شمالی افریقہ کے مغربی کنارہ پر واقع مراکش (Morocco) کا شمار اسلامی دنیا کے اہم ممالک میں ہوتا ہے جس کے مشرق میں الجزائر، جنوب میں موریتانیہ، شمال میں بحیرۂ روم اور مغرب میں بحراوقیانوس واقع ہے- بحراوقیانوس کے ساحل پر واقع اس ملک کی سرحد آبنائے جبرالٹر پر جاکر بحیرہ روم میں ملتی ہے-اس خطے کی مٹی زرخیز ہے اور مردم خیز بھی جہاں زیتون،انجیر،انگور اور ترش پھلوں کے بکثرت سرسبز باغیچے ہیں -الجزائر،تیونس اور مراکش کو ماہرین جغرافیہ نے ’’جزیرہ مغرب‘‘ اور ’’المغرب‘‘ کا نام دیا ہے اس لیے اس کو مغربِ اقصی بھی کہا جاتاہے-مراکش کا دارالحکومت رباط ہے اور اس کی کل آبادی تقریباً 33 ملین کے قریب ہے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے- اس کاکل رقبہ 4 لاکھ 46 ہزار 550 مربع کلومیٹرپر محیط ہے -یہاں مختلف ادوار میں بہت سی قومیں آباد ہوئیں جس کے باعث یہاں کی زبانوں میں تنوع پایا جاتا ہے- ایک اندازے کے مطابق:
’’یہاں کی دو تہائی آبادی عربی زبان بولتی ہے اور یہی زبان یہاں کی دفتری زبان ہے- باقی آبادی یہاں کی قدیمی قبائلی زبان بولتی ہے- فرانسیسی اور ہسپانوی زبان بھی یہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے- مسلمان اکثریت میں ہیں اور تقریباً سب ہی فقہ مالکی کے پیروکار ہیں- آبادی میں مسلمانوں کی شرح 98.7 فیصد ہے 1 فیصد عیسائی ہیں اور کچھ یہودی بھی یہاں آباد ہیں‘‘-[1]
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مراکش 8 ہزار سال قبل مسیح میں آباد ہوا-شمالی افریقہ اور مراکش سلطنت روم کا حصہ بھی رہے ہیں جبکہ سلطنت ِ روم میں مراکش کا علاقہ ماریطانیہ تنیتنا(Mauretania Tingitana)کہلاتاتھا- سلطنت روم کے اثر و رسوخ میں مختلف بربر قبائل نے مذہب ِ عیسائیت اختیار کیا، بربر لوگوں نے اس امید کے ساتھ عیسائی مذہب قبول کر لیا کہ وہ اس کی مدد سے اپنے اندر حاکمانہ (امپیریل) اقتدار کو ختم کر سکیں -
بربر قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
’’اس قوم کو عربوں، شامیوں، مصریوں، یونانیوں، ایرانیوں اور رومیوں کا مجموعہ کہا جاسکتاہے‘‘-[2]
سلطنت ِروم کا 5 ویں صدی میں شیرازہ بکھر گیا،اس سلطنت کے خاتمہ کے بعد وینڈلز، وزیگوتھا اور بازنطینی یونانیوں نے اس علاقہ پر اپنی حکومت قائم کی-
7 ویں صدی عیسوی میں ظہورِ اسلام کے بعد(670 ء میں) خلافتِ امویہ کے جرنیل عقبہ بن نافع کی قیادت میں غیور مسلمانوں نے شمالی افریقہ میں بے پناہ فتوحات اپنے نام کیں-عقبہ بن نافع ہی تھے جنہوں نے قیروان یعنی موجودہ تیونس آباد کیا اور یوں اس غیور قافلہ نے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتےہو ئے 683ءتک تقریباً جدید مراکش کاتمام علاقہ فتح کر لیا-یوں اس سرزمین سےبحرِ ظلمات کے کالے بادل چھٹ گئے اور حق کا غلبہ ہوا اور اس فتح کے بعد اسلامی ثقافت کو سر زمین ِمراکش پر فروغ ملا اور لوگ (بالخصوص بربر) حلقہ بگوش اسلام ہوئے- طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے عظیم اسلامی سپہ سالار اور خلافت بنو امیہ کے جرنیل تھے-موسی بن نصیر نے ہسپانیہ میں ’’وزیگوتھ‘‘ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق بن زیاد کو ہسپانیہ فتح کرنے کا حکم دیا-یوں عظیم سپہ سالار طارق بن زیاد نے اپنی مختصر فوج کے ساتھ 711ء میں ہسپانیہ پر حملہ آور ہوا اور ہسپانیہ فتح کیا- یہ فتح اور ہسپانیہ میں اسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس نے نہ صرف یورپ کو سیاسی،معاشی و ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی بلکہ یورپ میں اسلام کی اشاعت کے راستے ہموار کئے- مسلمان صدیوں تک سپین میں جدید علوم اور فکر و فن کی شمعیں روشن کرتے رہے جو مسلم تہذیب و تمدن اور ثقافت کا ایک روشن باب ہے-سر زمین ِ اندلس نے شیخ محی الدین اکبر ابن العربیؒ جیسی عظیم و نابغہ روزگا ر شخصیت کو جنم دیا ہے-دیکھا جائے تو اندلس کی فتح اور یورپ میں اسلام کی آمد کے رستے ہموار کرنے میں مراکش کے مرہونِ منت ممکن ہوا کیونکہ طارق بن زیاد آبنائے جبرالٹر ( مراکش کی سرحد آبنائے جبرالٹر سے ملتی ہے) کے ذریعے اسپین پر حملہ آور ہوا-
اموی خلافت کے بعد ادریسی خاندان کے حکمران ادریس بن عبد اللہ (مراکش کے پہلے حکمران خاندان) نے 788ء میں الگ خود مختار اسلامی ریاست مملکتہ المغرب الاقصی کے نام سے قائم کی-شہر فاس جس کا شمار مراکش کے قدیم ترین شہر میں ہوتا ہے اسے ادریسی حکومت نے آباد کیا اور اپنا دارالحکومت بنایا -ادریسی حکومت کو 974ء میں مختلف اسباب کے باعث زوال کا سامنا کرنا پڑا- اس کے بعد دولت مرابطین قائم ہوئی جس کا بانی تاریخ ملت اسلامی کا عظیم حکمراں اور فاتح یوسف بن تاشفین تھا جس نے شہر مراکش کی بنیاد رکھی- ایک اندازے کے مطابق :
’’یوسف بن تاشفین نے 1061ء سے 1106ء تک شمالی مغربی افریقہ اور اندلس پر 45 برس شاندار حکومت کی‘‘-[3]
ولت موحدین نے 12 ویں صدی عیسوی میں اندلس اور شمالی مغربی افریقہ پر حکومت کی- یو ں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور عبد المومن کے پوتے ابو یوسف یعقوب المنصور نے 1184ء سے 1199ء تک حکومت کی- ابو یوسف یعقوب المنصور نے ہی شہر رباط کی بنیاد رکھی ، اس کا نام ’’رباط الفتح‘‘رکھا- مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے مراکش پر حکومت کی- ایک وقت تھا جب مراکش دنیا کی تین برِّاعظموں پر حکومت کرنے والی اسلامی سلطنت (سلطنت عثمانیہ) کا حصہ بھی رہا ہے جسے 1554ء میں عثمانیوں نے فتح کیا ، پرتگالی و دیگر صلیبی طاقتوں نے جب اندلس سے مسلمانوں کو بے دخل کیا تو ان کا اگلا ہدف مراکش تھا، یہ خلافتِ عُثمانیہ ہی تھی جس نے صلیبی طاقتوں کو مراکش میں تاریخِ اندلس نہیں دُہرانے دی- اس کے بعد علویوں کی حکومت رہی سلطان مولوی عبد الحفیظ بھی اسی خاندان کا حکمران تھا جن کے خلاف ان کی بعض پالیسیوں کی وجہ سےکچھ قبیلوں نے بغاوت کر دی- فرانس نے اسےموقعِ غنیمت جان کر سلطان کی مددکی خاطر1912ء میں اپنی فوج اس وقت کے دارالحکومت فاس میں بھیج دی-مگر فرانس اور سپین کی نظر مراکش پر 19 ویں صدی کے آغاز سے ہی جمی ہوئی تھی جب مشہور معاہدہ فاس عمل میں آیا جس کے نتیجے میں مراکش فرانس کے زیر سایہ آگیا اسی طرح شمال و جنوب کے علاقے سپین کی دسترس میں آگئے-
مراکش 1912ء سے لےکر 1956ء فرانس کے زیرِ تسلط رہا-قدیم روایات کے مطابق بیشتر قوموں نے مذہبی، ثقافتی و سیاسی قوت کو فروغ دینے کے خاطر دور داز علاقوں اور ملکوں پر قابض ہو کر نہ صرف حکمرانی کی بلکہ اس قوم کی مذہبی و ثقافتی شناخت کو بھی مسمار کیا-اس جبر کو جدید اصطلاح میں امپیرئیل ازم(Imperialism) کہا جاتا ہے جس کی مثال ہمیں سلطنتِ روم کی صورت میں نظر آتی ہے- مراکش نے 2 مارچ 1956ء کو فرانس سے جبکہ اسی سال 7 اپریل کو اسپین سے آزادی حاصل کی-مراکش میں موجودہ نظام حکومت الملکیتہ ہے جس کو ہم اردو میں آئینی یا پارلیمانی نظام کہتے ہیں- مراکش نے 1956ء میں اقوامِ متحدہ کی رکنیت حاصل کی- 1958ء میں عرب لیگ اور 1969ء سے OIC کی رکنیت بھی حاصل کی -
ثقافتی اہمیت کے لحاظ سے مراکش کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی ثقافت اس کے رسوم و روایات، فنون ِ لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت اور اخلاقیات کی عکاس ہوتی ہے -سر زمین مراکش نے ابن ِ بطوطہ اور موسیٰ الخوارزمی جیسے عظیم سائنسدانوں اور جغرافیہ دانوں کو جنم دیا-مراکش میں مختلف قبائل آباد ہیں جن میں زیادہ تر مقامی قبائل مراکش کے پہاڑی علاقوں میں سکونت پذیرہیں جو اپنی روایات اور تہذیب و تمدن کے مطا بق زندگی بسر کرتے ہیں- مراکشی میڈیا کے مطابق حال ہی میں مراکش کی صدیوں پرانی افریقی رسومات اور صوفی روایات سے وابستہ گوناوا کو اقوامِ متحدہ کی انسانیت کے لازوال ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے- مراکش کے کلچر کی تین اسلامی بنیادیں کہی جاتی ہیں: (1) فقہ مالکی، (2) عقیدہ اشعریّہ اور (3) طریقت امام جُنید-
مراکش کے بربر قبائل میں مرد حضرات زیادہ تر نیلا رنگ کا لباس زیب تن کرتے ہیں اور تنہا پسندی کی بجائے اجتماعیت پسندی کے قائل ہیں اسی لئے مل جل کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں-مراکش کے لوگ نہ صرف مذہبی رسومات پر کار فرما ہیں بلکہ حسن معاشرت کی بھی انمول مثال ہیں-باحیا و باوقار لباس صرف مذہبی اعتبار سے ہی ضروری نہیں بلکہ مراکش میں با اخلاق و با عزت ہونے کی بھی علامت ہے، وہاں خواتین ہوں یا مردسب سے یہ توقع کی جاتی ہےکہ وہ ایسا لباس زیب تن کرے جو کندھوں سے لے کرگھٹنو ں کے نیچے تک بدن کو ڈھانپے رکھے-
تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ سیاحت بھی کسی ملک کے تشخص برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے- مراکش کثیر الثقافتی ملک ہونے کے ساتھ سیاحت کےلیے بھی قابل قدر مقام رکھتا ہے جس کا اندازہ (Trip Advisor) کی فہرست سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے-
’’عالمی سطح پر دس بہترین مقامات کی فہرست میں مراکش کا شہر مراکش نویں نمبر پر موجود ہے‘‘-
سیاحت نہ صرف تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے سازگار ہوتی ہےبلکہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے- ملکوں کے ترقی یافتہ اور پرامن ہونے کا انحصار سیاحت سے مشروط ہے-مراکش 15 فیصد GDPسیاحت سے کماتا ہے- ورلڈ نیوز کی رپورٹ کے مطابق:
“Nearly 8 million tourists visited Morocco by the end of July 2019”.[4]
’’جولائی 2019ء کے اختتام پر 8 ملین سیاحوں نے مراکش کا دورہ کیا‘‘-
مراکش کی ثقافت میں تصوف کو بھی خاص مقام حاصل ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے چاہے برصغیر کی تاریخ ہو،یا لیبیا میں اٹلی کی قابض افواج کی ظلم بھری داستان ہو ہمیں ایک گروہ ایسا نظر آتا ہے جس نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور نعرہ حق بلند کیا جو صوفیاء کرام کا گروہ ہے- مراکش کے قدیم شہر فاس کی پرانی تنگ گلیوں میں سالانہ صوفی محفل منعقد کی جاتی ہے اور اس کی بنیاد فاس کے ہی ایک صوفی مفکر نے رکھی- اس محفل میں درویش مخصوص انداز میں رقص کرتے ہیں جو کہ تصوف کی پہچان ہے-اسی وجہ سے فاس کو روحانی شہر سے موسوم کیا جاتا ہے- شیخ الاکبر محی الدین ابن العربیؒ کے شیخ و مرشد سیّدنا ابو مدین المغربی کا مرقدِ شریف بھی فاس شہر سے کچھ فاصلہ پہ واقعہ ہے-مراکش میں تصوف کے تقریباً سبھی سلاسل موجود ہیں، شاذلی، رفاعی، نقشبندیہ، سہروردیہ، دسوقیہ اور تیجانی، لیکن سب سے زیادہ مقبولیّت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی کے طریقہ قادریہ کو حاصل ہے-
مراکش میں تصوف کی تعلیمات قدیم زمانہ سے فراہم کی جارہی ہیں-عقبہ بن نافع بانی شہر قیروان کی اولاد میں سے فاطمہ بنت محمد فہری نےفاس میں اسلامی دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی 859ء میں جامعتہ القرویین کے نام سے قائم کی اور اس یونیورسٹی میں دنیائے اسلام کی دو عظیم ترین شخصیات (ابن عربی اور بابائے تاریخ ابن ِخلدون) نے تعلیم حاصل کی-اسی طرح مراکش کی جامعات میں تصوف کو بطور ڈسپلن پڑھایا جاتا ہے مثلاً مراکش کی الاخوین یونیورسٹی جوکہ اس کے شہر افران میں واقع ہے جس میں اسلامک سڈیز کے ماسٹر کے طلبات کو جو بنیادی کورس پڑھائے جاتے ہیں اس میں تصوف اور صوفی ازم کے نام سے باقاعدہ کورس شامل ہیں-
پاکستان- مراکش تعلقات:
جدید دور میں مُلکی سطح پہ دو طرفہ تعلقات کسی بھی ملک کا ایک اہم سفارتی محاذ ہوتا ہے- مراکش اور پاکستان کے تعلقات عزت و احترام اور اخوت و مساوات پر مبنی ہیں-مراکش کی آزادی کی جد و جہدمیں پاکستان کا کردار ناقابل فراموش ہے جس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے:
’’1952ء میں جب مراکش کے شاہ محمد پنجم کی طرف سے بھیجے گئے تحریک آزادی کے سرگرم لیڈر احمد عبد السلام بلفرج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مراکش کی آزادی کے حق میں تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو احمد عبد السلام بلفرج کو بولنے کی اجازت نہیں دی گئی-پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے راتوں رات نیویارک میں پاکستانی سفارتخانہ کھلوا کر احمد عبد السلام بلفرج کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا-اس طرح اگلے روز احمد عبد السلام بلفرج نے پاکستانی چیئر سے جنرل اسمبلی سے خطاب کر کے مراکش کی فرانس سے آزادی کی آواز بلند کی‘‘-[5]
معیشت کا مضبوط ہونا نہ صرف ملک و قوم کی خوشحالی کیلیے بلکہ دنیا کے امن کو برقرار رکھنےکیلیے اہم ہے-بد قسمتی سے تجارت کے میدان میں ہم مل کر مضبوط معیشت نہیں بنا سکے جس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے:
’’چین افریقہ کے ساتھ 150 ارب ڈالر کی تجارت کر رہا ہے، بھارت کی افریقہ کے ساتھ 70 ارب ڈالر کی تجارت ہے-ترکی کی افریقہ کے ساتھ تجارت50 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان افریقہ کے ساتھ صرف 4ارب30 کروڑ ڈالر کی تجارت کر رہا ہے‘‘-[6]
موجودہ حکومت ِپاکستان نے معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے جس وجہ سے مراکش کے سفیر برائے پاکستا ن نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا دورہ کیا اور کہا:
“Pakistan is deep in the hearts of Moroccans”.[7]
’’پاکستان اہلِ مراکش کی دل کی گہرائی میں بستا ہے‘‘-
دفتر خارجہ پاکستان نے 27 اور 28 نومبر کو اپنے ہاں انگیج افریقہ کانفرنس کروائی جس میں صدر پاکستان عارف علوی اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے علاوہ افریقی ہم منصب بھی شریک تھے -کانفرنس میں دونوں ممالک دفاعی و معاشی تعلقات میں تعاون کے چنداہم اقدامات پر اتفاق ہوا -حال ہی میں مراکش میں تعینات پاکستانی سفیر حامد اصغر خان کی قیادت میں FPCCI(فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری) کا وفد مراکش کا دورہ کر رہا ہے-مراکش کے شہر فاس میں فیسٹیول منعقد ہوگا جس میں یہ وفد شرکت کرے گا اور اس موقع پر مقامی صنعتکاروں،سرمایہ کاروں اور حکام سے ملاقا تیں بھی ہوں گی- اسی طرح 31 جنوری 2020ء کو کینیاء کے دارالحکومت نیروبی میں پاکستان افریقہ ٹریڈ انویسٹمنٹ کانفرنس ہوگی جو وزارت خارجہ پاکستان اور وزارت کامرس مراکش مل کر منعقد کروائیں گی-
مراکش اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے بھی عالمی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے- یہ شمالی افریقہ کا آخری ملک ہے اور یورپ (سپین)سے اس کا سمندری فاصلہ 13 کلو میڑ ہے اس لئے بھی یورپ کیلئے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے- مراکش تانجیر (TANGIER) ماڈل کے باعث پوری دنیا کیلیے تجارت کا مرکز ہے بالخصوص یورپ کیلیے- مراکش گاڑیوں، جہازوں کے پرزے، ہائی ٹیک اشیاء تیار کرکے یورپ کو برآمد کرتا ہے-’’مراکش اس وقت سپین کو بجلی فراہم کررہا ہے‘‘-[8]پاکستان گوادر بنا رہا ہے تو اس کیلیے تانجیر (TANGIER) ماڈل بہت اہم ہے-گوادر کو پا کستان کی معیشت و ترقی سے تشبیہ دی جاتی ہے-اگر گوادر ایک خواب ہےتو تانجیر اس کی عملی شکل ہے اور اسی لیےمراکش میں تعینات پاکستانی سفیر حامد اصغر خان نے کراچی میں گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین سے ملاقات کی- حامد اصغرخان نے بھر پور امید کا اظہار کیا کہ ہم بہت جلددونوں بندرگاہوں کو سسڑپورٹس یا اس طرح کے کسی معاہدے میں مربوط کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے- امریکہ جو اس وقت دنیا کی سپر پاور مانا جاتا ہے اس کا جس ملک کے ساتھ فری ٹریڈ ایگر یمنٹ ہے تو وہ مراکش ہے- اسی طرح یورپی یونین کے ساتھ BFTA ہے یعنی اگر کوئی پاکستانی مراکش میں فیکٹری لگاتا ہے تو اس کی مصنوعات یورپ اور امریکہ میں بغیر ڈیوٹی کے جائیں گی اسی لیے پاکستان مراکش کے ساتھ پرائم پارٹنر کامعاہدہ کرنے کا ارادہ رکھتاہے-تاکہ پاکستان اور مراکش کی طرح تمام مسلم ممالک کو مل کر ایک مشترکہ معاشی پالیسی تشکیل دینی چاہئے جس سے نہ صرف غریب اسلامی ممالک کو سرمایہ کاری کے مؤثر مواقع میسر آسکیں گے بلکہ اُمت مسلمہ معاشی ، سیاسی ، سماجی اور روحانی طور پر یکجابھی ہو گی-
٭٭٭
[1]https://hamariweb.com/articles/20379
[2]http://www.elmedeen.com/read-book-3141&page=207#page-207&viewer-text
[3]https://attawatimes.com/archives/836
[4]https://www.moroccoworldnews.com/2019/09/282872/tourists-morocco-tourism-2/
[5]https://jang.com.pk/news/716015-dr-mirza-ikhtiar-baig-column-30-12-2019
[6]https://www.hilal.gov.pk/urdu-article/%d9%84%d9%8f%da%a9-%d8%a7%d9%81%d8%b1%db%8c%d9%82%db%81--%d9%be%d8%a7%d9%84%db%8c%d8%b3%db%8c---%d9%88%d9%82%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d8%a7%db%8c%da%a9-
[7]https://thefinancialdaily.com/pakistan-is-deep-in-the-hearts-of-moroccans-karmoune/
[8]https://www.hilal.gov.pk/urdu-article/%D9%84%D9%8F%DA%A9-%D8%A7%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81--%D9%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%B3%DB%8C---%D9%88%D9%82%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%B6%D8%B1%D9%88%D8%B1%D8%AA/MzkxOA==.html