جدت سے آشنائی حاصل کرنے کے بعد ہم روزانہ ایسے لفظ ادا کرتے ہیں جو کہ اپنے اندر بہت سے رازوں کوپوشیدہ رکھے ہوئے ہیں وہ متعدد بار زبان سے ادا ہونے والا لفظ ’’ڈیٹا‘‘ہے-اگر کمپیوٹر کی سادہ تعریف کا ذکرکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ :
’’کمپیوٹر ایک ایسا الیکڑونک آلہ ہے جو ان پٹ ڈیوائسز(ماؤس، کی بورڈ، مائیک، ٹچ پیڈ، جوائے سٹک وغیرہ )کے ذریعے ڈیٹا (خام اعداد و شمار) کو حاصل کرتا ہے اس پر (Process) عمل کرتا ہے- عمل کے بعد آؤٹ پٹ ڈیوائسز (سکرین، پرنٹر، سپیکر وغیرہ)کے ذریعے اس کا نتیجہ دکھا دیتا ہے‘‘-
اگر ڈیٹا کی بات کی جائے تو ڈیٹا اور بِگ ڈیٹا میں کیافرق ہے؟ بَگ ڈیٹا کہاں سے آتا ہے،اس کے فوائد اور پاکستان میں اس کا کہاں استعمال کیا جارہا ہے؟
ڈیٹا کیا ہے؟
ڈیٹم ایک واحد حقیقت، وجود اور علامت ہے جو لاطینی زبان کا مخفف ہے ڈیٹم کی جمع کو ’’ڈیٹا‘‘کہتے ہیں - ڈیٹم کو عام طور پر ڈیٹا پوائنٹ بھی کہتےہیں اور ’’ڈیٹا‘‘ ڈیٹا پوائنٹس کے مجموعہ کا نام ہے - ایسا ڈیٹا جس سے کسی شخص کی معلومات حاصل کی جا سکے ’’ذاتی ڈیٹا‘‘ کہلاتا ہے - مثلاً سکول کے پرنسپل کو کسی سٹوڈنٹ کی ذاتی معلومات درکار ہو تو وہ کمپیوٹر یا رجسٹر میں موجود ریکارڈ سے معلومات حاصل کر سکتا ہے- پاکستان میں نادرا واحد ادارہ ہے جو پاکستان کے باسیوں (پاکستان میں بسنے والوں ) کا ڈیٹا محفوظ کیے ہوئے ہیں اور پاکستان کے شہری جس کے عمر 18 سال یا 18 سال سے زیادہ ہوگی اُس کے پاس’’National Identification Card‘‘ موجود ہے جس سےاُس شخص کی ذاتی معلومات حاصل کی جاسکتی ہے-
بگ ڈیٹا کیا ہے؟
بِگ ڈیٹا (بڑا ڈیٹا) بہت سے اداروں، کمپنیوں، یوٹیلیٹی سٹورز، بینکوں کی مجموعی معلومات کو کہتےہیں - ذاتی ڈیٹا مل کر بِگ ڈیٹا کی شکل اختیار کرتا ہے - ذاتی ڈیٹا بھی اتنی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جتنا کہ بِگ ڈیٹا -مثلاً مائیکرو سوفٹ ایکسل کی GB1 کی فائل کو جب کمپیوٹر میں اوپن کریں گے تویہ فائل کھلنے سے قاصر ہوگی اگر یہ فائل اوپن ہو بھی جائے تو کمپیوٹر بہت آہستہ ورک کرے گا- انٹر نیٹ کی بڑھتی ہوئی سپیڈ سے بگ ڈیٹا میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ ویڈیو میں ’’Resolution‘‘ کا بڑھ جانا ہے- ایک اندازہ کے مطابق روزانہ 2.9 ایکسا بائٹ ( 260Exabyte) یا 2.9 ارب گیگا بائیٹ ( 240Gigabyte) [1]کے برابرڈیٹا روزانہ پیدا کیا جا رہا ہے -
بِگ ڈیٹا کہاں سے آتا ہے؟
بِگ ڈیٹا کے بارے میں وضاحت ہو چکی ہے اب اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بِگ ڈیٹا آتا کہاں سے ہے ؟ پاکستان میں ’’4th Generation‘‘انٹرنیٹ کا استعمال کیا جارہا ہے اور PTCL وفاقی دارالحکومت میں MB/Ps100 سپیڈ مہیا کر رہا ہے اور اگر دنیا کی تمام ویب سائیٹ کا اندازہ لگایا جائے تو تقریباً 1.7 بلین ویب سائیٹ موجود ہیں[2] جس کی وجہ سے صارف کو بہت سا ڈیٹا بیک وقت ملتا ہے اور اُس کو محفوظ کرنے کی سہولت بھی میسر ہے- انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے سوشل میڈیا اور موبائل ایپس نے اس چیز کو درست ثابت کیا ہے - صارف کو آج آن لائن پیمنٹ سے لے کر آن لائن لائسنس شاپنگ کی سہولت دی دی گئی ہے جس سے ڈیٹا کی نقل و حرکت میں تیزی واقع ہوئی ہے-
بِگ ڈیٹا کے فوائد:
آئی بی ایم کے مطابق بِگ ڈیٹا کی معلومات حاصل کرنے سے محققین اور ماہرین کو کاروباری معاملات میں بہتری اور کسٹمرز کی ضروریات کے مطابق تجزیہ کرنے اور کاروبار میں بہتری کے مواقع ملیں ہیں-جدید کمپیوٹر سائنس طریقہ کار مثلاً مشین لرننگ، پیٹرن ریکوگنیشن، ڈیٹا مائننگ سے کاروباری حضرات کسٹمر کی عادات اور روزمرہ ضروریات کا اندازہ لگا سکتیں ہیں-مثلاً ایک موبائل شاپ میں 100 کسٹمرز داخل ہوئے ہیں اور اُس میں سے ہر ایک نے کون کون سی ’’ Accessories‘‘کو خرید ا ہے ؟ عام دوکاندار اندازہ لگا سکتا ہے-اس طرح بڑے یوٹیلٹی سٹورز میں جہاں کسٹمرز کی تعداد ہزاروں میں ہو تو وہاں بِگ ڈیٹا سے ایسے ایلگورتھم استعمال میں لائیں جاتے ہیں جن کی مدد سے کسٹمرز کی زیادہ استعمال ہونے والی چیز کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتاہے- انہیں پیٹرن کو استعمال کرتے ہوئے جب موٹر وے اور قومی شاہراوں پر سفر کرنے والے لوگوں سے متعلق رپورٹ مرتب کی جاتی ہے تو اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس جگہ اور کس موڑ پر زیادہ حادثات رونما ہوئے اور اُن حادثات کی وجہ کیا تھی اور اس جگہ پر حادثات روکنے کیلئے کیا انتظامات مرتب کیے جا سکتے ہیں-
پاکستان میں بِگ ڈیٹا کا استعمال :
حال ہی میں پاکستان کی وفاقی حکومت نے ٹیکس چوروں کو پکڑنے کیلئے بِگ ڈیٹا کو استعمال کرنے کی نوید سنائی ہے جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ بہت سے ممالک میں ایسے لوگوں کو پکڑنے کیلئے روایتی طریقوں کو پس ِپشت ڈال کر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اور پاکستان میں بھی ایسے قانون اور ایسے پیٹرن استعمال کیے جائیں گے جس میں ٹیکس نہ دینے والے اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا- ایمنسٹی سکیم سے اثاثہ جات ظاہر کرنے سے بہت سے لوگ جو ٹیکس نہیں دیتے تھے اُن کے اثاثوں کی تفصیل موصول ہوئی ہے جس کو استعمال میں لاتے ہوئے اور بہت سے ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی-اگر پاکستان میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر عمل درآمد کیا گیا تو پاکستا ن کے نیٹ ریٹ میں اضافہ اورٹیکس آڈیٹر کے کام میں تیزی اور بہتری آئے گی-
1 اس کے ذریعے آڈٹ کی تعداد میں اضافہ ہوگا یعنی کم وقت میں زیادہ لوگوں کا آڈٹ ممکن ہو گا-
2 بہتر الگورتھم اور تکنیک کے استعمال سے ٹیکس چوری کے امکانات کم ہوں گے-
3 پیچیدہ ٹیکس فراڈ کی تفتیش میں مدد ملے گی-
4 ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں بہتری آئے گی-
5 تمام افراد اور کمپنیوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے-
٭٭٭
[1]https://www.computerhope.com/issues/chspace.htm