اللہ تعالیٰ کے نزدیک عالم اور جاہل برابر نہیں ہیں- علم انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز و منفرد کرتی ہے- علم اور مطالعہ ایک دوسرے سے براہِ راست تناسب رکھتے ہیں اور یہ تناسب ہمیں دینِ اسلام کے ابتدائی دور میں بخوبی نظر آتا ہے- قرآن مجید کی پہلی وحی ’’اقراء‘‘کا نزول اور جنگِ بدر کے قیدیوں کو رہا کرنے کی شرط ناخواندہ لوگوں کو علم کی دولت سے بہرور کرنا اس کے شواہد ہیں- علم کے فروغ کی قدیم ترین ’’روشن کتاب‘‘ہے- اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیھم السلام) پر جو وحی نازل فرمائی وہ کتاب و صحائف کی صورت میں محفوظ کی گئیں- کتاب دراصل نقلِ لوحِ محفوظ ہے اور اس دورِ جدید میں بھی ذخیرہ علم اور انتقالِ علم کا بلا شبہ بہترین اور عمدہ ذریعہ ہے- علم دوست معاشرے کی ایک واضح نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس معاشرے کے افراد اپنا بہترین دوست کتاب کو بناتے ہیں- وہ اپنے روزمرہ کے عوامل سے فارغ ہو کر اپنا وقت فضول گوئیوں اور بے مقصد کاموں میں رائیگاں نہیں جانے دیتے بلکہ علم کی شمع جلا کر وہ کتب بینی میں وقت صرف کرتے ہیں- اہلِ ذوق کا عالم تو یہاں تک ہے کہ ان کے اپنے گھروں میں ہی مکمل کتب خانے موجود ہیں- مگر آج ذوق نوحہ خواں ہے کہ ان کی تعداد میں فرداً فرداً کمی واقع ہوتی جارہی ہے-
پاکستان اور کتب خانے:
پاکستان میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتب خانے موجود ہیں جن میں لاکھوں کروڑوں کتابیں شیلف میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہی ہیں- ان کو پڑھنے والے لوگ کہاں ہیں؟ صرف 1990ء میں پاکستان میں 1700ء سے زائد کتب خانےموجود تھے- جس میں ان 30 سالوں میں بے شک بہت اضافہ ہوا ہے-
جو قوم اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے، تاریخ اسے بھلا دیتی ہے- پاکستان کی سر زمین مکتبی تاریخی ورثہ رکھتی ہے جسے شائقینِ علم و دانش نے کتب بینی سے جِلا بخشی ہے لیکن عصرِ حاضر میں اس قوم کے نوجوانوں میں کتاب پڑھنے کا ذوق و شوق عدم توجہی کا شکار ہے- بین الاقوامی ابلاغی ادارہ بی بی سی (اردو)، نیشنل لائبریری آف پاکستان کے متعلق لکھتے ہیں:
’’پاکستان کی اس جدید ترین لائبریری میں کوئی ڈیڑھ لاکھ کتب کا ذخیرہ ہے- مطالعے کا ذوق رکھنے والوں کے لیے چار بڑے ہال ہیں جو بیک وقت پانچ سو افراد کو وہیں پر کتب بینی کی سہولت فراہم کرتے ہیں- لیکن یہ کیا کہ کتابیں تو ہیں مگر پڑھنے والے نہیں‘‘-[1]
ادارے کی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد میں تقریباً 30 سے 35 لوگ روزانہ کی بنیاد پر لائبریری آتے ہیں- جن میں سے بھی اکثر محقق ہوتے ہیں- یا وہ جو سی ایس ایس کی تیاری کررہے ہوتے ہیں- نوجوان طبقہ کی عدم دلچسپی پر کتب خانوں میں موجود یہ نایاب خزانہ صدہا افسوس کرتا ہے اور گریہ زاری کرتا ہے- لیکن یہ حال فقط ایک کتب خانے تک محیط نہیں ہے بلکہ اگر صرف جامعات کی لائبریریوں کا رُخ کیا جائے تو آٹے میں نمک کے برابر تعداد بھی لائبریری میں نظر نہیں آتی ہے-
کسی بھی معاشرے کی بنیاد اسی وقت مضبوط و مستحکم ہوتی ہے جب اس میں علم کا بیج بویا جاتا ہے- مگر بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں کا ارتکاز علمی خزانے سے متضاد ہے- اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 59 فیصد ہے-[2]
جن میں سے کچھ ہی فیصد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے جامعات تک کا سفر طے کرتے ہیں- لیکن کُل کی بات کی جائے تو ان میں سے صرف 27 فیصد شرح ان لوگوں کی ہے جو کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں- [3]
کتب بینی اور چند ارشادات:
مفکر اسلام علامہ محمد اقبالؒ نے جب ورثہ اسلامی کو مغرب کی دیواروں میں مقید پایا تو ان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا- جو علوم و فنون کی بہترین کتب ہمارے اسلاف نے رقم کیں وہ مغربیوں کے لیے استفادے کا باعث بن رہیں ہیں اور ہم اپنے ہی ورثے سے لاتعلق ہیں- جس کی وجہ سے ترقی اور وقار دونوں ہی ہم سے چھین لیے گئے ہیں- اقبال ’’خطاب بہ جوانان اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی |
مطالعہ انسانی ذہن کی بند گرہ کو کھولتا ہے اور شعور بیدار کرتا ہے جس سے انسان معاشرے کا کار آمد فرد، قوم کا ہونہار سپوت اور رازِ نکتہ سے واقف ہوتا ہے- اچھی علمی کتاب کا مطالعہ ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان کو کسی بھی نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا- بلکہ اہلِ دانش کے نزدیک کتاب سے بہترین اور کوئی دوست نہیں ہوتا-
سرور علم ہے کیفِ شراب سے بہتر |
کتاب کے مطالعے سے انسان مختلف شخصیات کے خیالات سے استفادہ حاصل کرتا ہے- کتاب بینی قوموں کا عروج و زوال تک متعین کرسکتی ہیں- ایوب بن شجاع کہتے ہیں :
’’میں نے اپنا غلام عبد اللہ اعرابی کے پاس انہیں بلانے کے لیے بھیجا- غلام نے واپس آکر کہا: میں نے انہیں اطلاع تو کر دی ہے لیکن وہ کَہ رہے تھے میرے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہیں، ان سے فارغ ہوکر آتا ہوں حالانکہ وہ کتابوں کے مطالعہ میں مصروف تھے- کتابوں کے سوا وہاں کوئی نہ تھا‘‘-[4]
برطانوی تاریخ دان تھومس میکالے کے مطابق کتاب کا مطالعہ کرنا انسان کو مُردوں (مرحوم مصنفین) سے بات چیت کرنے سے ان کے خیالات جاننے کا موقع فراہم کرتا ہے-
’’مَیں کتاب پڑھنا اس لیے پسند کرتا ہوں کیونکہ کتاب پڑھنے سے مردوں سے بات کی جاسکتی ہے اور غیر حقیقی دنیا میں زندہ رہا جاسکتا ہے‘‘- [5]
فرانسیسی لیڈر نپولین بونا پارٹ کتب بینی کے متعلق رائے رکھتے ہیں کہ جو لوگ مطالعہ کتب کرتے ہیں وہ ذہنی طور پر اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ دنیا کی باگ دوڑ سنبھال سکیں-
’’آپ مجھے قارئین کا خاندان دکھائیں اور میں آپ کو ایسے لوگ دکھاؤں گا جو دنیا تبدیل کرسکتے ہیں‘‘-[6]
امریکی مصنف رے بریڈ بیوری کا نظریہ ہے کہ:
’’کسی ثقافت کو ختم کرنے کے لیے آپ کو کتابیں جلانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کتاب پڑھنے والوں کو کتاب پڑھنے سے روک دیں‘‘-[7]
امریکی ناول نگار جارج مارٹن کتابوں کے مطالعے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جو شخص کتابیں پڑھتا ہے وہ ہزاروں زندگیاں جیتا ہے جبکہ نہ پڑھنے والا شخص صرف ایک زندگی جیتا ہے‘‘-[8]
نوجوانوں کی کتب بینی سے دوری کیوں؟
اکثر نوجوان کہتے ہیں کہ کتابیں خریدنا عام انسان کی گرفت سے نکل چکا ہے- کتابوں کی رقم بہت زیادہ ہوتی ہیں-
سوشل میڈیا کا بے وجہ اور بے مقصد استعمال آج ہماری نوجوان نسل کو کتابوں سے دور کیے ہوئے ہے-
تعلیمی اداروں میں اکثر اساتذہ اور انتظامیہ کا پرزور اسرار نہ ہونا، طلبہ کو کتب خانوں سے دور کیے ہوئے ہے- استادوں کے زور نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اساتذہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور چند ایک ہی کتب بینی سے انصاف کرتے ہیں -
گھروں میں کتابوں، رسالوں اور اخباروں کا مطالعہ نہ کرنے کا رواج بھی نوجوانوں پر برا اثر مرتب کرتا ہے-
کیا کتاب کا کوئی نعم البدل ہے؟
اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کتاب کے مقابلے میں زیادہ کارآمد ذریعہ ہے- لیکن اس بات سے کوئی انکار بھی نہیں ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں غلطی اور ابہام کی گنجائش کافی ہے جبکہ کتاب مرتب کرتے وقت مصنف ان باریکیوں کا بخوبی خیال رکھتا ہے- البتہ جدید دور میں کتابوں کو اسکرین میں بند کردیا گیا ہے- فی زمانہ جو لوگ کتب خانوں میں نہیں جاتے یا کتابوں کے صفحات الٹنے پلٹنے سے گریز کرتے ہیں ان کے لیے ای-بکس اور ڈیجیٹل لائبریری موجود ہیں- مقصد کتاب پڑھنا اور علم حاصل کرنا ہے- لیکن تحقیق کہتی ہے کہ اسکرین کے مقابلے میں صفحات انسانی ذہن کیلئے زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں- اکثر نوجوانوں میں یہ بات مشاہدہ کی گئی ہے کہ وہ سماجی ویب سائیٹس پر اپنا وقت صرف کرنا کتاب پڑھنے سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں لیکن انسانی ذہن گنجان عنوانات اور یکسر مختلف سمتوں سے دوڑتے آتے علوم و معلومات کو تادیر محفوظ رکھنے سے عاری رہتا ہے-
حرفِ آخر:
اسلاف کی سنت پر عمل کرکے آج ہم اپنے معاشرے کو بہتر انداز میں تشکیل دے سکتے ہیں- علم و آگہی کے مرکز یعنی کتاب کو اپنا رفیق بنا کر ہم دنیائے علم کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر کئی اہم اور بیش بہا موتیوں کو اخذ کرسکتے ہیں- دنیا خواہ ترقی کرتے کرتے کتنے ہی نئے طریق ایجاد کرلے لیکن کتاب کا نعم البدل کوئی نہیں ہوسکتا- اگر ہم تہیہ کریں کہ روزانہ کم از کم ایک یا دو صفحات کا بھی مطالعہ کریں گے تو یہ عادت مستقبل میں ہمیں عقیل، فہیم، علیم کی صفات سے متصف کردیں گی- ورنہ:
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے |
٭٭٭
[1]https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/11/printable/031107_library_islamabad_as.shtml
[2]https://www.statista.com/statistics/572781/literacy-rate-in-pakistan/
[3]https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&url=http://gallup.com.pk/wp-content/uploads/2016/06/8-4-091.pdf&ved=2ahUKEwj--LKUz53pAhVRhRoKHTeyCYsQFjABegQIDBAH&usg=AOvVaw00sXI9pzxG7vpndxkUYR8t
[4]http://www.dailyqudrat.pk/110692/?amp
[5]https://www.keepinspiring.me/quotes-about-books-and-reading/
[6]https://www.goodreads.com/quotes/27871-show-me-a-family-of-readers-and-i-will-show
[7]https://www.washingtonpost.com/blogs/arts-post/post/ray-bradbury-dies-favorite-quotes-from-the-fahrenheit-451-author/2012/06/06/gJQAGhIoIV_blog.html
[8]https://www.google.com/amp/s/quoteinvestigator.com/2018/11/02/reader/amp/