پاکستان پولینڈتعلقات : باہمی تعاون پر مبنی مستقبل

پاکستان پولینڈتعلقات : باہمی تعاون پر مبنی مستقبل

پاکستان پولینڈتعلقات : باہمی تعاون پر مبنی مستقبل

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ اپریل 2020

مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اِسلام آباد میں ایک سیمیناربعنوان ’’پاکستان پولینڈ تعلقات: باہمی تعاون پہ مبنی مستقبل‘‘ کا انعقاد کیا ِ گیا-مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک اشخاص نے سیمینار میں شرکت کی-

معزز پینل :

عزت مآب پیوٹر ادپلنسکی(سفیرِ پولینڈ برائے پاکستان)

صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین، مسلم انسٹیٹیوٹ)

پروفیسر پیوٹر کلاڈ کوسکی(جیگیلونین یونیورسٹی، پولینڈ)

محترمہ فوزیہ نسرین (سابق سفیر پاکستان برائے پولینڈ)

پروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال(سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز، قائدِاعظم یونیورسٹی اسلام آباد)

 جناب ظفر بختاوری (سابق صدر، اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

ماڈریٹر: اُسامہ بن اشرف ( ریسرچ ایسوسی ایٹ،مسلم انسٹیٹیوٹ )

معزز شخصیات اور سکالرز کی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے:-

پاکستان اور پولینڈ دیرینہ تاریخی تعلقات کے حامل ہیں- دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات 1962ء میں قائم ہوئے اور پاکستان پولینڈ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا پہلا اسلامی ملک تھا -تاریخی لحاظ سے، دونوں ممالک کی عوام کے درمیان باہمی تعلقات 1940ء سے قائم ہیں جب دوسری جنگ عظیم کے دوران شہرکراچی نے 30000پولینڈکے مہاجرین کو پناہ دی - پولش پائلٹس، انجینیرز اور ٹیکنیشنز نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد پاکستان میں قیام کیا اور ان کو 1956ء میں پاکستان کی اعزازی شہریت سے بھی نوازا گیا-

دونوں ممالک میں گہرے اقتصادی تعلقات بھی قائم ہیں- اس وقت پاکستان اور پولینڈ کا باہمی تجارتی حجم 50 کروڑ یورو سے زیادہ ہے- یورپین یونین کا ممبر ہونے کی وجہ سے، پولینڈ نے پاکستان کو یورپی یونین کا جی-ایس-پی پلس پروگرام حاصل کرنے میں بھی مدد کی- یہ ایک حقیقت ہے کہ 1990ء کی دہائی تک کراچی بندرگاہ کے 30 فیصد حصہ پر پولش جہاز لنگر انداز ہوتے تھے جو نہ صرف پاکستان اور پولینڈ کے مضبوط اقتصادی روابط کا ثبوت ہے بلکہ اس سے پاکستان کی معاشی ترقی میں بھی اہم مدد ملی- پولش آئل اینڈ گیس کمپنی(پی جی این آئی جی) سندھ میں قدرتی گیس کی تلاش اور حصول کیلئے انتہائی کامیابی کے ساتھ کام کررہی ہے -مزید دلچسپی کی بات یہ ہےکہ پاکستانی پاسپورٹ میں ’’الیکٹرک چِپ‘‘ نصب کرنے کا کام بھی پولینڈ کی کمپنی نے سر انجام دیا-حال ہی میں پولینڈ کی آئی ٹی فرموں میں سے ایک کمپنی نے پاکستان میں فائیو جی کو مؤثر بنانے کےحوالے سےاپنی خدمات پیش کی ہیں -

پولینڈ کی یورپ میں مرکزی حیثیت نے اسے یورپی براعظم میں ایک اہم گزرگاہ بنادیا ہے-یورپی منڈیوں تک رسائی کیلئے پاکستانی کاروباری کمیونٹی کو پولینڈ کی منفرد جغرافیائی حیثیت سےاستفادہ حاصل کرناچاہیے- پاکستان اور پولینڈ کو باہمی معاشی اور تجارتی روابط کو مستحکم کرنے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے جو دونوں ممالک میں امن، خوشحالی اور ترقی کیلئے ناگزیر ہے-پولینڈ چار کروڑ آبادی اور یورپ کا چوتھا بڑا ملک ہونے کی وجہ سے ایک انتہائی اہم حیثیت کا حامل ہے -پولینڈ کی آبادی کا بڑا حصہ کاروباری حضرات پر مشتمل ہے جو سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں-اسی طرح پولینڈ کی بزنس کمیونٹی پاکستان کے کاروبار ی اور تجارتی ماحول خصوصاً سی پیک کے تحت سپیشل اکنامک زونز میں کاروباری سرگرمیوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے-

بلاشبہ عوامی سطح پہ روابط اور ثقافت،رسوم ورواج اور اقدارکا فہم وادراک دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں- اس حوالے سے یہ انتہائی خوش آئندبات ہےکہ جیگیلونین یونیورسٹی، کراکوو پولینڈ میں ایک پاکستانی چئیر موجود ہے-استشراقی اور بین الثقافتی علوم کے پولش محققین علامہ محمد اقبال کےکام پہ خصوصی توجہ دے رہے ہیں-عصر حاضر میں دونوں ممالک کے مصنفین اسی تاریخی دوستی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں- پولینڈ میں پاکستانی طلباء کی بڑی اہمیت ہے اور حصولِ علم کے دوران وہ پولینڈ میں پاکستانی سفیر جیسی حیثیت رکھتے ہیں اور انہوں نے پولینڈ میں کرکٹ متعارف کروانے کے حوالے سے بھی اہم کردار کیا ہے-باہمی تعاون کو فروغ دینے کیلئے پاکستان اور پولینڈ کے درمیان براہ ِراست ہوائی پرواز ہونی چاہیے جومعیشت ،تجارت ،سماجی،سیاسی اور ثقافتی جہتوں سے منسلک تعلقات کے استحکام کیلئےمدد فراہم کرسکتی ہے-

1950ء کی دہائی سےپاکستان اور پولینڈ کے مابین مضبوط دفاعی تعلقات قائم ہیں - 1947ء میں برطانوی ایئرفورس کمانڈنے رائل ایئر فورس سے وابستہ پولش افسران، پائلٹس اور ٹیکنیشنز کو پاکستان ایئرفورس میں اپنی خدمات سرانجام دینے کا مشورہ دیا-سکوارڈن لیڈر تورووِچ کی سربراہی میں30 افراد بشمول 17 پائلٹس اور13ٹیکنیشنز پر مشتمل ٹیم نے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی دعوت پہ پاکستان ائرفورس میں شمولیت اختیار کی-انہوں نے پاکستانی فضا کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا جس میں سکوارڈن لیڈر تورووِچ کی خدمات نمایاں ہیں -انہوں نے کراچی میں ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی، پاکستان ایئر فورس کی تنظیمِ نو کی، سائنسی تحقیقی ادارہ سپارکو کے سربراہ اور پاکستان ایئر فور س کے ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف بھی رہے- انہوں نے 1965ء اور 1970ء کی جنگ میں حصہ لیا اور سپیس پروگرام میں بھی اہم کردار ادا کیا -مزید برآں انہوں نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام میں بھی اپنی خدمات پیش کیں-انہیں کئی شاندار اعزازات  جیسا کہ ستارہ پاکستان، ستارہ خدمت اور دیگرایوارڈز سے نوازا گیا- پولینڈ سے تعلق رکھنے والے سکوارڈن لیڈر تورووچ کی اہلیّہ بھی ان کے شانہ بشانہ پاکستان فضائیہ کی خدمت میں پیش پیش رہیں-پولش آفیسرز کی پاک فضائیہ میں خدمات کی یادگاریں کراچی میں قائم فضائیہ میوزیم میں آویزاں کی گئی ہیں جو کہ دونوں ممالک کے تعلقات  کی تاریخی حیثیت کو واضح کرتی ہیں-

بدلتےہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامہ میں، پاکستان اور پولینڈ کیلئے باہمی تعاون کے بہت سے راستےموجود ہیں جن کے ذریعے علاقائی اور بین لاقوامی امن و استحکام کو فروغ دیا جاسکتا ہے-2018ء میں ہونے والا باہمی دفاعی تعاون کا معاہدہ اس سمت میں ایک مثبت اور ٹھوس قدم ہے- دونوں ممالک علاقائی اور بین الاقوامی امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے کام کررہے ہیں- پولینڈ نہ صرف افغانستان میں پاکستان کی امن قائم کرنے کی کاوشوں کو تسلیم کرتا ہے بلکہ امن اقدام کی حمایت بھی کرتا ہے-

بد قسمتی سےدونوں ممالک بین الااقوامی کمیونٹی کی چالبازیوں اور دوغلی پالیسیوں کا مختلف اوقات میں شکار رہے ہیں- 1940ء میں پولینڈ کی عوام نازی جارحیت کا شکار ہوئے جس کو بین الااقوامی کمیونٹی بروقت اقدامات کے ذریعے روک سکتی تھی لیکن اسے روکنے پہ زیادہ توجہ نہ دی - اسی طرح آج پاکستان مودی ذہنیت کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور جارحیت کے حوالے سے بین الااقوامی برادری کی لب بستہ خاموشی کا سامناکررہا ہے- پاکستان آج بھی بین الااقوامی برادری سے سفارتکاری کر رہا ہے کہ کب مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اس کی سنگینی کے مطابق اہمیت ملتی ہے-ملکی سالمیت کے تناظرمیں دونوں ممالک کی حکمت عملی اور تفہیم میں مطابقت موجود ہے- بدلتے ہوئے حالات میں دونوں ممالک روایتی اور غیر روایتی چیلنجزسے نبردآزماہیں- قومی سلامتی کےحوالے سے پاکستان کو نہ صرف عسکری خدشات بلکہ کثیر الجہت غیر روایتی مسائل کا سامنا ہے-معروضی تناظرمیں دونوں ممالک کی سوچ میں ربط موجود ہیں اور وہ ایک ہی طرح سے حالات و واقعات کو پرکھتے ہیں -سڑیٹجک مماثلت کادوسرا پہلو یہ ہے کہ دونوں ممالک مختلف خطوں میں امن کے فروغ کیلئے سرگرداں ہیں- اس حوالے سے دونوں ممالک دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط و توانا بناتے ہوئے اکٹھے کام کر سکتے ہیں-

پاکستان اور پولینڈ کے مابین تاریخی برادرانہ تعلقات میں بہتری آتی رہے گی اور باہمی تعاون کے نئے پہلوؤں کو بھی تلاش کیا جائے گا-مزیدبرآں دونوں ممالک کو غیر روایتی مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے سیکھنا اور اپنی کاوشوں کو مرکوز کرنا پڑے گا-پولینڈ پاکستان میں عوامی سطح کے مختلف پروگراموں میں تعاون کرسکتا ہے اور انفرادی سطح پر روابط کی بھی کافی گنجائش موجود ہے جس سے باہمی تعلقات اور تعاون کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا جاسکتا ہے-دونوں اقوام مستقبل کے حوالےسے پر امید ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ آنے والی نسلیں اور نوجوان باہمی تعلقات میں مزید بہتری لائیں گے تاکہ ترقی ،تعاون اور امن کو فروغ دیا جاسکے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر