کورونا کیا ہے؟
یہ ایک بیماری ہے جو کہ وائرس سے پیدا ہوتی ہے -کورونا وائرس دسمبر 2019 ء میں سب سے پہلے چین میں نوٹ کیا گیا اور بعد ازاں اس بیماری نے بہت کم عرصے میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا - عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اسے عالمی وباء کی درجہ بندی میں شامل کیا ہے -
کورونا کی وجہ سے بہت سے ممالک بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن میں چین کے علاوہ ایران اور اٹلی سرفہرست ہیں -اسی طرح چین کے بعد یورپ کو اس بیماری کا مرکز سمجھا جا رہا ہے- پاکستان میں مارچ کے وسط میں اس بیماری نے تیزی سے پھیلنا شروع کیا ہے جس وجہ سے کورونا مریضوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے-
علامات:
اس بیماری کے اثرات ظاہر کی مدت زیادہ سے زیادہ 14 دن اور اوسطاً 5 سے 6 دن ہے -
کورونا وائرس کی وجہ سے متاثرہ 80 فیصد لوگوں میں کوئی علامت نہیں پائی گئی جبکہ کچھ مریض ایسے تھے جن میں صرف معمولی کھانسی اور بخار بلکہ فلُو کی علامات تھیں-
زیادہ تر بچوں،نومولود،نوجوان اور دیگر صحت مند افراد میں یا تو بالکل علامات نہیں ہوتیں یا پھر معمولی نزلہ کی شکایت ہوتی ہے جس کیلئے ہسپتال سے علاج کرانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی-احتیاطاً ایسے افراد کو چاہئے کہ وہ خود کو دوسروں سے الگ رکھیں تاکہ یہ وباء کسی اور کو منتقل نہ ہو-
15 فیصد مریضوں کوسخت علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں نمونیا بھی شامل ہے-اگر ایسا ہو تو انہیں طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے-
5 فیصد مریض جو Covid-19 سے متاثر ہو تے ہیں وہ شدید بیمار ہو تے ہیں اور انہیں نظامِ تنفس کے ناکارہ ہونے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے-ایسےمریضوں کو بہت زیادہ دیکھ بھال اور خاص علاج کی ضرورت ہوتی ہے-
گو کہ اس مرض سے ہلاکتوں کا تناسب ممالک کے وسائلِ طبی پہ منحصر ہے، جن ممالک میں طبی سہولتیں زیادہ ہیں وہاں اس وائرس سے اموات کی شرح کم رہے گی-لیکن! ایسے ممالک جہاں طبی سہولتیں کم اور میڈیکل انفراسٹرکچر کمزور ہے وہاں اموات کی شرح زیادہ ہوگی- تادمِ تحریر دُنیا میں مجموعی طور پر اس بیماری کی شرح اموات قریباً 2 فیصد ہے لیکن رپورٹس کے مطابق بڑی معمر افراد میں شرح اموات زیادہ ہے بالخصوص 70 برس سے زیادہ عمر کے مریضوں کے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں-اسی طرح دیگر افراد جو کسی مہلک بیماری کا شکار ہیں یا جو کیموتھارپی کروا رہے ہیں یا قوت مدافعت کے امراض میں مبتلا ہیں ان کے متاثر ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہیں-
احتیاطی تدابیر:
کرونا وائرس کی روک تھام اور پھیلاؤ میں کمی کیلئے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں:
v گبھراہٹ کا شکار نہ ہوں
v جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں کی حکومت کے اقدامات میں معاون بنیں اور سختی سے اُن پر عمل کریں
v حفظانِ صحت کے اچھے اقدامات کا نفاذ یقینی بنائیں
v مصافحہ سے پرہیز کریں
v دوسرے لوگوں سے 1سے 2 میٹر کا فاصلہ رکھیں
v ہاتھوں کو بار بار 20 سیکنڈ تک صابن سے دھوئیں اور تواتر سے ’’سینیٹائزر‘‘ استعمال کریں
v چہرے کو ہاتھوں سے مت چھوئیں
v بخار کی صورت میں پیرا سٹامول(Paracetamol)استعمال کریں
v آئی بروفن اور اس طرح کے دیگر NSAID’s سے پرہیز کریں
v وٹامن C اور وٹامن D وائرس سے تحفط فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں
v روزانہ ایک کیلا کھانے سے بھی کسی حد تک اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے
v ایسی چیزیں جنہیں کھانے یا پینے کے بعد نزلہ زکام، کھانسی یا کسی قسم کی الرجی کا خدشہ ہو ، اُس سے حتی الوسع پر ہیز کریں
اگر آپ کو نئی کھانسی اور بخار محسوس ہو، خود کو 14 روز کیلئے بالکل الگ کر لیں تاکہ آپ اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث نہ بن سکیں کیونکہ یہ وائرس قریباً دو ہفتوں کیلئے آپ کے اندر موجود رہ سکتا ہے- اس تدبیر سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے-
کورونا وائرس کا تیزی سے پھیلاؤ لوگوں میں خوف و ہراس کا باعث بن رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہترین طبی مراکز کیلئے بھی بھاری (overwhelming) ثابت ہو رہا ہے- لیکن ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہم مذکورہ حفاظتی تدابیر اپناتے ہوئے اور اس وباء سے بچنے کے مختلف طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کرونا وائرس کا پھیلاؤ سست کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں یعنی دوسرے لفظوں میں اس کا تیزی سے بڑھتا گراف سست کیا جا سکتا ہے جس سے طبی مراکز کیلئے سہولیات میسر کرنا باآسانی ممکن ہو سکتا ہے- اس وباء کے خلاف جنگ میں ہم سب کو پُر امید رہنا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ زیادہ تر متاثرین( 80 فیصد سے زائد) میں یا تو بالکل علامات نہیں ہوتیں یا معمولی علامات ہوتی ہیں-
مختصراً یہ وباء دنیا بھر میں روزانہ کی زندگی بری طرح متاثر کر رہی ہے- اس کا پھیلاؤ دُنیائے جدید کی تاریخ میں انفرادی حیثیت رکھتا ہے اور زیادہ تر ممالک میں اتنی تیزی سے پہنچا ہے کہ وہ اس سے نمٹنے کیلئے تیار بھی نہیں تھے اور ان کے پاس ایسے آلات بھی نہیں تھے کہ اس سے فوری طور پر نبرد آزما ہو سکتے-
یہ ہم سب کیلئے آزمائشی لمحات ہیں جس سے شاید لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد مل سکے کیونکہ یہ سب کیلئے ایک مشترکہ مشکل ہے- اس سے مختلف شعبہ جات خصوصاً طِب اور آفات سے نمٹنے کیلئے مشترکہ طور پر کام کرنے میں مدد مل سکتی ہے- کرونا وباء کا پھیلنا دراصل دنیا کے نام پیغام ہے کہ جنگوں اور ہتھیاروں پر اہم وسائل خرچ کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر انسانیت کے دُکھوں کو کم کرنے اور خدا کی زمین پر موجود تمام انسانوں کیلئے امن و خوشحالی کے فروغ کی طرف شانہ بشانہ قدم بڑھائیں اور یا س و قنوطیت کی بجائے امید کے نئے دور کی شروعات کریں -
٭٭٭