بیسویں صدی کے آخری عشرہ میں تہذیبی تصادم کے نظریات نے جنم لیا اور اکیسویں صدی کا آغاز انہی نظریات کے ساتھ ہوا- ان نظریات کے سبب پروان چڑھنے والے گلوبل ویلیج میں اخوت و برداشت میں بھی کمی واقع ہوئی- اکیسویں صدی کی ابتدا سے ہی دنیا میںمعاملات اور اختلافات کو مکالمہ اور پُر امن طریقے سے حل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیش آئیں جن کی بنیادی وجہ مختلف مسلمان ممالک پرہونے والی بیرونی یلغار تھی- اس یلغار سے یہی تاثر اُبھرا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے اور اس بناء پرمسلمان ممالک اور مغرب کے مابین فاصلے بڑھے ہیں- آج انسانیت جس نازک دور سے گزر رہی ہے یہ قطعاً اس امر کا سامنا نہیں کر سکتی کہ نظریات میں مخالفت کی بنا ء پر جنگیں مُول لی جائیں ،ایسے حالات میں اس اَمر کی ضرورت ہے کہ مشرقی اور مغربی ممالک کے مابین بڑھتے فاصلوںکو کم کیا جائے اور مکالمہ کو فروغ دیا جائے- اس سلسلے میں ایسی قوموں کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے جو مشرق و مغرب دونوں تہذیبوں کے بھی قریب ہیں اور ان کے مابین ایک پُل کا کردار ادا کر سکتی ہیں- ایسے ہی ممالک میں ایک اہم ملک البانیہ ہے جو مسلم اکثریت رکھنے اور او-آئی-سی کا ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور نیٹو کا رکن ملک بھی ہے-
البانیہ جنوب مشرقی یورپ میں بحیرہِ ایڈریاٹک اوربحیرہ ایونی کے ساحلوں پر واقع ہے جس کے جنوب میں یونان اور شمال میں مونٹی نیگرو واقع ہیں- یہ اٹھائیس ہزار سات سو اڑتالیس مربع کلومیٹر پر محیط ہے جِس کا دارالحکومت تیراناہے-دو ہزار چودہ کے مطابق اِس ملک کی آبادی تیس لاکھ بیس ہزار نفوس سے زائد ہے جِن میں تقریباًستر فیصد مسلمان ہیں-اِس کی ساحلی پٹی تین سو باسٹھ کلومیٹر لمبی ہے- یہاں کی سرکاری زبان البانی ، کرنسی lek" " اورشرح خواندگی تقریباً ننانوے فیصد ہے- اِس خطہِ زمین پر اِسلام کی آمد چودہویں صدی میں اُس وقت ہوئی جب یہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا-البانین فوجی ماہر جورج کاستریوتی سکاندیربیرج(George Kastrioti Skanderbeg) نے چودہ سو تینتالیس میں ترک فوج کے خلاف د فاعی حکمت عملی اپناتے ہوئے البانیہ کے کافی علاقے پرکنٹرول واپس حاصل کر لیا جو آنے والے پچیس سالوں تک رہا-سکاندیربیرج کا یہ اقدام آزادی کے حصول کے لیے پہلا قدم سمجھا جاتا ہے -اس کی یاد میں البانیہ کے پرچم پر اُن کے سیاہ عقاب کی علامت بنائی گئی ہے -البانیہ کے لوگوںاور خلافتِ عثمانیہ کی عدم توجہ کی وجہ سے بہت سے تنازعات پیدا ہو گئے -اٹھارہویں صدی کے وسط میں خلافتِ عثمانیہ کمزور ہونا شروع ہو گئی اِس دوران البانیہ کے لوگوں اور خلافتِ عثمانیہ کے درمیان تنازعات شدت اختیار کر گئے جِس کے نتیجے میں سکوتاری کے گورنر محمود پاشا اور جانینا کے گورنرعلی پاشا نے آزاد حکومت بنانے کی کوشش کی اورمعرکہِ kossova-plain کے بعداِن دونوں نے ملکر البانیہ کے کافی حصہ پر کنٹرول کر لیا جو کہ ترک فوجوں نے اٹھارہ سو بیس کو علی پاشا کو گرفتار کر کے واپس لیا-
اٹھارہ سو اکیس میںیونانی انقلاب کے ساتھ ہی علی پاشا نے البانیہ کے لوگوں کو آزادی کے حصول کے لیے تیار کیا جِس کے نتیجے میں انہوں نے البانیہ کے کافی حصوں پر کنٹرول کر لیا جِس کے بعد البانیہ کے لوگوں نے خلافتِ عثمانیہ سے آزادی کی کوششیں کو مزید متحرک کرلیا- خلافتِ عثمانیہ کے سلطان نے اِس تحریک کو ختم کرنے کی کوشش پرالبانیہ کے لوگوںنے بھر پور مزاحمت کی اور آزادی کے لیے کوششیںجاری رکھیں جوکہ اٹھائیس نومبر انیس سو بارہ میں آخر کر آزادی کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ختم ہوئیں اوراس وقت کے تحریک آزادی کے رہنما اسماعیل کمال بے فلورا پہلے صدر بنے- جِن کا یادگاری مجسمہ تیرانا میں بنایا گیا ہے -آزادی کے بعد ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کی کوششیں جاری تھیں کہ اتنے میںدوسری جنگِ عظیم کے دوران اٹلی(۴۳-۱۹۳۹) اور جرمنی (۴۵-۱۹۴۳)نے ملکر البانیہ پر قبضہ کر لیا اِن طاقتوں کے جانے کے بعد ملک میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت آ گئی اور ملک کا نام سوشلسٹ ریپبلک آف البانیہ رکھا گیا- انیس سو نواسی کی دہائی میں کمیونسٹ دورکے زوال کے ساتھ ہی البانیہ کے لوگوں نے اپنے لیے ڈیموکریٹک اصلاحات کا چنائو کیا اور ملک میں انیس سو بانوے کو مقامی انتخابات ہوئے جِس میں سوشلسٹ پارٹی کو حکومت مِلی- دو ہزار پانچ میں ہونے والے انتخابات میںڈیموکریٹک پارٹی کو کامیابی ملی اور بویار نوشانی موجودہ صدر ہیں-
البانیہ کئی اہم علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کا رُکن ہے جِن میں "یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (OSCE)،معاہدہِ استحکام، اقوامِ متحدہ،عالمی تجارتی تنظیم(WTO)،The Atlantic Charter شامل ہیںاور یہ واحد یورپی ملک ہے جو او-آئی- سی کا ممبر ہے-البانیہ کے عالمی برادری کے ساتھ اچھے تعلقات کی ایک وجہ اس کی جغرافیائی اہمیت بھی ہے کیونکہ یہ بیشتر یورپی ممالک کے سمندری راستے پر واقع ہے اور چند خشکی میں محصو رممالک کا ہمسایہ ملک ہے -البانیہ کے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے تعلقات اُس کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں-آسٹریلیا البانیہ میںزراعت، تعلیمی شعبہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے - ترکی کی البانیہ میں بنکاری، تعمیراتی کاموں اور مواصلاتی کاموں میںتقریباً پینتالیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے-
رقبہ میں چھوٹا مگر قدرت کے حسین رنگوں کا امتیاز البانیہ سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے-یہاں کے بلند و بالا پہاڑ،سر سبز جنگلات، جھلیں اور دوسرے تاریخی مقامات سیاحت کو فروغ دینے میں کافی مدد گار ہیں-Lake Shkodra البانیہ کی ہی نہیں بلکہ اِس علاقے کی سب سے بڑی جھیل اور ohrid lake یورپ کی سب سے پرانی جھیل ہے-تاریخی عمارتوں میں کلاک ٹاور، Pertrelaکا قلعہ ،اٹلی اور جرمنی کے قبضہ کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والوں شہدا کا قبرستان جہاں آزادی کی یاد میں تقریبات منائی جاتی ہیں-خلافتِ عثمانیہ کے دورِ حکومت کے وقت ترک فنِ تعمیر کا بھر پور مظاہرہ کیا جن کا وہاں آباد شہر اور مساجد عکاس ہیں- مساجد میں مسجد ادھم بے،مسجد لیڈ،Muradiye مسجد، تاریخی شہر تیرانا، غیر وکاسترشامل ہیں -البانیہ میں دو ہزار تیرہ میں تقریباً تیس لاکھ سیاح آئے جِن میں ہر سال دس فیصد سے زائد اضافہ ہو رہا ہے-
یورپی ممالک میں (۲۰۱۰-۲۰۰۹)آنے والے معاشی بحران نے البانیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اِس کی جی ڈی پی شرح دو ہزار آٹھ میں تقریباً آٹھ فیصد سے کم ہوکر دو ہزار تیرہ میں تقریباً ایک اعشاریہ تین فیصد رہ گئی جو کہ ملکی معیشت کو ایک بڑا دھچکا تھا اور اِس کی وجہ سے معیشت کو ناتلافی نقصان برداشت کرنا پڑا جِس کے بعد ملکی قیادت اِس کا جلد حل نکالنے کے لئے سرگرم ہو گئی- البانیہ کو یورپی یونین کی رکنیت کے بعد اب یورپی ممالک سے وسیع پیمانے پر تجارت ، اچھے سفارتی اور تجارتی تعلقات مضبوط کرنے کا موقعہ ملے گا- البانیہ کی دو ہزار تیرہ میں درآمدات تقریباً اڑھائی ملین ڈالر اور برآمدات تقریباًپانچ بلین ڈالر تھیں -یہاں پر موجود تیل کے معلوم ذخائر تقریباً ایک سو بہتر ملین بیرل ہیں اور گیس کے معلوم ذخائر تقریباً نو سو ملین کیوبک میٹر ہیں-
پاکستان کو یورپ کے واحدمسلم اکثریتی ملک البانیہ کے ساتھ تعلقات اورباہمی تعاون کو مزید فروغ دینا چاہیے - پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ البانیہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کر کے اُس کو اِ س معاشی بحران سے نکلنے میں مدد کرے جیسا کہ دو ہزار گیارہ میں سابق سپیکر اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے البانیہ کے دورے کے موقع پر مختلف شعبوں میں تعاون پر رضا مندی ظاہر کی گئی تھی جِن میں زراعت،صنعت ،تعلیم،ویزا پالیسی میں نرمی اورمفاہمت کی یاداشت پر دستخط کرنا تھی اب اِن تمام پیشکش کردہ معاہدوں پر عملی توجہ کی ضرورت ہے-ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان کو ترکی اور البانیہ جو کہ نیٹو اور او- آئی- سی کے ممبر ملک ہیںاِن ممالک سے مختلف ملکوں کے درمیان بڑھتے فاصلوں کوکم کرنے اور اُن ممالک کے درمیان غلط فہمی کو دور کرنے میں مددگار کا اہم کردار لینا چاہیے جِس سے نہ اِس دنیامیںجو کہ گلوبل ویلج بن گئی ہے اِ س میں اخوت و اعتماد کی فضا قائم ہو گی اور دنیا ترقی کی نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو گی-
****