کسی بھی ملک و قوم کی تعمیر و تشکیل،عروج و زوال، سالمیت اور خودمختاری کو برقرار رکھنے کیلئے جنگ (دفاع ) کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے- دفاع وطن نہ صرف ملکی وقار اور اقتدار اعلیٰ کو برقرار رکھتا ہے بلکہ قوموں کی بقاء بھی اس سے مشروط ہے- جنگی مہارت و حکمت عملی اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار افواج و اقوام ہی ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کر سکتی ہیں-
ملک اور قوم کی اسی سلامتی و بقاء کے تناظر میں چینی ماہر فنونِ جنگ، سن زو (Sun Tzu) کے مطابق:
“War is the matter of life and death for a State”.
’’ریاست کیلیے جنگ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘-
1965ء کی جنگ میں بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر ناکام و بزدلانہ حملہ کیا، جس میں پاکستان کی بہادر قوم و افواج نے ڈٹ کر دشمن کا سامنا کیا- اسلامی دوست ممالک نے بر وقت پاکستان کی بھرپور حمایت اور امدار کی جس نے دفاعِ پاکستان میں موثر کردار ادا کیا-گرچہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی بنیادی وجہ کشمیر ہے لیکن ’’رن آف کچھ‘‘(Rann of Kutch) اور دیگر وجوہات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا -یہ عجیب حسن اتفاق تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں پہلی بار یومِ کشمیر 14 اگست 1931ء میں منایا گیا اور عین اسی تاریخ کو پاکستان معرض وجود میں آیا جو ایک دوسرے کے مابین تاریخی، جغرافیائی، نظریاتی و روحانی وابستگی کی واضح دلیل ہے- 15 اگست 1947ء کو بھارت کے حکم پر سفاک ڈوگرا حکومت نے کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کا بازار گرم کر دیا- جس کی وضاحت روزنامہ دی سٹیٹس میں کلکتہ کے ایڈیٹر آئن سٹیفنز نے یوں کی ہے:
’’گیارہ ہفتوں میں جموں و کشمیر سے پانچ لاکھ مسلم آبادی کا صفایا کردیا گیا -دو لاکھ تو ایسے غائب کئے گئے کہ ان کا سراغ تک نہیں ملا‘‘-
کشمیری مسلمانوں کے قتل عام اور وحشیانہ ظلم و ستم کے باعث ہی پاکستان اور بھارت چار مرتبہ جنگ (1948ء، 1965ء 1971ء اور 1999ء) کر چکے ہیں- زیر نظر چند سطور میں 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں نوزائیدہ مملکت پاکستان کے کڑے امتحان اور کٹھن وقت میں اسلامی ممالک کا پاکستان سے بھر پور اظہار یکجہتی اور تعاون کا خلاصہ پیش کرنا مقصودہے-
1965 ء کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ اسلامی دنیا کا اظہار یکجہتی و تعاون ناقابل فرمواش اور قابل ِ صد تحسین ہے-بہت سے اسلامی ممالک نے بین الاقوامی سطح پر نہ صرف پاکستان کے موقف کی حمایت کی بلکہ جنگ کے دوران شانہ بشانہ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے حتیٰ کہ مالی و عسکری امداد بھی فراہم کی-یہ یکجہتی اسلامی اخوت، بھائی چارے اور اسلامی روایات کی عملی تصویر تھی-جس کا اندازہ مذکورہ تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے-
“Iran reportedly supplied Pakistan with jet fuel and gasoline free of cost, while turkey which had earlier received Pakistani support with regard to Cyprus serviced aircraft and provided guns and ammunition. Saudia Arabia and, to a much lesser degree, Jordan provided financial support”. [1]
’’معلومات کے مطابق ایران نے پاکستان کو لڑاکا جہازوں کا ایندھن اور پٹرول بغیر کسی معاوضے کے دیا جبکہ ترکی، جو کہ قبرص کے معاملے میں پاکستان سے پہلے مدد حاصل کر چکا تھا، اس نے طیاروں کو سروس فراہم کی اور پاکستان کو بندوقیں اور متعلقہ اسلحہ فراہم کیا-سعودی عرب اور کسی حد تک اردن نے بھی پاکستان کی مالی امدار کی‘‘-
یہ ناقابل فراموش اور قابل تحسین ہے جس طرح نوزائیدہ پاکستان کی حمایت کی گئی- ترکی جو کہ انصاف پسند ی، جرأت مندی اور معاشی مفاد کے بجائے اسلامی ممالک کے مسائل کے حل کیلئے آواز بلند کرتا رہا ہے اس جنگ میں بھی پاکستانی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہا جس کا اندازہ اس تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
“In 1965 war, the Prime Minister of Turkey had ordered all the resources of Turkish Armed Forces be placed at the disposal of Pakistan and anything they need must be immediately provided. Since both the armies were equipped with American equipment, planeloads of ammunition and equipment were sent to Pakistan”.[2]
’’1965ء کی جنگ میں ترکی کے وزیراعظم نے حکم دیا کہ ٹرکش آرمڈ فورسز کے تمام اثاثہ جات کو پاکستان کے سپرد کر دیا جائے اور پاکستان کی ہر ضرورت لازمی پوری کی جائے-چونکہ دونوں ممالک کے پاس امریکی اسلحہ تھا، اس لیے اسلحے اور دیگر سامان سے بھرے ہوئے جہاز پاکستان بھجوائے گئے‘‘-
1945ءمیں قائداعظم محمدعلی جناح نےآل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے600سےزائد افواج کورضاکارانہ طور پر اپنے انڈونیشین مسلمانوں کی مدد کیلیے بھیجا جو کہ انڈونیشیاء کی آزادی کیلئے ڈچ نوآبادیاتی فورسز کے خلاف لڑرہے تھے- اسی طرح انڈونیشیاء نے 1965ء کی جنگ میں نہ صرف پاکستان کی حمایت کی بلکہ جدید جنگی مشینری بھی بروقت کراچی پہنچائی- جسے سابق وزیر خارجہ عبدالستار صاحب نے اپنی کتاب (Pakistan’s Foreign Policy )میں یوں بیان کیا ہے:
“President Sukarno of Indonesia extended memorable assistance, readily agreeing to provide some MIG aircraft. It sent two submarines and four boat”.[3]
’’انڈونیشیاء کے صدر سکارنو نے ناقابل فراموش مدد کی، بغیر کسی جھجک کے کچھ ایم آئی جی ایئر کرافٹ مہیا کرنے پر آمادہ ہو گئے، مزید انہوں نے دو سب میرین اور چار کشتیاں بھیجیں‘‘-
مزید برآں! ہمسایہ ملک ایران بھی اس جنگ میں پاکستان کو دفاعی اورطبی و مصنوعی امداد فراہم کرنےمیں پیش پیش رہا اور پاکستان سےدوستی کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف بھارت کی سفاکیت پر مبنی اس حماقت کی بھر پور مخالفت کی بلکہ دورانِ جنگ بھارت کیلئے آئل فراہمی پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایک طرح بھارت سے باہمی معاشی مفاد کو بھی ختم کرنے کاا شارہ دے دیا جس کا اظہار درج ذیل تحریر سے ہوتا ہے:
“Iran sent Pakistan nurses, medical supplies and a gift of 5,000 of tons of petroleum. Iran also indicated that it was considering an embargo on oil supplies to India for the duration of fighting. After the suspension of the nited states military aid to Pakistan, Iran was reported to have purchased 90 sabre Jet Fighters from West Germany and to have sent them to Pakistan.”[4]
’’ایران نے پاکستان کو طبی امداد فراہم کی اور نرسوں کو بھجوایا اور بطور تحفہ کے پانچ ہزار ٹن پیڑول دیا-مزید جنگ کے دوران ایران نے انڈیا پر تیل کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے کا اشارہ دیا- امریکہ کی پاکستان کوفوجی امداد کی معطلی کے بعد، ایران نے 90 جنگی جہاز مغربی جرمنی سے خرید کر پاکستان کو بھجوائےتھے‘‘-
ملک کا دفاع نہ صرف قومی سلامتی و سالمیت اور وقار برقرار رکھتا ہے بلکہ عالمی دنیا میں اپنی ساخت، خودمختاری، اقتدارِ اعلیٰ اور عسکری قابلیت کا ضامن ہوتاہے-1965ء کی جنگ میں پاکستان قوم کی یکجہتی اور عسکری مہارت سے دنیا آشنا ہو گئی-1965ءکی پاک بھارت جنگ میں اسلامی دنیا نے پاکستان سے جواظہار یکجہتی و فراخ د لی سے تعاون کیا وہ نا قابل فراموش ہے -آج بھی پاکستان حالت جنگ میں ہے اور ہمارا بزدل دشمن اکھنڈ بھارت کے جنون میں مکارانہ چالوں اور ناپاک عزائم سے پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہے-
5 اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے نہ صرف اسلامی دنیا کو للکارا بلکہ عالمی امن کو بھی نقصان پہنچایا ہے- بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ گزشتہ ایک سال سے کشمیر لاک ڈاؤن کی صورتحال سے دو چارہے جہاں جابر بھارتی فوج کے مظالم اپنی انتہا کو چھورہے ہیں اور حیرت ہے کہ 80 لاکھ کشمیری اپنی ہی سر زمین پر قید ہونے کے باوجود بھارت کو بین الاقوامی تنظیموں ( جیسے FATF) نے بلیک لسٹ میں شامل نہیں کیا - پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کیلیےغیر متزلزل طور پر کھڑا ہے، کھڑا رہا ہے اور ہمیشہ بغیر کسی سمجھوتے کے کھڑا رہےگا-پاکستان اور کشمیر کا رشتہ لازوال تاریخ ہے یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی پوری وادی میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھارت کی مسلسل جابرانہ و ظلمانہ پالیسوں کے باوجود لہرا رہا ہے-
٭٭٭
[1]Safdar Mahmood, A Political Study of Pakistan (Lahore: Muhammad Ashraf, 1972), pp. 222-24 and 226; Burke, Pakistan's Foreign Policy, pp. 353-55; and Ahmad, "Pakistan Turkey Relations," pp. 117 and 119-20.
[2]http://www.defencejournal.com/2001/september/tajammal.htm
[3]Abdul Sattar, Pakistan’s Foreign Policy, pg.111
[4]https://web.archive.org/web/20130410121859/http://www.iranembassy.pk/en/political-section/592-pak-iran-relations-since-islamic-revolution-genisis-of-cooperatio-and-competition.html