چین کے ساتھ ہماری دفاعی شراکت مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد نوعیت کی بھی ہے- اسی شراکت کی بدولت ہماری مسلح افواج اور بالخصوص پیادہ فوج ۱۷۹۱ئ کی جنگ کے بعد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے- ہمیں اپنی فوج کی کمزوریوں کو دور کرنے اور مستقبل میں مسلح افواج کو جدید تقاضوں کے مطابق ترقی دینے کی شدید ضرورت تھی- خوش قسمتی سے ۰۸۹۱ کا یہ وہ وقت تھا جب بری فوج کو مستقبل کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے ہماری عسکری قیادت اعلیٰ عسکری تعلیم سے مزین تھی اور ساتھ ہی ہمیں چین کی غیر مشروط مدد بھی حاصل تھی جسے ہم رحمت ایزدی سمجھتے ہیں - یہی دو اہم عوامل تھے جن کی بدولت پاکستانی فوج ایک جدید ترین فوج بننے کے اہداف حاصل کر سکی ہے اور نوے فیصد تک خود انحصاری اور چالیس دنوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی حاصل ہے - الحمدو للہ ہماری مسلح افواج جدید ترین لڑاکا قوت بن گئی ہیں جس کا شمار دنیا کی بہترین مسلح افواج میں ہوتا ہے-
اعلٰی عسکری تعلیم:
۰۸۹۱ کی دہائی میں ﴿Armed Forces War College﴾ کی بدولت ہماری عسکری قیادت اعلیٰ عسکری تعلیم سے آراستہ ہو چکی تھی- فوجی فارمیشنوں ’اداروں اور تمام عسکری شعبوں کی سربراہی وار کالج کے فارغ التحصیل افسروں کے ہاتھوں میں تھی- جنہوں نے بری فوج کے تمام نظام کو ترقی یافتہ بنانے کا جامع منصوبہ بنایا تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے کثیر الجہتی خطرات اور جنگ کے چیلنجوں سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے- اس منصوبے کی منظوری چیف آف آرمی سٹاف نے دی اور راقم کو بحیثیت چیف آف جنرل سٹاف ذمہ داری دی کہ مسلح افواج کونئے اسلحہ جات ،عسکری ساز و سامان اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کے ذرائع تلاش کئے جائیں تاکہ ترویج اور ترقی کا منصوبہ مکمل کیا جا سکے- ہم نے متعدد دوست ممالک سے رابطے کئے اور بالآخر چین کی جانب سے حوصلہ افزا جواب ملا-
چین کے ساتھ عسکری اشتراک:
۲۸۹۱ کے اوائل میں راقم نے مطلوبہ سامان کی تلاش کیلئے چین کا پہلا دورہ کیا- ہمارے پاس مطلوبہ سامان کی ایک فہرست تھی اور ہمیں ۰۰۶ ملین ڈالر کے اندر رہتے ہوئے خریداری کرنی تھی- تین دنوں میں ہماری چینی حکام کے ساتھ تین ملاقاتیں ہوئیں اور ہمیں بتایا گیا کہ معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ہم چار ہفتوں بعد دوبارہ آئیں- اگلے ماہ ہم پھر چین جا پہنچے جہاں ہمارا پرتباک خیر مقدم کیا گیا اور ہمیں ایک کانفرنس روم میں لائے جہاں سول کپڑوں میں ملبوس متعدد چینی بزرگ ہمارے منتظر تھے- میں نے اپنے میزبان سے پوچھاکہ-:
’’کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ ہمیں غلط جگہ پر لے آئے ہیں؟‘‘
ہمیں جواب ملا:-
’’نہیں بلکہ ہم آپ کو اپنی معروف دفاعی پیدا واری کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کے لئے یہاں لائے ہیں- جو آپ کو بتائیں گے کہ ان کے پاس آپ کو دینے کے لئے کیا کچھ ہے اور کب تک وہ آپ کا مطلوبہ سامان حرب آپ کو دے سکیں گے‘‘-
ہمیں اطمینان ہوا اور میٹنگ شروع ہوئی- سامان کی فہرست جو ہم نے گذشتہ ماہ ان کے حوالے کی تھی اس پر بات چیت کرنے میں ایک گھنٹہ لگا اور وہ ہمارا تمام مطلوبہ سامان بغیر کسی پیشگی شرط کے دینے پر رضا مند ہو گئے - ہم نے ان کاشکریہ ادا کیا اور اس سے پیشتر کہ ہم رخصت ہوتے ہمارے میزبان نے پوچھا کہ:-
’’کیا آپ کو یہی کچھ چاہیے تھا یا کچھ اور بھی ہے ؟‘‘
ہم نے کہاہمیں چاہیے تو اور بھی بہت کچھ تھا لیکن ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہ کر خریداری کرنی ہے- یعنی ۰۰۶ ملین ڈالر جو ہمیں فراہم کئے گئے ہیں-
انہوں نے کہا کہ:-
‘‘ٹھیک ہے !لیکن ہم آپ کے مطلوبہ سامان کی فہرست دیکھنا چاہیں گے-‘‘
میں نے فہرست نکالی اور ایک ایک آئیٹم پر بات کی - ہمارے چینی دوستوں نے ہر مطالبے کو خوش دلی سے قبول کر لیا لیکن جب حساب کتاب کیا گیا تو معاملہ ۷.۱ بلین ڈالر تک جا پہنچا-
میں نے کہا کہ:-
’’ہم اتنی بھاری رقم کیسے ادا کریں گے؟‘‘
ہمیں جواب ملاکہ:-
’’آپ اپنی سہولت کے مطابق جیسے چاہیں آئندہ پچیس ﴿۵۲﴾ برسوں میں برائے نام مارک اپ کے ساتھ ادائیگی کریں‘‘ -
ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی اور پورے اعتماد کے ساتھ وطن واپس لوٹے اور کامیابی کی کہانی چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر ساتھیوں کو سنائی- یہی وہ مقام تھا جب فوج میں ٹیکنالوجی کی منتقلی’ خود انحصاری ‘اسلحہ سازی کے نظام کی وسعت، ہتھیاروں اور میزائل کے نظام کی ترقی اورملکی سطح پر انجینئرنگ کے شعبہ کی ترقی کیلئے نئے دور کا آغاز ہوا- جس کی بدولت ایک دہائی سے بھی کم مدت میں ہم نے بھر پور صلاحیت حاصل کر لی- جہاں مشکل پیش آئی وہاں عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر قیادت ماہر سائنسدانوں کی ایک بڑی جماعت موجود تھی جو کہ ہر پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتی رہی- ۸۸۹۱ئ میں ہم نے الخالد ٹینک کا تجربہ کیا جس نے ’’پانچ تجرباتی مراحل‘‘ میں امریکہ کے بہترین ایم ون اے ون﴿M1A1﴾ ٹینک کو مات دے دی- اسی طرح ہم نے اعلی تکنیکی ہتھیاروں، عسکری ساز و سامان اور گولہ بارود تیار کرنے کے میدان میں نوے فیصد تک خود انحصاری حاصل کر لی جو ایک خواب تھا- جس کی تعبیر چین کی عسکری قیادت اور اس کی دفاعی پیداواری صنعتوں کی غیر مشروط مدد سے ممکن ہوئی- کوئی اور ملک اس حد تک ہماری مدد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ان کا مفاد محض فوجی ساز و سامان فروخت کرکے پیسے بنانا ہوتا ہے-
چین کی عوام انتہائی مخلص اور کھلے دل کے لوگ ہیں - اُنہوں نے کبھی ہماری اندرونی سیاست میں دخل اندازی نہیں کی اور نہ ہی وہ ہماری حکومتوں کو گرانے اور بنانے کے مکروہ کھیل میں ملوث ہوئے ہیں اور نہ ہی ہماری فوجی یا سویلین حکومتیں ان کی ترجیحات میں شامل رہی ہیں- ان کی واحد ترجیح پاکستانی عوام کی بھلائی ہے اور یہی وہ تعلق ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے ہیں - ایسا احترام جو کسی اور ملک کے نصیب میں نہیں ہے - مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اسی دفاعی اشتراک نے ہمیں الخالد جیسا ٹینک کثیرالجہتی کردار کا حامل جے ایف 17 تھنڈر طیارہ اور جدید ترین F-22 Frigateبحری جہاز دیے ہیں اور اسی تعلق کی بنیاد پر آج پاک چین اقتصادی راہ داری کے منصوبے کی عمارت تعمیر ہو رہی ہے- یہ کامیابی نہ صرف پاکستان کے لیے ترقی و امن کی ضمانت ہے بلکہ پورے خطے کی اقتصادیات میں انقلاب لانے کا پیش خیمہ ہے-
دونوں ممالک کے درمیان عسکری و اقتصادی تعاون کایہ عمل ایک تزویراتی حقیقت ہے جو دشمنوں کے عزائم کے خلاف ایک مضبوط چٹان بھی ہے اور قومی سلامتی اور ترقی و کمال کی ضمانت بھی ہے- دونوں ملکوں کا یہ اشتراک ہمارا تزویراتی محور ﴿Strategic Pivot﴾ہے- الحمد للہ ہم نے اب وہ صلاحیت حاصل کر لی ہے جس کی بدولت اپنی تزویراتی سوچ کو جنگی منصوبوں سے ہم آہنگ کیا ہے- یعنی پہلے حملہ کر کے دشمن کومکمل مفلوج کر دیا جائے-