’’نیتن - ٹرمپ‘‘ انتخابات میں کامیابی کیلئے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ کروائے گئے ’’ابراہام ایکارڈ‘‘ سے پاکستان میں ایک بار پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحث شروع کروائی گئی ہے- تحریک ِ پاکستان، آل انڈیا مسلم لیگ بطور تنظیم اور اس کے سرکردہ راہنماؤں کی ذاتی حیثیت میں اسرائیل کے بارے اپنائے گئے مؤقف کو سامنے رکھ کے لاتعداد حوالہ جات سے بات کی جا سکتی ہے، جس پہ کہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے- زیرِ نظر تحریر کا مقصد موجودہ ملکی ، علاقائی اور عالمی تناظر میں مختلف پہلؤوں سے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ پاکستان کے حق میں کیا ہے ؟ اسرائیل کو تسلیم کر لینا --- یا --- بانیانِ پاکستان خاص کر قائدِ اعظم کے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے مؤقف پہ قائم رہنا -
اس کے سات ممکنہ پہلو ہیں جن پہ بالترتیب بات کی جائے گی - (A) نظریاتی پہلو - (B) مذہبی پہلو - (C) علاقائی اور عالمی اتحادات - (D) بین الاقوامی قانونی پہلو - (E) دفاعی پہلو - (F) معاشی و اقتصادی پہلو - اور - (G) کامن سینس
A.نظریاتی اختلافات Ideological Conflicts
1. اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے مراد ہو گا کہ پاکستان نے 1917ء کے بالفور ڈیکلیریشن کو تسلیم کر لیا ہے- پوری دُنیائے اسلام یک آواز ہو کر متفق تھی بالفور ڈیکلیریشن کے خلاف - جس میں برطانوی سامراج نے صیہونی یہودیوں کی عالمی تنظیم کو فلسطینیوں کی رائے اور رضا مندی کے بغیر فلسطین میں ایک ریاست کی منظوری دی -
2. اسرائیل کو تسلیم کرنا تھیوڈور ہرزل کی صہیونی نظریاتی تحریک کو تسلیم کرنا ہے جوکہ فلسطین میں غاصبانہ قبضہ ونوآبادیات کے ذریعے ایک صہیونی ریاست کے قیام کا حامی تھا - ہرزل کی کتاب :
“The Jewish State: A Proposal for a modern solution to the Jewish Question”.
جس میں الگ صہیونی ریاست کے مقاصد درج ہیں؛
I.صہیونی قومی و نظریاتی اساس کو دوبارہ اجاگر اور مضبوط کرنا
II. فلسطین میں یہودی آبادکاری کو فروغ دینا
III.مضبوط حکومتوں کے ساتھ روابط بنانا تاکہ اسرائیل کی تخلیق اور فلسطین کے خاتمے کا مقصد پورا ہو-
3. پاکستان کے بانیان اپنے عہد کے منجھے ہوئے قانون دان اور بلند پایہ مفکرین تھے؛ جیسا کہ قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور نوابزادہ لیاقت علی خان - ان لوگوں نے بالفور ڈیکلیرشن اور مڈل ایسٹ میں پیدا ہونے والے دیگر سیاسی و جاسوسی محرکات کا بہت اچھے سے مطالعہ کیا - یہ لوگ عالمی و علاقائی معاملات کے مانے ہوئے لیڈرز تھے - وہ ’’کیئر فل آئینی و قانونی سٹڈی‘‘کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسرائیل ہر اعتبار سے ایک غیر قانونی ریاست ہے اس لیے اس کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہئے -
لہٰذا اگر پاکستان اسرائیل کو آج تسلیم کرتا ہے تو ہم اپنے بانیان کی بصیرت کی مخالفت کریں گےاور اس بات کو ثابت کریں گے کہ عالمِ اسلام کے ان عظیم مفکرین اور راہنماؤں نے اسرائیل کے معاملے پر غلط مؤقف اپنایا تھا - یہ ایک بہت بڑی غلطی بلکہ ان عظیم المرتبت مفکرین کے افکار و خدمات سے غداری کے مترادف ہو گا-
B. مذہبی اختلافات
Theological Contradictions
4. مذہبی نقطہ نظر سے یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ اسلام اور یہودیت دونوں اہلِ کتاب اور ابراہیمی مذاہب ہیں- لیکن جہاں تک ایک دوسرے کے احترام کی بات ہے تو مسلمان انبیائے بنی اسرائیل (حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داؤود و سلیمان ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہیں جبکہ یہودی پیغمبرِ اسلام (ﷺ) کا انکار کرتے ہیں - اس لئے ہم نے ان کا نہیں بلکہ انہوں نے ہمارا انکار کیا ہے- کبھی کسی مسلمان نے انبیائے بنی اسرائیل میں سے کسی کی توہین نہیں کی- لیکن! اسرائیلی سوشل میڈیا اور کئی ایک صہیونی لکھاری آئے روز ہمارے نبی (ﷺ) کی توہین کرتے ہیں -
5. ہماری اور ان کی کتاب میں بہت سے اصولی فرق ہیں جنہیں سمجھے بغیر ریاستِ اسرائیل کا قبول کرنا ایک اسلامی نظریاتی مملکت کیلئے کسی طور مناسب نہیں ہے - تمام یہود کا نہیں بلکہ صرف صہیونی یہودیوں کا یہ ماننا ہے کہ اسرائیل ابراہیم و اسحاق کے خدا کی طرف سے موعودہ خطہ ہے جو بنی اسرائیل کو دیا گیا - (Promised land by God)
بہت بڑا سوال یہاں پہ اٹھتا ہے کہ ان کے ’’پرامسڈ لینڈ‘‘ کے اس دعوے کی ہماری کتاب اور ہماری تھیالوجی میں کیا ’’ویلیڈیشن‘‘ ہے ؟ یہ بات طے کئے بغیر اسلامی نظریاتی مملکت میں بھلا کس طرح کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے ؟
6. تھیالوجی میں اگر مزید گہرائی میں اُتریں تو دونوں میں ’’اینڈ آف ٹائم‘‘ کے متعلق بھی یکسر متصادم نظریات پائے جاتے ہیں - جن کو دونوں جانب سے ان دو ریاستوں سے بھی منسلک کر کے بیان کیا جاتا ہے -
7. مسلم تھیالوجی اور ٹیکسٹ میں بیت المقدس کو جو مقام حاصل ہے ریاستِ اسرائیل اس کو عملاً مسترد کرتی ہے ، جس کا واضح ثبوت بیت المقدس کو یکطرفہ طور پہ صہیونی ریاست کا ’’غیر منقسم دارالحکومت‘‘ بنانا ہے - بیت المقدس کا ہر قیمت پہ تحفظ کرنا ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے -
8. صہیونیوں کا دعویٰ ہے کہ اولڈ ٹیسٹامنٹ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا بنی اسرائیل سے وعدہ ہے کہ اُنہیں دریائے نیل سے فراط کے درمیان کی سر زمین دے گا - ایک عالمی جریدے کو 1988ء میں انٹر ویو دیتے ہوئے یاسر عرفات مرحوم نے بھی یہ کہا تھا کہ اسرائیلی جھنڈے میں دو لائنیں نیل سے فراط کے درمیان ریاستِ اسرائیل کے پھیلاؤ کی نمائندگی کرتی ہیں؎- بارِ دگر یہی سوال اٹھتا ہے کہ مسلمانوں کی کتاب اور تھیالوجی میں اس کی کیا ویلیڈیشن ہے ؟ ایسا نظریہ رکھنے والی ریاست کو ایک اسلامی نظریاتی ریاست کیونکر تسلیم کر سکتی ہے ؟
C. علاقائی و عالمی اتحادات
Regional & International Alliances
9. الائینسز میں سب سے پہلے دنیائے اسلام کی بات کرتے ہیں - اپنے نظریہ کی وجہ سے پاکستان کی عالمِ اسلام میں خاص کر عامۃ المسلمین میں بے پناہ عزت ہے- اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان دنیا بھر کے عامۃ المسلمین میں اپنا وقار و معیار کھو بیٹھے گا-
ایک خوبصورت ’’کو انسیڈینٹ‘‘ ہے کہ ہم بیت المقدس کی بات کر رہے ہیں اور امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ نے یروشلم کی فتح کے موقعہ پہ ہی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کو یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ:
’’إِنَّا كُنَّا أَذَلَّ قَوْمٍ فَأَعَزَّنَا اللهُ بِالْإِسْلَامِ فَمَهْمَا نَطْلُبُ الْعِزَّةَ بِغَيْرِ مَا أَعَزَّنَا اللّهُ بِهِ أَذَلَّنَا اللهُ ‘‘
’’ہم ایک پستی کا شکار قوم تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا کی- اگر ہم اسلام کو چھوڑ کر عزت دار بننا چاہیں گے تو جس نے عزت دی ہے وہ پھر ذلیل و رسوا کر دے گا ‘‘-
اے اہلِ پاکستان! کیا یہ امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے زمانے کی بات ہے یا ہمارے زمانے کی ؟ ہم بھی رسوا تھے مگر کلمہ کی بنیاد پہ عزت ملی ، آزادی ملی ، ملک ملا --- اور --- آج ہم اسی کلمے کا سودا کردیں تو کیا اللہ کی بے آواز لاٹھی ہمیں پھر رسوا نہیں کر دے گی -
10.(بصد خدا نخواستہ) اگر پاکستان1948 ء میں یا اس سے متصل بعد کے چند برسوں میں ہی اسرائیل کو تسلیم کر لیتا تو شائد مادی فائدے سمیٹ سکتا تھا - مگر اس وقت وزیر اعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان نے امریکی صنعت کاروں اور تاجروں کی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عِوض بہت بڑے ملٹری اور اکنامک پیکج کی آفر ٹھکراتے ہوئے بتایا تھا :
“Gentelmen! Our souls are not for sale”.[1]
تاہم آج جب علاقائی بلاک /اتحاد بنائے جا چکے ہیں- ہمارے خطے جنوبی ایشیا میں اسرائیل اپنے ایسے مستقل دوست بنا چکا ہے جنہوں نے آج تک پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا - اس لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کیلیے مزید مشکلات پیدا کرے گا -
11.علاقائی سیاست میں پاکستان، چین اور روس کے ساتھ مضبوط روابط قائم کر کے اکنامک کوریڈور کے منصوبہ کو کامیاب بنانا چاہتا ہے جب کہ اسرائیل اور امریکہ اس منصوبہ کے خلاف ہیں- اس بات پہ ایک سیر حاصل اور ’’کریڈیبل کوانٹی ٹیٹیو‘‘ تحقیق پیش کی جا سکتی ہے کہ کس طرح ’’اسرائیل بیکڈ‘‘ اخبارات، جرائد اور ویب سائیٹس نے سی پیک کے خلاف پروپیگنڈا کیا ہے - لہذ ا! اسرائیل کو تسلیم کرنا علاقائی سیاست میں پاکستان کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو سکتا-
اسی سے متصل یہ بات کہ :امریکہ اور اسرائیلی بلاک، ایشیاء میں چین کو کمزور کرنے کے لیے بھارت کو خطے کا چوہدری بنانا چاہتا ہے جو کہ نہ صرف پاکستان کے معاشی مفاد کے لیے خطرہ ہے بلکہ اس کی وجہ سے پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے-
D. بین الاقوامی قانونی پہلو
International Law Perspective
12.اسرائیل کو تسلیم کرنا ، اسرائیل کے مظالم کو تسلیم کرنا ہو گا - جب صہیونی شر پسندوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو بے دردی سے شہید کیا اور لاکھوں کو تقریباً نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا اور سینکڑوں قصبے، شہر اور گاؤں خالی کروا کر ملیا میٹ کر دیے گئے- خود اسرائیلی مؤرخ ایلن پیپ نے اسے فلسطینیوں کی نسل کشی قراد دیا - یہ مظالم آج تک جاری ہیں- کوئی ایسا دن نہیں جب فلسطینی مسلمانوں پہ ظلم و جبر نہ آزمایا گیا ہو -
13.اگر دو ریاستی حل کو بھی دیکھا جائے تو اس میں بھی عالمی قوانین میں اسرائیل کی موجودہ حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا -
1948ء اور 1967ء میں دو ریاستی حل کے ملتے جلتے فارمولے پیش کئے گئے - جن میں تین نکات بنیادی تھے:
I. جن علاقوں پہ اسرائیل نے زبردستی قبضہ کیا ہے وہ قبضہ ختم ہوگا
II. جن مہاجرین کو زبردستی نکالا گیا ہے انہیں واپس آباد کیا جائے گا
III.بیت المقدس کو انٹر نیشنل رجیم ٹریٹ کیا جائے گا
ان میں سے کسی ایک بات کا بھی پاس نہیں رکھا گیا کیونکہ اسرائیل خود دو ریاستی حل کو قبول نہیں کرتا -
14.اسرائیل کی عالمی قوانین کے خلاف ’’زبردستی انیکسیشن پالیسی‘‘ آج بھی جاری ہے- متحدہ عرب امارات کا حالیہ معاہدہ اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر نیتن یاھو کا زبردستی قبضے نہ روکنے کا سٹیٹمنٹ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر پاکستان تسلیم کر بھی لے جو کہ امارات سے زیادہ مضبوط نہیں ہے اس خطے میں ، تو بھی انیکسیشن جاری رہے گی - اِس لئے تسلیم کر لینے سے فلسطین کاز کو نقصان ہوگا جیساکہ UAEکے کر لینے سے ہوا ہے؛ اور یہ بات اخلاق اور قانون کی روح کے منافی ہے کہ غاصب کو اعلانیہ غصب کے باوجود تسلیم کیا جائے -
15.موجودہ حالات میں اسرائیل کو تسلیم کرنا، بیت المقدس کو اسرائیل کا متحدہ دارلحکومت کےدعوی ٰ کومانناہے- یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کو عالمی طور پر بالخصوص اقوام متحدہ کی قرارداد 303 میں بھی رد کیا گیا -
16.اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ بین الاقوامی قانون میں Concept of Sovereignty اور Concept of integrity کے خلاف ہے- اس لئے پاکستان کو ایسے ملک کو کیونکر ماننا چاہئے جو مسلسل عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے -
E.دفاعی پہلو:Defense Perspective
17.بھارت-اسرائیل کے دیرینہ تعلقات اور اسٹریٹیجک مفادات پہ کنورجنس کی وجہ سے اسرائیل ہمیشہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کرے گا جس سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافےکے کوئی امکانات نہیں-
18.جس طرح امریکہ پاکستان کو ہتھیار بیچتے ہوئے یہ پابندیاں عائد کرتا ہے کہ یہ ہتھیار انڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہونگے - بالکل اسی طرح یہی رویہ ہتھیاروں کے معاملے میں اسرائیل کا ہوگا کہ اسرائیل سے لیا جانے والا اسلحہ پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن بھارت کی جارحیت روکنے کیلئے استعمال نہ ہو سکے گا -
19.نظریاتی و مذہبی اختلافات کے باعث اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں ہمیشہ پاکستان کو اندرونی و بیرونی طور پہ کمزور کرنے کے درپےرہیں گی- جس طرح ابھینندن واقعہ کے دنوں میں پاکستان میں بہت زیادہ یہ بات ڈسکس ہوئی کہ ایک اور ملک کا بھی طیارہ گرا ہے اور ان کی حکومت پائلٹ کی ڈیڈ باڈی مانگ رہی ہے- حتیٰ کہ آفیشلز سے بھی اس طرح کے سوالات ہوئے -
20.یہ مفروضہ غلط ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے پاکستان کو تھریٹس ختم ہو جائیں گے خاص کر سائیبر سیکورٹی میں - اسرائیل کو تسلیم کر کے بھی پاکستان کو اسرائیل سے سائیبرسیکیورٹی تھریٹ قائم رہےگا- جیسا کہ بھارت کو تسلیم کرنے کے باوجود تاریخی، مذہبی اور نظریاتی اختلافات کے باعث بھارت پاکستان میں کراس بارڈر ٹیرر ازم سے باز نہیں آیا - لہٰذا! اس بات کی بھی کوئی توقع نہیں کہ اسرائیل کےساتھ ہمارے تاریخی، مذہبی اور نظریاتی اختلافات کے باعث اسرائیل اپنے گھناونے عزائم سے باز رہے گا -
21.تاریخی طور پہ ہمارے ایٹمی پروگرام کی سب سے زیادہ تکلیف انڈیا اور اسرائیل کو رہی ہے - اس لئے اسرائیل اگر کوئی خرابی نہ کر سکا تو کم از کم کسی طرح کا کوئی تعاون نہیں کرے گا ایٹمی پروگرام میں -
اسرائیل کو اگر پاکستان تسلیم کر بھی لے تب بھی دفاعی میدان میں پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا بلکہ بعض خطرات بڑھ جائیں گے -
F.معاشی وجوہات Economic Reasons
22.اگر ایک جامع (Cost and benefits analysis) کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کر لینے کا معاشی فائدہ کچھ بھی نہیں ہو گا- اتنے بڑے نظریاتی اختلاف کو ترک کرنےکے بدلے ہمارا معاشی فائدہ کوڑیوں کے بھاؤ بھی نہیں ہے- عام سے عام شخص بھی یہ سوالات سمجھ سکتا ہے کہ اگر پاکستان تسلیم کر بھی لے تو کیا ہمارے قرضے معاف ہو جائیں گے؟ قرضوں میں کوئی نرمی ہو جائے گی؟ قرضوں پہ سود معاف کر دیا جائے گا؟ کیا پاکستان کو عالمی منڈیوں میں با سہولت رسائی مل جائے گی ؟ کیا پاکستان کی برآمدات میں کوئی اضافہ ہو جائے گا؟ کیا پاکستان کی مصنوعات اور پیداوار میں اضافہ ہو جائے گا؟
سوچیں بھی مت کہ اسرائیل ہمیں 73 برس کے شدید اختلافات اور فورسز کے ’’خفیہ معرکوں‘‘ کے بعد کوئی معاشی فائدہ ہونے دےگا - بلکہ بالیقین کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہماری معاشی و اقتصادی مشکلات بڑھ جائیں گی- بھولنا نہیں چاہئے کہ عالمی سیاست میں کوتلیہ چانکیہ کا اصول قدم قدم پہ آزمایا جاتا ہے کہ :
’’جس سے دشمنی رکھنی ہو اس سے دوستی کرو، جب اسے قتل کرنا ہو تو اس سے بغلگیر ہو جاؤ اور جب قتل کر چکو تو اس کی لاش پہ آنسو بہاؤ‘‘ -
23.جنوبی ایشیاء میں اسرائیل کا دستِ راست بھارت کسی صورت بھی پاکستان اور اسرائیلی تعلق بحال ہونے کی صورت میں کوئی فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دے گا- نہ ہی اسرائیل کسی صورت پاکستان کو بھارت پہ ترجیح دے گا -
24.پاکستان اگر نہ چاہتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر بھی لے تو باہمی اعتماد کے فقدان یعنیtrust issues کے باعث قابل قدر معاشی فائدہ اٹھانے کی کوئی امید نہیں ہے -
G. منطقی وجوہات :Common Sense
25.اسرائیل کوتسلیم کرنا، 1947ء کا فلسطین تقسیم فارمولےکومانناہوگا جس میں فلسطین کی ٪54 زمین یہودیوں کو دی گئی جبکہ وہ صرف کل ریاست کے ٪6 فیصد کے مالک تھے- یہ اس وقت یہودیوں کا منصوبہ تھا جس وقت یورپ سے یہودی فلسطین ہجرت کرنا پہلےسے ہی شروع کرچکےتھےتا کہ وہ فلسطین کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرسکیں-
26.اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا عزم چونکہ بانیانِ پاکستان سے ہے اس لئے پوری قوم اس مسئلہ پہ بہت حساس ہے، نیز قبلۂ اول کی وجہ سے اس معاملہ کی عوام الناس میں مذہبی و روحانی اہمیت بہت زیادہ ہے- ایسا فیصلہ پاکستان کی پہلے سے ہی پیچیدہ داخلی صورتحال کیلئے مناسب نہیں ہو گا -
اس نازک اور حساس مسئلہ پہ پبلک سینٹیمنٹ کے خلاف جانا خالصتاً غیر سیاسی اور فساد انگیز عمل ہوگا- ملائیشیا کے پہلے وزیر اعظم تنکو عبد الرحمان نے اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ سفارتی تعلقات قائم نہیں کر سکتے کیونکہ عامۃ المسلمین سرزمینِ فلسطین پہ اسرائیل کو نہیں مانتے-
27.اسرائیل کو تسلیم کرنا اور قبلۂ اول (مسجدِ اقصیٰ) کو ترک کرنے سےمراد ہو گا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے- اس سے مراد ہو گا کہ پاکستان کسی زمین پرغاصبانہ قبضے کرنے والی ریاست کے ساتھ ہے اور اس زمین پر غاصب ریاست کی خودمختاری تسلیم کرتا ہے- اس طرح ، پاکستان مسئلہ کشمیر پر بچی کچی حمایت بھی کھو دے گا-
28.آج اگر ہم تسلیم کر یں تو خسارہ زیادہ اور فائدہ کم ہوگا - کیونکہ اسرائیل کو معلوم ہے کہ ہم خوشدلی اور برابری کی بنیاد پہ نہیں بلکہ مجبور ہو کر تسلیم کر رہے ہیں - مجبور کی دنیا میں کتنی قیمت لگتی ہے یہ ہم سب کو معلوم ہے - اس لئے ذہن سے نکال دیں کہ ’’اگر ہم نے تسلیم کر لیا تو شاید ہم پہ رحم کیا جائے‘‘ - عالمی سیاست مقامی سیاست سے بھی زیادہ بے رحم ہے ، کوئی رحم نہیں کھایا جائے گا حالات اس سے بھی بد تر ہو جائیں گے -
29.یہ درست ہے کہ ہمارے پاس کوئی ’’کمفرٹ ایبل آپشن‘‘ نہیں بچا - اگر تسلیم کریں تو بھی مسائل اور نہ کریں تو بھی مسائل اپنی جگہ ہیں- لیکن ایمان، عقل اور حالات و واقعات کے غیر جانبدارانہ تناظر میں تسلیم نہ کرنا زیادہ با عزت اور بہتر آپشن ہے - اس وقت تسلیم کرنا ایمان، عقل اور حالات و واقعات کے بالکل مخالف ہے -
30.جب ہم کچھ نہیں تھے (یعنی ممالک نہ تھے ، افواج نہ تھیں ، جوہری ہتھیار نہ تھے ، انفرا سٹرکچر نہ تھا ، تربیت یافتہ ہیومن ریسورس نہ تھا ) تب ہم نے بیت المقدس اور قبلۂ اول کیلئے سب کچھ کیا حتیٰ کہ اپنی بساط سے بھی بڑھ کر- آج جب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم بطور قوم کے بہت کچھ ہیں تو ہم قبلۂ اول سے کیونکر منہ موڑ رہے ہیں - اقبال ، قائد اعظم، نوابزادہ لیاقت علی خان، مولانا محمد علی جوہر - یہ سب لوگ بغیر کسی سرکاری عہدہ اور بغیر کسی ریاست کے سربراہ ہوئے بھی بیت المقدس و قبلۂ اول کی حفاظت کیلئے کمر بستہ رہے - اگر اتنے کمزور ہو کر بھی ہم نے سمجھوتا نہیں کیا تو کامن سینس یہ کہتی ہے کہ آج بھی حق و انصاف کے فیصلے پہ قائم رہیں اللہ تعالیٰ کبھی ہماری گردنوں کو سر نگوں نہیں ہونے گا -
اختتامیہ:
کسی بھی طرح یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے معاشی ، دفاعی اور سفارتی مسائل اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ہیں - بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسائل ہماری اندرونی کمزوریوں کے سبب ہیں، لہٰذا ہمیں کرپٹ سسٹم اور کرپٹ لوگوں سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے نہ کہ قبلۂ اول اور شہداء کا لہو بیچنے کی -
اسرائیل کو تسلیم کئے بغیر بھی پاکستان نے بہت کچھ حاصل کیا ہے - مثلاً: (۱) دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت (۲) اسرائیلی تھریٹس کے باوجود دفاعی بالخصوص ایٹمی تنصیبات کا ناقابلِ تسخیر دفاع (۳) دنیا کی منظم ترین افواج میں سے ایک (۴) دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی (۵) ساٹھ کی دِہائی میں ایشیاء کا بہترین اکنامک ماڈل (۶) داخلی کمزوریوں کے باوجود ایک وسیع انفراسٹرکچر (۷) اقوامِ متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی اداروں میں نمایاں سفارتی خدمات اور کامیابیاں …. اس کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست - آئندہ بھی اسرائیل کو تسلیم کئے بغیر ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے عظیم کامیابیاں سمیٹیں گے (انشاءاللہ) -
آخر میں پاکستان کے اہلِ فکر و دانش اور ملکی مستقبل کے فیصلے کرنے والوں کو دو تجاویز دینا چاہوں گا :
(۱) کتابِ زندہ قرآن مجید میں جھانکیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ یاد رکھیں :
’’وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘[2]
’’اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو ‘‘ -
(۲)غور و فکر کے پروسیس سے گزرتے ہوئے اور اس مملکتِ خداداد کے بارے فیصلہ کرتے ہوئے یہ قرآنی دُعا خشوع و خضوع سے مانگنی چاہئے (قرآن مجید کے مطابق یہ دعا سیدنا داؤود علیہ السلام نے مانگی تھی ) :
’’رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِيْنَ‘‘[3]
’’اے ہمارے پروردگار ! ہم پہ صبر میں وسعت عطا فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کفار پہ غلبہ عطا فرما‘‘-
٭٭٭