پاک چین تعاون اور علاقائی ترقی کا مستقبل

پاک چین تعاون اور علاقائی ترقی کا مستقبل

پاک چین تعاون اور علاقائی ترقی کا مستقبل

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ دسمبر 2019

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام، اسلام آباد میں ’’پاک چین تعاون اور علاقائی ترقی کا مستقبل‘‘کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا- ایمبیسیڈر (ر) ریاض محمد خان (سابق سیکریٹری خارجہ پاکستان) نے سیمینار کی صدارت کی- اسامہ بن اشرف (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے سیمینار کی کاروائی کو ماڈریٹ کیا- سفراء، اسکالرز، جامعات کے پروفیسرز، وکلاء، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، طلباء، سماجی کارکنان اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے سیمینار میں شرکت کی-

سیمینار میں شریک ماہرین کے اظہا ر خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

ابتدائی کلمات:

صاحبزادہ سلطان احمد علی

(چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

میں جناب شن زیان زنگ کی قیادت میں سیمینار میں شرکت کرنے والے یُنان اکیڈمی آف سوشل سائنسز چائینہ کے وفد کو خوش آمدید کہتا ہوں- پاکستان اور چین کی برسوں پر محیط دوستی اور تعاون کا خطے میں امن اور توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ہے- افغانستان میں سیاسی ابتری اور بھارت کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی ریشہ دوانیاں اس وقت خطے کو درپیش چیلنجز میں سرِ فہرست ہیں- انڈیا نے کبھی بھی بیلٹ روڈ انیشیٹو یا سی پیک کو تسلیم نہیں کیا بلکہ علی الاعلان باہمی تعاون پر مبنی منصوبہ جات کو مسترد کرتا ہے- بھارت، پاک چین تعاون کے خلاف مختلف ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے باوجود بھی من گھڑت الزامات داغنے سے باز نہیں آتا-انڈیا شنگھائی تعاون تنظیم کا واحد ممبر تھا جس نے چنگ ڈاؤ ڈیکلیریشن میں بیلٹ روڈ انیشیٹو کے منصوبہ جات کو تسلیم نہیں کیا- ہر عالمی و سفارتی محاذ پر دھول چاٹنے کے بعد بھی بھارت چانکیہ پالیسی کو اپنائے غیر ریاستی کاروائیوں کے ذریعے سی پیک کو اس کی ابتداء سے ناکام کرنے کے درپے ہے- خطے کی سماجی و معاشی ترقی کا دارومدار امن پر ہے اور اس کے لیے منفی قوتوں اور مذموم پروپیگنڈا کو شکست دینا ہوگی- نتیجتاً، پاکستان اور چین کو خطے کی ترقی کے لیے مختلف معاملات پر تعاون جاری رکھنا ہو گا-

اظہارِ خیال

ڈاکٹر ہی رو فیانگ

(انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا سٹڈیز، یُنان اکیڈمی آف سوشل سائنسز، چین)

چین کا تیل و گیس کی درآمد پر انحصار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے- چین کو تیل کی بیشتر ترسیل بحرِ ہند کے راستے ہوتی ہے- بحر ہند چین کے لیے نہ صرف علاقائی ممالک کے ساتھ تعاون کے لحاظ سے اہم ہے بلکہ سیکورٹی کے مختلف پہلووں کے حوالے سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے- بلاشبہ، بحرِ ہند کے ارد گرد گھومتی سیاست کئی پہلوؤں کی حامل ہے- انڈیا کے چین سے تعلقات ہمیشہ سرد مہری کا شکار رہے ہیں اور انڈیا کے اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں- گوادر کی بندرگاہ چین کے لیے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلیے ایک محفوظ اور متبادل راستہ ہے- سی پیک باہمی اقتصادی تعاون کا ایک جدید ماڈل ہے- مصائب کے زمانہ میں بھی پاک چین دوستی ہمیشہ باہمی اعتماد اور یکجہتی کا نمونہ رہی ہے- چین اور پاکستان کے مشترک تابناک مستقبل کی جانب سفر ہر شعبہ میں گہرے تعاون کا مرہونِ منت ہے- اس لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سیکورٹی معاملات میں تعاون خطے کی پائیدار ترقی کے لیے لازم ہے-

اظہارِ خیال

پروفیسر ڈاکٹر ژانگ جیگنگ

(سیکنڈ سیکریٹری، ایمبیسی آف چائنا، اسلام آباد )

پچھلے ستر سال سے پاکستان اور چین کے تعلقات دو مختلف ثقافتی و سیاسی سسٹم کے حامل ممالک کے مابین دوستی کی شاندار مثال ہیں- جولائی 2007ء میں ہونے والے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد پاکستان کی چین کو برآمدات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے- سی پیک کے تحت 15 منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں جبکہ 10 تکمیل کے مراحل میں ہیں- ان میں سے توانائی سے متعلق منصوبے پاکستان کو 20 فیصد سے زائد بجلی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے-اب سی پیک دوسری فیز میں داخل ہو گیا ہے جس میں ترقی کا اعلیٰ معیار حاصل کیا جائے گا- چین عالمی طاقت بننے کے راستے پر گامزن ہے جبکہ پاکستان اپنے تزویراتی محلِ وقوع کی وجہ سے خطے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے- پاک چین تعاون کا خطے کی سلامتی اور ترقی میں کلیدی کردار ہے- جنوبی ایشیاء میں سیکیورٹی کے معاملا ت میں نہایت تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں جس کی وجہ پلوامہ حملہ اور انڈیا کی جانب سے آئین میں سے آرٹیکل 370 کی منسوخی جیسے واقعات شامل ہیں- اس وقت انڈیا کا رویہ بہت زیادہ جارحانہ ہے جس کی وجہ سے خطے پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں-

اظہارِخیال

ڈاکٹر وسیمہ شہزاد

(ڈین سوشل سائنسز،ائیر یونیورسٹی، اسلام آباد)

سی پیک کے شمالی حصہ میں پائے جانے والے علاقے زبان کے اعتبار سے بہت متنوع ہیں- اس لیے اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ ان علاقوں میں پاکستانی اور چائینیز زبانوں کا آپس میں رابطہ بہت زیادہ بڑھے- مستقبل میں یہ علاقے پاکستان کے ایک منفرد جغرافیائی لسانی خطے کا کردار ادا کریں گے جس سے مختلف زبانوں کی بنیاد پر نئے سماجی گروہ نمودار ہونگے- پاکستان کے تمام صوبوں میں اقتصادی زونز بنیں گے اور دونوں ممالک کے لوگوں کا آپس میں سماجی میل جول بڑھے گا- یہ متنوع منصوبہ اقتصادی ترقی تو لے کر آئے گا لیکن اس معاشی، ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی امتزاج سے منصوبہ سازوں کے لیے نئے چیلنجز بھی جنم لیں گے-

اظہارِخیال

بریگیڈیر (ر) عبدالرحمٰن بلال

(مصنف و پروفیسر، نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد)

اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سی پیک کے پراجیکٹس میں افغانستان جیسے مزید ممالک کو شامل کیا جائے کیونکہ قیامِ امن کے لیے یہ سازگار ہو گا- ان منصوبوں کے لیے انڈیا کی سوچی سمجھی سازشوں اور مخالفت کا انتہائی دانشمندی سے تدارک کرنا ہو گا- چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ اور پاکستان کی کمزور معاشی حالت کے چیلنجز پہ کام کرنے کی ضرورت ہے- سی پیک چین کو بحر ہند میں ایک بہتر متبادل فراہم کرتا ہے جس کے لیے خطے کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک مربوط پاک چین اتحاد تشکیل دیا جانا چاہیے- شنجن (Schengen) کی طرز پر ایسے انتظامات ترتیب دیے جائیں جس سے خطے کی سیکیورٹی کی صورتحال میں توازن پیدا ہو- چین، گلف کوآپریشن کونسل اور ایران کی بیلٹ روڈ انیشیٹو اور سی پیک میں شمولیت علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کو بدلتی ہوئی عالمی سیاست سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ناگزیر ہے- پاکستان اور چین کی سٹریٹیجک پارٹنرشپ میں مزید استحکام کیلیے علاقائی و عالمی صورتحال پر مشاورت اور اعلیٰ سطح کے وفود کا تبادلہ وقت کی اہم ضرورت ہے-

اظہارِخیال

مس لی مِن

(ڈائریکٹر پاکستان سٹڈیز سینٹر، کنمنگ، چین)

بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو اور سی پیک جیسے اقتصادی منصوبوں کی کامیابی کا دارومدار افغانستان میں امن پر ہے- پاکستان اور افغانستان مذہبی، ثقافتی، لسانی اور نسلی اعتبار سے آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں- علاوہ ازیں، پاکستان اور افغانستان کے باہمی طور پر اہم جیو پولیٹیکل روابط ہیں- مسئلہ افغانستان کا پاکستان کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی حل ناکامی سے دوچار ہو گا- افغان ایشو صرف افغانستان سے متعلق نہیں بلکہ یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے جس کا حل خطہ میں پائے جانے والے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر ممکن نہیں- چین کی معاشی طاقت اور خطے میں اثر و رسوخ اور پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات نے چین کو افغانستان کے مسئلہ کے حل میں اہم کردار کی شکل دے دی ہے- تجارتی جنگ اور دوسرے اختلافی معاملات کے باوجود، امریکہ کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ چین کا افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات میں اہم کردار ہے-

مہمانِ خصوصی

 ایمبیسیڈر (ر) سید حسن جاوید

( ڈائریکٹر چائینیز سٹڈیز سینٹر،  نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد)

چین کا عروج تمام ترقی پذیر ممالک کو ترقی کی جانب سفر میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے- کمیونسٹ پارٹی آف چین کی انیسویں نیشنل کانگریس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ مختلف قوموں کے ساتھ تعلقات میں اجنبیت، تصادم اور احساسِ برتری کی بجائے تعاون، ترقی اور بقائے باہمی کی پالیسی اپنائی جائے - جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ چین کی اس پالیسی نے ثقافتی اور سماجی لحاظ سے مختلف ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے میں نہایت مدد دی ہے- چین پاکستان کے بارڈر کے قریب کاشغر میں اور قازقستان کے بارڈر کے ساتھ دو اقتصادی زونز تعمیر کر رہا ہے - کاشغر اور گوادر کے خصوصی اقتصادی زونز دونوں ممالک کیلیے برآمدات کے زبردست مواقع پیدا کریں گے- قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن، ریلوے لائینز کا جال اور تیل و گیس کی پائپ لائنز چین کو گوادر اور کراچی کے ذریعےخلیج، جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیاء  و یورپ سے جوڑ دیں گی-

اظہارِخیال

 جناب شن زیان زنگ

(نائب صدر ینان اکیڈمی آف سوشل سائنسز، چین)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چین اور پاکستان دونوں ممالک دوستانہ مراسم رکھتے ہیں- پاکستان اور چین عشروں سے ایک دوسرے کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت اور دوسرے شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں- یُنان اکیڈمی آف سوشل سائنسز میں ہمارے پاکستانی سکالرز کے ساتھ تعلیمی اور ادارہ جاتی روابط قائم ہیں- پاکستان کے تھنک ٹینکس کے ساتھ مل کر یُنان اکیڈمی مختلف موضوعات پر کام کر رہی ہے- اسلام آباد اور چین کے مابین ابھی زندگی کے مختلف عمومی شعبوں میں تعاون کی گنجائش موجود ہے- میں اپنی سیاسی قیادت اور ماہرین سے اس بات کی توقع رکھتا ہوں کہ وہ اس بارے میں اقدامات اٹھائیں گے-

وقفہ سوال و جواب

معزز مقررین کی جانب سے اظہارِ خیال کے بعد وقفہ سوال و جوب ہوا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

سوال : چین پاکستان اکنامک کوریڈور کو نالج کوریڈور میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

جواب: مو جودہ دور تعلیم پہ منحصر اقتصادیات کا دور ہے- اعلیٰ سطح پر مشترکہ تحقیقی پروجیکٹس اور جرائد کے ذریعے مختلف علمی میدانوں میں ترقی کی جا سکتی ہے-دونوں ممالک کی مختلف جامعات کے مابین طلباء و طالبات کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے- پاکستانی اساتذہ کو چائینیز یونیورسٹیز میں بھیجا جا سکتا ہے تاکہ سی پیک سے تعلیمی ثمرات کے حصول پر غور کیا جا سکے- اگر پاکستان نیو کلیر بم بنا سکتا ہے جبکہ پاکستانی ڈاکٹر امریکہ اورپاکستانی سائنس دان ناسا میں کام کر سکتے ہیں تو پھر ہمارا ٹیلنٹ ہر میدان میں کامیاب ہو سکتا- ہماری تاریخ شاندار ہے اور ان شاء اللہ ہمارا  مستقبل بھی تابناک ہو گا-

سوال: سی پیک کو خصوصاً شمالی علاقہ جات میں کیا غیر روایتی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟

جواب: شمالی علاقہ جات میں سی پیک کو کو ئی خطرہ لاحق نہیں ہے کیونکہ ان علاقوں کے لوگ بہت زیادہ محب وطن ہیں - ففتھ جنریشن وار ایک نیا حربہ ہے جو کہ سی پیک کو متاثر کر سکتا ہے- اس ضمن میں ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی کیونکہ انڈیا سی پیک کو سبوتاژ کر نے کے لیے کوئی بھی مذموم حرکت کر سکتا ہے-

اختتامی کلمات از صدرِ محفل:

 ایمبیسیڈر (ر) ریاض محمد خان

(سابقہ سیکریٹری خارجہ پاکستان)

چین نے تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ ترقی کی ہے- چین نے ہمیشہ علاقائی ہم آہنگی کیلیے کام کیا ہے- ان کی قیادت نے اپنی باہمی ترقی کے نظریہ کے ذریعے پوری دنیا کی اقوام کو متاثر کیا ہے- پچھلی دو دہائیوں سے چین کی ترقی کی شرح بہت زیادہ ہے اور عنقریب چین دنیا کی عظیم ترین اقتصادی قوت بننے والا ہے- بہت سے ممالک نے دوسری اقوام کا حق مار کے ترقی کی ہے لیکن چین نے اپنے مقاصد کا حصول ایک اقتصادی وژن کے تحت کیا ہے- پچھلی کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے مابین مضبوط تعاون اس خطے کی ترقی کیلیے ایک لازمی جزو کی حیثیت اختیار کر گیا ہے- چائینیز اپنے سیاسی نظریات میں بہت زیادہ واضح ہیں- اسی طرح پاکستان بھی نہ صرف اپنی قیادت بلکہ عوامی سطح پر بھی اپنے مقاصد کے بارے میں واضح ہے- ہمیں اس لیے اپنے واضح مقاصدسخت محنت کے ذریعے ایک وژن میں تبدیل کرنا چاہیے- ہمیں سی پیک، اپنی انرجی پالیسی، صنعتی اور سائنسی سیکٹرز پر خاص توجہ دینی چاہیے-

اظہارِ تشکر

صاحبزادہ سلطان احمد علی

( چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

میں مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے تمام معزز مہمانوں، مقررین، صدرِ محفل اور ینان اکیڈمی آف سوشل سائینسز کے وفد کا انتہائی مشکور ہوں -  اس سیمینار میں پاک چین تعاون اور علاقائی ترقی کے مستقبل حوالے سےہونے والی گفتگو پالیسی سازوں کے لیے سود مند ثابت ہوگی-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر