آزادی کا مفہوم:
آزادی کی حقیقت سمجھنے کے لیے غلامی کی کچھ بنیادی معلومات ضروری ہیں کیونکہ سقراط کی جانب ایک قول منسوب ہے کہ
’’جو شخص خود اپنے اوپر حکومت کرنا نہیں جانتا یاد رہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کا غلام رہے گا-‘‘ (۱)
انسان پر انسان کی حاکمیت کا نام غلامی ہے- ہم ہزاروں جانور وں کے مالک بن جائیں لیکن انہیں اپنا غلام نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایک آزاد انسان کا اپنی آزادی اور خود مختاری سے محروم ہوجانا ہی غلامی کہلاتا ہے گویا یہ ایک ایسا معاشرتی رواج ہے جس کے باعث ایک شخص دوسرے کی ملکیت میں داخل ہوجاتا ہے- اس ملکیت میں ایک فرد بھی غلام ہوسکتا ہے اور ایک قوم بھی- فرد کی غلامی فقط فرد کو انسانی اختیارات سے محروم کردیتی ہے جبکہ قوم کی غلامی پوری قوم کو اپنے وسائلِ پیداوار اور قومی تہذیب و تمدّن سے محروم کرکے رکھ دیتی ہے اور بعض اوقات اسے تباہ و برباد کردیتی ہے-
حالیہ صدیوں میں انفرادی غلامی کی مثال افریقی سیاہ فاموں کی ہے جنہیں یورپی اقوام نے چند صدیاں قبل کروڑوں کی تعداد میں زبردستی غلام بنا کر اپنے ممالک کی معیشت اور آبادکاری کے لیے استعمال کیا تھا جبکہ اجتماعی غلامی کے لیے ہمیں تین بڑی سامراجی طاقتیں نظر آتی ہیں: یورپی سامراج، اشتراکی سامراج اور سرمایہ دارانہ سامراج-
آج مملوکانہ غلامی کا وہ تصور تقریبا ختم ہوچکا ہے جو اسلام سے قبل اور اس کے ابتدائی ادوار میں پایا جاتا تھا یا پھر چند صدیاں قبل افریقی عوام کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک یورپی ممالک نے کیا اس کی مثال نہیں ملتی لیکن غلامی کی چند باطنی اور غیر شعوری اقسام عصرِ حاضر میں بھی موجود ہیں جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ فرد یا قوم سے تعلق ہے- ان اقسام میں سے ایک استحقاقی غلامی ہے جسے ہم فیوڈل ازم بھی کہہ سکتے ہیں جس میں ایک سرپرست یا جاگیردار اپنے اہلِ خانہ اور اپنی جاگیر میں بسنے والوں سے غلامانہ سلوک کرتا ہے- غلامی کی ایک قسم ذہنی غلامی بھی ہے- اس غلامی کو خوبصورت الفاظ میں ملازمت، نوکری یا جاب بھی کہتے ہیں- یہ غلامی کی نہایت ہی مکروہ صورت ہے اس میں انسانی شرف کو دانستہ اور رضا کارانہ طور پر ختم کردیا جاتا ہے- ذہنی غلام کی ایمانی حالت بھی کمزور ہوتی ہے جس کا مشاہدہ بیورو کریسی، دیگر افسران اور ملازمین کے دفتری اور نجی اعمالنامہ میں بخوبی کیا جاسکتا ہے- غلامی کی ایک قسم اقتصادی و معاشی محکومی بھی ہے اس میں ایک قوم کسی دوسری قوم پر فوجی یا سیاسی غلبہ کی صورت میںتسلط قائم نہیں کرتی البتہ اپنی اقتصادی برتری قائم کرلیتی ہے پھر کمزور اقوام کو سود پر قرض فراہم کرتی ہے- قرض ایک ایسی میٹھی گولی ہے جسے کھا کر مقروض قومیں صدیوں تک احساسِ کمتری میں مبتلا رہتی ہیں- غلامی کی ایک قسم سیاسی محکومی اور فوجی غلبہ سے تعلق رکھتی ہے جس میں طاقتور قوم بلا کسی جواز کے یا عذرِ لنگ گھڑ کر کمزور اقوام پر چڑھائی کردیتی ہے اور عرصہ دراز تک ان کے وسائل پر قابض رہتی ہے-
غلامی کی ان مذکورہ اقسام کے پیشِ نظر تحریکِ آزادی کے پسِ منظر کو دیکھا جائے تو مسلمانوں کی جنگ دو محاذوں پر لڑی جارہی تھی- مسلمان ایک طرف ہندو سامراج کے خلاف برسرِ پیکار تھے تو دوسری طرف برطانوی یعنی یورپی سامراج سے ان کا ٹکرائو تھا- برصغیر میں برطانیہ نے سو سال سے زائد حکومت کی ہے- دونوں کی نفسیات میں سامراجی، خواجگی اور آقائی فکر موجود تھی- ہندو تہذیب و تمدّن اور مذہب میں تو شروع دن سے ہی ذہنی غلامی موجود رہی ہے اس میں غلام طبقہ کا نام شودر اور اچھوت ہے جن میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی شامل کرلیا گیا اور آقا طبقہ کا نام برہمن جیسی اعلیٰ ذاتیں ہیں جبکہ برطانیہ نے ابھی تازہ تازہ غلاموں کی تجارت سے لطف اٹھایا تھا جو وہ افریقہ کے سیاہ فاموں کو غلام بنا کر امریکہ میں فروخت کیا کرتے تھے- یاد رہے کہ افریقہ کو غلام بنانے میں سپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، پرتگال کے ساتھ ساتھ برطانیہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا اور اس قدر دولت کمائی کہ اس کے نتیجے میں یورپ کی ہمہ گیر ترقی شروع ہوئی جس کے ثمرات آج تک موجود ہیں-
۱۵۶۲ء میں ملکہ الزبتھ اوّل (Queen Elizabeth 1) کے دور میں کیپٹن جان ہاکنز (John Hakins) کی سرپرستی میں شروع ہونے والی بحرِ اوقیانوس کی سہ رخی تجارت (Trans-Atlantic Ocean Slave Trade) ۱۸۰۸ء میں ختم ہوئی- پروفیسر ڈیوڈ ریچرڈ سن (Professor David Richardson) کے مطابق ان ۲۴۵ سالوں میں برطانیہ نے 3.4 ملین سے زائد افریقی سیاہ فاموں کو زبردستی غلام بنا کر امریکہ کو فروخت کیا- (۲)
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ برّصغیر میں برٹش راج غلاموں کی تجارت ختم ہونے کے پچاس سال بعد ۱۸۵۸ء میں قائم ہوتا ہے، ایک صدی تک یہاں کے باشندے برطانیہ کے کس قسم کے غلام تھے کہ ان کے خلاف آزادی کی تحریک چلائی گئی؟ کیا ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر پاک و ہند سے انسانوں کو اسی طرح اغوا کرتی تھیں جس طرح سپینش افریقن کمپنی، رائل افریقن کمپنی یا پھر کمپنی آف دی ایڈونچر آف لندن جیسی جوائنٹ سٹاک کمپنیاں برطانیہ کی اجازت سے افریقن سیاہ فامز کو امریکہ میں بیچتی تھیں؟ اگر برطانیہ برّصغیر میں بھی ایسی مملوکانہ غلامی روا رکھتا تو یہاں ایک صدی تک حکومت نہیں کرسکتا تھا- اگر برطانیہ نے یہاں حکومت کی ہے تو فقط اپنی بیورکریسی کے ذریعے ہی کی ہے جس نے یہاں کی عوام کو ذہنی غلامی کی آلائشوں میں الجھا کر اپنے کاروباری سلسلہ کو جاری رکھا- تحریکِ آزادی اسی ذہنی غلامی سے رہائی کے لیے چلائی گئی-
آزادی کی اس تحریک میں، جو بعد میں تحریکِ پاکستان بن گئی، ہم قائد اعظم کی پوری جدوجہد کا خلاصہ کریں تو وہ تین الفاظ کے گرد گھومتی ہے جو قائدِ اعظم کے پاکستان کا بنیادی تصور بھی ہیں: (۱) قانون کی حکمرانی (Rule of Law)، (۲) جمہوریت (Democracy)، (۳) ’’مذہبی آزادی‘‘- انہی تین باتوں پر وہ بیک وقت حکومتِ برطانیہ سے بھی لڑتے رہے اور پھر ہندو برہمنوں سے بھی لڑے جس کا صاف مطلب ہے کہ وہ جس لاء، ڈیموکریسی اور آزادی کی بات کررہے تھے وہ بیک وقت دونوں سامراجوں کے رول آف لاء، ڈیموکریسی اور آزادی سے مختلف تھا- آپ کی تقاریر اور بیانات سے واضح ہے کہ وہ لاء سے انٹرنیشنل اسلامک لاء مراد لیتے تھے جو قرآن کی صورت میں چودہ سال سے صحیح و سالم اور من و عن موجود تھا ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ کسی الہامی کتاب میں تحریف کے لیے چند صدیاں ہی درکار ہوتی ہیں- جمہوریت سے آپ کی مراد اسلامی جمہوریت تھی جس نے دنیا کی پہلی اسلامی سلطنت مدینہ طیبہ کو انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم کیا پھر اس کا سکہ پوری دنیا میں رائج کیا- مغربی جمہوریت پر تنقید کرتے ہوئے قائد اعظم نے ۱۹۳۸ء میں پٹنہ میں مسلم لیگ کے ایک سالانہ اجلاس کے موقعہ پر واشگاف الفاظ میں کہا:-
’’بندوں کو گننا ایک اچھی بات ہوسکتی ہے لیکن یہ بات قوموں کے مقدر کا حتمی فیصلہ تو نہیں کرسکتی-‘‘ (۳)
اسی طرح آپ کی مذہبی آزادی سے بھی وہ نام نہاد آزادی مراد نہیں تھی جو آج سیکولر ریاستوں نے اپنی رعایا کو منافقانہ طور پر دے رکھی ہے-
قائد اعظم کی قیادت میں ہمیں آزاد مملکت تو مل گئی لیکن جہاں تک ہماری آزادی کا مسئلہ ہے تو وہ قائد اعظم کی وفات سے لیکر آج تک دو قسم کے ملّائوں کی مخصوص ذہنیت کا شکار ہے- ان دو ملّائوں میں سے ایک ’’سیکولر ملّاں‘‘ ہے اور دوسرا ’’مذہبی ملّاں‘‘- مذہبی سے سیکولر زیادہ خطرناک اور شدّت پسند ہے جو ’’آزادی ‘‘ کے نام پر اپنی خباثت ظاہر کرکے پاکستانی قوم کو ایک حد تک گمراہ کرچکا ہے اور مزید کررہا ہے- اس گمراہی اور بے راہ روی کا عملی مظاہرہ ہمیں ہمارے منچلوں کی جانب سے اکثر مقامات اور تقریبات میں دیکھنے کو ملتا ہے جس کی ایک جھلک یومِ آزادی کے موقعہ پر بھی نظر آتی ہے- ہمارا نوجوان طبقہ یومِ آزادی پر جس قسم کی حرکات کرتا ہے وہ حصولِ پاکستان کی مقصدیت سے ذرا میل نہیں کھاتا- سیکولر ملّائوں کا ایجنڈا تو بہت طویل ہے اور پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے جسے ہم جدید سامراجی نظام بھی کہہ سکتے ہیں البتہ پاکستان میں اپنے ایجنڈے کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے وہ بانیٔ پاکستان کی تمام تقاریر و بیانات کو پسِ پشت ڈال کر صرف گیارہ (۱۱) اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے ایک جملے کا سہارا لیتے ہیں جو آپ نے کراچی میں مجلسِ دستور ساز پاکستان کا پہلا صدر منتخب ہونے پر کی تھی- اس بنیاد پر سیکولر ملّاں بڑھی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ محمد علی جناح پاکستان میں ایک سیکولر نظامِ حکومت چاہتے تھے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو، جناح نے آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے اور آزادی کا مطلب یہی ہے کہ جو آپ کے جی میں آئے وہ کریں، اپنی من چاہی حکومت بنائیں کیونکہ انہوں نے خود کہا ہے کہ اب آپ آزاد ہیں، وغیرہ، وغیرہ- اگر ان سے قائد اعظم کے اسلامی بیانات کے متعلق سوال کیا جائے تو کہتے ہیں کہ جناح نے مذہب کو حصولِ پاکستان کے لیے بطورِ آلہ کے استعمال کیا تھا--- نعوذ باللہ منہ- ہماری اس فکری تقسیم میں سامراجی قوتوں کا نظامِ تعلیم، اندازِ فکر، نظامِ حکمرانی اور مادی ترقی پوری طرح دخل انداز (Involve) ہے جو ہمارے ذہنوں میں سرایت کرچکی ہے-
مذہب سے بیزار سیکولر ملّائوں کی فتنہ انگیزیوں کا آج یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کے گلی محلوں میں فحاشی کے مراکز بن چکے ہیں- میڈیا کے ذریعے عریانی اور بے حیائی الا ما شا ء اللہ ہر گھر کی زینت بن چکی ہے- آج مسلمان اپنے ایمان کی فیس دے کر فیس بک کی بک بک اور بے حیائیوں کو مول لے رہے ہیں- اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر کیبل نیٹ ورک کو شہروں سے قصبوں اور قصبوں سے دیہاتوں تک پہنچانے میں مدد کر رہے ہیں- جہاں بجلی نہیں، گیس نہیں، تعلیم کا نظام نہیں، سیورج سسٹم نہیں لیکن اخلاقیات کو تباہ کرنے کے لیے کیبل نیٹ ورک، انٹرنیٹ اور موبائیل نیٹ ورک کی سہولیات با آسانی میسر ہیں- ہم نے الٹی ترقی کا سفر شروع کر رکھا ہے ہماری یہ ترقیٔ معکوس ہمیں اسفل السافلین کی گہرائی سے بھی نیچے لے جا چکی ہے- کیا ہمارے اربابِ اختیار اس بات سے بے خبر ہیں کہ کیبل نیٹ ورک پر مسلمانوں کے گھروں میں کونسے چینلز دیکھے جارہے ہیں، انٹرنیٹ کیفے میں کس قسم کی ویب سائٹس دیکھی جارہی ہیں، موبائل فونز پر کس طرح کی گفتگو اور میسجنگ ہوتی ہے؟ پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں سالانہ سو فیصد اضافہ ہو رہا ہے- نوّے کی دہائی میں جب پاکستان میں انٹرنیٹ متعارف ہوا تھا تو انٹرنیٹ ورلڈ سٹیٹس (Internet World Status) کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً دو ملین تھی جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا اعشاریہ ایک فیصد ہی بنتا تھا مگر آج اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 31 ملین ہے جو کہ کل آبادی کا 17 فیصد بنتی ہے- اٹھارہ کروڑ سے زائد کی آبادی میں سے چودہ کروڑ کے پاس موبائل فون آچکا ہے میرے خیال میں صرف بوڑھے اور نومولود ہی باقی بچے ہوں گے- روسی نشریاتی ادارہ آر ٹی(RT) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہیروئین خوراک سے سستی اور با آسانی دستیاب ہے- پاکستان میں چالیس لاکھ سے زیادہ منشیات کے عادی ہیں جبکہ ان کی بحالی کے لیے صرف ۸۰ سنٹر ہیں-
کیا آزادی سے مراد یہی آزادی ہے؟ پاکستان میں موجود ’’مخصوص ‘‘ غیرملکی سفارت خانوں میں آزادی کے نام پر کی جانے والی اخلاق سوز حرکات، کیا یہ قائد کے مفہومِ آزادی کی آئینہ دار ہیں؟ اور اگر یہ امریکی سامراج کی پاکستان پالیسی کا حصہ ہے اور یو ایس ایڈ اسی مقصد کے حصول کے لیے پاکستان میں کوشاں ہے اور تعلیم عام کرنے سے اس کا منتہائے مقصود اسی قسم کی آزادی ہے تو ایسی تعلیم اور ایسی امداد سے بہتر ہے کہ انسان ایمان کی دولت لے کر اس دنیا سے رخصت ہوجائے کیونکہ خدا کی سرزمین پر اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی مملکتِ خداداد پاکستان میں ایسی زندگی بسر کرنے سے تخلیقِ پاکستان کی غرض و غایت اور انسان کا مقصدِ حیات فوت ہوجاتا ہے- چونکہ آزادی کے نام پر فلسفۂ آزادی کو دھندلا دیا گیا ہے اس لیے تحریکِ آزادی کے مُحرِّکین کے تصوّرِ آزادی کو سمجھنا ہمارے لیے ناگزیر ہوگیا ہے- آزادی کی حقیقی تفہیم کے بغیر ہماری آزادی ادھوری رہے گی-
قائد اعظم کی نظر میں آزادی کا مفہوم:
قائد اعظم کے فلسفۂ آزادی کو سمجھنے کے لیے ہمیں سیکولر و مذہبی ہر دو ملّائوں کی محتاجی نہیں کیونکہ آپ کے خطابات، بیانات، انٹرویوز اور خطوط ’’جناح پیپرز‘‘ کے نام سے ۱۸ ضخیم والیمز میں شائع ہوچکے ہیں اس کے علاوہ ’’قائد اعظم کی تقاریر وبیانات‘‘ انگلش اور اردو، دونوں زبانوں میں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے حقیقت خود عیاں ہوتی ہے- قائد اعظم نے ۱۹۳۹ء میں مانچسٹر گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے آزادی کی وضاحت یوں فرمائی:-
’’برطانوی عوام اس پروپیگنڈے سے گمراہ ہوسکتے ہیں کہ مسلمان ہند کی آزادی کے خلاف ہیں- ہم آزادی اور خودمختاری کے خواہاں ہیں لیکن سوال یہ کہ کس کی آزادی اور کس کی خود مختاری؟ ’’مسلم ہند‘‘ آزاد ہونا چاہتا ہے اور خودمختاری سے پورے طور پر لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور اپنے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی اداروں کو اپنی صوابدید کے مطابق ترقی دینا چاہتا ہے اور مغلوب ہونا اور کچلا جانا نہیں چاہتااور ’’ہندو انڈیا‘‘ کی بھلائی چاہتے ہوئے اسے بھی ایسا کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کرنا چاہتا ہے- (۴)
آپ نے سیاسی آزادی کو مطلق اور بے معنٰی آزادی نہیں کہا بلکہ اسے اسلام اور اسلامی جذبہ کی تکمیل کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے فرمایا:-
’’تمام معاشرتی اصلاح اور سیاسی آزادی کا تمام تر انحصار ایسی چیز پر ہونا چاہیے جس کے زندگی میں زیادہ گہرے معنی ہوں اور اگر آپ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں (تو حقیقت میں) یہی اسلام اور اسلامی جذبہ ہے-‘‘ (۵)
معزز قارئین! اب قائد اعظم کے ۱۱، اگست ۱۹۴۷ء کے الفاظ بھی ملاحظہ کریں کہ قائد اعظم نے کس قسم کی آزادی کی بات کی تھی، آپ نے فرمایا:-
You are free, you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other places of worship in this state of Pakistan.......(6)
’’آپ آزاد ہیں: گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، مساجد میں جانے لیے آزاد ہیں، آپ پاکستان میں کسی بھی عبادت خانہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں---‘‘
قائد اعظم نے مذہبی آزادی کی بات کی ہے کسی مادر پدر آزادی کی بات نہیں کی، آپ نے عبادت خانوں (Places of worship) میں جانے کی آزادی دی ہے کسی جم خانہ، نائٹ کلب یا پب بنانے اور اس میں جانے کی آزادی نہیں دی-
آزادی کے متعلق جو غلط فہمی آج پھیلائی جارہی ہے یہ جدوجہدِ آزادی کے دوران بھی پیدا ہوئی تھی اور اِمکان تھا کہ نوجوان نسل اس سے گمراہ ہوجاتی، آپ نے کھلے لفظوں آزادی کی وضاحت کرتے ہوئے ۱۹۴۵ء میں نوجوان طلباء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:-
’’پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظریہ بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمائے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم امید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے-‘‘ (۷)
۱۹۳۹ء میں مانچسٹر گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم نے جس’’ صوابدید‘‘ کا تذکرہ کیا تھا، آٹھ سال بعد ۱۹۴۷ء میں اس کی وضاحت بھی فرما دی اور ساتھ ساتھ اپنی پوری جدوجہد کا خلاصہ بھی کردیا تاکہ پاکستان کے متعلق کسی کو کسی قسم کی غلط فہمی نہ رہے- آپ نے فرمایا:-
’’قیام پاکستان، جس کے لیے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں- تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیںجسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری ہوں-‘‘ (۸)
نوٹ: (قائد اعظم کی ۱۱، اگست کے خطاب کا میثاقِ مدینہ سے موازنہ اور قائد کے پاکستان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آرٹیکلز بعنوان ’’قائد اعظم اور میثاقِ مدینہ‘‘ اور ’’قائد اعظم کے آخری ۳۹۲ دن‘‘ ملاحظہ کریں جو ماہنامہ ’’مرأۃ العارفین ‘‘کے اگست ، ستمبر ۲۰۱۳ء کے شماروں میں شائع ہوئے جن کی انگلش ٹرانسلیشن کے لیے حوالہ نمبر (۹) وزٹ کریں)
ان بیانات سے عیاں ہے کہ قائد اعظم کا فلسفۂ آزادی قرآن مجید کے اغراض و مقاصد کے عین مطابق تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
’’بے شک جن لوگوں کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (کفر و فسق کے ماحول میں رہ کر ) اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں (تو) وہ فرشتے ان سے دریافت کرتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ (کہ تم نے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کیوں نہیں کی) وہ (معذرۃً) کہتے ہیں کہ ہم زمین میں بے بس اور کمزور تھے- فرشتے (جواباً) کہتے ہیں: کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں کہیں ہجرت کرجاتے (یعنی کسی آزاد وطن میں آجاتے جہاں اپنی مرضی سے اللہ کے احکامات کی تکمیل کرتے) سو یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے-‘‘ (۱۰)
فرشتوں کے اس پیغام سے ظاہر ہے کہ کفر و فسق کے ماحول سے ہجرت اور آزادی فقط ایمان اور دین کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے نہ کہ عیاشی کے لیے- ہمیں ۲۷ رمضان المبارک کو آزاد سلطنت کا ملنا، بانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے دن پاکستان کی بنیاد رکھا جانا، سلطان الفقر ششم کا امتِ مسلمہ بالخصوص پاکستانیوں کی اِصلاح کا بیڑا اٹھانا، یہ انعامات اس بات کی علامات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خطہ عیاشیوں کے لیے نہیں دیا بلکہ اپنے ایمان کی حفاظت اور دین کی اشاعت کے لیے عطا کیا ہے- پاکستان حاصل کرتے وقت ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ہوگا اس لیے قرآن کے علاوہ پاکستان کا نہ کوئی منشور ہے ، اسلام کے علاوہ پاکستان کا نہ کوئی وجود ہے اور محبتِ رسول ﷺ کے علاوہ پاکستان کا نہ کوئی مقصود ہے-
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اپنے حصے کا کام کرکے سرخرو ہوگئے جبکہ ہم نے آزادی کو کیا سمجھا اور ہم کس قسم کی آزادی منارہے ہیں؟ دنیا کی ہر قوم کسی نہ کسی اصول و ضابطہ کی پابندہوچکی ہے لیکن ہماری سڑسٹھ سالہ تاریخ ہمارے عمل و کردار کی گواہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ملک کا آئین توڑنے کی آزادی ہے، سیاستدان کو منافقت کرنے کی آزادی ہے، وکیل کو مجرم کا دفاع کرنے کی آزادی ہے، جج کو انصاف فروخت کرنے کی آزادی ہے، مذہبی ملّاں کو دین فروخت کرنے کی آزادی ہے، سیکولر ملّاں کو شر پھیلانے کی آزادی ہے، کالم نگار کو جھوٹ بولنے کی آزادی ہے، صحافی کو ضمیر فروشی کی آزادی ہے، چور کو چوری کی آزادی ہے، ڈاکو کو ڈاکہ زنی کی آزادی ہے، پولیس کو رشوت لینے اور کسی کو جان سے مارنے کی آزادی ہے، ڈاکٹر کو کسی مجبور مریض سے من مانی فیس لینے اور بِلا ضرورت آپریشن کی آزادی ہے، معلم کو تعلیم فروخت کرنے کی آزادی ہے- علامہ اقبال نے ایسی آزادی سے خبردار کیا:-
مسلمی؟ آزادِ این زُنّار باش
شمعِ بزمِ ملّتِ احرار باش (۱۱)
’’کیا تم مسلمان ہو؟ اگر ہو! تو اِس زُنّار سے آزاد ہوجائو، آزاد ملّت کی رونقِ محفل بن جائو-‘‘
یعنی کیا تم آزاد ہو؟ کیا تمہیں گناہ کرنے سے رہائی مل گئی ہے؟ کیا تم جھوٹ بولنے سے آزاد ہوگئے ہو؟ کیا تم نفسانی خواہشات کی غلامی سے آزاد ہوگئے ہو؟ ۱۴، اگست ۱۹۴۷ء کو تم آزاد ہوگئے ہو تو کیا ساری برائیاں چھوڑ سکتے ہو؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ہمیں آزادی کی خوشیاں منانے کا حق حاصل ہے اگر جواب نفی میں ہے تو پھر یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ ابھی تک ہم آزادی کے حقیقی مقصد تک نہیں پہنچے، ہماری منزل ادھوری ہے، ہم ۱۴، اگست ۱۹۴۷ء سے ادھوری آزادی کا ادھورا جشن منا رہے ہیں، ہمیں سلطنت آزاد مل گئی لیکن ہمیں خود بھی آزاد ہونا ہے- ۱۹۴۷ء میں ہم نے یورپی سامراج اور ہندو سامراج کو شکست دی تھی- ہمارا پہلا جشنِ آزادی فقط اسی فتح کا جشن تھا- پھر ہم نے اشتراکی سامراج کی شکست و ریخت میں بھی کردار ادا کیا لیکن آج ہمیں ایک نئے سامراج کی غلامی کا سامنا ہے جسے ’’سودی بینکاری / سرمایہ دارانہ سامراج‘‘ کہتے ہیں اس کی غلامی سے آزادی کے بعد ہی ہماری حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہوگا-
یاد رہے کہ ہماری منزل وہ آزادی ہے جو ایک مومن کو حاصل ہوتی ہے ، جو ایک بندے کو زمین سے اٹھا کر عرش پر لے جاتی ہے، جو بندے کو خدا کے روبرو کردیتی ہے، جو ایک غلام کو آقا سے بات کرنے کی جرأت پیدا کردیتی ہے- (جاری ہے---)
حوالہ جات:-
(۱) (غلامی : اس کے نفسیاتی پہلو اور اسلام کا ردِّ عمل، از ابو مسلم صحافی، مکتبہ راوی، بندر روڈ کراچی، اشاعت اوّل، ۱۹۷۲ء)
(۲) (http://abolition.e2bn.org/slavery_45.html)
(۳) (۲۶تا ۲۹، دسمبر ۱۹۳۸ء، قائد اعظم، تقاریر و بیانات، بزمِ اقبال کلب روڈ لاہور)
(۴) (۲۵، اکتوبر ۱۹۳۹ء کو ہند میں جمہوریت کے سوال پر مانچسٹر گارڈین کو دیا گیا انٹرویو،قائد اعظم، تقاریر و بیانات)
(۵) (یوم عید پر نشری تقریر: آل انڈیا ریڈیو، بمبئی ۱۳، نومبر ۱۹۳۹ء، قائد اعظم، تقاریر و بیانات، بزمِ اقبال کلب روڈ لاہور)
(۶) (Speeches, Statements & Messages of The Quaid-e-Azam, V:4,P:2604, Bazm-e-Iqbal, Lahore)
(۷) (صوبہ سرحد، مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے نام پیغام: ۱۸ جون ۱۹۴۵ء،قائد اعظم، تقاریر و بیانات، بزمِ اقبال کلب روڈ لاہور)
(۸) (سول، بحری، بری اور فضائی افواج کے افسروں سے خطاب: کراچی، ۱۱ ، اکتوبر ۱۹۴۷ء، قائد اعظم، تقاریر و بیانات)
(۹) (http://www.muslim-institute.org/PublicationList?publication=1/Opinion-Piece)
(۱۰) (سورۃ النساء آیت ۹۷)
(۱۱) (علامہ اقبال ،اسرار خودی، الوقت سیف)