معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان :
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ نشہ انسان کا ابتداء سے ہی مسئلہ رہا ہے کیونکہ انسان شروع سے سر مست رہنا چاہتا ہے- وہ دنیا کے دُکھوں اور پریشانیوں سے بھاگنا چاہتا ہے- ایسے میں نشہ ہی وہ عمل ہے جو انسان کے یہ دونوں مسائل حل کر دیتا ہے- یہ الگ بات ہے کہ جب نشئی کا نشہ ٹوٹتا ہے تو زندگی کے دُکھ پہاڑ بن کر اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جس سے نکلنے کیلئے وہ پھر نشے کی طرف راغب ہوتا ہے اور نشہ آہستہ آہستہ اس کی عادت بن جاتا ہے اور وہ اس کی طلب میں بے چین رہنے لگتا ہے- یہاں تک کہ اس کی زندگی کا مقصد ہی نشہ رہ جاتا ہے-
نشہ آور اشیاء میں شراب دنیا کا قدیم ترین نشہ ہے- مقدس کتابوں اور تمام تہذیبی آثار میں شراب نوشی کے حوالے ملتے ہیں- خاص کر مصر، یونان اور ہندوستان کی تہذیبوں میں اس کو بہت اہمیت حاصل تھی- اہل روم کے حوالے سے بھی یہ بات مشہور ہے کہ وہ انگور کی شراب کشید کر کے اس میں سرخ رنگ ملاکر پیتے تھے- جب فرعنہ مصر کی کھدائی کی گئی تو دیگر قیمتی سامان کے ساتھ بڑی تعداد میں آلات مئے کشی بھی برآمد ہوئے- جس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں میں نشہ آور اشیا ء کا استعمال ہوتا رہا ہے-
منشیات وہ اشیاء جات ہیں جن کے استعمالات کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ ذہنی و جسمانی آسودگی ہے- دنیا بھر میں سینکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں انسان منشیات کے نشے میں گرفتار ہیں اور اس کی وجوہات میں میڈیا (رسائل، فلم، ٹی وی، ناول، کہانی وغیرہ) پر منشیات کے استعمال کو دلفریب انداز میں پیش کرنا، والدین کی ناقص توجہ اور تربیت، سنگت و صحبت کا اثر، دوسروں کو دیکھ کر رشک و طلب وغیرہ شامل ہیں- لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا نشے کی عادت کیوں لاحق ہوجاتی ہے؟
سائنسدانوں اور محققین میں اکثریت کا یہی ماننا ہے کہ منشیات کی لت دماغ کے خرابئ طرز عمل (behavioral disorder) کے باعث ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن منشیات کی ضرورت کو وجود کےلئے ضروری (compulsive) قرار دے دیتا ہے- عادی ہونے کے باعث جب وجود کو یہ ضروری شے (نشہ) میسر نہ آئے تو توازن برقرار نہیں رہ پاتا (loss of control) اور یہ خرابئ طرز عمل اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک اسے وہ نشہ آور شے پھر سے مہیا نہ ہو جائے- تحقیق کے مطابق نشے کی لت انسانی وجود میں ایک دائمی خرابی پیدا کر دیتی ہے جو طویل عرصے پرہیز کے بعد بھی وجود میں نشے کی طلب کی مستقل حساسیت (craving) کو برقرار رکھتی ہے- [1]
دنیا بھر میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان:
ڈرگ مافیہ بغیر کسی روک تھام کے دنیا بھر میں دھڑلّے سے منشیات بنا رہے ہیں- ہر سال کے آتے ہوئے منشیات کی پیداوار میں بھی پہلے سے دگنا چگنا اضافہ ہورہا ہے- ہر سال منشیات کی پیداوار اور منشیات کے استعمال کے باعث اموات کے اعداد وشمار بھی وضع کیے جاتے ہیں-
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے 26 جولائی 2019ء کو اپنی پیش کردہ رپورٹ میں تمباکو نوشی سے متاثرہ افراد کے اعدادوشمار کچھ یوں بیان کیے ہیں-
’’دنیا بھر میں صحت عامہ کو لاحق خطرات میں سرفہرست تمباکو نوشی ہے- تمباکو کے استعمال کنندگان میں سے آدھی تعداد موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے- ہر سال 80 لاکھ افراد تمباکو نوشی کے باعث لقمہ اجل بنتے ہیں- جن میں 70 لاکھ وہ افراد ہیں جو بلا واسطہ تمباکو نوشی سے متاثر ہوئے جبکہ 12 لاکھ افراد وہ ہیں جو بالواسطہ (سگریٹ کے دھوئیں وغیرہ سے) تمباکو کے محلق اثرات کو قبول کرتے ہیں‘‘-[2]
سگریٹ نوشی سے متاثرہ افراد کے بارے میں سی ڈی سی (Centers for Disease Control and Prevention) کی نومبر 2018 کی رپورٹ کے مطابق:
’’ڈیڑھ کروڑ سے زائد امریکی سگریٹ نوشی کے باعث ہونے والے امراض میں ملوث ہیں- ان امراض میں کینسر، ٹی بی، پھیپھڑوں اور دلوں کی بیماریاں، اسٹروک، ذیابطیس اور سانس کی نالیوں کی بیماریاں شامل ہیں‘‘-[3]
اقوام متحدہ کے ادارہ خصوصی برائے جرائم و منشیات کی 26 جون 2019ء کی رپورٹ میں منشیات سے متاثرہ افراد کی تفصیلات کے متعلق بتایا گیا ہے کہ:
’’دنیا بھر میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ منشیات کے استعمال کے باعث متاثر ہیں جبکہ 7 میں سے فقط ایک فرد ہی علاج معالجہ حاصل کر پاتا ہے‘‘-[4]
اقوام متحدہ کے ادارہ خصوصی برائے جرائم و منشیات کی 2019ء کی رپورٹ کے مطابق منشیات کی مختلف اقسام کے استعمال سے متاثرہ افراد اور منشیات کی پیداوار کے اعداد و شمار سابقہ سال سے مطابقت میں کچھ یوں ہیں:[5]
منشیات بذریعہ انجیکشن:
2017ء میں منشیات کو بذریعہ انجیکشن استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ 10لاکھ تھی- جن میں 14 لاکھ افراد HIV اور 56 لاکھ افراد Hepatitis C کا شکار ہوئے- جبکہ 12 لاکھ افراد ان دونوں امراض میں مبتلا تھے-
کوکین:
2017ء میں 1976 ٹن کوکین تیار کی گئی جو 2016ء کے اعتبار سے 25فیصد زیادہ پیداوار تھی-
امریکہ میں کوکین کے استعمال سے 2017ء میں 47 ہزار اموات ہوئیں- 2016ء کے مقابلے میں ان اموات میں 25 فیصد اضافہ ہوا-
کینیڈا میں سال 2017ء میں کوکین سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 4000 رہی- جس میں 2016ء کے اعتبار سے 33 فیصد اضافہ ہوا-
1998ء سے 2018ء کی شماریات کے اعتبار سے کوکین کی پیداوار 2008ء میں 1317 ٹن، 2009ء میں 907 ٹن جبکہ 2017ء میں 1976 ٹن تک بڑھی-
کینابیس:
کینابیس ایک پودا ہے جو مقبول تفریحی نشے کے طور پر استعمال ہوتا ہے- اس پودے کا عرق کتھئ یا کالے رنگ کی کشمش کی طرح ہوتا ہے- جسے بھنگ، گانجا، حشیش وغیرہ کہتے ہیں-جبکہ اس کے سوکھے ہوئے پتے گراس، ماری جوانا، ویڈ (weed) وغیرہ کہلاتے ہیں- اس کے استعمال سے تسکین بخش ماحول کا احساس ہوتا ہے، خواب آور کیفیت اور موسیقی زیادہ پر لطف لگتی ہے- جبکہ10 میں سے ایک پر اس کے ناخوشگوار اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں جن میں اپنے ہوش و حواس میں نہ رہنا، غیبی آوازیں سنائی دینا یا چیزیں نظر آنا، گھبراہٹ اور بلا وجہ شکوک و شبہات ہونا شامل ہیں-
دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی منشیات میں سے سر فہرست اسے سمجھا جاتا ہے- [6]
2018ء میں تقریباً 19 کروڑ افراد کینابیس نامی منشیات کے نشے میں گرفت تھے-
اقوام متحدہ کے ادارہ خصوصی برائے جرائم و منشیات کی 2018ء کی رپورٹ میں کینابیس نامی منشیات کے استعمال کنندگان کے متعلق یہ اعداد و شمار دئیے گئے ہیں-
’’2016ء میں 14 سے 16 سال کے درمیان کے نوجوانوں کی تعداد تقریباً سوا کروڑ تھی جو کینابیس (marijuana ) منشیات کے مستعمل تھے-
اسی رپورٹ میں 2015ء میں منشیات کے باعث ہونے والی اموات کے اعدادوشمار کچھ اس طرح ہیں:
’’2015ء میں دنیا بھر میں 4 لاکھ 50 ہزار افراد منشیات کے استعمال کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے-جن میں 167750 افراد وہ ہیں جنہوں نے منشیات کا ازحد برداشت استعمال کیا تھا‘‘-
افیون (افیم):
2016ء کے مقابل 2017ء میں 65 فیصد زیادہ افیم کی پیداوار ہوئی جو 10500 ٹن تھی-
2017ء میں ایشیاء میں افیم اور کوکین کے نشے میں ملوث افراد کی تعداد 3 کروڑ رہی- جبکہ کُل کی 35 فیصد تعداد صرف جنوبی ایشیاء میں موجود تھی-افریقہ میں یہ تعداد 60 لاکھ رہی-
1998ء سے 2018ء کی شماریات پر غور کریں تو 1998ء میں 4350 ٹن، 2007ء میں 8090 ٹن جبکہ 2017ء میں 10410 ٹن افیم کی دنیا بھر میں پیداوار ہوئی-
2018ء میں افغانستان میں افیم کی پیداوار 65ہزار ایکڑ زمین پر کی گئی جو دنیا میں سب سے زیادہ افیم کی پیداوار کا ذریعہ بنا-
میتھیم - فیتھمین (کرسٹل،آئس):
اس منشیات کی سب سے زیادہ پیداوار جنوبی مشرقی ایشیاء میں ہوتی ہے-
2007-17ء میں جنوبی ایشیا میں 82 ٹن کرسٹل کی پیداوار ہوئی جو کل پیداوار کا 45 فیصد حصہ ہے- 2018ء میں یہ پیداوار 116 ٹن تک پہنچی-
اوپی آئیڈز:
یہ ڈرگ بنیادی سطح پر ادویات میں پین کلِر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں anaesthesia شامل ہے- اس کی ایک اور شکل ’’ہیروئن‘‘ کے نام سے معروف ہے- سال 2017ء میں ہیروئن کی پیداوار 103 ٹن ہوئی تھی جس میں سابقہ سال کے اعتبار سے 13 فیصد اضافہ تھا-
پاکستان میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان:
ڈواچے وِلے (DW) کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریباً 76 لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں- ان میں سے 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں- یہ لوگ شراب، ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کرسٹل، آئس اور سکون بخش ادویات استعمال کرتے ہیں-
DW کا یہ بھی انکشاف ہے کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد میں سرنج سے نشہ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے- ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرنے کے باعث ان کے وجود میں HIV اور Hepatitis کے محلق وائرس پنپ رہے ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا میں منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کا ایک اہم روٹ بن چکا ہے- [7]
برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (BBC) نے جہاں پاکستان میں منشیات کے استعمال کی ایک وجہ حصولِ آسودگی بتائی ہے- وہیں دوست احباب کی طرف سے دباؤ اور ضد کو بھی ایک اہم وجہ گردانا ہے- شہروں کے فلائی اوورز اور ندی نالوں کے کنارے میلے کچیلے لباس میں ملبوس افراد جو کپڑا اوڑھے دھواں پھونکتے رہتے ہیں ان کے علاوہ ملک بھر میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نشہ آور اشیاء کے استعمال میں ملوث ہے- تعلیمی اداروں کے طلبہ بھی منشیات کے نشے سے بچ نہیں سکے ہیں-ڈاکٹروں کے مطابق منشیات کے استعمال کی تین بینادی وجوہات ہیں-
- 1. ذہنی دباؤ
طلبہ میں دباؤ امتحانات کی وجہ سے یا مقابلے کے باعث پیدا ہوسکتا ہے-
- 2. شخصیت کا عدم توازن
- 3. دوستوں کا دباؤ
یہ بات مشاہدہ کی گئی ہے کہ چار دوست اگر منشیات استعمال کرتے ہیں تو پانچواں دوست دباؤ میں آ کر اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے-[8]
جامعات ہوں یا کالج و اسکول ، انتظامیہ کی ناک کے نیچے منشیات فروشی کا دھندا پنپ رہا ہے- جامعات میں طلبہ تو طلبہ، استاد بھی کلاس رومز کے باہر سگریٹ نوشی سے بعض نہیں ہیں- حکومتی سطح پر واقعات کا نوٹس لیا جاتا ہے اور پھر وقتی سختی اور چیکنگ بھی دیکھنے میں آتی ہے مگر صد افسوس کہ کوئی مستقل لائحہ عمل اب تک تعلیمی اداروں میں نہیں ہوسکا ہے-
نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی ایک اور بڑی وجہ جنسی توانائی ہے جن میں ویاگرہ وغیرہ کا استعمال شامل ہے- باقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ’’ڈانس پارٹیز‘‘ میں نوجوانوں کی شرکت کا رجحان کافی حد تک بڑھتا جارہا ہے اور انہی ڈانس پارٹیز میں منشیات کا فروغ عام ہوتا جارہا ہے-
سالِ گزشتہ پاکستان میں منشیات کے استعمال کے خلاف عالمی دن کے روز ’’صحت کیلئے انصاف -انصاف کیلئے صحت‘‘ کی تھیم کو مقرر کیاگیا اور صحت و انصاف کو ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم قرار دیا گیا- علاوہ ازیں یہ مہم چلائی گئی کہ ’’آئیں ! اپنے اقرباء اور احباب کو نشے کی لت سے محفوظ کریں‘‘-[9]
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 89 لاکھ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں- جن میں سب سے زیادہ استعمال کرنے والی منشیات میں کینابیس سرفہرست ہے- ان منشیات کی درآمد کا کافی حصہ پڑوسی ملک افغانستان سے غیر قانونی طور پر آتا ہے-[10]
اقوام متحدہ کے ادارہ خصوصی برائے جرائم و منشیات نے پاکستان سے متعلق 2013ء کے جو اعداد و شمار بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں:
’’2013ء میں 67 لاکھ پاکستانی بالخصوص 26 سے 39 سال کے درمیان کے جوان افراد ڈرگز کے استعمال میں ملوث رہے- جبکہ کینابیس کے استعمال کنندگان کی تعداد 40 لاکھ سے زائد تھی- زیادہ افراد ان صوبوں (بلوچستان اور KPK) سے تعلق رکھتے ہیں جو افغانستان سے ملتے ہیں‘‘-[11]
پاکستان میں 1982ء سے 2013ء تک تقریباً 7 سروے مختلف module کی صورت میں کروائے گئے- جن کے مطابق:
’’مختلف منشیات کے عادی افراد کی تعداد 1982ء میں 13 لاکھ، 1983ء میں 1 لاکھ، 1986ء میں 19 لاکھ، 1988ء میں 22 لاکھ 40 ہزار، 2000ء میں 40 لاکھ، 2006ء میں 50 لاکھ، 2012ء میں 63 لاکھ اور 2013ء میں 67 لاکھ تھی‘‘-[12]
اسلام میں نشہ آور اشیا کی ممانعت!
اسلام نے ہر شخص کیلیے 5 بنیادی ضروریات کی حفاظت کو لازمی قرار دیا ہے-دین، مال، جان، عزت اور عقل -اس لیے وہ چیزیں جو عقل کو ڈھانپ لیتی ہیں اور نقصان پہنچاتی ہیں؛اسلام نے ان کے استعمال سے منع کیا ہے- قرآنِ کریم میں نشہ آور اشیا ء میں صرف شراب کی حرمت کا ذکر آیا ہے جسے عربی میں” خمر” کہتے ہیں اور شراب کو خمر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے چونکہ قرآنِ کریم، احادیث متواترہ اور اجماع فقہا سے ’’خمر‘‘حرام ہے، اس لیے شراب کی حرمت قطعی ہے،جبکہ دیگر نشہ آور مشروب کے حوالے سے فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے-
آئمہ ثلاثہ کے نزدیک ہر نشہ آور مشروب مطلقاً حرام ہے جس کے لئے وہ حضرت جابر (رضی اللہ عنہ)اور حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ)کی روایت کو پیش کرتے ہیں- حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ)نے فرمایا:
’’جو چیز کثیر مقدار میں حرام ہو وہ قلیل مقدار میں بھی حرام ہے‘‘-[13]
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا:
’’ ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے‘‘-[14]
جبکہ آئمہ احناف کے نزدیک خمر کے علاوہ نشہ آور مشروبات میں مقدار کے لحاظ سے نشہ آور ہوں، اس مقدار میں حرام ہیں اور اس سے کم مقدار میں حرام ہیں نہ نجس اور ان کا پینا حلال ہے- امام ابو حنیفہؒ کا استدلال اس حدیث سے ہے-
حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ:
’’خمر کو بعینہٖ حرام کیا گیا ہے، خواہ قلیل ہو یا کثیر اور ہر مشروب میں سے نشہ آور (مقدار) کو حرام کیا گیا ہے‘‘[15]
اس موضوع پر تفصیلی بحث فقہا نے کی ہے -[16]
حضرت سلطان باھُو کی تعلیمات کی روشنی میں نشہ آور اشیاء کی مذمت!
سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی مایہ ناز تصنیف” عین الفقر “میں نشہ آور اشیا کی مذمت میں باقاعدہ ایک باب رقم فرمایا ہے اور بہت سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں -اس باب کے ابتدائیہ میں آپ فرماتے ہیں :
’’جان لے کہ شراب پینے والا شیطان کا دوست اور مقرب ہے- اُم الخبائث شراب پینے والا دونوں جہانوں میں خراب ہوتا ہے- شراب پینی ہی ہے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ساقی کوثر حضرت محمد(ﷺ) کے عشق و محبت کی شراب پی جائے جس سے یہ شرابی محروم ہیں- جو آدمی شراب پیتا ہے وہ گویا 5 مرتبہ خانہ کعبہ کے اندر اپنی ماں کے ساتھ زنا کرتا ہے- اس پر 75 مرتبہ اللہ کی لعنت، جو آدمی کھاتا ہے افیم وہ ہے احمق نا فہیم (نادان) جو آدمی پیتا ہے پوست وہ ہے دشمن خدا اور ابلیس کا دوست- جو آدمی پیتا ہے تمباکو کا دھواں وہ ادا کرتا ہے رسم کفار و یہود اور وہ ہے صاحبِ مراتب نمرود جو آدمی پیتا ہے بوزہ (ایک قسم کی ہلکی شراب) اس سے بیزار ہے نماز و روزہ‘‘ -[17]
منشیات کی روک تھام کے لئے ممکنہ اقدامات :
26جون کو ہر سال انسداد منشیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے- جس کا مقصد منشیات کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی اور ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا ہے- اس دن کو سرکاری سطح پر منانا چاہیے-اسکول، کالجز، یونیورسٹیز اور حکومتی اداروں کی طرف سے اس موضوع پر تحقیقی معلوماتی پروگرام ہونے چاہئیں تاکہ آنے والی نسلیں منشیات کے مہلک اثرات سے محفوظ ہو سکیں-
منشیات کے استعمال کی روک تھام اور نشے کے عادی افراد کی بحالی کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں مناسب سہولیات کی فراہمی کو حکومت کی جانب سے یقینی بنانا چاہیے کیونکہ منشیات کا مسئلہ پاکستان میں سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہےاور اب یہ ہر گلی ، ہر محلّہ اور ہر گھر کا مسئلہ بن چکا ہے- اس لئے حکومت کو غریب لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئےپالیسیز بنانی چاہئیں-
منشیات کے حوالے سے وفاقی سطح پر اینٹی نارکوٹکس فورس کام کر رہی ہے جبکہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ کام صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے- اس حوالے سے حکومت کو مزید مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں-
منشیات کے استعمال کی ایک عام وجہ ذہنی آسودگی حاصل کرنا ہے-اس کے برعکس ذہنی ٹینشن کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری، کم آمدنی اور مشکل حالات میں گزر بسر کرنا شامل ہے- ذہنی تسکین کے حصول کی خاطر لوگ پین-ریلیف ادویات جیسے لیکزوٹینل جیسی دواؤں کو اپنے معمول میں کثیر تعداد میں استعمال کرتے ہیں- لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی وجہ کو سمجھیں اور اس کے سدباب کیلیے ہر ممکنہ کوشش بجا لائیں-
پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح فحاشی عریانی اور بے حیائی عام ہے- ڈانس پارٹیز اور نائیٹ کلبز میں نشہ آور اشیاء کا فروغ اور استعمال عام ہے- جس پر روک تھام بےحد ضروری ہوتی جارہی ہے- ایسے مقامات پر حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی کار آمد نظام ہونا چاہیے تاکہ وہاں جانے والے افراد بالخصوص نوجوان اس قہر سے کسی حد تک محفوظ رہ سکیں-
ایسی تحقیقی نصاب سازی کی جانی چاہیے جو منشیات کے غیر ضروری استعمال کے نقصانات و مضر اثرات پر مبنی ہو، جسے اسکول لیول سے جامعہ کی سطح تک شاملِ نصاب کیا جائے-
منشیات (گٹکے، مینپوری وغیرہ) پر پابندی لگنے کے بعد بھی عوام ان کا استعمال کر رہی ہے - بعض کا کہنا ہے کہ پولیس اہل کار ان کی فروغ میں شامل ہیں- انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کی شناخت کریں تاکہ حکومتی کاوشوں کو کسی طور نقصان نہ اٹھانا پڑے-
٭٭٭
[1]https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC1389786/
[2]https://www.who.int/news-room/fact-sheets/detail/tobacco
[3]https://www.cdc.gov/tobacco/data_statistics/fact_sheets/fast_facts/index.htm
[4]https://www.unodc.org/unodc/en/frontpage/2019/June/world-drug-report-2019_-35-million-people-worldwide-suffer-from-drug-use-disorders-while-only-1-in-7-people-receive-treatment.html
[5]https://wdr.unodc.org/wdr2019/en/exsum.html
[6]https://www.rcpsych.ac.uk/mental-health
[7]https://www.dw.com/ur
[8]https://www.google.com/amp/s/www.bbc.com/urdu/amp/science-44212878
[9]https://www.unodc.org/pakistan/en/international-day-against-drug-abuse-and-illicit-trafficking-and-the-launch-of-world-drug-report-2019.html
[10]https://en.m.wikipedia.org/wiki/Drug_addiction_in_Pakistan
[11]https://www.unodc.org/pakistan/en/report-on-drug-use-in-pakistan-2013-reveals-high-levels-of-drug-use-and-dependency.html
[12]https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&url=http://anf.gov.pk/library/surveys/comparative_survey_reports.pdf&ved=2ahUKEwiI7L218efmAhXLPFAKHXY7CF8QFjANegQIBxAB&usg=AOvVaw0J_K8EsaFK__EQiPDTGjeA
[13](سنن ابوداود/ جامع ترمذی)
[14](صحیح بخاری / صحیح مسّلم)
[15](سنن نسائی، ج:8، رقم الحدیث، 5701, 5702, 5700, 5699)
[16](شرح صحیح مسّلم از غلام رسول سعیدی جلد 6 ص 188)
[17](عین الفقر، باب نہم)