تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’اسلام اور مسلمانوںکے متعلق مغربی رائے: ہنگری کے ماہرین کی رائے میں ‘‘ کے عنوان سے اسلام آباد میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف سنٹر فار پالیسی اسٹڈیز، کامسیٹس ایمبیسیڈر﴿ر﴾ محترمہ فوزیہ نسرین نے کی جبکہ ’’خصوصی مقرر‘‘انٹرنیشل سنٹر فار ڈومیسٹک ٹرانزیشن ہنگری کے صدر ، ایمبیسیڈر ﴿ر﴾ ڈاکٹر استوان گیارمتی تھے جبکہ پاکستان میں ہنگری کے سفیر جناب استوان سذابو اور ڈائریکٹر جنرل انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز ایمبیسیڈر ﴿ر﴾ مسعود خان، چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، پاکستان میں جمہوریہ یونان کے سفیر جناب دیمترئس زوئیتس نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ عثمان حسن نے موضوع پہ تحقیقی پریزنٹیشن پیش کی- سیمینار میں سفارتی وفود، یونیورسٹیز کے پروفیسرز و طلبا، مختلف اداروں کے محققین، دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور صحافیوںنے حصہ لیا-
مقررین نے سیمینار میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
تاریخی اعتبار سے اسلام اور مغرب ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہیں دنیا کے تین بڑے مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی بنیادیں دینِ ابراہیمی پر ہیں، ان کا روحانی مآخذ ایک ہی ہے اور توحید اور آخرت پر ایمان ان سب کا لازمی جزو ہے- مسلمان تمام پیغمبروں کا بہت احترام کرتے ہیں بشمول حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت مریم(ع) کی پاکدامنی پر بھی ایمان رکھتے ہیں - صدیوں تک دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ پرامن طریقے سے رہتے رہے ہیںچاہے برِصغیر ہو، ہنگری ہو یا کوئی دوسرا خطہ ان کے پیروکاروں کا پر امن طریقے سے باہم آبا د رہنے کی تاریخ بہت پرانی ہے- پیکس یونیورسٹی کے تاریخ دان ڈاکٹر نوربرٹ پیپ کے مطابق ہنگری میں اسلام کی تاریخ نویں اور دسویں صدی عیسوی سے ملتی ہے - تیرہویں صدی عیسوی میں وہاں ہزاروں مسلمان آباد تھے- سولہویں صدی عیسوی میں ہنگری سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا اور ڈیڑھ سو سال تک اس کا حصہ رہا لیکن سلطنت عثمانیہ نے کبھی ہنگری کے باشندوں کو جبراً اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا اور اسی وجہ سے آج بھی ہنگری اور ترکی کے اچھے مراسم قائم ہیں- ہنگری میں معروف صوفی حضرت گل بابا کا مزار اور دیگر تاریخی عمارات وہاں اسلامی تاریخ کی عکاسی کرتی ہیں- علاوہ ازیں پیامِ مشرق میں علامہ اقبال کا ہنگری کے شاعر پٹوفی کو پیش کیا گیا خراجِ تحسین بھی ہنگری کے ادب کے ساتھ پاکستان اور مسلمانوں کے تعلقات کو ظاہر کرتا ہے - یہ ہنگری تھا جس نے ۶۱۹۱ئ میں اسلام کو بطور ایک مذہب کے آئینی طور پہ قبول کیا ، اِن دنوں ہنگری میںاسلام کی صدسالہ موجودگی قانونی طورپہ تسلیم کی جانے کی تقریبات کو منایا جانامختلف مکاتبِ فکر کے مابین بہتر تعلقات استوار کرنے میں معاون ثابت ہوگی-
مشرقی یورپ میں اسلام کے پھیلائو کے بعد مسلمانوں نے یونانی فلسفہ کا مطالعہ کیا اور علم کو ترقی دیتے ہوئے جدید سائنس کی بنیاد رکھی- یہ علوم سپین اور مشرقی یورپ کے ذریعے مغربی دنیا تک پہنچے جنہوں نے بعد ازاں یورپ کی نشاط ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا - اسی طرح موجودہ دور میں مسلمانوں نے مغربی ایجادات اور جدید سائنسی علوم سے فائدہ اٹھایا ہے چنانچہ علم و تحقیق کے شعبہ میں مسلمانوں اور مغرب نے ایک دوسرے سے اپنی تحقیق، علوم، تجربات اور مشاہدات کا تبادلہ کیا ہے جو مغرب اور اسلام کے مابین علمی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے-
دوسروں کے عقائد اور احساسات و جذبات کے احترام کی وجہ سے ہی آج ہم اس جدید دور میں داخل ہوئے ہیں-بد قسمتی سے موجودہ دور کے میڈیا اور سیاسی بحث میں ان مشترکات پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی- مغربی دنیا کو اسلام کا چہرہ ایک مخالف دشمن کے طور پہ دکھایا جاتا ہے جو تاریخ کی درست عکاسی نہیں بلکہ دھندلاہٹ ہے شاید اس غلط فہمی کی ایک بڑی وجہ کچھ شدت پسندی اور دہشت گردی کے واقعات بھی ہیں - جہاں ان واقعات نے مسلمانوں اور اسلام مخالف جذبات کو جواز فراہم کیا ہے- اسی طرح اہلِ مغرب کی طرف سے ’’اسلاموفوبیا‘‘ ﴿Islamophobia﴾ اور تہذیبی تصادم کے تصورات کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت سے مسائل در پیش ہیں انہیں مغربی معاشرے میں تعصب کا اکثر سامنا رہتا ہے جیسا کہ کچھ ممالک میں حجاب اور میناروں کی تعمیرات کے خلاف ہونے والی بحث اور قانون سازی ہے اور اس نظریہ کو پروان چڑھایا گیا ہے کہ اگر تمام مسلمان دہشت گرد نہیں بھی، تو تمام دہشت گرد مسلمان ہیں- لیڈن یونیورسٹی کے پروفیسر شیدد اور پروفیسر کوننگسفیلڈ کے مطابق یہ نظریہ کہ
’’مسلمان مغربی معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتے "فقط اس مذہب﴿اسلام﴾ اور اس کے پیروکاروں کی جانب تعصب کے سبب ہے‘‘-
اس ضمن میں یورو پول کی رپورٹ بڑی اہمیت کی حامل ہے جس کے مطابق ۴۱۰۲ئ میں سات یورپی ممالک نے ۱۰۲ دہشت گردی کے واقعات رپورٹ کئے جن میں سے صرف دو مذہبی بنیاد پر ہوئے جو اس بات کی دلیل ہے کے مذہب کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں-
یورپ نے گزشتہ کئی دہائیوں سے مہاجرین کے مسئلہ کا سامنا نہیں کیا اور اب وہ اس مسئلہ کے حل کیلئے کوشش کر رہا ہے- مسلمان مہاجرین کے حوالے سے 'کثیر الثقافتی' معاشرے کی قبولیت کی بحث نے بھی بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ مسلمان مغربی معاشرے کو قبول نہیں کر سکتے یا اس میں ضم نہیں ہو سکتے- محققین کے مطابق ایسی قیاس آرائیا ں محض اسلام مخالف جذبات پہ مبنی ہیں- جبکہ ڈاکٹرانگلیہارٹ اور ڈاکٹر نورس نے ہارورڈ جان ایف کینیڈی سکول آف گورنمنٹ کی شائع کردہ تحقیق میں واضح کیا ہے کہ مسلمان مہاجرین مغربی ممالک میں بالکل جامد رویے کے ساتھ نہیں آتے بلکہ وہ بتدریج میزبان ممالک کے کلچر کو اپناتے ہیں- مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ مغرب میں وہاں کے قوانین اور قواعد و ضوابط کے ساتھ ساتھ اپنی اسلامی شناخت بھی برقرار رکھیں اور انہیں سیاسی، معاشرتی اور دیگر حوالوں سے باقی لوگوں کی طرح آزادی حاصل ہو- مغرب میں بسنے والے مسلمانوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا صحیح تشخص پیش کریں اور مقامی معاشروں میںاپنا ایک اہم کردارادا کریں - آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رمضان کے مطابق یورپی میں ضم ہونے کا کلیہ یہ ہے کہ
’’تین اصولوں قانون، زبان اور ﴿ریاستی قانون کی﴾ وفاداری پہ کاربند ہواجائے اور مغرب میں آباد مسلمانوں کی اکثریت انہی اصولوںپہ عمل پیرائ ہے یعنی وہ قانون کی پابندی کرتے ہیں، مقامی زبان سیکھتے ہیں اور میزبان ریاست کے ساتھ وفادار رہتے ہیں‘‘-
یہ امر بہت اہم ہے کہ کچھ افراد کی وجہ سے پورے سماج کے متعلق رائے قائم نہیں کرنی چاہیے- اس بات کا اعادہ کرنا بہت ضروری ہے کہ مخصوص سیاسی مقاصد اور ذاتی مفادات کی وجہ سے لگائے جانے والے نعروں کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں - مسلمانوں کو ہمیشہ معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھنا چاہئے انہیں اپنے فعل سے دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ اسلام امن پسند مذہب ہے اور ساتھ ساتھ بدامنی کے واقعات کے متعلق یہ ثابت کرنا ہے کہ ان واقعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں- مسلم دنیا کی معاشی ، فنی اور علمی ترقی دنیا کو خود بخود باور کروا دے گی کہ مسلمان امن اور ترقی پسند لوگ ہیں جیسا کہ آج سے چھے سات دہائیاں قبل کوئی شخص چین جانا پسند نہیں کرتا تھا مگر اب اس کی معاشی ترقی کے سبب لوگ وہاں جانا پسند کرتے ہیں-
ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کو بڑھانے کی ضرورت ہے اس ضمن میں تعلیمی اداروں، کچھ سیاست دان اور تنظیمیں اچھا کردار ادا کر رہے ہیں اور انہوں نے مغرب اور اسلام کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس ضمن میں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے - یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے دوسرے عقائد اور تہذیبوں سے تعصب نہیں برتنا چاہئے اور مغربی ممالک میں ایک بڑی تعداد اس ضمن میں آواز بلند کر رہی ہے- ہمیں مختلف ثقافتوں کے متعلق معلومات لوگوں کو فراہم کرنی چاہئیں تاکہ جب وہ ان سے وابستہ لوگوں کا سامنا کریں تو انہیں تسلیم کر سکیں - جبکہ یہ بھی درست ہے کہ یورپی جمہوری نظام انتہا پسند بلکہ تعصّب زدہ سیاسی پارٹیوں کے باعث متاثر ہو رہا ہے اور اس کے سبب مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اضافہ ہو رہا ہے-
ہمیں الفاظ کی جنگ کی بجائے ایک دوسرے کا ساتھ مل کر اور مشترکات پر کام کرنے کی ضرورت ہے - فرانس اور جرمنی کے درمیان طویل جنگیں ہوئیں اور بالآخر جنگ عظیم دوئم کے بعد انہوں نے طے کیا کہ انہیں امن کے ساتھ رہنا ہے اور ایک دوسرے کے تضادات کو تسلیم کرنا ہے اور اسی لئے اب وہاں امن قائم ہے- انسانیّت کو جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے بچانے کیلئے ہمیں آج کسی بھی ثقافت اور تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے تہذیب و تمدن اور اقدار کا احترام کرنا ہے-
وقفہ سوال و جواب
مقررین کی گفتگو کے بعد وقفہ سوال و جواب بھی منعقد ہوا جس میں پینل نے حاضرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے مختلف سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے- مقررین نے کہا کہ گزشتہ سال ہنگری میں ایک بہت بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد ہوئی- اس وقت ہنگری کے پاس بارڈر کنٹرول کا وسیع نظام نہیں تھا - لیکن زیادہ تر مہاجرین نے اپنے آپ کو ہنگری میں رجسٹر نہیں کروایا بلکہ وہ ہنگری کو عبور کر کے دیگر ممالک میں جانے کے خواہشمند تھے- مہاجرین کے مسئلہ پر مختلف یورپی ممالک کے تصورات مختلف ہیں اسلئے اس مسئلہ پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا کہ اس سے کیسے نمٹا جائے اور ان کو مختلف ممالک میں کیسے تقسیم کیا جائے- مغرب اور مسلمانوں کی باہمی ہم آہنگی کیلئے میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کا عوام الناس پر ایک گہر ا اثر ہے اور تسلسل کے ساتھ کوشش کرنے سے مسائل سے آہستہ آہستہ چھٹکارا پایا جا سکتا ہے- باہمی مذاکرات سے ایک دوسرے کے متعلق بہتر سمجھ بوجھ پیدا کی جا سکتی ہے اور آج کا سیمینار اس سمت میں ایک اچھا قدم ہے- برصغیر اور دیگر علاقوں میں صدیوں تک مختلف مذاہب کے لوگ اکٹھے پر امن زندگی گزارتے رہے ہیں اور اب بھی گزار سکتے ہیں بشرطیکہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر اسے تحمل سے برداشت کیا جائے-
سیمینار کے اختتام پر چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے معزز مہمانانِ گرامی کو یادگاری شیلڈز بھی پیش کیں-