تعارف :
دنیا کے سات برّ اعظموں میں سے برّ اعظم ایشیائ سب سے قدیم انسانی تاریخ، بے شمار ثقافتوں کا مجموعہ، مختلف زمینی خدوخال کا حامل اور قدرتی حسن کا عکاس ہے- اِس خطہِ زمین پر کہیں حُسن و دلفریبی کی کثرت ہے تو کہیں سختی و درشتی پائی جاتی ہے، کہیں نرم روئی و مفاہمت اختیار کی جاتی ہے تو کہیں جرأت و شجاعت ہی کو بہترین راستہ سمجھا جاتا ہے، کہیں زمین پہاڑوں سے بھر پور اور سبزے سے لہلہاتی ہوا تو کہیں صحر او میدان کی مٹی اقوام کی محبت کا مرکز بن جاتی ہے- یہ سب قدرت کے کرشمے ہیں جہاں قدرت اپنا اظہار مختلف مقامات پر مختلف رنگوں میں کرتی ہے- برصغیر کے جنوب میں اڈل نما ﴿گول﴾ جزیروں کے حسین امتزاج پر مشتمل ملک مالدیپ واقع ہے مشہور تاجر مارکو پولو نے اِس خطہ کو قدرتی خوبصورتی کے باعث فلاور آف انڈیز ﴿flower of the Indies﴾ کا لقب دیا ہے جبکہ عظیم مسلم مسافر و مفکر اور چودہویں صدی میں مالدیپ کے قاضی ﴿چیف جسٹس﴾ محمد ابنِ بطوطہ نے اِس خطہ کو دنیا کے عجائب میں سے ایک عجوبہ ﴿‘one of the wonders of the world﴾ قرار دیا ہے-
مالدیپ اپنے دلکش مناظر، جزیروں، سمندر کی آغوش اور قدرتی حُسن کی وجہ سے زمین پر جنت کہلانے والے چند خِطوں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے- مگر جہاں ماحول دشمن انسانی سرگرمیاں دنیا بھر کے قدرتی حسن کو ماند کررہی ہیں وہیں مالدیپ بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے- انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اُس کی ضروریات کے لیے ایجاد کیے گئے بے جا سائنسی طریقوں نے سہولیات کے ساتھ ساتھ کرہ ارض کا ماحول آلودہ کردیا ہے جِس کی وجہ سے قدرتی حسن، لازوال نعمتیں اور خوبصورتی جو کبھی زندگی کا باعث تھی اب وہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آگ بن کر ہم پر برس رہی ہیں- گرین ہائوس گیسوں کے زیادہ اخراج اور دیگر ایسی سرگرمیوں کے سبب دنیاکا درجہ حرارت جِس رفتار سے بڑھ رہا ہے اور گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اُس سے نہ صرف دنیا کا موسم مزید متاثر ہو گا بلکہ سمندر کا پانی کم بلند ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ وہاں بسنے والے انسانوں کو بھی نگل جائے گا- موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ سائنس دانوں کی تنظیم کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ سمندر کی سطح تقریباً اعشاریہ صفر تین اِنچ سے اعشاریہ صفر چھ انچ﴿0.03-0.06 inch ( سالانہ بلند ہو رہی ہے- سطح سمندر سے بہت بلندی پر رہنے والوں کے لیے تو یہ تبدیلی شائد اتنی فکر مندی کا باعث نہ ہو لیکن سمندر کی آغوش میں رہنے والوں کے لیے یہ موت کی خبر ثابت ہو سکتی ہے- ذرا سوچیں اگر سمندر کی سطح یوں ہی بلند ہوتی رہی تو مالدیپ جیسے ملک اور وہاں رہنے والوں کا وارث کون بنے گا جس کا بلند ترین مقام بھی سطح سمندر سے فقط آٹھ فٹ کے قریب بلند ہے مالدیپ حکومت نے اس ایشو پر دنیا بھر کی توجہ مبذول کروانے کیلئے اکتوبر دو ہزار نو میں زیرِ سمندر ایک میٹنگ کا بھی انعقاد کیا تھا جِس کی صدارت مالدیپ کے صدر نے کی اور تمام ملکی وزرائ نے اس میں شمولیت کی اس کا مقصد مالدیپ کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات کو دنیا کے حکمرانوں کے سامنے اجاگر کرنا تھا جو اُسی سال دسمبر میں عالمی موسمیاتی تبدیلی پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہے تھے- اِس موقعہ پر مالدیپ کے صدر محمد ناشید نے کہا کہ اگر مالدیپ کو آج نہ بچایا جا سکا تو ہم نہیں سمجھتے کہ باقی دنیا کے بچنے کا بھی کوئی چانس ہو گا-
رقبہ و آبادی:
مالدیپ قدرتی طور پر تقریباً چھبیس اڈل ﴿coral atolls﴾ سے مل کر بنا ہے جو سینکڑوں جزائر پر مشتمل ہیں انتظامی امور کے لیے اسے بیس حدود میں تقسیم کیا گیا ہے یہ تمام حدیں سمندری نیلے اور شفاف پانی کے گھیرے میں موجود ہیں- یہ جزائر Laccadives -Chagos Ridge کا حصہ ہیں جو چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل سمندر میں ایک خاص زمینی ساخت ہے اور یہ تقریبا دو ہزار کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے- مالدیپ کا کل رقبہ تقریباً تین سو مربع میل ہے اور اس کی ساحلی پٹی چھ سو چوالیس کلو میٹر طویل ہے- اِس کی کل آبادی تقریباً تین لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو کہ تقریباً سب مسلمان ہیںجن کی شرح خواندگی بھی تقریبا سو فیصد ہے-
تاریخ اور آمدِ اسلام:
مالدیپ کی تاریخ پانچویں صدی قبل از مسیح سے شروع ہوتی ہے یہاں سب سے پہلے آریان قبائل کے لوگ آباد ہوئے- تیسری صدی عیسوی میں بدھا حکمران اشوکا نے اپنی ریاست کو بڑھاتے ہوئے مالدیپ کو اپنی ریاست میں شامل کر لیا اور یہاں بدھ مت کا پرچار ہوا- بارہویں صدی کے وسط تک بدھ مت حکمران یہاں حاکم رہے-
بارہویں صدی عیسوی کے وسط میں افریقہ سے آئے مسلمان عرب تاجر ابو برکت یوسف البرباری کی تعلیمات سے متاثر ہو کر بدھ مت حکمران دویمی کالامنجا نے اسلام قبول کیا اور سلطان محمد عادل کے نام سے مشور ہو اجِس نے اپنی ریاست کا سرکاری مذہب اسلام قرار دیتے ہوئے یہاں پہلی مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی- کچھ مورخین کے مطابق شہرِ تبرز ﴿موجودہ آذر بائیجان﴾ سے آئے شیخ محمد یوسف ﴿بارہویں صدی عیسوی﴾ کی تعلیمات نے بھی مالدیپ میں اشاعت اسلام کیلئے اہم کردار ادا کیا-
مغربی نو آبادیات/ قبضہ:
سولہویں صدی عیسوی ﴿پندرہ سو اٹھاون﴾ میں مغربی نو آبادیاتی نظام کے پھیلائو پر اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پرتگالی فوج نے سلطنت پر قبضہ کرتے ہوئے یہاں کے حکمران علی ششمکو قتل کر کے کاہلو محمد ﴿ایک ظالم مالدیپی﴾ کو تخت پر بٹھا دیا- سترہویں صدی عیسوی میں مرکز میں کمزور ہوتی پرتگالی سلطنت کے سبب بحرِہند میں بھی پرتگالی قبضہ کمزور ہونا شروع ہوا جِس پر مالدیپ کی سلطنت کے جاں مرد محمد تھاکر و فانو العظم اور اُس کے بھائی نے پرتگالی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے ملک کو پرتگالیوں کے قبضے سے آزاد کروا لیا- اِس واقعہ کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال اِس دن کی نسبت سے ﴿اسلامی کلینڈر کے مطابق یکم ربیع الاول کو﴾ مالدیپ کا قومی دن منایا جاتا ہے- لیکن اس آزادی کو ڈچ فوج کی آمد نے زیادہ طوالت نہ دی-
سترہویں صدی عیسوی میں ڈچ فوج نے اِس علاقے پر قدم جمائے اور حکومت پر براہِ راست قبضہ کیے بغیر انتظامی امور کو اپنے کنٹرول میں لے لیا- ڈچ حکومت اور مالدیپ کی مقامی حکومت میں جلد ہی اچھے سفارتی تعلقات قائم ہو گئے جو اگلی دو صدیوں تک قائم رہے- اٹھارہویں صدی عیسوی کے اختتام ﴿سترہ سو چھیانوے﴾ میں انگریزوں نے اِس سلطنت سے ڈچ انتظامیہ کا خاتمہ کیا- ڈچ انتظامیہ کی سر پرستی میں مقامی حکمرانوں نے معیشت کو کرپشن سے کافی نقصان پہنچایا جِس کی وجہ سے قرض دار ﴿برطانوی کاروباری طبقہ﴾ مالدیپ میں اپنے کاروبار کھولنے لگے تو مقامی لوگوں اور ان کے مابین تنازعات نے جنم لیا جس سے یہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی جسے موقع گردانتے ہوئے انگریز فوج اِس خطہ پر اُتری اور اٹھارہ سو ستاسی میں معاہدہِ حفاظت ﴿Protection Agreement﴾ کے تحت مالدیپ کو اپنے اثر و رسوخ میں لے لیا تب سے لے کر آزادی تک مالدیپ سلطنتِ برطانیہ کے ساتھ اسی معاہدہ میں رہا-
اسلام کی آمد کے بعد سے مالدیپ میں غیر تحریری قانون اور آئین میں اسلامی احکامات کی پیروی کی جاتی تھی اُنیس سو بتیس میں مالدیپ کے سلطان نے برطانیہ کے دبائو میں آ کر پہلا آئین مرتب کیا جِس نے سلطان کے انتظامی دائرہ ِ اختیار کو محدود کر دیا- اُنیس سو اُنتالیس میں اِس آئین کو سلطنت کے لیے غیر موئژ قرار دے کر منسوخ کر دیا گیا- یہ بات برطانوی سامراج کو ناگوار گزری اور انہوں نے اُنیس سو تنتالیس میں مالدیپ میں ﴿بحثیت حفاظت کار﴾ نیا آئین لاگو کیا جِس نے سلطان کو بر طرف کر دیا اور حکومت کا کنٹرول اُس وقت کے وزیر اعظم محمد امین دیدی کو دے دیا گیا اور سلطنت کو جمہوریت کی طرف موڑنا شروع کیا گیا- اُنیس سو ترپّن میں سلطنت کا خاتمہ ہوا اور مالدیپ نئے آئین کے مطابق ایک جمہوری ریاست بن گیا جِس کے پہلے صدر محمد امین دیدی منتخب ہوئے لیکن ریاست میں عدم ترقی نے عوام کو اپنے پہلے صدر کے خلاف کر دیا جِس کی وجہ سے جمہوری ریاست کا آئین منسوخ کر کے جمہوری ریاست کا بھی خاتمہ کر کے ریاست کو دوبارہ سلطنت بنا دیا گیا اور ابراہیم ناصر نئے وزیر اعظم بن گئے- برطانوی راج نے اُنیس سو پچاس کو گان نامی جزیرے کو اپنی ائیر بیس کے لیے استعمال کرنے کے لیے مالدیپ حکومت سے سو سال کا معاہدہ بھی کیا اور اِس مد میں دو ہزار پائونڈ سالانہ ادا کرنے ہوتے تھے مگر اُنیس سو ستاون میں ابراہیم ناصر نے اِس معاہدہ کی مُدت میں کمی اور اِس معاہدی کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کو بڑھانے کی کوشش کی جِس پر گان جزیرے کے لوگ جو برطانوی موجودگی پر مالی فائدہ اٹھا رہے تھے اِس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور مالدیپ سے الگ ہو کر متحدہ جمہوریہ سویدئیو نامی ایک آزاد ریاست بنا لی - اُنیس سو باسٹھ کو ابراہیم ناصر نے اِس علاقے پر مقامی پولیس کے ذریعے دوبارہ کنٹرول حاصل کرتے ہوئے معاہدہ کی رقم سات لاکھ پائونڈ طے کر کے تیس سال کے لیے ائیر بیس برطانیہ کے حوالے کر دی-
آزادی:
بیسویں صدی کے اوائل میں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور مختلف نو آبادیات میں آزادی کی جدوجہد نے برطانوی سامراج کو کمزور کر دیا جِس کی وجہ سے برطانیہ مالدیپ میں پروٹیکشن ایگریمنٹ سے دستبردار ہوا اور پچیس جولائی اُنیس سو پینسٹھ کو برطانیہ نے، اِس معاہدہ کے ساتھ کہ وہ ائیر بیس استعمال کرے گا، مالدیپ کو آزاد کر دیا- آزادی کے بعد اُنیس سو اَڑسٹھ میں عوامی رائے شماری میں سلطنت کو جمہوریہ مالدیپ بنا دیا گیا اور ملک کا نیا آئین ترتیب دیا گیا جِس کے تحت ابراہیم ناصر دوبارہ چار سال کی مدت کے لیے آزاد جمہوریہ مالدیپ کے پہلے صدر منتخب ہوئے- اُنیس سو پچہتر میں برطانیہ نے ائیر بیس کا استعمال چھوڑ دیا - سری لنکا کے ساتھ مچھلی کی تجارت کی کمی کی وجہ سے ملک کے معاشی حالات خراب ہوئے اور لوگ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے جِس کی وجہ سے ابراہیم ناصر سنگا پور چلا گیا بعد میں اِن پر اپوزیشن کی طرف سے ملکی خزانہ لوٹنے کا الزام لگایا گیا جِس کے ثبوت نہ مل سکے- ابراہیم ناصر کی یاد میں دارلحکومت مالی میں ابراہیم انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا نام رکھا گیا جِس کو مالی انٹرنیشنل ائیر پورٹ بھی کہتے ہیں- اُنیس سو اَٹھہتر کو ہونے والے انتخابات میں اقوام متحدہ میں مالدیپ کے سفیر مومن عبدالگیوم مالدیپ کے صدر منتخب ہوئے جو دو ہزار آٹھ تک ملک کے صدر رہے- مالدیپ کے موجودہ صدر عبداللہ یامین ہیں-
اسلامی ثقافت:
مالدیپ میں شرعی قوانین نافذ ہیں اور اسلام ریاستی مذہب ہے دو ہزار آٹھ میں آئین میں ایک ترمیم کے ذریعہ مالدیپ میں اسلام کے تشخص کو بہتر بنانے اور اسلام کے نام پر ہونے والی کسی بھی شر پسندی کو روکنے کے لیے صرف اسلام کے حقیقی پیروکاروں ﴿امن پسند﴾ کو قومیت دینے پر اکتفا کیا گیا- دس سال کی عمر سے شرعی قوانین کی حدود شروع ہو جاتی ہیں- منشیات کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں اور ان کی سزا سات سال کے بچے پر بھی لاگو ہوتی ہیں- ان اقدامات کی وجہ سے مالدیپ میں شرحِ جرم بہت کم ہے- مالدیپی عوام کا اسلامی تعلیمات سے لگائو کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں اسلامی کلینڈر کے مطابق یکم ربیع الاول کو قومی دن اور ہر سال یکم ربیع الثانی ﴿جس روز مالدیپ کے بدھ مت بادشاہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا﴾ کو قبولِ اسلام ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے- مالدیپ میں مساجد کی تعمیر اور تزئین و آرائش پر خاص توجہ دی جاتی ہے جِن میں سب سے بڑی اور پرانی مسجد پرانی جمعہ مسجد ہے اور موجودہ خوبصورت تخلیق گرینڈ مسجد جو دارلحکومت مالی میں پائی جاتی ہے جِس کے اوپر نصب سونے کا گنبد دور سے ہی قابلِ دید ہوتا ہے-
معیشت و سیاحت:
مالدیپ کی معیشت کا تیس فیصد انحصار سیاحت پر ہے ، ہر سال تقریباً ۲۱ لاکھ سے زیادہ سیاح مالدیپ کا رُخ کرتے ہیں جو مالدیپ کی کُل آبادی کا چار گنا ہیں- مالدیپ کے دلفریب جزیرے اوراُن سے ٹکراتا سمندر کا نیلا پانی، یادگارِ سونامی ﴿ لوہے کی ساخت کا مینار﴾ جو مالی کے شمال میں دو ہزار چار میں آنے والے سونامی میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے- جِس کے گرد نیچے سے اوپر کی طرف بیس سٹیل بالز ہیں- جو مالدیپ کے بیس حصوں کی نمائندگی اور اِن کی سمت پانی کے چڑھائو کی علامت ہیں﴾ اور قومی میوزیم قابلِ دید ہیں-
ماہی گیری اور سیاحت پر گز بسر کرنے والا مالدیپ ۴۰۰۲ئ میں آنے والے ایشیائی سونامی سے بری طرح متاثر ہوا اور اس کا تقریباً ۰۶% حصہ متاثر ہوا یا تباہ ہو گیا جِس سے معیشت کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا- لیکن اس زبردست تباہی سے لے کر اب تک یہ مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے- اس کی موجودہ اقتصادی ترقی کی شرح تقریباً چھ فیصد سالانہ ہے- مالدیپ کی سالانہ برآمدات تقریباً ۰۰۳ ملین ڈالر اور درآمدات تقریباً ۰۰۲ بلین ڈالر ہیں - بحر ہند میں ہونے کے باعث مالدیپ دو عالمی بحری شاہراہوں کے وسط میں آباد ہے جو گزرنے والے ہر بحری جہاز کے لیے ایک قدرتی پڑائو ہے- وسط میں آباد ہونے کی وجہ سے مالدیپ دنیا میں ہونے والی سمندری تجارت کے راستے میں آتا ہے-
سفارتی تعلقات:
دنیا کے۵۳۱ ممالک کے ساتھ مالدیپ کے سفارتی تعلقات قائم ہیں ، جِن میں ۳۱ ممالک میں اس کے نمائندے مقرر ہیں، جِن میں پاکستان، چین، برطانیہ اور سعودی عرب اور دوسرے ممالک شامل ہیں- مالدیپ کے مستقل نمائندے یورپی یونین اور اقوام ِمتحدہ میں بھی مقرر ہیں- تمام ممالک کے ساتھ اس کے دوستانہ، تجارتی اور سفارتی بنیادوں پر تعلقات قائم ہیں- مالدیپ مسلم امّہ کے تمام مسائل کے جلد حل کے لیے پُر امید ہے اور اپنا کردار ادا کر رہا ہے- ۴۱۰۲ئ میں فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور دہشتگردی کے خلاف مالدیپ نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا اور اسرائیل کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور اسرائیل پر دبائو ڈالا کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرے اور غیر قانونی آباد کاری کو ختم کرے اور مسئلہ کا پُر امن حل تلاش کیا جا ئے- مالدیپ آزادی کے بعد ۵۶۹۱ئ میں اقوامِ متحدہ ، ۸۷۹۱ئ میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک، ۲۸۹۱ئ میں کامن ویلتھ آف نیشنز، ۵۸۹۱ئ میں سارک، ۵۹۹۱ئ میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ۹۰۰۲ئ میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر بنا- اب تک مالدیپ ۳۶ بین الاقوامی تنظیموں کا ممبر بن چکا ہے-
پاکستان و مالدیپ:
پاکستان اور مالدیپ کے درمیان بھائی چارے، تجارتی و سفارتی تعلقات قائم ہیں، جِس کی زندہ مثال مالدیپ کی پارلیمنٹ ﴿عوامی مجلس﴾ کی عمارت ہے، جو مالدیپ کی حکوت و عوام کو پاکستانی حکومت کی جانب سے تحفہ میں تعمیر کی گئی ہے- ۵۱۰۲ئ میں صدرِ مالدیپ کے پاکستان کے دورہ کے موقع پر دونوں ممالک کے در میان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا گیا- پاکستانی حکومت نے مالدیپ کو دہشتگردی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کر وائی ہے- جنوری ۶۱۰۲ئ میں وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ مالدیپ اور پاکستان سیاحت اور تجارت میں ایک دوسرے کی کافی مدد کر سکتے ہیں- دونوں ممالک کے در میان مئی ۵۱۰۲ئ میں مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے ۱۵ ایم او یوز پر دستخط کیے گئے- مئی ۵۱۰۲ئ میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان مالدیپ کے ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق تحفظات سے آگاہ ہے اور اِس معاملے کو باہمی اور سارک کے پلیٹ فارم پر اٹھایا جائے گا -
کرہ ارض کا بڑھتا درجہ حرارت انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں بہت سے علاقوں میں انسانی زندگی مشکلات کا شکار ہے اور کئی خطوں میں انسانی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں- جن میں مالدیپ بھی شامل ہے جسے سطح سمندر میں اضافے سے اپنی بقا کا خطہ لا حق ہے- دنیا بھر اور خصوصاً مالدیپ جیسے ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لیے اقوامِ عالم کو جلد از جلد ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جِن سے گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں کمی کی جائے اور بڑھتے عالمی درجہ حرارت کو روکا جائے- وگرنہ ہماری اگلی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی-