جس صدی میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں یہ صدی ہر شخص کوکسی نہ کسی صورت میں انٹر نیٹ کا محتاج کر رہی ہے جن میں سرفہرست موبائل، لیپ ٹاپ اور ٹیب وغیرہ شامل ہیں- دنیاسے جڑے رہنے کیلئے ’’Internet Service Provider ‘‘(یہ وہ کمپنیاں ہیں جو صارف کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہیں) صارفین کو چھ قسم کی’’Broadband‘‘سروسز فراہم کر رہے ہیں-[1]جن کو استعمال کرتےہوئے صارف اپنی نجی اور کاروباری زندگی میں مصروف ہیں- گو کہ انسان ہر کام میں تیزی چاہتا ہے اور درج بالابراڈ بینڈ سروسز انسان کی Desire سپیڈکو فُل فِل نہیں کر پائیں -انٹرنیٹ کی سپیڈ کو بڑھانے کیلئے ایک نئی سوچ ، فکر اور تحقیق نے جنم لیا جس کو ’’Star Link‘‘کا نام دیا گیا ہے-
سیٹلائٹ(Satellite) کیا ہے؟
’’سیٹلائٹ ایک ایسے جسم کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص مقصد کے پیش نظر اپنے سے بڑے جسم کے گرد خاص مدار میں محو گردش ہو بعض ماہرین کے خیال میں گزشتہ سالوں کے دوران جتنے بھی سیٹلائٹ بھیجے گئے وہ اپنی مدت پوری کرنے کےبعد ملبہ کی صورت میں ابھی بھی باقی ہیں اُن کو بھی سیٹلائٹ کہتےہیں‘‘-
مصنوعی سیٹلائٹ ایک ایسا راکٹ ہو تا ہے جو مختلف پُرزوں سے مل کر بنتا ہے جو اپنی رینج پوری کرنے کے بعدمین حصہ( ڈریگن ماڈیول) سے الگ ہو جاتا ہے اور ڈریگن ماڈیول اپنا مشن پورا کرنے کی طرف گامزن ہو جاتا ہے- 1957ءمیں سویت یونین نے دنیا کی پہلی سیٹلائٹ کو لانچ کیا تھا-[2] ایک رپورٹ کے مطابق اب تک تقریباً 40ممالک کی طرف سے 6600 سیٹلائٹ زمین سے روانہ کی گئیں جن میں سے 3600 سیٹلائٹ خلاء میں اب بھی موجود ہیں ان میں وہ سیٹلائٹ بھی ہیں جو اپنی معیاد مکمل کرنے کے بعدمحض کچرہ ہیں اُن میں سے تقریباً1000سیٹلائٹ کارآمد(Operational) ہیں- ان سیٹلائٹ سے فوجی معلومات کے ساتھ ساتھ سائنسی معلومات بھی حاصل کی جاتی ہے- ان کی مدد سے ذرائع ابلاغ ، موسمی حالات کو جاننا ، خلائی سٹیشن، سپیس ٹیلی سکوپ اور ہوائی جہازوں کے روٹس کو کنڑول کر نا شامل ہیں- ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائیٹ کی مدد سے گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے میچز براہ راست دیکھے جاتے ہیں اورWeather Satelliteکے ذریعے ہم موسم کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رہتے ہیں- چند بڑی سیٹلائٹ ایسی بھی ہیں جن کو زمین سےمختلف مراحل میں لانچ کیا جاتا ہے اور وہ مقررہ جگہ پر اپنا وجود مکمل کر تی ہیں-
مدار(Orbit)کیا ہے؟
اگر نظام شمسی کی بات کی جائے تو اب تک آٹھ ایسے سیارے ہیں جن کی کھوج سائنسدان لگا پائے ہیں زمین بھی اُنہی سیاروں میں سے ایک ہے- یہ سب سیارے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں- مدار سے یہ مراد ہے کہ ’’ کشش ثقل کی وجہ سے کسی جسم کا دوسرے جسم کے گردایک خاص راہ میں حرکت کرنا‘‘ - جیسا کہ زمین، سورج اورچاند کے درمیان کا سیارہ ہے اور یہ اپنے اپنے مدار میں حرکت کر رہے ہیں- اس بارے میں قرآن مجید ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ :
’’لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ‘‘[3] |
|
’’نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں‘‘- |
سپیس ایکس (Space X)کیا ہے؟
سپیس ایکس ایک امریکن کمپنی ہے جو حکومت کو اپنے فالکن9 اور فالکن ہیوے راکٹ کے ذریعے کمرشل سروسز مہیا کرتی ہے- سپیس ایکس باقاعدہ خلا میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر سامان لے جاتی ہے اس کمپنی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو ایلن مسک(Elon Musk) نے اس کمپنی کی بنیاد 2003 ءمیں رکھی اور اس کا مقصد خلائی ٹرانسپورٹ سروس کے اخراجات میں کمی کرنا اور مریخ پر آباد کاری کرناتھا- سپیس ایکس وہ پہلی نجی کمپنی ہے جس نے خلا میں متعدد راکٹ بھیجے ہیں - سپیس ایکس کمپنی عام انسانوں کوخلاء میں لے جانے کے لیے ایک بڑا خلائی جہاز بھی بنا رہی ہے جسے ’’سٹارشپ‘‘کا نام دیا گیا ہے-
سٹار لنک (Star Link) کیا ہے؟
ایک بہت بڑے پروجیکٹ کا آغاز سپیس ایکس کمپنی نے 2015 ءمیں کیاجسے ’’سٹار لنک‘‘کانام دیا گیا جس کا بنیادی مقصد سستے اور تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت پوری دنیا کے صارفین تک پہنچانا ہے- ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 59فیصد صارفین ہر وقت انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ انٹرنیٹ کی تیز سپیڈکے بھی خواہشمند ہیں گو کہ انٹرنیٹ کی فراہمی کیلئےموجودہ دورمیں کیبل، ٹاور اور وائی فائی سگنل کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے- سٹار لنک پروجیکٹ کے تحت اسپیس ایکس’’Earth Orbit low‘‘ میں 12 یا 30 ہزار سیٹلائٹس لانچ کرے گا-ابتدائی طور پر 62 سیٹلائٹس لانچ کر دی گئی ہیں جبکہ 2020ء کے آخر تک مزید سیٹلائٹس تین اربٹ میں لانچ کی جائیں گی جن میں7500 سیٹلائٹس340 کلومیٹرز کی بلندی پر، 1600 سیٹلائٹس 550کلو میٹر پر جبکہ 2800سیٹلائٹس 1150 کلو میٹرز کی بلندی پر ایک مقررہ مدار میں سفر کریں گی- پروجیکٹ نومبر 2027ء میں مکمل ہو گا- تجرباتی طور پر دو ٹیسٹ سیٹلائٹس فروری 2018ء میں خلا میں بھیجی گئی اور دوسری 24مئی 2019ءکو لانچ ہوئی جس میں 60سیٹلائٹس کو خلا میں بھیجا گیا جو ایک لائن میں سفر کرتےاور حسین نظارہ پیش کرتے دکھائی دئیے جسے’’سٹار لنک ٹرین‘‘ کا نام دیا گیا -
سپیس ایکس سٹار لنک سیٹلائٹ (Space X Star link Satellite) کے فوائد:
سپیس ایکس سٹار لنک ’’Low earth orbit ‘‘سیٹلائٹ ہیں جو زمین کے قریب ہوتے ہیں یہ ساکن اور حرکت کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں زمین کے قریب ہونے کی وجہ سےرابطہ کرنے کیلئے کم لیٹنسی استعمال کریں گےجو 25 یا 35 ملی سیکنڈہونے کی وجہ سے ان کی پرفارمنس کیبل اور فائبر آپٹک کیبل سے کہیں زیادہ ہے- سٹار لنک فاسٹر لیزرٹرانسمیشن کو استعمال کرتے ہوئے ایک سیٹلائیٹ سے 1TBفی سیکنڈ ٹرانسمیشن کو کنٹرول کرتے ہوئے ایک ہی وقت میں 40ہزار لوگوں کو4Kکوالٹی میں ویڈیو دیکھاسکےگا-سپیس ایکس نے پچھلے سالوں کی نسبت 500 سیٹلائیٹ زمینی مدار میں لانچ کی ہیں جو کہ لو ارتھ آربٹ سے انٹر نیٹ مہیا کریں گی جس کی سپیڈ تقریباً 1GBفی سیکنڈ ہو گی جو کہ عام صارف کی روز مرہ زندگی میں ایک انقلاب سے کم نہیں ہو گا -
پاکستانی سیٹلائٹ سسٹم:
پاکستان نے اپنی پہلی ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائٹ کا آغاز 1990ء میں کیا تھاجس کا نام ’’بدر-وَن (BADR-1)‘‘تھا[4] جس کامقصد مستقبل میں مصنوعی سیارہ کے منصوبوں کے لئے معلومات حاصل کرنا-خلاء میں سیٹلائٹ سسٹم کی کارکردگی جانچنا-ملک کی علمی، سائنسی اور اہلِ جستجو کو زمین کی سیر کرنے والے مصنوعی سیاروں کی کھوج اور استعمال کی تعلیم دینا-جس کے بعد پاکستان نے 2001ء میں دوسری سیٹلائٹ لانچ کی جس کانام ’’بدر-بی (BADR-B)‘‘تھا[5] جس کامقصدکم قیمت والے اور بڑےمصنوعی سیاروں کے ضروری اوربنیادی ڈھانچے کی تشکیل کرنا- استحکام کے شعبوں میں صلاحیت اور معلومات کا حصول -سی سی ڈی سینسر کے استعمال سے ارتھ امیجنگ ٹیکنالوجی کوجاننے کے طریقے-دوسرے ممالک میں ہم منصب ایجنسیوں / تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط قائم کرناتھا-2011ء میں پاکستان نے اپنی تیسری سیٹلائٹ لانچ کی جس کا نام’’Pak Sat-1R‘‘ تھا- جس کامقصد براڈ بینڈ انٹرنیٹ تک رسائی، ڈیجیٹل ٹیلی ویژن نشریات، دور دراز اور دیہی ٹیلیفونی، ہنگامی مواصلات، ٹیلی ایجوکیشن اور ٹیلی میڈیسن خدمات پورے جنوبی اور وسطی ایشیاء ، مشرقی یورپ، مشرقی افریقہ اور مشرق بعید میں فراہم کرناتھا-پاکستان کا چوتھا سیٹلائیٹ سسٹم 9 جولائی 2018ء کو لانچ کیا گیا [6]جس کا نام’’Pakistan Remote Sensing Satellite‘‘ رکھا گیا جس کامقصدخلاء سے زمین کی تصاویر بھیجنا ہےجس سے دنیا کے کسی بھی خطے کی کوئی بھی چیز دیکھی جا سکتی ہے- اُس جگہ کاسٹیٹس وہاں کی نقل و حرکت سیلاب ، زلزلہ اور قدرتی آفات سے ہونے والی تباہ کاریوں کے مناظر کی تصویری شکل مہیا کرتا ہے جو Analyst’s کوموازنہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے-
پاکستان کو اس فیلڈ میں مزید ترقی کرنے کی ضرورت ہے جس طرح میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کو عام کیا گیا بعین اُسی طرح سپیس/ سیٹلائٹ کی تعلیم کو بھی عام کیا جانا چاہیے تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان مستقبل قریب میں سیٹلائٹ اور سپیس کی فیلڈ میں خود کفیل اور نمایاں کردار ادا کر سکے-
٭٭٭
[1]https://www.fcc.gov/general/types-broadband-connections
[2]https://www.space.com/24839-satellites.html
[3](یسین:40)
[5]http://www.suparco.gov.pk/pages/badrb.asp?badrblinksid=1
[6]http://www.suparco.gov.pk/pages/rsss.asp