اکیسویں صدی میں دنیا جیسے جیسے گلوبلائز ہوتی گئی اورمادی ترقی بڑھتی گئی توساتھ ہی انسانی حقوق کےخدشات نےبھی عالمی جگہ لے لی جس میں با لخصوص ناپاک سیاسی عزائم کی تکمیل اور قومی مفاد کی خاطر انسان نسل پرستانہ و شدت پسندانہ نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا اور نسلی بنیادوں پر انسانی استحصال و نسل کشی (Genocide)محض فیشن بن کر رہ گیا- میری مرادموجودہ دور کا بدلتا ہوا سیاسی منظر نامہ اور قومی مفاد کی تکمیل کیلئےانسانی حقوق کی پامالی ہے کیونکہ رواں صدی میں کچھ ایسا ہی دیکھنے کو ملا ہے جس میں انتہاء پسندانہ نظریات کی حامل شخصیات و اربابِ اقتدار نے انسان دشمنی کو فروغ دیتے ہوئے انسانی حقوق کی پا مالی میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی- یہاں تک کہ عصر ِحاضرکےنام نہاد داعی امن ممالک اور جمہوریت پسند ریاستیں انسانیت سے ایسا برتاؤ کرتے ہوئے بالکل بھی خِفّت محسوس نہیں کرتے جن میں جمہوریت کا خود ساختہ علمبردار اور انسانی حقوق پر مصنوعی راگ الاپنے والا بھارت سرِ فہرست ہے- یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت انسانی حقوق کی پامالی اور عدمِ تحفظ کے لحاظ سے بھارت صفِ اول میں شمار ہوتا ہے[1] پھر چاہے وہ اقلیتوں کےحقوق ہوں یا دیگرانسان جو بھارت میں بستے ہیں ان کےحقوق ہوں -ہندو بنیا اپنے نسل پرستانہ اور انتہاء پسندانہ نظریات کی تقلیدمیں انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہاہے-اسی ضمن میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ بھارت میں بالخصوص مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور ان کی شناخت ختم کرنے کیلئے جو ناپاک اقدامات کئے جارہے ہیں اس سے یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے بھارت ایک اور اندلس بننے جارہا ہے-
زیرِ مطالعہ تحریر اسی خدشے(ایک اور اندلس) کی مختصر جھلک اور بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کےحقوق کی پامالی اور عدمِ تحفظ پر بحث کرتی ہے جس سے نام نہاد داعی امن ریاست (بھارت) کی انسان دشمنی و انتہاء پسندی دنیا کے سامنے عیاں ہوتی ہے اور بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولر بھارت ہندو نیشنلزم اور ہندو بالادستی کو فروغ دینے کی خاطر کس قدر مکار ہتھکنڈے اپنا رہا ہے-
فرانسسکو کیپوٹرٹی[2](Francesco Capotorti) نے اقلیت کی جامع تعریف کی ہے:
“A group numerically inferior to the rest of the population of a State, in a non-dominant position, whose members—being nationals of the State—possess ethnic, religious or linguistic characteristics differing from those of the rest of the population and show, if only implicitly, a sense of solidarity, directed towards preserving their culture, traditions, religion or language”.[3]
’’ایسا گروہ جو کسی ریاست میں اس کی کل آبادی کی نسبت عددی طور پر کم تر ہو،غیرغلبہ کی پوزیشن میں ہو،جس کے افراد ریاست کے شہری ہوتے ہوئے ریاست کی باقی آبادی کی نسبت مختلف نسلی،مذہبی یا لسانی خصوصیات رکھتے ہوں اور اگر صرف اپنی ثقافت،روایات،مذہب یا زبان کے تحفط کیلئے واضح طورپر یکجہتی کا احساس ظاہر کریں‘‘-
معروف امریکی مصنف جوئل آر-پروس(Joel R. Pruce) اقلیت کی جداگانہ حیثیت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
“Distinction as a minority group refers to the group’s lack of dominance within society, not necessarily tied to its status as less-than-half of the total population”.[4]
’’اقلیتی گروہ کی جداگانہ حیثیت سے مراد یہ ہے کہ معاشرے میں اس گروہ کے غلبے کی کمی ہو-ضروری نہیں کہ اس گروہ کی حیثیت کل آبادی کے نصف سے بھی کم ہو‘‘-
اگر اقلیتوں کی بات کی جائے تو اس وقت بھارت میں مسلمان، عیسائی، سکھ اور بدھ مت جیسی مذہبی اقلیتیں بستی ہیں جو اپنے جان و مال کے تحفظ اور مذہبی آزادی کیلئے ہندو بنیے کے رحم و کرم پرہیں-
’’آفیشل اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مسلم اقلیتوں کی تعداد (14.2 فیصد)، (عیسائی 2.3 فیصد)، (سکھ 1.7 فیصد) اور بدھ مت (0.7فیصد ) ہے‘‘- [5]
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو تقسیم ہند (1947ء) کے بعد بھارتی قیادت نے اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کیلئے وقتی طورنعرہ بلند کیا کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہو گی جس میں ہندو، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے-لیکن ایسا عملی طور پر ہندستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور اقلیتوں کو ہمیشہ انتہاء پسند ہندؤں کی طرف سے ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ہندو بالادستی قبول کرلیں-ایسے ہی جیسے تاریخ میں اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ تین میں سے ایک آپشن قبول کر لیں (۱) عیسائیت قبول کر لیں (۲) ہجرت کر جائیں (۳) قتلِ عام کیلئے تیار ہو جائیں-موجودہ ہندوستان میں بھی اقلیتیں بالخصوص مسلمان کچھ اسی طرح کی صورتحال سے دو چار اپنے حقوق سے محروم بے دست و پا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں-
اقلیتوں کو درپیش مسائل:
بھارت میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی کا نہ ملنا، حقِ رائے دہی کا نہ ملنا،انصاف کا نہ ملنا، بنیادی حقوق (صحت،تعلیم، رہن سہن) سے محرومی،غربت،بے روزگاری،تشدد، دہشت گردی و انتہاء پسندی جیسے مسائل کا سامنا ہے جس کے خاتمے کیلئے بھارتی حکومت سنجیدہ نہیں بلکہ نسلی تعصب کی بنا پر اقلیتوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے-
معروف بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے 23 دسمبر 2015ء کو بمبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
’’بھارت میں اقلیتیں خوف کے ماحول میں رہ رہی ہیں اور تشدد پرستی کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویوں کو ’’عدم روداری‘‘ کے چھوٹے سے نام میں موسوم نہیں کیا جا سکتا‘‘-[6]
یونائیٹڈ سٹیٹ(U.S)کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمیشن’’USCRIF‘‘کی سالانہ رپورٹ2018ء کے مطابق:
“Conditions for religious minorities have deteriorated over the last decade due to a multifaceted campaign by Hindu-nationalist groups… [Religious minorities] face challenges ranging from acts of violence or intimidation, to the loss of political power, to increasing feelings of disenfranchisement and “otherness”.[7]
’’آخری عشرے سے ہندو قومیت پسند گروہوں کی کثیر الجہتی مہم کی وجہ سے اقلیتوں کے حالات بگڑ گئے ہیں---(مذہبی اقلیتیں) تشدد اور غنڈہ گری سے لے کر، سیاسی طاقت کے خاتمے،حقِ رائے دہی سے محرومی اور اختلافی پن جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں‘‘-
مزید اقلیتوں کو ہندو بالادستی قبول کرنے کیلئے مجبور کیا جانا بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے- مثلاً:
“In December, 2014, hundreds of Muslims reportedly were forcibly converted to Hinduism in public ceremony at Agra, Uttar Pradesh”.[8]
’’اطلاعات کے مطابق دسمبر 2014ء میں آگرہ (اُتر -پردیش) پرعوامی اجتماع میں سینکڑوں مسلمان جبری طور پر ہندو ازم میں تبدیل کیے گئے‘‘-
اقلیتوں کے لئے برائے نام قوانین اور غیر منصفانہ نظام:
بھارت میں اقلیتوں کیلئے باقاعدہ قوانین موجود ہونے کے باجود وہ اپنے حقوق سے محروم ہیں جس کی بڑی وجہ اس قانون کا برائے نام(لاگو نہ ہونا) ہے- مثلاً اقلیتوں کے تعلیمی حق سے متعلق انڈین آئین کاآرٹیکل 30 کچھ اس طرح کہتا ہے:
v تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہبی ہوں یا لسانی انہیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انتظام کرنے کا حق حاصل ہوگا-
v ریاست تعلیمی ادراروں کو امداد فراہم کرنے میں کسی بھی اقلیت کے زیرِ انتظام تعلیمی ادارے سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کرے گی-
لیکن بد قسمتی سے اس کے باوجود اقلیتوں کے بیشتر افراد اپنے تعلیمی حق سے محروم ناخواندگی کی زندگی گزار رہے ہیں-اگر با لفرض کہیں تعلیم دی بھی جاتی ہے تو صرف ہندو مت کی اور پورا نصابِ تعلیم ہندو مذہب کے گرد گھومتا ہے جو فی الحقیقت اقلیتوں(بالخصوص مسلمانوں کی) تہذیب وثقافت ختم کرنے کیلئےایک چال ہے- یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمان تیار ہو جائیں ان کے آثار مٹائے جارہے ہیں جس طرح تاریخ میں مسلمانانِ اندلس کے ساتھ کیا گیا بعین وہی بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے-
اسی طرح اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی اور ان کے لئے غیر مؤثر قانونی نظام کا غیر مبہم اظہار ہمیں درج ذیل سطور میں ملتا ہے-
“The Indian government-at both the national and state levels-often ignores its constitutional commitments to protect the rights of religious minorities. National and state laws are used to violate the religious freedom of minority communities”.[9]
بھارتی حکومت اکثر قومی اور ریاستی دونوں سطح پر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اپنے کیے گئے آئینی وعدوں کو نظر انداز کرتی ہے-قومی اور ریاستی قوانین اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کیلئے استعمال ہوتے ہیں-
“Under Congress Party and BJP-led governments, religious minority communities and Dalits, both have faced discrimination and persecution due to a combination of overly broad or ill-defined laws, an inefficient criminal justice system, and a lack of jurisprudential consistency. In particular, since 2014, hate crimes, social boycotts, assaults, and forced conversion have escalated dramatically”.[10]
’’کانگریس پارٹی اور BJP (بھارتی عوامی پارٹی) کی زیرِ قیادت حکومتوں کے تحت مذہبی اقلیتی برادریوں اور دلتوں نے امتیاز اور ظلم و ستم کا سامنا کیا ہے جس کی وجہ حد سے زیادہ توسیع یا غیر واضح قوانین،غیر مؤثر فوجداری نظامِ انصاف اور قانونی تسلسل کا فقدان ہے- بالخصوص 2014ء سے،نفرت انگیز جرائم،سماجی بائیکاٹ،حملوں اور جبری تبدیلی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے‘‘-
’’مودی سرکار کی تعصبانہ پالیسیوں کے باعث اس ریاست کے آزاد اور خودمختار ادارے بھی اقلیتوں کے خلاف متعصب ہو گئے ہیں- پولیس اقلیتوں کو تحفظ دینے کی بجائے انتہاء پسند ہندؤں کا ساتھ دیتی ہے،اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی،عدلیہ کی آزادی بھی سلب ہو چکی ہے-عدلیہ کو جرأت نہیں کہ ہندو انتہاء پسندوں کے ظلم وستم کے خلاف دائر مقدمات کا آزادی سے فیصلہ کر سکیں‘‘-[11]
مزید یہ کہ بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کی عبادت گاہیں بھی کسی صورت محفوظ نہیں-حال ہی میں بھارتی شہر (یودھیا) میں واقع بابری مسجد کی متنازع اراضی پر مندر کی تعمیر کیلئے بھارتی سپریم کورٹ کا غیر مساوی و غیر منصفانہ فیصلہ مذہبی تعصب کی ایک کڑی ہے جس سے بھارت میں بسنے والی سب سے بڑی اقلیت (مسلمان) کے احساسات مجروح ہوئے کیونکہ ان کی تاریخی عبادت گاہ مہندم کردی گئی-فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بابری مسجد ہندو تعمیرات پر قائم کی گئی اور ہندو ایودھیا کو رام کی جنم بھومی سمجھتے ہیں اور اس کے بدلے مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کیلئے علیحدہ جگہ دی جائے گی-
اقلیتوں کے تناظر میں ہندوستان کی نازی ازم و فاشزم سے مماثلت
دنیا یہ حقیقت جانتی ہے کہ جس نظام نے اقلیتوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ فاشسٹ نظام تھا جس کی بنیاد ہٹلر اور میسولینی نے رکھی اور جرمنی و اٹلی میں اقلیتوں سے غیر انسانی سلوک کی ایسی اندوہناک داستانیں رقم کی کہ دنیا آج تک اس کے منفی اثرات محسوس کر رہی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بھارت اسی نظام کی بگڑی ہوئی ایک شکل ہے-یہ محض مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جس کیلئے درج ذیل تحریر ملاحظہ ہو:
’’ہندوستان کے سیاق میں ہندوتوا اور اس کی دیگر فورسز نے مذہبی اقلیتوں اور سماجی و معاشی اعتبار سے پسماندہ اور دلتوں کے ساتھ جو غیر انسانی برتاؤ کیا اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ RSSاور اس کے دیگر ادارے مثلاً ویشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل وغیرہ اپنے سیاسی، معاشی اور نسلی نظریات ہٹلر سے اخذ کرتے ہیں‘‘- [12]
’’مودی سرکار اور ان کے وزراء بالکل ہٹلر کی مانند ہیں-اپنی پارٹی کے منشور اور ملک کے دستور اور جمہوریت سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں-وہ ہٹلر کی طرح ملک میں بسنے والی اقلیتوں سے سلوک کرتے ہیں---جس طرح ہٹلر صرف جرمن قوم کو اعلیٰ سمجھتا تھا اسی طریقے سے مودی سرکار ہندؤں کو اعلیٰ سمجھتے ہوئے اقلیتوں پر اوچھے، غیر اخلاقی اور غیر انسانی حربے استعمال کر رہی ہے‘‘-[13]
BJPحکومت اور اقلیتوں کی حالتِ زار:
بھارت میں جب سے فاشٹ نظریات کی حامی بھارتی جنتاپارٹی (BJP)مودی کی سر پرستی میں بر سرِ اقتدر آئی ہے تب سے بھارت میں عالمی انسانی قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں-مودی حکومت کا مقصد صرف اور صرف ہندو نیشنلزم اور ہندو بالادستی کو فرغ دینا ہے جس کیلئے مودی سرکار بھارت میں بسنے والی اقلیتوں سے امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے ایسی پر تعصب پالیسیاں اپنا رہی ہے جس سےنہ صرف اقلیتیں خوف کا شکار ہیں بلکہ خود ہندو بھی مودی کی فاشسٹ پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں- جہاں تک اقلیتوں کا تعلق ہے اس کے لئے یہ قابلِ غور بات ہے کہ RSS (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) جس کا مقصد ہی بھارت سے اقلیتوں کا خاتمہ اور ہندوتوا [14]کو فروغ دینا ہے اس وقت مودی سرکا ر کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے جس کی جھلک درج ذیل پیرائے میں واضح نظر آتی ہے-
“The attacks against religious minorities have increased in India, as extremist Hindu groups have combined with a nationalist ideology to promote 'Hindutva'--- Leader of BJP and India's Prime Minister, NarendraModi, has strong connections with these groups, which has led to concerns that persecution will increase under his rule. Hindu fundamentalism has posed a grave threat to Indian democracy; the Muslims, the Christians, the Sikhs and the Dalits”.
’’بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے-جیساکہ انتہا پسند گروہوں نے قوم پرست نظریے کے ساتھ مل کر ’’ہندوتوا‘‘ کو فروغ دیا ہے--- BJPکے سربراہ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ان گروپس سے مضبوط تعلقات ہیں جس کی وجہ سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ مودی کے اقتدار کے تحت ظلم و ستم میں اضافہ ہوگا-ہندو بنیاد پرستی نے بھارتی جمہوریت، مسلمانوں، عیسائیوں،سکھوں اور دلتوں کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ پیدا کیا ہے‘‘-
“USCIRF clearly identify that ‘Religious minorities in India have been subjected to “violent attacks, forced conversions” and ‘Ghar Wapsi’ campaigns by groups like Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS) after Narendra Modi government assumed power in 2014”.[15]
’’یو-ایس-سی-آئی-آر-ایف (یو نائیٹڈ سٹیٹ کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ) نے واضح طور پر شناخت کیا کہ 2014ء میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(RSS) جیسے گروہوں کی طرف سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو ’’پرتشدد حملوں‘‘، جبری تبدیلیوں اور ’’گھر واپسی‘‘ (Ghar Wapsi) جیسی مہمات کا نشانہ بنایا گیا‘‘-
مزید برآں! ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ(2018ء) کے مطابق:
2017ء میں حکمران جماعت BJP مذہبی اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں پر تشدد اور ہونے والے حملوں کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہی ہے-جبکہ BJP کے بہت سے سینئر رہنماؤں نے عوامی سطح پر ہندو بالادستی اور انتہائی قوم پرستی (Ultra nationalism) کو فروغ دیا ہے جس سے تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ ہواہے-
جیسا کہ نریندر مودی کے قریبی ساتھی راجیشور سنگھ نے ایک عوامی پرو گرام میں ہندو بالادستی کی بات کرتے ہوئے نسلی تعصب کی شر مناک مثال قائم کی-
’’ہمارا ہدف 2021ء تک بھارت کو ہندو راشٹرا (ہندو ملک) بنانا ہے - مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں-اس لئے یا تو وہ ہند ازم میں تبدیل ہوجائیں یا پھر انہیں یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا جائے گا-مزید کہا کہ؛میں یقینی بناؤں گا کہ 31 دسمبر 2021ء تک بھارت مسلمانوں اور عیسائیوں سے آزاد ہو جائے گا‘‘-[16]
مذکورہ بیان اندلس کے اس واقعہ کی یاد تازہ کرتا ہے جب جب وہاں سے لاکھوں مسلمان شہید کئے گئے، تقریباً 30 لاکھ مسلمان جلا وطن کردیے گئےاور جو باقی بچے تھے انہیں زبردستی عیسائی بنایا گیا -
بھارتی عزائم :
مذموم بھارتی عزائم دنیا پر ظاہر ہوچکے-بالخصوص ہندوؤں کی مسلمانوں سے نفرت نے واضح کر دیا کہ وہ بھارت سے مسلمانوں کا بالکل صفایا چاہتے ہیں اس لئے مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ مسلمانوں کوختم کرنے کی سازش ہے بعین اسی طرح جس طرح مسلمانوں کے ساتھ اندلس میں ہوا- اندلس میں عیسائیوں کی آباد کاری کی گئی اور پھر مسلمانوں کی شناخت ختم کرتے ہوئے انہیں جبراً عیسائی بنانے کیلئے جو مظالم ڈھائے گئے تاریخ ِ مذاہب ِ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی- سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وہ سپین جس میں تقریباً 780 برس تک مسلمان بر سرِ اقتدار رہے اور علم و نور کی روشنیاں پھیلاتے رہے اُس ایک مسلمان کو بھی زندہ نہ رہنے دیا گیا - 1212ء میں موحدین کی شکست کے بعد مسلمانوں کی سلطنت رو بہ زوال ہوئی ، تاریخ کے بد ترین مظالم مسلمانوں پہ ڈھائے گئے ، صلیبی جنگوں میں ناقابلِ فراموش شکستوں کا سارا غُصہ صلیبیوں نے اسلامیانِ اندلس (اسپین/ ہسپانیہ) کے مسلمانوں پہ نکالا- تاریخ گواہ ہے کہ انہیں جبراً عیسائی کیا گیا جیسا کہ بھارت میں ’’گھر واپسی مہم‘‘ جاری ہے - 1609ء میں عیسائیوں نے آخری مسلمان اندلس سے ختم کر کے اسے مسلمانوں کے وجود سے خالی کر دیا گیا -
اگر کشمیر کو اندلس سے تشبیہ دی جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا کہ جو حال عیسائیوں نے اندلس میں مسلمانوں کا کیا وہی ہندو آج مسلمانوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کررہا ہے -
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وہاں پر ہندو آباد کاری بھار ت کے اس مذموم مقصد کا کھلا اظہار ہے کہ جس طرح اندلس میں عیسایوں کی آباد کاری کی گئی اور مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا ،ان کی ثقافتی حیثیت (عربی زبان ) ختم کر دی گئی اور مسلمانوں کے آثار مٹائے گئے اسی طرح آج بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہندو آباد کاری کے ذریعے ایک اور اندلس بنا نے جا رہا ہے- بھار ت یہی چاہتا ہے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت (مسلمان) کی شناخت ختم کی جائے اور ہندوستان میں بھی کوئی مسلمان باقی نہ رہے -آج بھارت میں بھی جبراً مذہب کی تبدیلی، مسلمانوں کا قتلِ عام اور ان کی ثقافتی حیثیت(اردو زبان ) کا خاتمہ ہورہا ہے -
بھارتی سالمیت خطرے میں:
اس وقت ہندو بنیے نےاپنے متعصبانہ نظریات کی آڑ میں انسانیت سے جو سلوک روا رکھا ہوا ہے اس سے خود بھارت کی سالمیت کو خطرہ ہے جس کی پیشن گوئی خشونت سنگھ نے اپنی معروف تصنیف ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘میں یوں کی ہے کہ:
’’بھارت کے ٹکڑے ٹکرے ہوجائیں گے،پاکستان یا دنیا کا کوئی بھی ملک بھارت کو تباہ نہیں کرے گا-بلکہ یہ اپنے آپ ہی تعصبانہ رویوں کی بدولت خود کشی کا ارتکاب کرے گا‘‘-
مزید یہ کہ اس وقت علیحدگی پسند تحریکیں(جن میں خالصتان اور ناگا لینڈ قابلِ ذکر ہیں) جوبھارت کے اندر سے اٹھ رہی ہیں بھارت کی سلامتی کیلئے کسی خطرے سے کم نہیں-
اسی طرح بالخصوص اقلیتوں پر ظلم کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارت کی رسوائی ہوئی ہے-بھارت کی معروف صحافی تلوین سنگھ کہتی ہیں کہ:
’’بھارت میں اقلیتوں پر بے حساب ظلم ہو رہا ہے، اس نے ساری دنیا میں بھارت کو رسوا کرکے اس کے منہ پر کالک مل دی ہے‘‘-
بھارت کاا نسانیت کےخلاف ایسے اقدامات اٹھانا اور عالمی دنیا کا اس پر کوئی ایکشن نہ لینا پسِ پردہ اس چیز کا اظہار ہے کہ مودی حکومت چند مفاد پرست سیاسی طاقتوں کی پشت پناہی کی بنا پر یہ سب کچھ کر رہی ہے پھر چاہے وہ کشمیر میں مسلمانوں پر جاری ظلم و بربریت کی ناقابلِ فراموش داستان ہو،مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کا خاتمہ ہو یا بھارت میں پسنے والی دیگر مسلم و غیر مسلم اقلیتیں-عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کو اقلیتوں کے خلاف ایسے شرمناک اقدامات اٹھانے سےروکے- مزید برآں! انسانی حقوق کے جتنے بھی عالمی ادارے ہیں وہ اقلیتوں کے حقوق کی پامالیوں پر بھارت کے خلاف بھر پور ایکشن لیں-
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے اس وقت جو کہا جارہا ہے کہ بھارت نے مسلمانوں کے متعلق ’’نیتن یا ہو ماڈل‘‘ اختیار کیا ہوا ہے یہ ناکافی ہے- کیونکہ یہ درست ہے کہ اس ماڈل میں مسلمانوں پرظلم و تشدد بھی ہو رہا ہے اور ان کے حقوق پامال کئے جا رہے ہین لیکن وہاں پر کسی حد تک مسلمان موجود ہیں- بھارت مسلمانوں کی موجودگی کو مٹاتا جا رہا ہے اس لئے بھارت ’نیتن یاھو ماڈل‘ سے بھی چند قدم آگے ’اندلس ماڈل‘ پہ کام کر رہا ہے اور ہندوستان سے آخری مسلمان کے قتل تک یہ جنگ جاری رکھے گا - اندلسی ماڈل جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا کہ کس طرح صلیبیوں نے مسلمانوں سے بد ترین سلو ک کیا اور اندلس (اسپین) سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا- جیسے آج یادگار کے طور پہ صرف مسجدقرطبہ رہ گئی ہے جو کہ ایک کلیسا میں بدل دیے جانے کی وجہ سے بچ گئی، اسی طرح شاید تاج محل کو چھوڑ دیا جائے وہ بھی ایک مندر کے طور پہ اور باقی آثارِ اسلامیہ مٹا دیے جائیں -
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ بھارتی مسلمانوں کی آواز بنے اور دنیا کے ہر فورم پر ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرتی رہے -مسلمانوں کو غور و فکرکرنا چاہئے کہ کس طرح ان کے آثار مٹا ئے جارہے ہیں کیا وہ مسلمانوں کے خاتمے سے ایک دوسرے اندلس کے منتظر ہیں؟ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہمسلمانانِ سپین کے زوال کی تاریخ فراموش نہ کریں بلکہ اس سانحہ سے سبق لیتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے رہیں وگرنہ یہ بعید نہیں کہ ہم بھارت کی صورت میں مسلمانوں کے وجود سے خالی ایک اور اندلس دیکھیں گے-
٭٭٭
[1](تفصیل کیلئے ہیومن رائٹس واچ(Human Rights Watch)کی سالانہ رپورٹس دیکھی جاسکتی ہیں-)
[2](فرانسسکو کیپوٹرٹی اقوامِ متحدہ میں امتیاز (جیسے نسلی،لسانی، مذہبی) کی روک تھا م اور اقلیتوں کے تحفظ(Prevention of Discrimination and Protection of Minorities )کیلئے بنائے گئے سب کمیشن کے خصوصی رپورٹر رہ چکے ہیں - 1977ء میں انہوں نے اقلیت کی یہ تعریف پیش کی-)
[4]https://www.du.edu/korbel/hrhw/researchdigest/minority/Introduction.pdf
[5]https://minorityrights.org/wp-content/uploads/2017/06/MRG_Rep_India_Jun17-2.pdf
[6]https://www.hilal.gov.pk/urdu-article
[7]https://fas.org/sgp/crs/row/R45303.pdf
[8]https://humanrightscommission.house.gov
[9](ایضاً)
[10]https://economictimes.indiatimes.com/news/politics-and-nation/religious-minorities-dalits-face-discrimination-in-india-report/articleshow/57055700.cms?from=mdr
[11]https://www.geopolitica.ru/ur/article/bhrty-ntkhbt-myn-hndtw-khy-fth-khy-khty-pr-thrt
[12]http://tajdid.irst.in/2017/10/02/
[13]https://www.geopolitica.ru/ur/article/bhrty-ntkhbt-myn-hndtw-khy-fth-khy-khty-pr-thrt
[14](اصطلاح ’’ہندوتوا‘‘ کالغوی مطلب ’’ہندونیس‘‘(Hinduness) ہے-ہندوتوا کا نظریہ پہلی دفعہ ونیان دومودر سوارکر ( جو ہندو لوک سبھا کا صدر تھا) نے اپنی کتاب’’ ہندوتوا‘‘ میں متعارف کروایا جو پہلی دفعہ 1923ء میں شائع ہوئی-سوارکر کے اس تصور (ہندوتوا)نے ہندومت کو روحانی شناخت اور نظریے سے سیاسی شناخت اور نظریے میں بدل دیا کیونکہ سوارکر کے اس تصور سے قبل ہندو مت کاتعلق صرف مذہب کے مذہبی اور روحانی پہلؤوں سے تھا لیکن سوارکر کا’’ ہندوتوا‘‘ہندؤوں کےتمام تہذیبی،سماجی،سیاسی اور لسانی پہلوؤں کااحاطہ کئے ہوئے تھا جس کے مطابق کوئی بھی عقیدہ جس کی اصل ہندوستانی نہیں وہ کبھی بھی اس تصور( ہندوتوا) کا حصہ نہیں بن سکتا-مزید دیکھئے؛BJP and evolution of Hindu Nationalism: Savarkar to Wajpayee to Modi)
[15]https://humanrightscommission.house.gov
[16]Piyush Srivastava, We will free India of Muslims and Christians by 2021', Mail online, 19th December, 2014