جو شمشیر کے سائے کلمہ پڑھیں گے جو راہ ِ خدا میں فدا سر کریں گے عَلَم حق کا لے کر جو آگے بڑھیں گے لگن میں رضائے خدا پر چلیں گے
انہیں آتش غم جلاتی نہیں ہے یہ مٹی وجود ان کے کھاتی نہیں ہے
فقط اپنے رب کی مدد کو پکاریں جو چاہے خدا ویسے عمریں گزاریں جو جان اپنی رستے میں اللہ کے واریں وہی دیکھتے ہیں ازل کی بہاریں
کوئی خوف کب تھا کہ مر جائیں گے ہم کہ چالوں سے باطل کی ڈر جائیں گے ہم
سمے جیسا، رفتار جیسی بھی ہو گی شقاوت کی تلوار جیسی بھی ہو گی یہ دنیا زیاں کار جیسی بھی ہو گی شرر پھانکتی نار جیسی بھی ہو گی
کوئی شئے انھیں توڑ سکتی نہیں ہے منازل سے بھی موڑ سکتی نہیں ہے
منازل کی خاطر مسلسل چلے ہیں ہیں جذبے حسیں تو جواں حوصلے ہیں کہاں ایک پل راہ میں یہ رُکے ہیں کُجا جسم زخموں سے پھٹتے رہے ہیں
منازل ملیں شُکر رب کا کیا ہے اِسی بات سے اُن کا شُہرہ ہوا ہے
ہے ایماں کی طاقت بھی ان کی مثالی, حمیت بھی جرات بھی ان کی مثالی ہے بندوں سے الفت بھی ان کی مثالی یہ سب شان و شوکت بھی ان کی مثالی
نہیں تھکتے غازی سفر کاٹتے ہیں یہ اعداء کے جسم و جگر کاٹتے ہیں
لہو سے اگرچہ ہوں لت پت جبینیں کریں تنگ اعدا پہ یہ سرزمینیں اترتی نہیں ان کے گھوڑوں سے زینیں یہ تقدیر کے منہ سے مقصد کو چھینیں
رہے حق کا پرچم بہت سر بلند عجم ہو عرب ہو کہ وہ تاشقند
ستم سے کریں پاک ساری زمیں بھی رہیں ہر گھڑی اپنے رب کے قریں بھی رہیں چین سے واں کے سارے مکیں بھی چلے سب قبیلوں میں باد ِ حسیں بھی
ہیں مظلوم جتنے وہ سب شاد ہوں گے بلاؤں سے دور اور آباد ہوں گے
چمکدار سینے بھی قرآن سے تھے یہ عجز و فقیری بھی عرفان سے تھے اُسی کی حقیقت سے پہچان سے تھے جُڑے جتنے بھی حق کی میزان سے تھے
یہی علم کے قدرداں تھے زمیں پر تمام اہل فن یک زباں تھے زمیں پر
انھیں صرف الفت ہی تلوار سے تھی بہت تیز گھوڑوں کی رفتار سے تھی مخالف پہ دہشت تو للکار سے تھی اجل کانپتی ان کی یلغار سے تھی
جبیں دشمنوں کی جو کٹتی نہیں تھی تو شمشیر تب تک پلٹتی نہیں تھی
میسر جنھیں باطنی بال و پر تھے بہت دُور تک دیکھتے با بصر تھے مثال اپنی خود صاحبانِ ہنر تھے وہ شہرت میں حامل بہت باخبر تھے
جری ارتغل جیسے جن کو ملے تھے عَلَم دشمنوں کے سبھی گر پڑے تھے
جواں ارطغل جیسا غازی چلا ہے اگرچہ بلاؤں سے پالا پڑا ہے عدو پر اجل بن کے چھایا رہا ہے کوئی اس سے بچ کر کہاں جاسکا ہے
زمانے کے مظلوم سب بچ گئے ہیں کہ گھر ان کے خوشیوں سے سج دھج گئے ہیں
انھیں ارطغل نے نئی روشنی دی جو ڈوبی تھی غفلت میں اُمت نبی (ﷺ) کی تڑپنے کی ان میں نئی روح پھونکی کہا چھوڑ دو سست رو زندگی بھی
وہ بے لوث جو خادمِ حق ودیں ہے کوئی غازی اس جیسا ملتا نہیں ہے
پسر ارطغل کا وہ عثمان غازی اخوت سے لبریز ذیشان غازی یتیموں کے دکھ کا وہ درمان غازی محبت کا پیکر وہ سلطان غازی
محبت سے آقا (ﷺ) کی دل با حیا تھا نہ تھا کوئی لالچ بہت بے ریا تھا
اُسی کا ہر اک سمت ڈنکا بجا تھا وہ مغرب کہ مشرق ہو ہر ایک جا تھا ہر اک ٹوٹتے دل کا وہ حوصلہ تھا جہاں عشقِ حق سے معطر ہوا تھا
گزرتے تھے دن گھڑ سواری میں انکے تو لمحاتِ شب گریہ زاری میں ان کے
ہمارے قدم اب لرزنے لگے ہیں کہ امت کے تیور بگڑنے لگے ہیں مسلمان آپس میں لڑنے لگے ہیں عذاب آسماں سے اترنے لگے ہیں
مگر خوابِ غفلت میں ڈوبی ہے امت سکوں چھن گیا ہے کہاں ہے وہ راحت
سبھی کارواں حق کے لُوٹے گئے ہیں دلوں سے حیا کے جنازے اٹھے ہیں دیئے جُہدِ حق کے بھی بجھنے لگے ہیں لیے کام خالق نے بوزداغ سے ہیں
اُٹھا شور پھر شہر ِ سوغوت سے ہے فنا مقصدِ غازی کب موت سے ہے
چراغِ یقیں جگمگانے لگا ہے جوانوں کو جذبہ دلانے لگا ہے انھیں پھر خدا یاد آنے لگا ہے چمن آس کا لہلہانے لگا ہے
ابھی لوگ زندہ ہیں عثمان سے بھی جیئیں سر اٹھا کر جو اس شان سے بھی
قُدُس کو چھڑائیں گے کفار سے ہم یہ کشمیر مودی کی یلغار سے ہم نہیں کام لیں گے یہاں پیار سے ہم لڑیں گے تو حیدر کی تلوار سے ہم
ملے ارتغل جیسا رہبر ہمیں بھی تو سنت پہ اسلاف کی پھر چلیں بھی
ستم کے یہ سب سائے اک دن چھٹیں گے نہ فرقوں کی تلوار سے ہم بٹیں گے جو مشکل ہیں وہ راستے سب کٹیں گے سبھی دشمنوں کے کلیجے پھٹیں گے
فقط عزم و ہمت سے پرواں چڑھے گا یہ حق کا سفر ہم سے آگے بڑھے گا
سبھی کا تُو مالک ہے کر دستگیری ہمیں کھا گئی خواہشوں کی اسیری کہاں چھن گئی ہے ہماری فقیری کہاں کھو گئے رومی، جامی، نظیری
الہٰی ہمیں پھر سے بیدار کر دے فقیری کی دولت سے سرشار کر دے
|