مسئلہِ کشمیر پاکستان کے لیے پالیسی آپشنز

مسئلہِ کشمیر پاکستان کے لیے پالیسی آپشنز

مسئلہِ کشمیر پاکستان کے لیے پالیسی آپشنز

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ دسمبر 2019

مسلم انسٹیٹیوٹ نے اسلام آباد میں ’’مسئلہ کشمیر: پاکستان کیلئے پالیسی آپشنز ‘‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا- سردار مسعود خان (صدر آزاد جموں و کشمیر) اس موقع پر مہمانِ خصوصی تھے- اسامہ بن اشرف (ریسرچ ایسوی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے- سفراء، سکالرز، طلباء، جامعات کے پروفیسرز، وکلاء، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوں اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے سیمینار میں شرکت کی-

پینل میں شامل ماہرین کی جانب سے کیے گئے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:-

ابتدائی کلمات :

صاحبزادہ سلطان احمد علی:

(چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)

اس وقت صورت حال نہ صرف کشمیر میں بلکہ پورے ساؤتھ ایشیاء میں بہت ہی سنجیدہ ہے - اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جس وقتBJP کے امیدوارنریندر مودی پہلی دفعہ وزیرِ اعظم الیکٹ ہوئے تو الیکشن مہم میں انہوں نے اپنی تقاریر میں یہ کہا تھا کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیں گے-لیکن اس کو زیادہ سنجیدہ نہ لیا گیا - بالآخر BJPاور مودی نے ’’یک طرفہ طور پر‘‘ کشمیر کی خصوصی حیثیت، آرٹیکل370 اور اس سے متعلقہ تمام آرٹیکلز جو ہندوستان کے آئین میں تھے، ختم کر دیے - (عالمی قوانین کے تحت کسی بھی تسلیم شدہ متنازعہ علاوہ پہ کوئی ملک ’’یک طرفہ اقدام‘‘ نہیں کر سکتا )۔ صرف آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بہت عرصے سے ہندوستانیBJPقیادت کی طرف سے یہ اعادہ کیا جارہا ہے کہ وہ ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کی پالیسی کو بھی تبدیل کردیں گے یعنی’’no-first-use‘‘ سے ’’-use first-now‘‘ کر دیں گے- اس سنگین مسئلہ کو معمول کی سیاسی بیان بازی کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے کیونکہ BJPکی جارحانہ نیوکلیر پالیسی کے پورے خطے پر مہلک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں- مودی کے پاس انڈین نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی قیادت بھی ہے جو کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو کنٹرول کرتی ہے - یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ ماضی میں مودی کو ان کی جارحانہ شخصیت کے باعث بہت سے بدنامِ زمانہ القابات سے نوازا جا چکا ہے- بھارت کشمیر سے متعلق یک طرفہ اقدامات اٹھا رہا ہے- اس لیے پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنا چاہیے اور انڈیا کو دوطرفہ یا کثیر الجہتی مذاکرات کی جانب مدعو کرنے کی بجائے دیگر آپشنز پر توجہ دینی چاہیے-

اظہارِ خیال:

ایمبیسیڈر (ر) عارف کمال

(سابقہ ڈائریکٹر، اسرا نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اسلام آباد)

نریندرمودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مظالم کی سیا ہ تاریخ رقم کی ہے جس نے کشمیریوں کے دلوں میں آزادی کی نئی امنگیں پیدا کر دی ہیں- کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کشمیریوں کے تشخص اور جموں و کشمیر کی حیثیت پر اندوہناک حملہ ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے رہیں یا نہ رہیں ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے سامنے کشمیریوں کی شناخت ختم کرنا چاہتا ہے- 1970ء سے بھارتی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے یک طرفہ اقدامات اور کشمیر پر کیے گئے حالیہ اقدام نے اس امر کو لازم کردیا ہے کہ کشمیر کو دو ملکوں کا باہمی مسئلہ سمجھنے کی بجائے اس کو عالمی مسئلہ سمجھا جائے- پاکستان کو شملہ معاہدہ کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے اور اس کی توثیق و تردید کا فیصلہ کرنا چاہیے- ہندو توا (ہندو انتہا پسند تنظیم کا فلسفہ) اس وقت جنوبی ایشیا میں فاشزم کا مظہر ہے اور پاکستان اور عالمی برادری کو اس فلسفہ کے مذموم ایجنڈا کا ادراک کرنا چاہیے-

اظہارِ خیال (بذریعہ ویڈیو لنک)

محترمہ وکٹوریہ شوفیلڈ

( کشمیر پر ماہر برطانوی مصنف )

جنگ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لیے مزید ابتلاؤں کا سبب بنے گی- پاکستان کےپاس مسئلہ کشمیر پر پالیسی آپشنز میں سے ایک یہ ہے کہ اس مسئلہ کے تاریخی پہلوؤں سے مکمل جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے- اس مسئلہ کا انسانی بنیادں پر جائزہ لینا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے- کشمیر میں چپے چپے پہ پائی جانے والی بھارتی فوج کی چوکیاں کشمیریوں کے لیے بڑی مشکلات کی وجہ ہیں- بلا خوف و خطر زندگی گزارنا کشمیریوں کا بنیادی حق ہے- مزید برآں پاکستان کو چاہیے کہ کشمیر پہ مذاکرات کے لیے لابی کرے اور اس مسئلہ کی عالمی برادی کے لیے اہمیت کو باور کرانا چاہیے-

اظہارِ خیال

 ڈاکٹر شبانہ فیاض

(سربراہ ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، قائدِ اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)

پاکستان کی کشمیر پالیسی کی تشکیل نو کی ضرورت ہے- ہمیں سیکورٹی کے جدید پہلوؤں پر توجہ دیتے ہوئے ایک مربوط کشمیر پالیسی بنا نا ہو گی کیونکہ یہ ’’hybrid warfare‘‘ کا زمانہ ہے- مسئلہ کشمیر صرف ایک سیکیورٹی ایشو نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی، انسانی اور تاریخی مسئلہ ہے- ہمیں سوشل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے دنیا تک اپنا مؤقف پہنچانا چاہیے- ہمیں عالمی میڈیا کے مراکز میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنا ہو گا تاکہ عالمی برادری کو کشمیریوں کی مشکلات سے آگاہ کیا جا سکے- اس لیے آزاد جموں و کشمیر میں رہنے والے کشمیری بھائی بہت اہم ہیں اور ان کو سفیر کا کردار ادا کرنا چاہیے- اس کے علاوہ انڈیا اور جنوبی ایشیا میں امن پسند طبقات سے رابطہ پیدا کیا جائے اور علاقائی روابط کو مستحکم کیا جائے-

اظہارِ خیال (بذریعہ وڈیو لنک)

جناب لارس رائز

( سابق ممبر پارلیمنٹ ، ناروے)

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر سے متعلق آرٹیکل  370 کا خاتمہ کردیا ہے جو کہ عالمی ماہرین برائے قانون کی نظر میں ایک غیر قانونی قدم ہے- یہ قدم اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے پاس کی گئی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی ہے جن کی بنیاد پر کشمیری استصوابِ رائے کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں- مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے اقدامات نے دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں- پچھلے 72 سالوں میں کشمیر میں ظلم و بربریت کی افسوس ناک تاریخ رقم کی گئی ہے اور گزشتہ 30 سالوں سے یہ خطہ حالتِ جنگ میں ہے- یہ مسئلہ ابھی تک عالمی برادری کی نظروں سے اوجھل رہا ہے- آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، انڈیا کے دیگر حصوں سے لوگ کشمیر میں جائیدادیں خرید سکتے ہیں اور سرکاری عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں- بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے بھاری تعداد میں مسلح افواج کی تعیناتی کے ذریعے سینکڑوں حریت پسند رہنماوں کو گھروں میں نظر بند کر رکھا ہے اور مزاحمت پر قابو پانے کے لیے انٹر نیٹ اور دیگر رابطے کے ذرائع پر پابندی عائد کر رکھی ہے- مودی کشمیر میں ہندوں کی آبادکاری کے ذریعے مسلمانوں کی وادی میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کی جا سکے جو کہ نہایت بھیانک منصوبہ ہے-

اظہارِ خیال

پروفیسر ڈاکٹر محمد خان

(شعبہ بین الاقوامی تعلقات، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد )

مقبوضہ کشمیر اس وقت در حقیقت ایک جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے- لوگ کس طرح خوراک، ادویات کے بغیراور حالتِ جبر میں زندگی گزار سکتے ہیں- جب کبھی مسئلہ کشمیر شدت اختیار کرتا ہے، عالمی برادری پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ رکوانے میں مصروف ہو جاتی لیکن مسئلہ کے حل کی طرف توجہ نہیں دیتی - بھارت بزورِ طاقت کشمیر کو اپنے ساتھ نتھی کرنا چاہتا ہے اور شروع دن سے ہی بھارتی حکومت اس منصوبے پر مختلف صورتوں میں عمل پیرا رہی ہے- اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں پاکستان کے لیے ایک مضبوط ہتھیار ہیں اور ان قراردادوں کو دوبارہ سلامتی کونسل سے منظور کروانا چاہیے- پاکستان کو عالمی برادری کو اس مسئلہ کی سنگینی کے متعلق باور کرانا چاہیے- کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی رپورٹس نہایت اہمیت کی حامل ہیں اور ان رپورٹس میں ان مظالم کے اعداد و شمار موجود ہیں جو بھارت کشمیر کو ضم کرنے کی آڑ میں وہاں کی نہتی عوام پر ڈھا رہا ہے-

مہمانِ خصوصی

سردار مسعود خان

( صدر آزاد جموں و کشمیر)

مقبوضہ کشمیر اس وقت لاک ڈاؤن کا شکار ہے، ہر گھر کے سامنے فوجی تعینات ہیں جبکہ ڈاکٹروں اور ادویات کی کمیابی کی وجہ سے ہسپتال قبرستانوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں- دس ہزار سے زائد لوگ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں- مقبوضہ کشمیر میں برپا کی گئی بربریت میں انڈین وزیراعظم نریندرمودی نے ہٹلر اور میلاسووچ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے- BJP کا انتہائی بھیانک منصوبہ ہے کہ یا تو انڈیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائےیا ان کو انڈیا سے نکال باہر کیا جائے- وہ کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کی مغربی کنارے کی طرز پر کشمیر میں ہندووں کی غیر قانونی آباد کاری کرنا چاہتے ہیں- انڈین حکومت کے ان ناجائز اور ظالمانہ اقدامات کے باعث، انٹرنیشنل میڈیا، تھنک ٹینکس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے انڈیا پر شدید تنقید جاری ہے- باہمی مذاکرات میں کشمیر پر بات کرنے کی بجائے بھارت ہمیشہ غیر اہم ایشوز میں الجھا کر وقت ضائع کرنے کی کوشش کرتا ہے- افواجِ پاکستان پہلے ہی بھارت کی ’’پراکسی وارز‘‘ کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں اور کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں- مزید برآں،پوری پاکستانی قوم متحد ہے اور افواجِ پاکستان کی حمایت و مدد کیلیے تیار ہے- پاکستان کی عوام کو بھارت کی جانب سے جنگ کے خطرہ کے سلسلہ میں ہر وقت چوکس رہنا چاہیے-

اختتامی کلمات صدرِ محفل

 صاحبزادہ سلطان احمد علی

( چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ)

میں تمام معزز مقررین، شرکاء اور میڈیا کا تَہ دل سے مشکور ہوں- پاکستان میں وقت کی اہم ضرورت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی طرح حکومت آل پارٹیز کانفرنس طلب کرے اور حریت رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر مختصر اور طویل مدتی ’’نیشنل کشمیر پالیسی‘‘ تشکیل دی جائے- تاکہ مستقبل میں کوئی بھی حکومت آئے اس پالیسی پر سختی سے عمل جاری رکھا جائے- میڈیا کا کشمیر کے ایشو کو اجاگر کرنے میں کردار قابلِ ستائش ہے-

مقررین کی گفتگو سے اخذ کی گئی سفارشات مندرجہ ذیل ہیں:

v     مسئلہ کشمیر کی سلامتی کونسل میں پیروی کی جانی چاہیے کیونکہ یہ بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے-

v     تعلقات عامہ اور پاکستان کے خارجہ سفارتی وفود کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو کشمیر کی تشویشناک صورتحال سے متعلق مکمل طور پہ آگاہ کرنا چا ہیے کہ بھارت کشمیر میں کس قدر مظالم ڈھا رہا ہے اور مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کر رہا ہے-

v     مودی حکومت کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کو سنجیدہ لینا چاہیے- ماضی میں BJPنے کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی دھمکی دی تھی اور اب وہ ایٹمی حملوں کی دھمکی دے رہے ہیں -

v     انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، انسانیت کے خلاف جرائم کی وجہ سے اس مسئلہ کو انسانی اعتبار سے بھی اٹھانا چاہیے، یو این ایچ آر سی اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں سے مستقل روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے -

v     پاکستان کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں، عالمی میڈیا، عالمی تنظیموں اور بھارت میں موجود کشمیریوں کے دردمند لوگوں سے روابط تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کے پراپیگنڈہ کا مؤثر جواب دیا جائے -

v     بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف تحریکیں جیسا کہ خالصتان، آسام، ناگا لینڈ، مانی پور اور دیگر کو مزید نمایاں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ RSS کی سرپرستی میں کام کرنے والی BJP کے انتہا پسند عزائم کا پردہ دنیا کے سامنے چاک ہو سکے -

v     جس طرح حکومت پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اسی طرز پہ کل جماعتی کانفرنس بلا کر قلیل المیعاد و طویل المیعاد نیشنل کشمیر پالیسی مرتب کی جانی چاہیئے-

v     پاکستان کو بھارتی ہوائی جہازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند کرنا چاہیے اور تمام بھارتی مصنوعات پہ پابندی عائد کی جانی چاہیے- انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، انسانیت کے خلاف جرائم، چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی اور سلامتی کونسل کی قرادادوں کی خلاف ورزی پہ عالمی برادری کو بھارت پہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنی چاہیں اور سفارتی دباو ڈالنا چاہیے -

v     مودی کی زیر قیادت BJP کے جنگی جنون کے پیش نظر پاکستان کو کسی بھی قسم کی دراندازی کیلیے تیار رہنا چاہیے-

v     پاکستان کو سیکیورٹی کے غیر عسکری پہلوؤں پہ بھی توجہ دینی چاہیے اور ہائبرڈ کشمیر پالیسی اپنانی چاہیے-پاکستان کے نوجوانوں کو بھارت پہ اقتصادی پابندیوں کی بین الاقوامی تحریک میں متحرک کردار ادا کرنا چاہیے-

v     کشمیر سے متعلق بھارت کے یک طرفہ اقدام نے شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے پاکستان کو شملہ معاہدہ کو منسوخ قرار دینا چاہیے -

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر