دنیا بھر میں کم و بیش200کے قریب ممالک موجود ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ طویل سرحدوں کے ذریعے جڑیں ہوئے ہیں- سرحدوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک ہزاروں افراد کی تاریخ، ثقافتی، مذہبی اور معاشی رشتوں سے بھی جڑے ہوئے ہیں-ان میں کچھ ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے بڑی بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں- برصغیر میں بننے والی سرحدیں برطانوی نوآبادیاتی دور کا ورثہ ہیں اور آج تک اس خطے کے لیے تنازعات کا باعث بنی ہوئی ہیں-
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برصغیر برطانوی غلامی سے آزاد ہوا تو یہ خطہ بہت سے تنازعات کا شکار ہوا-برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہونے والے مسائل جیسا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازعہ،بھارت کا چین،نیپال اور بھوٹان کے ساتھ سرحدی تنازعات وغیرہ آج بھی موجود ہیں- زیر نظر مضمون میں حالیہ بھارت چین سرحدی کشیدگی، اس تنازعہ کا آغاز، لداخ اور ملحقہ علاقوں کی دفاعی اہمیت، بھارت اور چین کا مؤقف، بدلتی ہوئی علاقائی و بین الاقوامی صورت حال اور اس تنازعے کے خطے پر ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے-
لداخ کا تاریخی پس منظر:
لداخ بھارت کے زیر قبضہ ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کا ایک متنازع علاقہ ہےجس کی سرحدیں مشرق میں چین کے علاقے تبت، جنوب میں ہماچل پردیش، مغرب میں جموں اور شمال میں چین سے اور جنوب مغرب میں پاکستان سے ملتی ہیں- تاریخی طور پر 1834ء (سکھ دور) میں گلاب سنگھ نے لداخ کو فتح کیا اور ریاستِ کشمیر کا حصہ بنایا-پہلی اینگلو - سکھ جنگ کے بعد 16 مارچ 1846ء کو تاج برطانیہ اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان ایک ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں لداخ کا علاقہ بھی شامل تھا-تقسیم برصغیر تک لداخ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہا ہے- جب 3 جون 1947ء کے منصوبے کے تحت تقسیم برصغیر کا اعلان ہوا تو برصغیر کی چھوٹی بڑی کم و بیش 560 ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتی ہیں یا بھارت میں-ریاست جموں و کشمیر جو کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی اور اصولاً عوام کی خواہش کے مطابق اسے پاکستان میں شامل ہونا تھا مگر ہندوؤں کی سازش اور مہاراجہ کے غیر قانونی فیصلے کی وجہ سے ریاست میں بغاوت نے جنم لیا اور ریاست کئی حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی- 24 اکتوبر 1947ء کو کشمیریوں نے ریاست کا بڑا حصہ کنٹرول کر لیا اور مہاراجہ کے سری نگر سے جموں بھاگ جانے کے بعد ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا مگر بھارتی قبضے کے بعد ریاست نے سمٹ کر موجودہ آزاد کشمیر کی صورت اختیار کر لی- یکم نومبر کو گلگت ایجنسی بشمول بلتستان کے لوگوں نے اپنے علا قے کو مہاراجہ کی فوج سے آزاد کروایا اور گلگت اور بلتستان میں تبدیل کر دیا-لداخ، وادی کشمیر، جموں اور پونچھ پر بھارت نے س27اکتوبر 1947ء کو غیر قانونی قبضہ کر لیا-
بھارت چین سرحدی تنازعہ:
بھارت اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات 1950ء میں شروع ہوئے-بھارت چین کا سرحدی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب بھارتی وزیر اعظم جے ایل نہرو نے 1954ء میں بھارت کے ایسے نقشے شائع کرنے کے احکامات دیے جن میں برطانوی دور میں پھیلی ہوئی سرحدوں کو بھی بھارت میں شامل دکھایا گیا- خاص طور پر اس میں اکسائی چن کو بھی شامل کرلیا اور اس اقدام کی وجہ سے برسوں سے قائم جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہوگیا-اپنے اس دعوے کو تقویت پہنچانے کے لیے بھارتی پریس نے کھلے عام تبت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا- اس کے بعد سے چینی قیادت کی نظر میں خطے سے متعلق نہرو کے عزائم مشکوک ہوگئے- اگست 1959ء میں چینی فوج نے مک ماہن لائن (McMahon Line)کے شمال میں لونگجو کے مقام پر بھارتی چوکی اپنے قبضے میں لے لی- جس کو چائنہ غیر قانونی سمجھتا ہے-24اکتوبر 1959ء کو چو این لائی نے نہرو کے نام ایک خط میں دونوں ممالک کی افواج کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC)سے 20کلومیٹر پیچھے ہٹنے کی تجویزپیش کی-اس تجویزکو قبول کرنے کی بجائے نہرو نے جارحانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اس علاقے پر اپنا حق جتانے کی خاطر نومبر 1961ءمیں LAC کے شمال میں چینی حدود کے اندر مزید 43 چوکیاں تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا- یہ غیراعلانیہ پالیسی تھی اور نہرو کا اپنا عملہ اس اقدام سے متفق نہیں تھا- اسی بنا پر 1962ءمیں بھارت اور چین کے مابین جنگ ہوئی جس میں بھارت کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا-
1962ء میں بھارت کی بدترین شکست کے بعد دونوں ممالک کے درمیان 1993ء، 1996ءاور 2005ء میں بارڈر مینجمنٹ پر معاہدے ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک سرحدی علاقوں کی نشاندہی نہیں ہوسکی ہے- دونوں ممالک کی افواج کے درمیان پٹرولنگ کے وقت کئی مرتبہ شدید جھڑپیں ہو چکی ہیں جن میں سب سے اہم جھڑپ 2017ء میں دونوں ممالک کے مابین ڈوکلام (Doklam ) کے علاقے میں ہوئی تھی- یہ کشیدگی73دن جاری رہ چکی ہے- اُس وقت بھوٹان کی سرحد کے ساتھ بڑی چینی فوج کی تعداد میں بڑا اضافہ کیا گیا تھا-
5 آگست 2019ء کو بھارت کی فاشسٹ مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو یک طرفہ طور پر ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے جموں و کشمیر اور لداخ(Ladakh ) کو اپنے یونین علاقوں ( Union Territories ) میں تبدیل کردیا جس پر ناصرف پاکستان بلکہ چائنہ نے بھی اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا- بھارت اور چین کے مابین سرحدی لائن کو لائن آف ایکچیوئل کنٹرول (LAC) کہتے ہیں-LAC ایک سرحدی حد بندی ہے جو ہندوستان کے زیر کنٹرول علاقے کو چینی زیر کنٹرول علاقوں سے الگ کرتی ہے- بھارت LAC کو 3488 کلومیٹر لمبا سمجھتا ہے جبکہ چینی اس کو صرف 2000 ہزار کلومیٹر سمجھتے ہیں- LAC کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: مشرقی سیکٹر جو اروناچل پردیش اور سکم، ریاست اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کا درمیانی سیکٹر اور لداخ میں مغربی سیکٹر پر پھیلی ہوئی ہے-
بھارت کا دعویٰ:
بھارت لداخ کے شمال میں واقع اکسائی چن پر اپنا دعویٰ کرتا ہے جو کہ 1962ء کی بھارت چین جنگ کے بعد چین کے مکمل زیر انتظام آگیا تھا-اسی طرح اروناچل پردیش بھی بھارت کے زیر انتظام ہے-
چین کا دعویٰ:
اکسائی چن میں چین کے علاقوں تبت اور سنکیانگ کے درمیان اہم ترین شاہراہ اسی علاقے سے گزرتی ہے جس کے باعث یہ چین کیلیے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے اور چائنہ اکسائی چن کو اپنے صوبے سنکیانگ کا حصہ تسلیم کرتا ہے - اسی طرح چین اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے جو کہ انڈیا کے زیر انتظام ہے-میکموہن لائن ایک ایسا خط ہے جو تبت اور اروناچل پردیش کو جدا کرتا ہے- چائنہ اس لائن کو غیر قانونی سمجھتا ہے- لیکن کبھی بھی سرکاری سطح پہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقوں کی نشاندہی نہیں ہو سکی ہے -
حالیہ بھارت چائنہ کشیدگی:
ابتدائی طور پر چائنہ انڈیا کشیدگی مئی کے آغاز میں شروع ہوئی تھی-5 مئی 2020ء کو لداخ کے ہمالیہ کے قریب سطح سمندر سے 14000 فٹ (4270 میٹر) سطح پر واقع پینگانگ سو جھیل (Pangong Tasu Lake) پر ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے مابین ایک جھگڑا ہوا-اسی طرح کا ایک اور واقعہ 9 مئی کو مشرق میں سکم کے ناکولا درہ (Naku La Pass) علاقے میں پیش آیا تھا اور شدید چھڑپیں ہوئیں- چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق لداخ میں وادی گلوان (Galwan Vally) کے مقام پر اس وقت یہ کشیدگی شروع ہوئی جب انڈیا نے اس علاقے میں دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کی ہیں- جس کی وجہ سے چین کو وہاں فوجی تعیناتی میں اضافہ کرنا پڑا ہے- گلوبل ٹائمز نے یہ بھی لکھا ہے کہ وادی گلوان ایک چینی علاقہ ہے اور انڈیا کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے انڈیا اور چین کے مابین سرحدی امور سے متعلق معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے-
میڈیا رپورٹس کے مطابق لداخ میں پینگانگ سو، گلوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے - گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چین اور بھارت کے مابین سرحدی کشیدگی کے دوران چین کی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) نے ایک بڑے پیمانے پر شمال مغرب ہوبائی صوبے سے دور کافی بلندی پر آرمی آپریشن کا انعقاد کیا ہے جس میں ہزاروں پیراٹروپر اور بکتر بند گاڑیاں شامل ہیں-یہ سارا عمل چند گھنٹوں میں مکمل کیا گیا-
انڈیا اور نیپال کے درمیان بھی سرحدی تنازعہ کشیدگی اختیار کرتا جارہا ہے -یہ تنازع تب شروع ہوا جب انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 8 مئی کو لپو لیکھ کے قریب ہوکر گزرنے والے اتراکھنڈ مانسرور روڈ (Mansar Road ) کا افتتاح کیا تھا-یہ تنازعہ اتنا کشیدہ ہو گیا کہ نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو یہ وضاحت دینی پڑی کہ نیپال اپنی زمین کا ایک انچ حصہ بھی نہیں چھوڑے گا-حال ہی میں نیپال کی پارلیمنٹ نے ایک خصوصی اجلاس کے دوران اس نقشے کو منظوری دے دی جس میں لپولیکھ (Lipulekh) لیمپیادرا (Limpiyadhura ) اور کالا پانی (Kalapani) کے علاقوں کو نیپال کے نقشے میں ظاہرکیا ہے - بھارت اور چین کے مابین حالیہ کشیدگی صرف سرحدی کشیدگی نہیں بلکہ اس کے جیو سٹریٹجک اور جیو پولیٹکل حوالے سے بھی کئی پہلو ہوسکتے ہیں-بھارت اس خطے میں چین کے خلاف امریکی مفادات کا محافظ بن چکا ہے- حالیہ عالمی وباء کووِڈ-19 کے دوران امریکہ مسلسل چین پہ وائرس کو پھیلانے کا الزام لگا کر (چائنیز فارن منسٹر وانگ یی کے بیان مطابق) امریکہ ایک نئی ’’ کولڈ وار‘‘شروع کر چکا ہے-امریکہ اس خطے میں بھارت کو اپنا سب سے بڑا حلیف و رفیق سمجھتا ہے جو چائنہ کے خلاف امریکی مفادات کی حفاظت کر سکے-اس لئے بھارت کی امریکہ سے بڑھتی ہوئی پارٹنرشپ بھی کشیدگی کا باعث ہے-
دوسری سب سے اہم وجہ بھارت کی سی پیک (جو کہ چین اور پاکستان کا ایک گیم چینجر پروجیکٹ ہے ) کے خلاف سازشیں اور اس کے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے واضح عزائم ہیں- بھارت لداخ میں دولت بیگ (Dolat Beg) کے مقام پر سڑکیں اور دفاعی تعمیرات کر رہا ہے جو مشہور شاہراہ ریشم اور سی پیک روٹ کے بالکل قریب کا علاقہ ہے - لداخ کے علاقہ میں مستقل قبضہ کرنے کے بعد چائنہ کے بارڈر کے ساتھ ساتھ پکی سڑک بناکر بھارت اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ آئندہ چائنہ سے کسی بھی تناؤ کی صورت میں بروقت فوج اور جنگی سازو سامان کی ترسیل کو ممکن بنایا جاسکے اور مستقبل میں یہاں سے گلگت بلتستان کو بھی ٹارگٹ کیا جاسکے جس سے سی پیک اور دیا میر بھاشا ڈیم (جس کی حال ہی میں تعمیر شروع ہوئی ہے) کو نقصان پہنچایا جاسکے-چین نے یہاں پر بھی بھارت کے اس اقدام پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا-
اس کشیدگی کی تیسری اہم وجہ بھارت کا 5 اگست 2019ء کو یک طرفہ طور پر سیکورٹی کونسل میں موجود مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرکے لداخ اور جموں و کشمیر کو اپنے یونین علاقوں (Union Territories) میں تبدیل کرنا ہے- بھارت کے اس اقدام پہ نا صرف پاکستان بلکہ چائنہ نے بھی اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا-
وادی گلوان کی سٹریٹیجک اہمیت:
وادی گلوان کا متنازع علاقہ اکسائی چن میں ہے- گلوان وادی لداخ اور اکسائی چن کے درمیان ہند-چین سرحد کے قریب واقع ہے-یہاں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) چین کو انڈیا سے الگ کرتی ہے- انڈیا اور چین دونوں اکسائی چن پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں- یہ وادی چین میں جنوبی سنکیانگ (Xinxiang) اور انڈیا میں لداخ تک پھیلی ہوئی ہے- یہ علاقہ سٹریٹجک لحاظ سے بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ پاکستان، چین کے سنکیانگ اور لداخ کی سرحدوں سے متصل ہے- یہاں تک کہ 1962ء کی جنگ کے دوران دریائے گلوان کا یہ علاقہ جنگ کا مرکز تھا-بھارت نے گذشتہ سال اکتوبر میں لداخ میں دربک-شیوک-دولت بیگ (Shyok-Daulat Beg Oldie Road) تک سڑک تعمیر کی تھی-ڈی بی او روڈ کو سب سیکٹر شمالی روڈ بھی کہا جاتا ہے - یہ مشرقی لداخ میں ایک موسمی سڑک ہے جو چین کے ساتھ لائن آف ایکچول کنٹرول کے قریب ہے- رسد باہم پہنچانے کیلیے 255 کلومیٹر لمبی دربوک- شیوک روڈ دولت بیگ کو پورے لداخ سمیت لیح (Leh) سے منسلک اور پھر آگے مقبوضہ وادی کے دارلخلافہ سری نگر سے ملا دیتی ہے- دولت بیگ شاہراہ قراقرم سے صرف 8 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جس وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے-
موجودہ صورتحال:
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ مشرقی لداخ میں ایکچوئل کنٹرول لائن (LAC) سے ’بڑی تعداد میں‘ چینی فوجی انڈین علاقے میں داخل ہو گئے ہیں-جبکہ انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق چینی فوج وادی گلوان کے جنوب مشرق میں تقریبا 3 کلومیٹر دور ہندوستانی علاقے میں داخل ہوچکی ہے جو مشرقی لداخ میں ہاٹ اسپرنگس ایریا (Hot Spring Area) کے طور پر جانا جاتا ہے- فوجی ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لداخ میں سرحد کے نزدیک چینی فوج کے ہیلی کاپٹر بھی پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں اور دیمچوک، دولت بیگ اولڈی، دریائے گلوان اور پینگونگ سو جھیل کے اطراف میں انڈین اور چینی فوج نے اپنی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے اور دونوں افواج نے اپنے اپنے علاقے کی جھیلوں میں کشتیوں کے گشت میں بھی اضافہ کیا ہے- ساوتھ ایشین وائر کے مطابق پچھلے دو ہفتوں میں گلوان وادی کے اندر 5 ہزار چینی فوجیوں نے وادی کے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا جس میں 9تعمیر شدہ دربوک- شیوک - دولت بیگ روڈ بھی شامل ہے-
عالمی میگزین ’’فارن پالیسی‘‘ کے مطابق واشنگٹن کی خواہش کے برعکس بھارت کو چائنہ کے مدمقابل کھڑا کرنا ابھی بہت دور کی بات ہے-20 دن کے بھارت چین مدمقابل ہونے نے بھارتی کمزوریوں کو نمایاں کر دیا ہے-چین اس وقت بھارت کی سازشوں کو مکمل بھانپ چکا ہے اور سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں 5 جون کو اداریے میں ایک واضح موقف اپنایا گیا ہے اخبار لکھتا ہے کہ:
’’انڈیا کو دشمن بنانے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے- لیکن چین اپنی زمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑے گا- انڈیا اگر حکمت عملی میں کوئی غلطی کرتا ہے اور چین کی زمین چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو چین اسے کبھی معاف نہیں کرے گا- چین سخت جوابی کاروائی کرنے پر مجبور ہوگا- چین نے انڈیا کی جانب دوستانہ انداز واضح کر دیا ہے- انڈیا کو امریکہ کے ہاتھوں بے وقوف بننے کی بجائے چین کیلیے گرم جوشی کا اظہار کرنا چاہیے‘‘-
بدلتی ہوئی صورتحال اور خطے پر اثرات:
بھارت میںBJP کی فاشسٹ حکومت (جو اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا پالیسی کی پیروکار ہے) نے ناصرف چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی شروع کر رکھی ہے بلکہ پاکستان، بھوٹان اور نیپال کے ساتھ کشیدگی عروج پہ ہے- بھارت کی اس حالیہ کشیدگی کا خطے پر نہایت ہی برے اثرات مرتب ہونگے-چائنہ، پاکستان اور انڈیا تینوں نیوکلیئر پاورز ہیں اور حالات اگر مزید کشیدگی کی طرف جاتے ہیں تو یہ جنگ محدود نہیں رہے گی-جس کے باعث نا صرف اس کے خطے پر بلکہ پوری دنیا پر اثرات مرتب ہونگے- 5 اگست کے بعد سے جب انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے جموں و کشمیر اور لداخ کو اپنی الگ یونین ٹیرٹریز بنانے کا اعلان کیا تو ناصرف پاکستان نے یہ اقدام سلامتی کونسل میں اٹھایا بلکہ چائنہ نے بھی اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا- بھارت کے اس اقدام پر پاکستان کی کاوشوں اور چائنہ کی سپورٹ کی بدولت سیکورٹی کونسل کا اس متنازع علاقے پر بھارت کے یک طرفہ اقدام پر ایک خصوصی سیشن بھی منعقد ہو چکا ہے- پاکستان شروع ہی سے پوری دنیا کو بھارت کے عزائم سے آگاہ کرتا آرہا ہے-پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بین الاقوامی توجہ اس جانب مبذول کرواتے ہوئے لکھا کہ:
’’مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ جمانےجو کہ چوتھے جنیوا کنونشن کےتحت ایک جنگی جرم ہے اور آزاد کشمیر پر دعویٰ کے بعد یہ سب! میں ہمیشہ سےکہتا آیا ہوں کہ سفاک مودی سرکار بھارتی اقلیتوں جنہیں اس نے کمتر شہریوں کا درجہ دےرکھا ہے، کیلئے ہی خطرناک نہیں بلکہ علاقائی امن کو بھی اس سےنہایت خطرہ ہے‘‘-مزید یہ کہ نازیوں کی لیبینزورم (لیونگ سپیس) کی طرح ہندوتوا کے خمیر سےجنم لینے والی مودی سرکار کی توسیع پسندانہ پالیسیز بھارت کے ہمسایوں کیلئےمسلسل خطرہ ہیں- شہریت کے قانون سے بنگلہ دیش کو اور ایک ممکنہ جعلی کارروائی سےپاکستان کوخطرہ ہےجبکہ نیپال/چین کے ساتھ سرحدی تنازعات صورت حال کی سنگینی کو ہوا دے رہےہیں- اس ساری صورتحال میں چائنہ کے صدر شی جی پنگ نے پیپلز لبریشن آرمی کے اعلیٰ عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے ’’جنگ کیلئے تیار رہنے کے احکامات جاری کئے‘‘-
اختتامیہ:
پوری دنیا میں امن و امان اور استحکام کا دارومدار ایک ملک کے اندر امن اور استحکام پر منحصر ہوتا ہے جبکہ ایک ملک کا امن و استحکام اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ہمسایہ میں امن و استحکام نہ ہو-اگر ہم جنوبی ایشیا،مشرق وسطی اور افریقہ میں دیکھیں تو ایک ملک میں اندرونی خلفشار کا براہ راست اثر دوسرے ملک پہ پڑتا ہے جس سے ناصرف اس خطے کا بلکہ عالمی امن بھی خطرے میں پڑتا ہے-اگر ہم دو عالمی جنگوں کی تاریخ کو دیکھیں تو توسیع پسندانہ عزائم نے پوری دنیا کو اپنی آگ میں لپیٹ لے لیا تھا-جس سے ان جنگوں میں یورپ کی آدھی سے زیادہ آبادی تباہ ہو گئی تھی- لیکن جنگ کے بعد وہ خطہ پر امن بنا ہے تو اس کی وجہ اپنے باہمی مسائل کو پر امن طریقے سے حل کرنا تھا-آج بھارت اپنے اکھنڈ بھارت، فاشسٹ ہندوتوا پالیسی اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت خطے میں وہی تاریخ دہرانا چاہتا ہے- آج بیک وقت بھارت کے اپنے تین ہمسایہ چین پاکستان اور نیپال ( چین اور پاکستان نیوکلیئر پاورز ہیں) کے ساتھ جارحیت اور کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے- بھارت جو کہ چانکیائی پالیسی کو فالو کرتا ہے کو اگر رد کر کے اپنے ہمسایہ کے ساتھ تنازعات برابری کی سطح پہ پر امن طریقے سے حل کرے تو ناصرف یہ خطہ بلکہ پوری دنیا تباہی سے بچ سکتی ہے- اگر دنیا آج بھارت کی فاشسٹ عزائم کو لگام دینے کیلئے آگے نہیں بڑھتی تو تباہی کی یہ آگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے-
٭٭٭