انسان کی بنیادی ضروریات میں نقل و حمل کو خاص اہمیت حاصل ہے- مختلف ادوار میں نقل و حمل کیلئےطرح طرح کےطریقے اپنائے جاتے رہے جیسا کہ قدیم زمانے میں نقل و حمل کے لئے جانور(جیسے گھوڑا،بیل ) بطور سواری استعمال کئے جاتے رہے-لیکن جیسے جیسے ٹیکنالو جیکل اور انڈسٹریل ارتقاء ہوا انسان کو ذرائع آمد و رفت کیلئے بہت سی جدید سہولیات میسر آئیں- ٹیکنالوجی نے انسان کی سفری زندگی میں انقلاب بپا کر دیا اور جو سفر کئی دنوں کی مسافت کے بعد طے ہوتا تھا اب وہ سمٹ کر گھنٹوں تک آگیا کیونکہ اب انسان نے نقل و حمل کیلیے جانوروں کے بجائے جدید مشینری (جیسے جہاز،ٹرین اور گاڑی )کو بطور سواری اپنا لیا ہے-جدید مشینری سے استفادہ کیلیے سڑکوں، ایئر پورٹ اور پٹریوں کے جال بچھائے گئے اور یوں موجودہ صدی میں یہ انفراسٹرکچر ممالک کی ترقی کا اثاثہ قرار دیا جانے لگا جس کی مثال چائنہ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کی صورت میں ہمیں نظر آتی ہے-اگرچہ ایک طرف نئی نئی ایجادات کی بدولت آمدو رفت کے عمل میں تیزی آئی اور سرمایہ کاری کے مواقع بڑھے لیکن دوسری طرف کچھ خطرات نے بھی جنم لیا ہے جن میں ایک اہم خطرہ ٹریفک حادثات بھی ہیں جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا دو چار ہے-جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:
’’پوری دنیا میں سالانہ کم و بیش1.35ملین لوگوں کی اموات ٹریفک حادثات کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں-20 سے 50 ملین کے قریب لوگ زخمی ہوتے ہیں‘‘-[1]
پاکستان میں ٹریفک حادثات بہت کثرت سے ہوتے ہیں-ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 11121کے قریب ٹریفک حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں-
حکومتی رپورٹ کےمطابق:
“It is estimated that every five minutes someone is killed or badly injured in a traffic crash on Pakistan roads”.[2]
’’ہر پانچ منٹ کے دوران پا کستان کی سڑکوں پرٹریفک حادثے کا شکار ہوکر ایک شخص یا تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہےیا پھر شدید زخمی ہوجاتا ہے‘‘-
روڈ سیفٹی پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق:
’’2016ءمیں پاکستان بھر میں6548 افراد کی اموات ٹریفک حادثات کے باعث ہوئیں‘‘-[3]
عالمی ادارہ صحت(WHO) کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات کی صورتحال کچھ یوں ہے:
’’پاکستان میں ہر 10لاکھ افراد میں سے 14 افراد ٹریفک حادثات کےباعث جاں بحق ہوجاتے ہیں‘‘-[4]
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹک کے مطابق پاکستان میں 2015-16ءتک ٹریفک حادثات کی تعداد9100تھی جس میں 4448 افراد جاں بحق اور11544 افراد زخمی ہوئے،سالانہ ٹریفک حادثات کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا-جس کا اندازہ مذکورہ ادارے کی رپورٹ (2017-18)سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
’’2017 -18ءتک ٹریفک حادثات کی تعداد11121ہوگئی جس میں جاں بحق افراد کی تعداد5948اور زخمیوں کی تعداد 14489 ہو گئی-[5]
پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹریفک حادثات کی ابتر صورتحال کا تذکرہ ذ یل میں کیا گیا ہے:
صوبہ پنجاب میں ٹریفک حادثات کی شرح میں آئے روز اضافہ ہورہاہے - ایک اندازہ کےمطابق پنجاب میں سالانہ ٹریفک حادثات کی تعداد 5093 ہے جس میں3371 افراد لقمہ اجل بنتے ہیں-
اسی طرح:
’’صرف صوبہ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ کی بنیاد پر 700کے قریب ٹریفک حادثات ہوتے ہیں جن میں ہر روز 8لوگ جاں بحق ہو جاتے ہیں‘‘-[6]
صوبہ سندھ میں شہر قائد (کراچی)میں ٹریفک حادثات کی بات کی جائے تو ایدھی فاؤنڈیشن کی 2018ءکی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ایک سال کے دوران ٹریفک حادثات میں 781 افراد جان کی بازی ہار گئے-ٹریفک پولیس کی 2016ء کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی میں ٹریفک حادثات میں یو میہ 2افراد جاں بحق اور 5 افراد شدید زخمی ہوتے ہیں -
’’مزید نیشل ٹرانسپورٹ ریسرچ(این ٹی آر سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015-16ءتک سندھ بھر میں 924 ٹریفک حادثات ہوئے، جن میں 749 افراد جاں بحق اور1141افراد زخمی ہوئے‘‘- [7]
خیبرپختونخواہ میں ٹریفک حادثات پر نظر ڈالی جائے تو صوبہ پنجاب کے بعد سب سے زیادہ ٹریفک حادثات خیبرپختونخوا ہ میں ہوتے ہیں-پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹک کی رپورٹ(2017-18ء)کے مطابق خیبرپختونخوا میں4 ہزار425کے قریب ٹریفک حادثات پیش آئے، جن میں 1295 افراد کی اموات واقع ہوئیں اور کم و بیش6093افراد زخمی ہوئے-
اسی طرح صوبہ بلوچستان جو دیگر صوبوں کی نسبت آبادی کے لحاظ سےچھوٹا صوبہ ہے مگر یہاں بھی ٹریفک حادثات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے -پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹک کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سالانہ ٹریفک حادثات کی تعداد 496 ہے جس کے نتیجہ میں 313 افراد لقمہ اجل بنے جبکہ624 افراد شدید زخمی ہوئے-
پاکستان میں ٹریفک حادثات کی وجوہات پرغوروفکر کریں تو ہمارے سامنے چند حقائق عیاں ہوتے ہیں-
لائسنس کی فراہمی کیلیے قواعدو ضوابط پر عمل درآمد کروانے میں مشکلات پیش آتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں لائسنس حاصل کرنے کے لیے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے- اسی طرح ایک اندازہ کے مطابق کراچی میں 60 فیصد لوگ گاڑی بغیر لائسنس کے چلاتے ہیں-
ٹریفک حادثات کے تناظر میں پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جائے تو پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے بجائے لوگ اپنی سواری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی جاتی ہےیہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹریفک اور ٹریفک حادثات کی شرح میں روزبروز اصافہ ہورہا ہے- ٹریفک حادثات کے وقوع پذیر ہونے کا ایک اہم سبب مؤثر انفراسٹرکچر کا نہ ہونا بھی ہے-گاڑی چلاتے وقت غیر سنجیدہ رویے بھی ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال، فلم یا گانوں کی ویڈیوز دیکھنا اور غیر ضروری طور پہ لاؤڈ والیم میں میوزک سننا -بد قسمتی سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور ٹریفک اہلکار سے بدتمیزی کرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں-
اکثر مرکزی شاہراہوں کے اردگرد بڑی آبادیاں اور مارکیٹس بنی ہوئی ہیں جہاں پہ مقامی لوگوں کے سڑک عبور کرنے کیلئے پیدل کراسنگ پُل نہیں بنائے گئے ، وہاں بھی جلد بازی اور تیز رفتاری کے باعث اکثر واقعات پیش آتے ہیں- مرکزی و صوبائی حکومتوں کی اہلیّت پر ان پیدل کراسنگ پلوں کا نہ ہونا ایک سوالیہ نشان (؟)ہے -
مزید برآں! ٹریفک حادثات میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ دھند بھی ہے-جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ ریسیکو 1122 کے مطابق صرف 5 جنوری 2019ء میں پنجاب بھر میں دھند کے باعث 805 ٹریفک حادثات رونما ہوئے-[8] جیسے ضرب المثل ہے کہ ’’ایک تو سانپ ، اوپر سے اُڑنے والا‘‘ - ایک طرف دھند ہوتی ہے اوپر سے شوگر ملوں کا سیزن شروع ہوتا ہے تو گنّے سے بے ہنگم انداز میں لدی ٹرالیاں سینکڑوں معصوم اور قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں - چھوٹی شاہراہوں کا کون پرسانِ حال ہوگا جہاں کئی مرکزی شاہراہیں گنا ٹرالیاں کی وجہ سے دودو دِن بند رہتی ہیں- شوگر مل مالکان ہمارے اقتدار پہ براجمان رہتے ہیں اس لئے یہ توقع بھی عبث ہے کہ وہ اس کھلی لا قانونیت کو روکنے دیں گے -
یہاں ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتیں بعض بیماریوں جن میں پولیو اور ڈینگی قابلِ ذکر ہیں، کے متعلق آگاہی مہمات میں اربوں روپے کی خطیر رقم خرچ کرتی ہے-مثلاً گزشتہ دنوں حکومتِ جاپان نے پاکستان میں انسدادِ پولیو کے خاتمے کیلئے4.5 ملین امریکی ڈالر امداد فراہم کی جسے پاکستان پولیو سے آگاہی مہم اور 2کروڑ بچوں کو پولیو ویکسین ( 2020ءتک) پلانے کا ہدف حاصل کرے گا-[9]جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں ڈینگی کے باعث سالانہ تقریباً 66 لوگوں کی اموات وقوع پذیر ہوئی[10] اور یہ مرض صرف مخصوص علاقوں تک محدود ہے - اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ مہلک و جان لیوا ہیں ان کے انسداد اور آگاہی پہ اس سے بھی بڑی کمپین چلنی چاہئیں-لیکن تضاد یہ ہے کہ پاکستان میں ان بیماریوں کی وجہ سے شرح اموات ٹریفک حادثات کی نسبت بہت کم ہے-اگر اِسی طرح کی توجہ روڈسیفٹی کے حوالےسے آگاہی مہم پر کی جائے اور انسدادِ حادثات کیلئے عملی اقدا مات کیے جائیں تو ٹریفک حادثات کی شرح کافی حد تک کم ہو سکتی ہے- مزید برآں!صوبائی حکومتوں کو روڈ حادثات کی روک تھا م کیلئے سنجیدہ اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے:
v عوام میں ٹریفک قوانین اور روڈ سیفٹی کے شعور کو اجاگر کرنے کیلیے آگاہی مہم کو مزید بہتر کیا جائے تاکہ ٹریفک قوانین کی پاسداری ہوسکے اور ٹریفک حادثات میں کمی آئے-
v ملک بھر میں ضلع اور تحصیل سطح پہ ڈرائیونگ سکول بنائے جائیں جو حکومت سے منظور شُدہ ہوں جن میں ڈرائیونگ سکھائی جائے اور دورانِ ڈرائیونگ امیدواروں کو مختلف مراحل سے گزارا جائے- جس شخص کے پاس منظور شدہ ڈرائیونگ سکول کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ موجود ہو اسے ہی لائسنس مہیا کیا جائے-
v پیدل سڑک عبور کرنے والوں کیلئے بنائے گئے قوانین سے عوام کو آگاہی دی جائےاور انہیں مؤثر و مخصوص ٹریک مہیا کیا جائے تاکہ حادثات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ شہری خوشحال سفر سے لطف اندوز ہو سکیں-
v دھند کی صورت میں فوگ لائٹ کےاستعمال کو یقینی بنایا جائے- سپیڈ سے تجاوز کرنے والوں اور بغیر لائٹ گاڑی چلانے والے کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے-
v گنا ٹرالی مافیا کی روک تھام کیلئے مؤثر قانون سازی کی جائے اور سخت ترین عمل درآمد کروایا جائے -
v ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کروانے میں ٹریفک پولیس کو سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی لاتے ہوئے انسانی جان و املاک کا تحفظ کیا جاسکے-
v پبلک ٹرانسپورٹ میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہوجس سے نہ صرف ٹریفک حادثات میں کمی واقع ہوگی بلکہ ماحولیا تی آلودگی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے-
v ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیےانفراسڑکچر مزید بہتر بنایا جائے تاکہ پاکستان میں ٹریفک کا نظام مؤثر ہو اور بہت سی انسانی زندگیوں کا ضیاع ہونے سے بچ جائے –
٭٭٭