کہیں ایسا تو نہی کہ نظریاتی اور روحانی بنیادوں کی مختلف تعبیریں ہماری آنکھوں پر پہنا دی گئی ہیں یا ہم نے خود پہن لی ہیں؟ تقدیر کا تدبیر سے بہت گہرا رشتہ ہے- دیگر مذاہب نے عموماً اور اسلام نےبالخصوص تقدیر اور تدبیر کو ایک دوسرے کے موافق بتایا ہے- تدبیر کے بغیر تقدیر کے تابع ہو کر توکل کی راہ اختیار کرنے کا درس قرآن و سنت میں نہیں ملتا- قائداعظمؒ نے 1937ء میں واضح کہا تھا کہ مسلمان اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کریں اگر ایسا نہ کیا گیا تو مسلمان اپنی تباہی اور بربادی کے خود ذمہ دار ہونگے- صرف ایک چیز مسلمانوں کو بچا سکتی ہے اور وہ ہے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کی جدوجہداس لئے پہلے اپنے لوگوں کو اکٹھا کر کے ان کو صحیح اور غلط کا فیصلہ سیکھانا چاہیے-
وقفہ سوال و جواب
وقفہ سوال و جواب میں کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے :
شدت پسندی کی پاکستان میں دو وجوہات ہو سکتی ہیں-ایک تو دین کی سمجھ کا نہ ہونا اور دوسرا اس کے پیچھے کوئی ایجنڈا بھی ہو سکتا ہے- جس کو دین کی سمجھ آگئی اس میں تو ٹھہراؤ اور برداشت پیدا ہوگی- اس کا واحد حل یہی ہے کہ ہم دین اور دنیا کو ایک ساتھ یکجا کریں- ہم نے اپنے مذہبی طبقے کو ان تمام اُمور سے دور کر دیا جس سے دنیاوی نظام چلتا ہےاور جن لوگوں کے ہاتھ میں دنیاوی اختیار دے دیا ان کو علمِ دین سے دور کر دیا- جنگِ آزادی سے پہلے برِصغیر کے مدارس میں دین و دنیا دونوں کو ایک ساتھ پڑھایا جاتا تھا-قرآن و حدیث اورفقہ کے ساتھ آپ کو ریاضی، عمرانیات اور فلسفہ بھی پڑھایا جاتا تھا -آج ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنے بچوں کو قران و سنّت کی طرف لے کے آئیں اور ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی بتائیں کہ جہاز اور توپ بھی تم نے ہی بنانی ہے- یعنی صرف پیشہ کمانا ہی مقصود نہ ہو بلکہ قوم و ملک کی ترقی کے لیے ہمارے وجود سے جدت طرازی کے چشمے پھوٹنےچاہییں-
جب اسلام آیا تھا تو اس وقت فرقہ واریت کا وجود نہیں تھا ہمارے نبی حضرت محمد (ﷺ) اور صحابہ کرام سب مسلمان تھے- پاکستان میں لسانیت، فرقہ واریت اور صوبائیت ایسی لعنتیں ہیں جس کو ہمارا دشمن ہوا دیتا ہے- یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پہ حاصل کیا اور 27 رمضان کو نزولِ قرآن کے دن اس کی تشکیل ہوئی تو یہ اتفاق نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب تھا - ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم فرقوں میں تقسیم نہ ہوں اور دشمن کے عزائم کو مٹی میں ملا دیں-
مہمانِ خصوصی
جناب علی محمد خان( وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور )
پاکستان اسلام کے نام پر بنا اس کے پیچھے لاکھوں لوگوں کی قربانیاں اور اولیاء کرام کی دعائیں تھیں- غلامی تو چلی گئی لیکن غلامی کے آثار رہ گئے- ہمارے ملک میں کتاب کا کلچر ختم ہو کر رہ گیا ہے- ہمارے ملک میں سب سے بلند رتبہ استاد کاتھا اس کی عزت کو پامال کر دیا گیا- اگر ہم نے اپنے ایجوکیشن سسٹم میں بہتر طریقے سے سرمایہ کاری کی ہوتی تو ہر کوئی کہتا کہ میرا بیٹا استاد بنے گا، میرا بیٹا عالم بنےگا - اپنے بچوں کو ایک سوچ دیں کہ دنیا میں آپ پاکستان کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں- ہم جس بھی میدان میں ہوں ہماری سوچ یہی ہو نی چاہیے کہ ہم نے اپنے ملک کے لئے بہترین کارکردگی ادا کرنی ہے -
یہ ملک اللہ نے 27 رمضان کریم کو بنایا اور یہ بات تاریخی اعتبار سے ثابت ہے کہ قائد اعظم کو لندن سے برصغیر لے کر آنے والی شخصیت حضرت محمد(ﷺ) تھے اور خان آف قلات کو بھی خواب میں حضور نبی (ﷺ) نے حکم دیا کہ محمد علی جناح کے ساتھ شامل ہو جاؤ- پاکستان کے ساتھ انبیائے کرام (علیھم السلام) اور اولیائے کرام (رحمتہ اللہ علیھم)ہیں لیکن ہم میں صرف ایمان کی کمی ہے - آج ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ملاوٹ نہیں کریں گے، ہم کرپشن نہیں کریں گے، اپنے ملک کا نقصان نہیں کریں گے، یہ میرا ملک ہے، یہ میری لائبریری ہے، یہ ہسپتال میرا ہے، یہ میری ریل گاڑی ہے- اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ چیز نقش کرنی چاہیے کہ یہ ملک ہمارا ہےاور ہم اپنے ملک پر آنچ نہیں آنے دیں گے- انشاء اللہ پاکستان دنیا کی سپر پاور بنے گا-
صدرِ محفل
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
(چیئر مین سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار)
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کے نظریہ کی بنیاد اسلام ہے- اس عظیم مملکت کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا-یہ وہ مفکر اور دانشور تھا جس نے یہ کہا تھا:
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل |
روحانی اساس اس لئے ضروری ہے کہ یہ بہت بڑی منازل طے کراتی ہے- قائد اعظمؒ نے 13 جنوری 1948ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں فرمایا تھا کہ پاکستان کا منشور صرف آزادی اور خود مختاری حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک اسلامی نظریہ حیات ہے جو ایک بیش قیمت عطیہ اور خزانہ کی حیثیت سے کم نہیں- قائد اعظم کا مزید کہنا تھا کہ میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ دانستہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا منشور شریعت کی بنیاد پہ نہیں بنایا جائے گا اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح نافذ العمل ہیں جیسے آج سے تیرہ سو سال پہلے تھے- یہ ہماری اساس ہے اسے دیکھ کر ہمیں آگے چلنا ہے ہمیں ملک کی ترقی سلامتی خوشحالی اور بقاء کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی اپنی جگہ پہ کام کرنا چاہیے کیونکہ یہ ریاست ہے تو ہم ہیں؛ ہماری پہچان پاکستان ہے-
٭٭٭