بنیادی تعارف:
اسلامی بینک کو مختصراً بیان کیا جائے تو اس سے مراد تمام وہ بینک جو شریعہ کے مختص کردہ اصولوں پر اپنے کاروباری معاملات کی لین دین کرے اور تمام لین دین عین شریعہ کے متعین کردہ دائرہ کےمطابق ہو- موجودہ اسلامی بینکاری کا ماڈل 1963ءکو سب سے پہلے ملایشیاء اور مصر میں پیش کیا گیا بعد ازاں دیگرمسلم دنیا میں اس حوالے سے مسلسل کام ہوتا رہا- 1970ء تک اسلامک بینکنگ کو اتنی پذیرائی نہی حاصل ہو سکی لیکن بیسویں صدی کے بعد سے عالمی دنیا نےاس پر تحقیقی و تنقیدی کام شروع کیا-
آج عرب و عجم میں اسلامی نظام نہ صرف مقبول ہے بلکہ اسے معاملات زندگی اور تعلیم کی حد تک اپنایا جا رہا ہے-اس کی تحقیق اور رائج نظام اسلامی نظام حکومت کی مزید مقبولیت 2007ء میں ہوئی جب ’’Economic Recession‘‘ رونما ہوا جس میں امریکہ سمیت مغربی دنیا کے بین الاقوامی مالیاتی ادارے بحران کی وجہ سے فروخت ہو رہے تھے، جس کے بعد سے اسلامی نظامِ معیشت کو اپنایا گیا- اس نظام کو سمجھنے اور عملی جامہ پہنانے پر بات تب ہوئی جب2010 ء میں یورپ میں یورپین کرنسی کا بحران ’’یورو کرائسز‘‘ آیا - اس پر یورپ کی یونیورسٹیز میں تحقیق شروع ہوئی اور بالآخر یورپ کی دنیا نے اپنے ممالک میں اسلامی بینکاری سے متعلق عملی اور تعلیمی سطح پر کوشش شروع کر دی جسے بطورایک متبادل نظام کے طورپر شامل کیا گیا-
اسلامک بینکنگ نظام ایک آلہ کے طور پر معاشی نظام کے فائدے اور ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے- اسلامک بینک کی پروڈکٹس دو طرح کی ہو تی ہیں ایک میں پیسہ کو جمع کیاجاتا ہے جس کو عام اصطلاح میں ڈپوزٹ کہا جاتا ہے اور دوسرے میں فنانسنگ کی جاتی ہے– اسلامی بینکنگ میں درج ذیل اصول مدنظر رکھے جاتےہیں-
مضاربہ :
مضاربہ، اسلامی معاشی نظام میں بنیادی اور اوائل اصولوں میں سے ہے جسے ’’Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions‘‘ نے یوں بیان کیا ہےکہ مضاربہ دو فریقین (پارٹیز)کےدرمیان ایسی شراکت داری کو کہتے ہیں جس میں ایک پارٹی جس کو ’’رب المال‘‘کہا جاتا ہے جو کاروبار میں اپنی رقم بطورسرمایہ کےسرمایہ کاری کے لئے فراہم کرتی ہے اور دوسری پارٹی جو ’’مضارب‘‘ ہے وہ اس کاروبار کے انتظامات کو سنبھالنے کی ذمہ دارہوتی ہے-نفع کی صورت میں نفع دونوں پارٹنرز کےدرمیان طے شدہ تناسب کے تحت تقسیم ہو گا جبکہ نقصان کی صورت میں صرف رب المال نقصان کو برداشت کرے گا-
اسلامک بینکنگ میں سیونگ اور کرنٹ اکاونٹس میں مضاربہ عام طور پر ’’پروجیکٹ فنانسنگ‘‘ کیلئے بینک استعمال کرتے ہیں جس میں بینک سرمایہ فراہم کرتا ہے اور کاروبار کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتا اور مضارب اس پروجیکٹ کے منیجر کے طور پر کام کرتا ہے-منافع کی صورت میں نفع طے شدہ تناسب کے تحت تقسیم کیا جاتا ہے اور نقصان کی صورت میں بینک نقصان کو برداشت کرتا ہے - مضاربہ میں منافع کا تناسب تو پہلے سے طے کیا ہوتا ہے مگر نقصان کا تناسب طے نہیں کیا جاتا-
مرابحہ :
مرابحہ لفظ ’’ربھ‘‘یعنی منافع سے اخذ شدہ ہے- مرابحہ میں اسلامک بینک کوئی بھی چیزاپنے کسٹمر کے کہنے پر خرید کر اس کی اصل قیمت اور اپنا منافع بتا کر وصول کرتا ہے- مرابحہ میں رسک تب تک اسلامک بینک کا رہتا ہے جب تک اسلامک بینک سے ملکیت کسٹمر کو منتقل نہیں ہو جاتی-
مرابحہ کنٹریکٹ عام طور پر فنانسنگ کی سہولت کے تحت کیا جاتا ہے- مرابحہ بیع کی ایسی قسم ہے جس میں اس شے کی قیمت اور منافع پہلے سے بتا دیا جاتا ہے- بینک کسٹمر کے لئے وہ چیز جو وہ ادھار پر خریدنا چاہتا ہے اس کیلیے خریدتا ہے اور بینک خرید کر دوبارہ کسٹمر کو منافع پر بیچ دیتا ہے جبکہ اس میں لاگتِ قیمت بھی شامل ہو تی ہے-کسٹمر بینک کو مقرر کردہ تاریخ پر وہ پیسہ واپس لوٹا دیتا ہے بعد ازاں بینک معاوضہ کی فیس بھی وصول کر سکتا ہے اگر کسٹمر مقرر کردہ تاریخ پر ادائیگی نہ کر سکے -
اجارہ :
اجارہ کے لفظی معنی کوئی چیز ادھار پر دینا اور اس کے بدلے کرایہ وصول کرنا ہے- اجارہ ایسی پروڈکٹ ہے جس میں بینک کسٹمر کے لئے سامان یا پراپرٹی خریدتا ہے اور ادھار پر کسٹمر (گاہک )کو دیتا ہے جبکہ کسٹمر اس مستعار چیز کے دوران متوقع ادئیگیاں کرتا ہے- پہلے بینک سپلائر سے ایڈوانس رقم کے بدلے میں سامان خریدتا ہے اور ترسیل کی تاریخ کسٹمر کی ضرورت کے مطابق طے کرتا ہے- اس کے دوسرے حصہ میں اثاثہ کے استعمال کا کنٹریکٹ ہوتا ہے- اجارہ دو قسم کے طریقے سے استعمال ہوتا ہے ایک ’’آپریٹنگ لیز‘‘ اور دوسرا ’’فنانس لیز‘‘- اسی طرح اگر اجارہ اس بات پر اختتام پذیر ہو کہ کرائے کے ساتھ ملکیت بھی کسٹمر کو منتقل ہو جائے تو اس کو’’اجارہ منتہیہ بالتملیک‘‘ کہتے ہیں -
سلم :
سلم بیع کی ایسی قسم ہے جس میں بیچنے والا مخصوص اشیاء کو آنے والے وقت کی تاریخ پر خریدار تک پہنچانے کا وعدہ کرتا ہے اور رقم کی ادائیگی پہلے ہی وصول کرتا ہے اس طرح بیچنے والے کو رقم کی فراہمی ہو جاتی ہے اور خریدار کو اس کی چیز اس کو مستقبل میں مل جا تی ہے - اسلامک بینکنگ میں سلم بیچنے والے کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ مقررہ وقت پر خریدار تک اشیاء کو پہنچا دے - سلم میں کچھ جگہوں پر کرنسی سلم کو بھی جائز مانا جاتا ہے-
سلم کا عملی پہلو عام طور پر چھوٹے کسانوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جن کو فصل تیار کرنے میں اور اپنے گھر کے اخراجات پورا کرنے میں رقم کی ضرورت ہوتی ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی فصلوں کو وقت سے پہلے بیچنے کی اجازت دی ہے-
استصناع :
استصنا ع لفظ ’’سناء‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی آرڈر پر کچھ نیا بنوانے کے ہیں-اس کنٹریکٹ میں آپ پہلے سے طے شدہ رقم پر کسی کو اپنے لئے کچھ بنانے کا آرڈر دیتے ہیں- اسلامک فنانس میں یہ ایک لمبا عرصے تک چلنے ولا کنٹریکٹ ہوتا ہے جس میں ایک پارٹی اس ذمہ داری پر اثاثہ بنانا شروع کرتی ہے کہ وہ بنا کر کسٹمر کو پہنچا دے گی- اس میں رقم کی ادائیگی انسٹالمنٹ کی شکل میں کی جاتی ہے جو کہ پروجیکٹ کے مکمل ہو نے تک چلتی ہے- استصنا ع بھی حدیث کی رو سے ثابت ہے-
مشارکہ :
لفظ مشارکہ ’’شرکہ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی شراکت داری کے ہیں اور یہ شرک کامعنی بھی دیتاہے- پاکستان میں پارٹنرشپ ایکٹ 1932ء کے تحت مشارکہ: ’’دو فریقین کے درمیان ایسا تعلق جس میں دونوں فریقین منافع کمانے اور کاروبار کو مل کر چلانے کے لئے رضامند ہوں‘‘-
مشارکہ میں بینک اور کسٹمرز شراکت داری کرتے ہیں -منافع پہلے سے طے شدہ تناسب اور نقصان شریک کئے گئے مال کے تناسب کے مطابق حصے میں آتا ہے- اسلامک فنانسنگ میں مشارکہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے - مشارکہ عام طور پرپراپرٹی کی خرید، ریئل اسٹیٹ، انویسٹمنٹ کےلئےاستعمال ہوتاہے-ہر وہ پارٹی جس نے سرمایہ لگایا ہو وہ مینجمنٹ سے منسلک ہوتی ہے-
کفا لہ :
کفالہ کے معنی کسی چیز کو ملانے کے ہیں- کفالہ اسلامی معیشت کے لین دین میں بہت اہم کنٹریکٹ ہے جس میں کنٹریکٹنگ پارٹیز کے حقوق اور ذمہ داریوں کی حفاظت کی جاتی ہے- کفالہ کنٹریکٹ کو کسی بھی دوسرے کنٹریکٹ کو مضبوط بنانے کے لئے آپشن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے- کفالہ میں کسی ایک کی ذمہ داری کسی دوسری کی ذمہ داری کے ساتھ ملا دی جاتی ہےتا کہ ادائیگی کی پرفامنس بہتر ہو سکے-
کنٹریکٹ ایکٹ 1872ء میں کفالہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :
’’گارنٹی کاایسا کنٹریکٹ جس میں وعدہ کوپرفام کیا جائے اور تیسرے بندے کی ذمہ داری کو ختم کیا جائے اگر وہ خرابی کرتا ہے- جوشخص گارنٹی دے رہا ہو گا اس کو Surety کہتے ہیں اور ایسا شخص جس کی خرابی کے باعث گارنٹی دی جا رہی ہو اس کو principal debtor کہتے ہیں اور جس کو گارنٹی دی جا رہی ہو اس کو creditor کہا جاتا ہے ‘‘-
حوالہ:
حوالہ(Agency) کا لفظ تحویل سے لیا گیا ہے جس کا مطلب قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری اصل مقروض سے دوسرے شخص پر منتقل (ٹرانسفر) ہو جاتی ہے-حوالہ میں ایک شخص دوسر شخص کو ایجنٹ مقرر کرتا ہے تاکہ اس کے لئے کو ئی کام انجام کرے- پہلا آدمی پرنسپل(مکفول) کہلاتا ہے دوسرا آدمی ایجنٹ(وکیل ) ہوتا ہے-
صکوک :
صکوک کا لفظ ’’صک‘‘سے ہے- صکوک عربی نام ہے جو فنانشنل سرٹیفیکیٹ کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب سرٹیفیکیٹ یا قانونی آلہ کے ہیں- صکوک اسلامک بینکنگ میں بانڈ اور اسٹاک کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے -اسلامک بینکنگ کا ماننا ہے کہ بانڈ اور اسٹاک ربا اور سود کی بنیاد پر ہوتا ہے- AAOFIکے مطابق صکوک کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :
“Securities of equal denomination representing individual ownership interests in a portfolio of eligible existing or future assets”.
مثال کے طور پر صکوک رکھنے والے حضرات کو، جو پراپرٹی بنائی جا رہی ہو، پراپرٹی کا مالک ٹھہرایا جاتا ہے- اس طرح صکوک رکھنے والے پراپرٹی کے کرائے کے طور پرمنافع وصول کرتے ہیں جو کہ حلال ہے- اسلامک لاء میں کیونکہ وہ اس اثاثہ کی ملکیت کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں-
تورق:
تورق عام اصطلاح میں ’’ورق‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب سلور silverکےہیں- AAOFIکےمطابق خریداری کا ایسا عمل مرابحہ کے تحت کم قیمت پر خرید کر اس کو تیسری پارٹی کو نقد رقم پر بیچنا تا کہ سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے- تورق دو اقسام کا ہو تا ہے ایک تورق فقہی اور دوسرا تورق منظم دونوں تورق سرمایہ کو اکٹھا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے-
یاد رہے کہ مروجہ اسلامک بینکنگ فتوی سے چل رہی ہے یا تقوی سے- اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے اگر فتوی سے اوپر کوئی چیز ہے تو وہ تقویٰ ہے- اکثر احکامات فتوی سے جائز قرار دئے جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اس میں بھی تقوی کی بنیاد پر احتیاط برتتے ہیں - اسی طرح اسلامک بینکاری فتوی سے جائز قرار دی گئی ہے اور بہت سے صاحب تقوی حضرات اپنے لئے کوئی بھی اسلامک پروڈکٹ استعمال نہیں کرتے چاہے وہ تکافل ہو یا مضاربہ، مشارکہ کا کاروبار ہو- اسلام نے ہمیشہ جائز ذرائع سے معاشی طور پر مضبوط ہونے کی ترغیب دی ہے- ہمارے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے کہ ملک میں اسلامک بینکنگ کا نظام متعارف کرایا جائے- اسٹیٹ بنک کا بھی مقصد یہی تھا کہ ملک سے سودی نظام کو ختم کیا جائے-
ہم اس وقت سودی نظام کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں جہاں دنیا میں آنے والا ہر بچہ سود کا قرض دار ہے جہاں آپ قرآن، خوراک بھی خریدے تو وہ بالواسطہ سود ادا کر کے ہی خریدتے ہیں- تھورا سا اس بات کی طرف بھی توجہ کی جانی چاہیئے کہ محققین اسلامک بینکنگ نظام کو رائج نظام کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اس پرانے نظام سے مسائل کا حل چاہتے ہیں جب کہ اسلام کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید بنکاری کو متعارف کرانا چاہیئے جس سے پرانے کنونیشنل نظام سے ہم آہنگی اور مطابقت کو بھی دور کیا جا سکتا ہے -
یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ فقہ المعاملات المالیہ پر تمام فقہ اور آئمہ کرام سے ایک ذخیرہ چلا آرہا ہے - 1400 سال پہلے بھی مکمل ضابطہ حیات تھا اور آج بھی ہے- مسلسل کاوشوں سے وہ وقت دور نہیں جب اسلامی معاشی نظام اس درجہ کمال کو پہنچ جائے کہ مواخات مدینہ ماڈل اور حضرت عمر بن عبد العزیز کی مثالیں دوہرائی جا سکتیں ہیں-
اسلامک بینکنگ ابھی اپنے تحقیقی دور سے گزر رہی ہے جس کا تعلق مکمل طور پر علمی تحقیق سے ہے - اسلامک بینکنگ پر اپنی قائم رکھنے سے پہلے کچھ باتیں ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ روایتی بینکاری نظام پر تین صدیوں سے تحقیق ہو رہی ہے، لاکھوں پی ایچ ڈی ، ام ایس، ایم فل ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں آج یہ ایک مضبوط مالیاتی نظام بن چکا ہے جبکہ اسلامی بینکاری نظام ابھی اپنے تحقیقی مراحل میں ہے- گزشتہ مالیاتی بحرانوں کے بعدتقریباً پوری دنیا اسلامک فنانس کی طرف کھینچی چلی آرہی ہے- ابھی اسلامک بینکاری میں بہت سی اصطلاحات کی صحیح معنوں میں ضرورت ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس نیک کاوش میں اپنا حصہ ڈالنے کی تو فیق عطا فرمائے- آمین---!
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا |
٭٭٭