مسلم انسٹیٹیوٹ نے 19 اپریل 2019ء بروز جمعہ اسلام آباد میں ’’سی پیک: حالیہ صورتحال کا جائزہ‘‘کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد کیا-پروفیسر ضمیر احمد اعوان(نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد) نے سیشن کی صدارت کی جبکہ صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ابتدائی کلمات ادا کیے- ڈاکٹر لی کیا شنگ (ڈپٹی ڈائریکٹر، انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز، شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز، چائنہ)، جناب ظفر بختاوری (سابقہ صدر، اسلام آباد چیمبر آف کامرس)، بریگیڈیر آصف ہارون راجہ (ماہر دفاعی امور)، ڈاکٹر حسن یاسر ملک (چارٹرڈ ممبر، انسٹیٹیوٹ آف لاجسٹکس اینڈ ٹرانسپورٹیشن، برطانیہ) ڈاکٹر یینگ یی فنگ (شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز، چائنہ) اس موقع پر مہمان مقررین میں شامل تھے- اسامہ بن اشرف (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے تعارفی پریزینٹیشن پیش کی جبکہ محمد حمزہ افتخار (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیے-
مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیالات کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے:
دورِ حاضر کی دنیا میں جہاں بین الریاستی تعلقات کا دار و مدار مفادات پر ہے، علاقائی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے- ترقی کے لیے باہمی تعاون کی پالیسی پر کاربند ممالک ان ممالک کی نسبت بہت زیادہ فائدے میں ہیں جو عدمِ تعاون اور علیحدگی کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں- حالیہ تزویراتی ماحول میں تجارت اور اقتصادی تعاون کو عالمی سطح پر کافی اہمیت حاصل ہو چکی ہے- اس پسِ منظر میں 1950ءکی دہائی سے پاکستان اور چائنہ کے درمیان تاریخی اور مثالی تعلقات قائم ہیں- اس تعلق کو ایک نئی روح ملی جب 2013ء میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی ) کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور اس کے نمایاں اور بنیادی منصوبے سی پیک کا آغاز ہوا- یہ سی پیک کی ہی جغرافیائی اور اقتصادی اہمیت ہے جس سے دیگر علاقائی و عالمی معاشی طاقتوں کی پاکستان میں دلچسپی پیدا ہوئی اور پاکستان کو خطے کا اقتصادی و تجارتی مرکز بننے کا موقع ملا- اس بات کا ثبوت عالمی آڈٹ فرم پی-ڈبلیو-سی کی پیشن گوئی ہے کہ پاکستان 2030ءتک دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بن جائے گا-
ایشیاء اکیسویں صدی میں عالمی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کیونکہ اقتصادی قوت کا مرکز مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے- بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو پاکستان اور ہمسایہ ممالک کے لیے زبردست مواقع کا حامل ہے کیونکہ اس سے وسطی ایشیاء، مغربی ایشیاء، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کی 3 ارب سے زیادہ آبادی کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم مل جائے گا- سی پیک، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا سنگِ بنیاد ہے اور شاہراہِ قراقرم کی طرح امن، تعاون، فراخدلی،اجتماعیت اور باہمی مفاد کا علمبردار ہے- بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ایک ایسے جغرافیہ پر مرکوز ہے جو ابھی تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا ہے اور یہ سڑکوں، ریلوے لائنز، پلوں اور پاور پلانٹس کے عظیم نیٹ ورک پر منتج ہو گا- اس انیشیٹو کا ایک بنیادی مقصد چائنہ جیسی ترقی یافتہ اقتصادی منڈیوں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے غیر ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی اور ترقی کی جانب سفر میں رہنمائی شامل ہے- بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سے منسلک ممالک کے مابین 2014ء سے 2016ء میں تجارتی حجم کا تخمینہ 1 سے 2 کھرب ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ ان ممالک میں چائنیز سرمایہ کاری 50ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے- یہ انیشیٹو دنیا کے 65 ممالک پر محیط ہے جو کہ دنیا کے 30فیصد جی ڈی پی اور 62فیصد آبادی پر مشتمل ہے- ان ممالک میں 18.5 ارب ڈالر کی لاگت سے 56 اقتصادی زون بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جن سے تقریباً85 ملین ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے-
سی پیک تین ترقیاتی مراحل پر مشتمل ہے:
- فیز (2020): یہ فیز منڈیوں کی ابتداء اور پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر مشتمل ہے-
- فیز(2025): یہ فیز بڑھوتری اور ترقی پر مشتمل ہوگا جس میں صنعت، زراعت اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دی جائے گی تاکہ لوگوں کا میعارِ زندگی بہتر ہو اور جغرافیائی ترقی میں توازن پیدا ہو-
- فیز (2030):یہ فیز تکمیل کا مرحلہ ہوگاجس میں پائیدار اقتصادی نشوونما کے لیے اصول و ضوابط طے ہوں گے-سی پیک خطے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے-
سی پیک ایک کثیر الجہت منصوبہ ہے اور یہ انرجی سیکورٹی، سپیشل اکنامک زونز، بہتر انسانی وسائل، قومی ہم آہنگی، علاقائی تعاون اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کے ذریعے پاکستان کی ترقی کا ضامن ہو گا- سلک روٹ کا حصہ ہونے کے ناطے، سی پیک چائنہ کو اپنی صنعتوں کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک محفوظ راستہ فراہم کرتا ہے- مزید برآں، گوادر کے ذریعے اپنی برآمدات بھیج کر چائنہ ہزاروں میل کے سمندری سفر سے بچ سکتا ہے-
چودھویں صدی میں بحرِ اوقیانوس کے ذریعے سمندری روابط میں کافی اضافہ ہوا جو کہ بلیو اکانومی کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے- تجارت کی عالمگیریت، روابط کے ذرائع کی ترقی اور فوری ترسیل نے بھی بلیو اکانومی میں نئی روح پھونکی- اس سے بلیو اکانومی کے بنیادی خواص درست ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ بڑے سمندر تمام اقوام کا مشترکہ اثاثہ ہیں جس سے سفارت کاری کو تقویت ملتی ہے یعنی کہ سمندر ملاتا ہے اور زمین تقسیم کرتی ہے-آج دنیا کی 95 فیصد تجارت سمندر کے راستہ ہو رہی ہے- معیشت دورِ حاضر میں سفارت کاری کا مضبوط ترین اصول ہے- معیشت کا دار و مدار ہائیڈرو کاربن کی مناسب ترسیل پر ہے- بلیو اکانومی کا دارومدار زمین پر بھی ہے- سی پیک کا منصوبہ مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور سب سے اہم گوادر کے ذریعے بحیرہ عرب کو منسلک کرے گا جس سے بلیو اکانومی میں انقلاب برپا ہو جائے گا- گوادر بین البر اعظمی تجارتی راستوں اور سمندر کے درمیان اہم سنگِ میل ہے- مغربی چائنہ اور پاکستان کو دنیا کے سمندروں سے ملا کےسی پیک بلاشبہ ترقی و خوشحالی کا دروازہ ثابت ہو گا-
چائنہ کے مطابق سی پیک،بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا بنیادی منصوبہ ہے جو امن اور باہمی مفاد کی پالیسی کے ذریعے ایشیاء، افریقہ اور یورپ کو آپس میں منسلک کرے گا- نئی سلک روڈ چائنہ کو یورپ، وسطی ایشیاء اور امریکا سے ملا دے گی جس سے چائنہ کا تجارتی سامان بحرِ ہند اور جنوبی چین کے سمندر سے باحفاظت گزر سکے گا- سی پیک علاقائی امن کے قیام کے لیے ایک اہم موقع ہے کیونکہ بغیر امن اور سیکورٹی کے ترقی ناممکن ہے-
سی پیک کے اقتصادی فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی عوام نے اس منصوبے کو دلی طور پر قبول کیا ہے- پاکستان اب تک بہت سے کٹھن ادوار سے گزرا ہے جس میں لوگوں نے ان گنت قربانیا ں دی ہیں- پوری قوم کی کاوشوں کی بدولت ملک میں امن کا قیام ممکن ہوا ہے- یہ درست وقت ہے کہ سی پیک کے ثمرات سے فائدہ اٹھایا جائے اور پاکستان کی تعمیر و ترقی پر توجہ دی جائے-
سی پیک نہ صرف عالمی سرمایہ کاری کے لیے مقناطیس ثابت ہوگا بلکہ اس سے پاکستان کی مقامی صنعت کو بھی تقویت ملے گی اور گوادر کے راستے پاکستان کو برآمدات کے لیے بے نظیر مواقع ملیں گے- بلاشبہ گوادر پاکستان کے لیے قدرت کا ایک بہت بڑا تحفہ ہے-
٭٭٭