مسلم انسٹیٹیوٹ نے 13 اگست 2020ءبروز جمعرات ’’یومِ آزادی اور تحریکِ آزادی کشمیر‘‘ کے موضوع پر ایک ویبینار کا انعقاد کیا- ویبینار کی صدارت لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ(ممتاز دفاعی و دفاعی تجزیہ نگار) نے کی جبکہ جناب سردار مسعود خان(صدر آزاد جموں و کشمیر) مہمانِ خصوصی تھے- صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ابتدائی کلمات ادا کیے- اسامہ بن اشرف (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیے- مختلف ممالک کے سفراء، اسکالرز، محققین، ماہرینِ تعلیم اور پالیسی سازوں نے ڈسکشن میں حصہ لیا- ویبینار کے اختتام پر انٹریکٹو سیشن کا بھی انعقاد کیا گیا-
معزز پینل:
v صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
v سردار مسعود خان (صدر، آزاد جموں و کشمیر)
v لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفےٰ (دفاعی تجزیہ نگار)
v لارڈ نذیر احمد(ممبر ہاؤس آف لارڈز ، برطانیہ)
v ایئر مارشل (ر) مسعود اختر( دفاعی تجزیہ نگار)
v میجر جنرل (ر) شاہد احمد حشمت، (سابق پاکستانی ہائی کمشنربرائے سری لنکا)
v وکٹوریہ شو فیلڈ (برطانوی مصنفہ و جنوبی ایشیا ایکسپرٹ)
v ایمبیسیڈر (ر) اشتیاق حسین اندرابی (سابق ایڈیشنل سیکریٹری دفترِ خارجہ)
v بریگیڈیر (ر) ڈاکٹر سیف الرحمٰن( ڈائریکٹر انڈیا سٹڈی سینٹر، اسلام آباد)
v جناب احمد قریشی(ایگزیکٹو ڈائریکٹر، وائی-ایف-کے- انٹر نیشنل کشمیر لابی گروپ)
ماہرین کے اظہارِخیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
14 اگست ایک تاریخی دن ہے جس دن برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا- 73 برس پہلے نصیب ہونے والی آزادی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیاد ت میں لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ تھی- پاکستان کے قیام کو روکنے کے لیے دشمنانِ اسلام نے بہت سے منصوبے بنائے- بہت لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ریاست اپنے قیام کے ساتھ ہی دم توڑ جائے گی- لیکن سب لوگ غلط ثابت ہوئے اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ستارہ بن کے ابھرا- آج اللہ تعالیٰ کے کرم سے پاکستان بدامنی، دہشت گردی اور دشمنوں کے ناپاک عزائم کے باوجود عالمی دنیا میں فخر سے ایک اہم ملک کے طور پر موجود ہے- پاکستان نے ایک بھروسہ مند فوجی قوت قائم کر کے اپنی سالمیت کو یقینی بنایا ہے- آج پاکستان انسانی، اقتصادی اور معاشرتی ترقیوں کی جانب گامزن ہے- وہ دن دور نہیں جب ان شاءاللہ پاکستان کا شمار دنیا کی اہم ترین معاشی طاقتوں میں ہو گا-
جب ہم بھارت میں ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی حالت زار دیکھتے ہیں تو اپنے ملک کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے- ہندوستانی معاشرہ بنیادی طور پر ذات پات کے چار طبقات برہمن، کھتری، ویشنو اور دلت میں تقسیم ہے جس میں دلت بہت نیچ طبقہ تصور کیا جاتا ہے- ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ دلت سے بھی زیادہ برا سلوک برتا جا رہا ہے اور وہ سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہے- صرف چند مسلمانوں کو مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنا امیج اچھا بنانے کے لیے ساتھ ملا رکھا ہے جو مراعات یافتہ طبقہ ہے جبکہ بقیہ مسلمانوں کی حالت شودروں اور دلتوں سے بھی بدتر ہے- اسی طرح مسلمانوں کی تاریخی عمارتوں اور مساجد کو مسمار کر کے وہاں پر مندر تعمیر کیے جا رہے ہیں- مسلمانوں کے قدیم ثقافتی ورثہ کو بھارت میں زبردست خطرات لاحق ہیں- مسلم شناخت کو مٹانے کے لیے شہروں کے نام تک تبدیل کر دیے گئے ہیں-
انسانی تاریخ میں بہت کم اقوام نے آزادی کے حصول کے لیے اتنے لمبے عرصے تک اتنی بھاری قیمت ادا کی ہو گی جتنی کشمیر کی عوام نے کی ہے- جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو جب بھی یہ محسوس ہوا ہے کہ ان کی شناخت اور کلچر خطرے میں ہے، انہوں نے اس کی بقا کیلیے آواز اٹھائی ہے- ڈوگرا راج کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد معاشرتی، ثقافتی، سیاسی و معاشی حقوق کے حصول کیلیے تھی- اس جدوجہد پر اس وقت برٹش انڈیا میں چلائی جانے والی تحریکِ پاکستان کے گہرے اثرات تھے- انڈیا میں پیش کیے جانے والے دو قومی نظریہ کو کشمیری مسلمانوں کے اپنے مذہبی و ثقافتی تشخص کی پہچان سے مزید تقویت ملی-1931ء میں علامہ محمد اقبال کی جانب سے الٰہ آباد میں پیش کیے گئے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام کے نظریہ نے 1932ء میں کشمیر میں مسلم کانفرنس کے قیام میں بہت مدد دی جو کہ کشمیر میں مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت تھی- اس پس منظر میں یہ بات فطری تھی کہ کشمیر کی عوام پاکستان میں شمولیت کے لیے جدوجہد کرتے- اس بات کا اظہار الحاقِ پاکستان کی اس قرارداد سے ہوتا ہے جو کشمیری نمائندوں نے 19 جولائی 1947ء کو سری نگر میں منظور کی-
کشمیری، انڈین قابض افواج کے ہاتھوں عرصہ دراز سے مظالم برداشت کر رہے ہیں لیکن پچھلے ایک سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی جو سنگین پامالی جاری ہے اس بربریت کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی- اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے برعکس، انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے الحاق کے یک طرفہ اقدامات اٹھائے ہیں اور شہریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں- انڈیا پورے ملک سے ہندوؤں کو بڑی تعداد میں کشمیر میں بسا رہا ہے تا کہ آبادی کا تناسب تبدیل کر کے کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے- جموں و کشمیر کی عوام نے یہ تہیّہ کیا ہے کہ وہ اس سازش کا بھرپور مقابلہ کریں گے- ڈومیسائل سے متعلق نئے قانون نے کشمیریوں میں مزید بےچینی پید اکی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی قابض انڈین فورسز کی جانب سے بہت سی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں- کشمیر کی عوام ایک محاصرہ جیسی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں اور انٹرنیٹ اور روابط کی دوسری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں- کوویڈ-19 وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے دنیا کشمیریوں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ لگا سکتی ہے جو عرصہ دراز سے کرفیو میں زندگی بسر کر رہے ہیں- دنیا میں چند ایک ایسے ممالک ہیں جو اپنے مالی مفادات کی وجہ کشمیریوں کے اصولی موقف کی حمایت سے گریزاں ہیں-
عالمی میڈیا میں مسئلہ کشمیر کے تذکرہ اور اہمیت میں اضافہ ہوا ہے خصوصاً جولائی 2016ء کے بعد سے جب انڈین آرمی نے سماجی کارکن برہان وانی کو بہیمانہ طور پر ماوارائے عدالت قتل کر دیا- اقوامِ متحدہ نے بھی اپنی پچھلی 50 سالہ خاموشی کو توڑا ہے اور مسئلہ کشمیر کو زیرِ بحث لایا ہے- اسی طرح انڈیا کے قریبی اتحادی جاپان نے بھی مسئلہ کشمیر پر بات کی ہے اور وہاں پر انڈین آرمی کے ظالمانہ کردار کو زیرِ بحث لایا ہے- اب وہ دن نہیں رہے جب انڈیا پاکستان پر بغیر ثبوتوں کے کشمیر میں دراندازی کا الزام لگا دیا کرتا تھا ، اب دُنیا کشمیر میں جاری مظالم پہ بھارت کے سامنے آواز اُٹھاتی ہے- ایک بہت بڑی ڈویلپمنٹ فرانس میں منعقد ہونے والی جی-7 کانفرنس میں ہوئی جہاں سیشن کے اختتام پر امریکہ اور فرانس کے صدور نے نریندرا موذی سے کشمیر کے مسئلہ پر بات کی- یہ عالمی رجحان میں بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ اب ہر کوئی انڈین گورنمنٹ سے کشمیر میں کیے جانے والے ظلم و ستم پر سوال کر رہا ہے- اس ضمن میں پاکستانی میڈیا کا کردار بھی حوصلہ افزاء ہے-
پاکستان کو ہر ممکن وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوششیں کرنی چاہیئں خواہ ثالثی یا دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے یا چاہے یکطرفہ اقدامات اٹھانے پڑیں- پاکستان مذاکرات کے ذریعے کم از کم 1990ء سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والے ہزاروں کشمیریوں کے متعلق بات کر سکتا ہے- انڈیا میں اگرچہ اس وقت مخصوص فاشسٹ عزائم کی حامل گورنمنٹ ہے جس سےخود بھارتی عوام بھی ناخوش ہے- سول سوسائٹی نہ صرف دونوں ممالک میں بلکہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے اور اس کو ممکنہ حل کے جانب لے جانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے- یہ سوچ کہ مسئلہ کشمیر صرف دو ممالک کا مسئلہ ہے ایک احمقانہ سوچ ہے - ہندوستان کا یہ پروپیگنڈا غلط ہے کہ مسئلہ کشمیر شملہ معاہدہ کے تحت دو طرفہ مسئلہ ہے کیونکہ شملہ معاہدہ سے سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کی اہمیت کم نہیں ہوتی اور نہ ہی عالمی ثالثی کو رد کیا جا سکتا ہے-
یہ ہمارا قومی و عالمی فریضہ ہے کہ انسانیت کیخلاف اس ظلم کو روکا جائے- انسانی حقوق کی خلاف ورزی چند لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اسکے عالمی اثرات مرتب ہوتے ہیں- ہمیں عزمِ مصمم کرنا ہو گا کہ ہم اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے جب تک کشمیریوں کو آزادی اور حقِ خود ارادیت نہیں مل جاتا- ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تحریک کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی کے ذریعے ایک عالمی تحریک کا درجہ دیا جائے- مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلیے ایک منظم تحریک اور انتھک کوششوں کی ضرورت ہے- پاکستان کی آزادی کشمیر کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے-
تجاویز:
مقررین کی تقاریر کے بعد، درج ذیل تجاویز مرتب کی گئی ہیں:
v پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو اپنے سفارتی ذرائع کے ذریعے قائل کرنا چاہیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے رومن سٹیچوٹ کے آرٹیکل 13-بی کے تحت انڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں نسل کشی، جنگی جرائم اور ظلم و بربریت کے ارتکاب پر مقدمہ چلائے-
v اقوامِ متحدہ ، اس کے ذیلی اداروں اور دیگر عالمی تنظیموں OIC، یورپین یونین وغیرہ کو مقبوضہ کشمیر کے مستقل حل، وہاں سے کرفیو اٹھانے اور معصوم شہریوں کے قتل عام کو روکنے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہیں-
v عالمی برادری کو ایک منظم کمپین کے ذریعہ قائل کیا جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں’’ڈیموگرافک ٹائم بمب‘‘ اور ڈبل لاک ڈاؤن کیخلاف آواز اٹھائی جا سکے-
v پاکستان میں ایک نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جانا چاہیے جو کہ صرف اور صرف کشمیر کے کاز پر کام کر ے- نائب وزیرِ خارجہ کی معاونت کیلیے ایک سپیشل سیل قائم کیا جائے جس کی سربراہی سپیشل سیکریٹری کرے اور تجربہ کار افسران کی ایک ٹیم اس میں شامل ہو-
v پاکستان کو اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ کشمیر کیلیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے جو کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھ سکے چاہے انڈیا اس کیلئے رضامند نا بھی ہو-
v انڈیا ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکاری رہا ہے- پاکستان کو چاہیے کہ یکطرفہ اقدامات کے ساتھ مختلف عالمی فورمز پر کثیر الجہتی کوششوں کو بھی جاری رکھے تاکہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل تلاش کیا جا سکے-
v عالمی میڈیا کو بھی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرے اور مقبوضہ کشمیر میں برپا کیے جانے والے بھارتی ریاستی مظالم اور تحریکِ آزادئ کشمیر کی اصل تصویر کو بھی واضح کرے-
٭٭٭