مسئلۂ کشمیر اقوامِ متحدہ کی تاریخ کا سب سے پرانا مسئلہ ہے جو کہ پہلے انگریز اور اب ہندو نوآبادیاتی پنجوں سے استصوابِ رائے کے ذریعے آزادی کی جدوجہد کر رہا ہے- دنیا نے دوسری صدی عیسوی میں اقوام متحدہ کی سیاسی و ترک نو آبادیات کی مخصوص کمیٹی(SPECPOL) کے تحت ترک ِ نوآبادیات کی ایک کامیاب لہر دیکھی- ترک نو آبادیات کی اصل غاصبانہ سامراج سے استصوابِ رائے اور سیاسی برابری کی بنیاد پر مقامی لوگوں کو حکومت کی منتقلی تھی- ترک نو آبادیات یا آبادیات کیلیے بنیادی عنصر شرح آبادی کی تنظیم ہے تا کہ استصوابِ رائے کے ذریعےمطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں- بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کی شرح کو دانستہ و غیر قانونی طور پرتبدیل کرنے کیلیے کشمیر کے مخصوص سٹیٹس کو یک طرفہ فیصلہ سے ختم کردیا ہے- اس مد میں بھارت کا متنازعہ خطہ میں آبادی کے گراف کوتبدیل کرنے کا منصوبہ ہے - چوتھی جنیوا کنویشن (1948ء) کے بر خلاف، بھارت نے 2015ء میں متنازعہ علاقہ میں غیر کشمیری ہندوؤں کی آباد کاری کا منصوبے سے پردہ ہٹایا ہے- مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی آبادکاری نے نہ صرف استصوابِ رائے کی اصل روح بلکہ اقوام متحدہ کے ترک نو آبادیات و انسانی حقوق کے چارٹر کو رد کر دیا ہے جو کہ کشمیر کو بھارتی نو آبادیاتی مذموم عزائم کی طرف لے کر جا رہا رہے-
نو آبادیاتی نظریات آج بھی بھارت کے طرزِحکومت میں پائے جاتے ہیں-کشمیر میں استصوابِ رائے کیلیے جدوجہد کو دبانے کیلیےبھارتی مظالم اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے- مسلح چھاؤنی، انسانی حقوق کے شدید خلاف ورزی، مظالم، کالے قوانین جن کے تحت غاصبانہ فوج کسی بھی کشمیری کو قتل، اندھا، گرفتار یا مظالم کا شکار کر سکتے ہیں - کشمیریوں کی نسل کشی مقبوضہ کشمیر کی حقیقت بن گیا ہے - بھارتی کالے قوانین مثلاً عوام تحفظ ایکٹ (Public Safety Act) اور افواج کی سپیشل اختیارات ایکٹ (Armed Forces Special Power Act) بھارتی فوج کو نہ صرف کشمیریوں کی نسل کشی کی اجازت دیتے ہیں بلکہ یونیورسل انسانی حقوق چارٹر کے بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ زندگی کا حق، اظہار آزادی کا حق، مذہبی آزادی، تنظیم اور اجتماع کا حق، مظالم کے خلاف تحفظ کا حق اور آبادیاتی تنظیم کا تحفظ وغیرہ کی مخالفت کرتے ہیں- اقوام متحدہ کی 2018ء میں کشمیر کی انسانی حقوق رپورٹ اور حالیہ ’’OIC-IPHRC‘‘ رپورٹ کے تحت کشمیر میں قابض فوج نے کم و بیش ایک لاکھ افراد کا قتل کیا ہے- 7ہزار افراد بھارتی جیلوں میں قتل ہوئے-تقریباً ایک لاکھ 7 ہزار گھروں کو نذر آتش کیا گیا- 22000 ہزار خواتین بیوہ ہوئیں ، ایک لاکھ بچہ یتیم ہوا اور 10 ہزار عورتوں کی عصمت دری کی گئی-صرف جولائی 2016ء سے اب تک 7000 افراد پیلٹ گن کا شکار ہوئے جن میں سے تقریباً 200 افراد بینائی سے محروم ہو گئے- [1]
صویر کول (Suvir Kaul) نے بھارتی نوآبادات کے مذموم عزائم کے بارے میں ا ن الفاظ کا استعمال کیا ہے-
’’بھارت ایک نو آبادیاتی سامراج ہے، بھارتی فوج قابض فوج ہے، منتخب نمائندے مرکزی حکومت کے معاون اور مہرے ہیں- بھارتی بیورو کریسی کا کام ہر اس راستے کو بند کرنا ہے جو کشمیر میں استصوابِ رائے کو جاتا ہے‘‘- [2]
موجودہ فاسشٹ بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت مقبوضہ کشمیر کی آبادی کی شرح کو منظم طریقے سے تبدیل کر کے مسلم اکثریتی وادی کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کر کے استصواب ِرائے کے مطلوبے نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے- اس حکومت کے مذموم عزائم کے درمیان بھارتی آئین کے آرٹیکلA35اور آرٹیکل 370 حائل تھے- بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور A35کشمیری سیاسی لیڈروں کے لیے ایک جال تھا جس میں مسلم نیشنل کانگریس کے لیڈر شیخ عبداللہ کو دھوکہ دے کر کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کا راستہ ہموار کیا گیا جس کا تذکرہ بھارتی ہوم منسٹر - گلزار لال نندا نے لوک سبھا میں کچھ ان الفاظ میں کیا تھا:
’’بھارت کے آئین کو کشمیر میں لاگو کرنے کا واحد راستہ آرٹیکل 370 ہے جو کہ ایک راستہ کا کام کرتا ہے جو پہلے بھی اور مزید بھی کارآمد رہے گا‘‘-[3]
اس آرٹیکل کےتحت بھارت کا اختیار مقبوضہ کشمیر کے دفاع، وزارت خارجہ اور مواصلات تک محدود کیا گیا - بھارت کا متنازعہ علاقے میں یک طرفہ فیصلے ترک نو آبادیات کی اصل کے منافی ہیں-اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کو اپنے آئین اور جھنڈے کی اجازت دی گئی- آرٹیکل 370 اور A35کے تحت کشمیر کے مقامی باشندوں کے علاوہ کسی کو بھی کشمیر میں شہریت، جائیداد اور کاروبار کی اجازت نہ تھی- مگر بعد میں 1954ء میں اس آرٹیکل کے بر عکس مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی دستور ساز اسمبلی سے قراداد پاس کروا کر بھارت نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ظاہر کر دیا[4] اور آخر کار 5 اگست 2019ء کو کشمیر کے سپیشل سٹیٹس کو صدارتی احکامات کے تحت ختم کر دیا گیا-
اب بھارت کا آئین اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں لاگو ہو گا جیسا کہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں لاگو ہوتا ہے- اب بھارت نواز ہندو اور RSS کے شدت پسند کشمیر میں جائیداد خرید سکتے ہیں، کاروبار کر سکتے ہیں،کشمیریوں سے شادی کر سکتے ہیں- بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی ان آرٹیکل کے خاتمے کی مد میں کشمیر میں ترقی کی پالیسی کو انڈین یونیورسٹی بلومنگٹن کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر، سمٹ گنگولی، نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
’’کشمیر میں سرمایہ کاری و معاشی ترقی کا راگ الاپنے والوں کا اصل مقصد کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے‘‘-[5]
یہاں یہ بیان کرنا اہمیت کا حامل ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ بھارتی حکومت کا کوئی اچانک فیصلہ نہ گردانا جائے- تاریخ گواہ ہے کہ BJPکشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم عزائم کو دہائیوں سے لاگو کر رہی ہے جیسا کہ 18 مئی 1993ء کو اسرائیل وزیر خارجہ، شمن پیریس (Shimon Peres) نے بھارت کے دورے کے دوران کہا کہ:
’’بھارت کشمیر میں آبادکاری سے بالکل خوفزدہ نہ ہو- صرف آبادکاری کے تناسب میں تبدیلی سے بھارت مقبوضہ کشمیر حاصل کر سکتا ہے- مسلم اکثریت علاقہ ہندوؤں کے ساتھ امن سے رہے گا یہ صرف احمقانہ سوچ ہو گی‘‘-[6]
مقبوضہ کشمیر میں 1947ء میں مسلم آبادی کا تناسب 72.40فیصد تھا جو 2011ءمیں 68.27فیصد ہو گیا ہے- بھارت کا آرٹیکل 370 اور A35کا خاتمہ عالمی قانون کے خلاف ہے کیونکہ چوتھی جنیوا کنویشن کے آرٹیکل 49 کے مطابق :
’’قابض سامراج، مقبوضہ علاقوں میں اپنے شہریوں کو منتقل یا داخل نہ کرے‘‘-[7]
نتیجاً، بھارت کا مقبوضہ کشمیر کے مخصوص تشخص کے خاتمہ کا مقصد تمام سیاسی، سماجی، فوجی، خفیہ، مذہبی،معاشی اور ثقافتی محرکات کو استعمال کرتے ہوئے مسلم اکثریت مقبوضہ کشمیر کو ہندو اکثریت مقبوضہ کشمیر میں تبدیل کرنا ہے- اگست 2019ء سے اب تک کرفیو میں نظر بند کشمیریوں نے بھارتی نو آبادیات کے مذموم عزائم کو رد کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو مزید تقویت دینے کیلیے شہیدوں کے خون سے گریزاں نہیں کیا- آبادکاری کے تناسب میں تبدیلی نے مقبوضہ کشمیر کے ترک ِ نو آبادیات کے عمل کو شدید خطرات لاحق کردیے ہیں- اگر مقبوضہ کشمیر میں آباد کاری کے تناسب کو اسی طرح تبدیل کیا جاتا رہا تو استصوابِ رائے اپنی اصل کھو دے گا اور کشمیریوں کو عالمی قوانین کے مطابق حقوق حاصل نہ ہوں گے بلکہ دنیا میں فلسطین کے بعد کشمیر میں جدید نو آبادیت کا تسلسل جاری رہے گا جو کہ عالمی قوانین کے منافی ہے- بھارت کے یک طرفہ فیصلے علاقائی بلکہ عالمی امن کے لیے پر خطر ہیں جس پر علاقائی اور عالمی طاقتوں کو بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے اور کشمیر پر اصلی مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی قانون کی اصل روح کو زندہ رکھا جا سکے-
٭٭٭
[1]Report of the OIC-IPHRC Fact Finding Visit to the State of Azad Jammu And Kashmir to Assess Human Rights Situation in the Indian Occupied Kashmir, March 2017.
[2]Suvir Kaul, “Indian Empire (and the Case of Kashmir),” Economic and Political Weekly, Vol. 46, No. 13 (March 26-April 1, 2011), pp. 66-75.
[3]Kunal Mukherjee, “The Kashmir Conflict in South Asia: Voices from Srinagar,” Defense and Security Analysis 30, no.1 (2014): 48.
[4]Muzamil Jaleel, “Challenge to Jammu and Kashmir’s Law on ‘Permanent Residents’: Meaning and Implications,” Indian Express, July 16, 2015, https://indianexpress.com/article/explained/challenge-to-jks-law-on-permanent-residents-meaning-and-implications/.
[5]https://www.washingtonpost.com/world/2019/08/08/kashmirs-new-status-could-bring-demographic-change-drawing-comparisons-west-bank/?outputType=amp
[6]https://crescent.icit-digital.org/articles/demographic-changes-in-kashmir
[7]Convention (IV) Relative to the Protection of Civilian Persons in Time of War, Geneva, 12 August 1949, at https://ihl-databases.icrc.org/ihl/WebART/380-600056