جمہوریہ آذربائیجان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جو کہ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے بیچ بحیرۂ کیسپین Caspian) Sea) کے ایک کنارے پر واقع ہے-
اس کے شمال میں روس، جنوب میں ایران، شمال مغرب میں جارجیا اور مغرب میں آرمینیا اور ترکی موجود ہیں- آذربائیجان نے پہلی جنگ عظیم کے بعد مئی 1918ء میں اپنی آزادی کا اعلان کردیا لیکن دو سال بعد روسیوں کے قبضے کے بعد آذربائیجان بطور سوویت سوشلسٹ ریپبلک کے سوویت یونین کا حصہ بن گیا جو کہ 1991ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا- جب سرد جنگ کا خاتمہ ہوا تو آذربائیجان نے 18 اکتوبر 1991ء کو سوویت قبضے سے آزادی کا اعلان کر دیا-[1]
جمہوریہ آرمینیا:
جمہوریہ آرمینیا خشکی سے گھرا ہوا ایک زمین بند ملک ہے جو مغربی ایشیاء اور مشرقی یورپ میں واقع ہے- آرمینیا کے مغرب میں ترکی، شمال میں جارجیا، مشرق میں آذربائیجان اور جنوب میں ایران ہے-
آرمینیا ایک مسیحی اکثریتی ملک ہے اور یہاں آرمینیئن اور روسی زبانیں بولی جاتی ہیں- پہلی جنگ عظیم کے بعد آرمینیا سوویت یونین کا حصہ بن گیا اور 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹنے کے دوران یہ آزاد ملک کے طور پر ابھرا-[2]
نگورنو کارا باخ (Nagorno-Karabakh) کا مختصراً تعارف اور تنازعہ کا تاریخی پس منظر:
نگورنو کاراباخ قدیم زمانے سے انیسویں صدی کے آغاز اور روسی حملہ سے پہلے تک آذربائیجان کا حصہ رہا ہے- آذری زبان میں اس کا مطلب ایک بہت بڑا باغ ہے-
تاریخی طور پر جب روس نے اس علاقے پر حملہ کیا تو خان آف کارا باخ اور روسی نمائندے کے مابین ایک معاہدہ جسے ’’معاہدہ کورا چچا‘‘ (Treaty of Kurakchay 1805) کہتے ہیں پر دستخط ہوئے جس کے بعد یہ علاقہ روسی تسلط میں چلا گیا- [3]
نگورنو کاراباخ کے روسی زیر تسلط آنے کے بعد فارس اور روسی سلطنت نے دو مختلف معاہدے کئے جن میں ایک معاہدہ گلستان (The Gulustan Peace Treat 1813) اور روس-فارس جنگ Russo-Persian war of) 1826-1828) کے بعد 10 فروری 1828ء کو دوسرا معاہدہ ترکمانچا (Turkmenchay peace treaty) کے نام سے ہوا-[4]
ان دو معاہدوں کی بدولت فارس شمالی آذربائیجان، نخچیوان (Nakhchyvan) اور ایراون کناٹے (Iravan khanates) کے علاقوں سے دستبردار ہوگیا-
گلستان اور ترکمانچا معاہدوں کے نتیجے میں آذربائیجان کی سرزمینوں میں آرمینی باشندوں کی تیزی سے آباد کاری ہوئی- نتیجہ کے طور پر،ایک مصنوعی علاقائی تقسیم سامنے آئی-
پہلی جنگ عظیم نے بھی جنوبی قفقاز (South Caucasus) میں آرمینی باشندوں کی تعداد کے اضافے میں اہم کردار ادا کیا- صرف 1828ء سے 1911ء تک روسی سلطنت نے اس خطے میں، خاص طور پر موجودہ آذربائیجان میں دس لاکھ سے زیادہ آرمینیوں کو فارس اور عثمانی ترکی سے دوبارہ آباد کیا-[5]
1905ء اور 1907ء میں آرمینیوں نے بڑے منظم طریقے سے آذربائیجانیوں کے خلاف حملے کئے- اپریل 1919ء میں اتحادی طاقتوں نے کاراباخ کی عارضی جنرل گورنر شپ کو تسلیم کیا بشمول شوشہ (Shusha)، جاونشیر (Javanshir)، جبرائیل (Jabrayil) اور زنگازور (Zangazur) کے علاقے جو آذربائیجان ڈیموکریٹک ریپبلک نے جنوری 1919ء میں قائم کیا تھا- شوشہ کا قصبہ نگورنو کاراباخ کا انتظامی مرکز بن گیا اور خسرو سلطان کو گورنر مقرر کیا-اسی سال نگورنو کاراباخ کی آرمینیائی قومی اسمبلی نے آذربائیجان کے اختیار کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا- جب آذربائیجان سوویت یونین کے قبضے میں چلا گیا تو نگورنو کاراباخ کو سوویت یونین نے آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا-
روس کے 1936ء اور 1977ء کے آئین میں نگورنو -کاراباخ کو آذربائیجان SSR کی حدود میں ایک قانونی حیثیت حاصل تھی-1980ء اور 1990ء کی دہائی میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یونین ٹوٹ گیا اور آذربائیجان اور آرمینیا نے آزادی کا اعلان کردیا- آرمینیا اس علاقے کو غیر قانونی طور پرحاصل کرنے کیلیے 1980ء کی دہائی میں بھی خونریز جنگیں چھیڑ چکا ہے-
آزادی کے اعلان کے ساتھ 1991ء میں آرمینیائی شدت پسندوں نے جنہیں آرمینیا کی پشت پناہی حاصل تھی اس علاقے میں تشدد پسندانہ سرگرمیاں شروع کردیں جو بعد میں جنگ کی شکل اختیار کر گئی - جس سے ہزاروں لوگ بے گھر اور قتل ہوئے-
25 اور 26 فروری 1992ء کو آرمینیا کی افواج کھوجالی (Khojaly) جو کہ اب آرمینیائی کے قبضہ میں آذربائیجان کا مقبوضہ علاقہ ہے-
1992ء میں دو گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں شدت پسند آرمینیائی فوج نے مارٹر ، توپ خانے اور ٹینک سے فائر کر کے 613 معصوم افراد کو بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا تھا- آرمینیائی افواج کا یہ اقدام اس علاقے سے آذری لوگوں کی آبادی کم کر کے قبضہ کرنا تھا-
آذربائیجان کے ریکارڈ کے مطابق ان اموات میں 106 خواتین، 63 بچے اور 70 بوڑھے افراد شامل ہیں جبکہ 487 افراد شدید زخمی ہوئے-نگورنو کاراباخ میں 1994ء کی جنگ کے خاتمے کے بعد سے آرمینی نسل کے شدت پسندوں کا قبضہ ہے جبکہ یہ علاقہ آذربائیجان کی سرزمین کے اندر واقع ہے- تاہم 1994ء کی جنگِ آزادی کے خاتمے کے بعد سے نگورنو -کارا باخ کا نظام اس کے علاقائی باشندوں نے سنبھالا ہوا ہے اور ان کو مکمل فوجی و مالی تعاون کے علاوہ پشت پناہی آرمینیا کو حاصل ہے- [6]
جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا علاقہ تسلیم کیا گیا- لیکن آرمینیا ناصرف اس علاقے پر غیر قانونی قبضہ کئے ہوئے ہے بلکہ مسلسل اشتعال انگیزی کر کے معصوم آذری لوگوں کا خون بہا رہا ہے-
گزشتہ تین دہائیوں سے آرمینیا آذربائیجان کے علاقوں پر بلا اشتعال جھڑپوں کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہے- 2016 ء میں آرمینیا نے ان جھڑپوں میں تیزی کردی- اس پانچ روزہ جنگ سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا- [7]
نگورنو کاراباخ کی سٹریٹیجک اہمیت:
قفقاز (Caucasus) جنوب مشرقی یورپ کا اسٹریٹجک لحاظ سے ایک اہم پہاڑی علاقہ ہےجہاں نگورنو کاراباخ بھی واقع ہے- صدیوں سے خطے میں مختلف طاقتوں نے وہاں پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی ہیں-
اس کے علاوہ یہ علاقہ توانائی کے ذخائر اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے- توانائی کے ذخائر گزرنے کیلئے کافی روٹس اس علاقے سے ہو کر گزرتے ہیں-
اس خطے میں توانائی کے شعبے کے اعتبار سے آذربائیجان ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے اور مرکزی برآمدات میں تیل کی مصنوعات شامل ہیں-
یہ خطہ دفاعی لحاظ سے بھی بہت اہم خطہ ہے - اس لئے اس خطے کی علاقائی اہمیت کو دیکھتے ہوئے روس نے آرمینیا میں ایک فوجی بیس بھی قائم کی ہوئی ہے - اس کے علاوہ روس اور آرمینیا ایک فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہیں جس کا نام ’کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن‘(CSTO) ہے- دوسری طرف آذربائیجان اور ترکی کے درمیان دفاعی تعاون کے معاہدے ہیں اور دونوں ممالک مشترکہ جنگی مشقیں بھی کر چکے ہیں-[8]
نگورنو کاراباخ اور عالمی فورمز کی قراردادیں:
نگورنو کاراباخ بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ( قرارداد نمبر:822، 853، 874، 884)اور جنرل اسمبلی(قرارداد نمبر:114/48، 298/57، 285/60، 243/62)قراردادوں کے مطابق نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا تسلیم شدہ علاقہ ہے- جس پر آرمینیا کی فورسز نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی چار قرار دادوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ:
’’آرمینیا آذربائیجان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے نگورنو کاراباخ سے اپنی افواج کا جلد انخلا کرے‘‘-
اسی طرح ’’اسلامی تعاون تنظیم (OIC) بھی نگورنو -کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کرتی ہے جس پر آرمینیا نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے-OIC قرار دادوں ( قرارداد نمبر:46/3، 46/4، 46/7، 46/12)کے مطابق:
’’آرمینیا کی آذربائیجان کے خلاف اشتعال انگیزی کی مذمّت کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ آرمینیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل کرتے ہوئے نگورنو کاراباخ سے اپنی افواج کا جلد انخلا کرے‘‘-
یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی قراردادوں( قرارداد نمبر: 0128، 0193، 0446) میں بھی نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے-
یورپ میں سلامتی اور تعاون کیلئے تنظیم (OSCI) نے 1992ء میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو -کاراباخ کے تنازعہ کو حل کرنے کیلئے ’’Minsk Group‘‘ کا قیام عمل میں لایا لیکن یہ گروپ آج تک اس تنازعہ کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے-[9]
حالیہ تنازعہ:
حال ہی میں 27 ستمبر 2020ء کو آرمینیا نے دوبارہ آذربائیجان پر بلا اشتعال فائرنگ شروع کر دی اور سویلین آبادی کو نشانہ بنایا-[10] جس کے بعد آذربائیجانی افواج نے آرمینیا کی اشتعال انگیزی کا بھر پور جواب دیتے ہوئے آرمینیا کے جہاز مار گرائے اور فوجی نفری کا بھی نقصان ہوا-
آرمینیا کی افواج نے میزائلوں، توپ خانوں اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں آذربائیجان کی سویلین آبادی اور اس کے علاوہ بنیادی ڈھانچے، اسکولز اور تیل اور گیس کی پائپ لائنوںکو بھی نقصان پہنچا ہے-
آذربائیجان کے صدر الہام علی ایف نے کہا تھا کہ انہوں نے آرمینیائی فوج کے حملوں کے جواب میں بڑے پیمانے پر کاروائی کا حکم دیا ہے-[11]
ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے ان کے بیان میں کہا گیا تھا کہ جوابی کاروائی کے نتیجے میں آذربائیجان کے متعدد رہائشی علاقوں کو، جنہیں قبضے میں لیا گیا تھا، آزاد کرا لیا گیا ہے- مجھے یقین ہے کہ ہماری کامیاب جوابی کاروائی اس ناانصافی اور 30 سالہ طویل قبضے کو ختم کر دے گی-
جب مختلف ممالک کی جانب سے جنگ بندی پر زور دیا گیا تو آذربائیجان کے صدر الہام علی ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ:
’’ آرمینیائی فوج کا نگورنو کاراباخ کے علاقے سے انخلا ہی جنگ ختم کرنے کا واحد راستہ ہے‘‘-
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے آذربائیجان کا بھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ:
’’آرمینیا علاقائی امن و امان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘‘-
آرمینیا کی طرف سے چھیڑی گئی اس جنگ میں آذربائیجان بھر پور جواب دیتے ہوئے اپنے کافی علاقے قبضے سے آزاد کروا چکا ہے-[12]
عوامی سطح پر ردعمل :
آرمینیا کی جارحیت کے بعد پاکستان، ترکی اور آذربائیجان میں ناصرف عوامی سطح پر بلکہ حکومتی سطح پر بھی ’’آذربائیجان،ترکی اور پاکستان تین ممالک اور ایک ملت ہیں‘‘ کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور کھل کر آذری بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی جا رہی ہے-
پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر علی علی زادہ نے باکو کی ایک وڈیو بھی ٹویٹر پر شیئر کی جس میں وہاں کے رہائشیوں نے گھروں کی بالکونیوں میں پاکستان اور ترکی کے جھنڈے لگا کر مشکل وقت میں ساتھ کھڑے ہونے پر اظہارِ تشکر کیا ہے-[13]
حالیہ تنازعہ اور خطہ کی صورت حال پر اثرات:
عالمی سطح پر اس تشویش میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ دفاعی اور جغرافیائی لحاظ سے اہم ’قفقاز‘ خطے میں شروع ہونے والی اس جنگ میں دوسرے ممالک بھی براہ راست شامل ہو سکتے ہیں- اگر یہ جنگ شدت اختیار کرتی ہے تو ناصرف خطے میں بلکہ اس کے پوری دنیا میں دورس نتائج سامنے آئیں گے-
اس لئے ضروری ہے کہ آرمینیا اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرتے ہوئے ناصرف آذربائیجان کے قبضہ شدہ علاقوں کو خالی کر دے بلکہ آذربائیجان کے خلاف جارحیت اور شدت پسندی ترک کر دے-
نگورنو کاراباخ تنازعہ پر پاکستان کا موقف:
پاکستان اور آذربائیجان دو برادری اسلامی ممالک ہیں جن کے درمیان گہرے برادرانہ رشتے استوار ہیں-پاکستان ترکی کے بعد دوسرا ملک تھا جس نے آذربائیجان کو بطور آزاد ریاست تسلیم کیا تھا-
پاکستان نے شروع ہی سے نگورنو کاراباخ پر اصولی مؤقف اپنایا ہوا ہے کہ نگورنو کاراباخ عالمی قوانین کے مطابق آذربائیجان کا علاقہ ہے اور اس پر آرمینیا کا ناجائز قبضہ ہے-
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان ’’ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مظلوم اور محکوم لوگوں کی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا‘‘ کے تحت پاکستان نے آج تک آرمینیا کو تسلیم نہیں کیا ہے-
آرمینیا کی حالیہ اشتعال انگیزی کے بعد پاکستان نے نگورنو کاراباخ میں کشیدگی پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے آذربائیجان کے موقف کی حمایت کا اعادہ کیا ہے-
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ:
’’پاکستان کو نگورنو کاراباخ ریجن میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے- پاکستان نے آذربائیجان کے دیہات میں آبادی پر شیلنگ کی مذمت کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اس سے پورے خطے کا امن اور سلامتی داؤ پر لگ سکتی ہے‘‘-
’’آرمینیا اپنی فوجی کاروائی فوری بند کرے تاکہ کشیدگی میں مزید اضافہ سے بچا جا سکے- پاکستان برادر قوم آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے دفاع کے حق کی حمایت کرتا ہے‘‘-
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ:
’’پاکستان نگورنو کاراباخ پر آذربائیجان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں جو متفقہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ متعدد قراردادوں کے مطابق ہے‘‘-[14]
اختتامیہ:
اگر آج ہم دنیا میں تنازعات کو دیکھیں تو اکثر تنازعات کا استعماری طاقتوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے ادوار سے تعلق ہے جو ابھی تک حل طلب ہیں-اسلامی دنیا میں فلسطین، کشمیر اور نگورنو کاراباخ وغیرہ کے لاکھوں مصعوم لوگ استعماری طاقتوں کی نا اہلی اور بدنیتی کی بدولت آج آگ میں جل رہے ہیں- کشمیر میں برطانوی راج کی ناانصافیوں، فلسطین میں اتحادی افواج کی بدنیتی اور نگورنو کاراباخ میں سابقہ سوویت یونین کی نا اہلی کی وجہ سے لاکھوں مصعوم لوگ قتل اور بے گھر ہو چکے ہیں-
آج اگر ہم ماضی میں جا کر دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی شدت اور دہشت پسند اقوام نے مسلمانوں کو ان کی اپنی سر زمین سے بے دخل کر کے ان کی سرزمینوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں کیں اور مسلسل کی جا رہی ہیں-
صہونی کے مظالم کا شکار فلسطینیوں ہو، آرمینیوں کے ظلم کا نشانہ بننے والے آذری مسلمان ہو یا بھارتی RSSاور ہندوتوا سوچ کی حامل مودی گورنمنٹ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو ان کی زمین سے یا تو بے دخل کیا جا رہا ہے یا نئے ڈومیسائل قوانین بنا کر ڈیموگرافکتبدیلیاں کی جا رہی ہیں جو کہ عالمی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے -
آج مختلف ممالک بجائے آرمینیا پر دباؤ ڈالنے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں کو خالی کریں صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر آرمینیا اور آذربائیجان پر سیز فائر کرنے کا کہہ رہیں ہیں- یہ ناصرف عالمی طاقتوں کی بلکہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آرمینیا پر دباؤ ڈالیں کہ آذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں کو خالی کیا جائے-
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح عالمی طاقت نے بغیر کسی تفریق کے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کا مسئلہ تھوڑے وقت میں حل کیا تھا اسی طرح فلسطن، روہنگیا، کشمیر اور نگورنو کاراباخ کے سالوں پرانے مسائل جو آگ میں سلگ رہے ہیں ان کے حل پر خصوصی توجہ دی جائے اور مظلوموں کے انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے -
٭٭٭
[1]https://www.nationsonline.org/oneworld/azerbaijan.htm
[2]https://www.nationsonline.org/oneworld/armenia.htm
[3]https://canberra.mfa.gov.az/content/61#
[4]http://mfa.gov.az/files/shares/Treaty%20of%20Gulistan.pdf
http://mfa.gov.az/files/shares/Treaty%20of%20Turkmenchay.pdf
[5]https://www.mfa.gov.az/en/content/109/historical-overview
[6]https://www.bbc.com/news/world-europe-17179904https://www.trtworld.com/magazine/what-happened-at-khojaly-34096https://www.aa.com.tr/en/europe/-khojaly-genocide-one-of-darkest-pages-in-20th-century-/1744271
https://www.aljazeera.com/amp/news/2020/9/28/will-azerbaijan-regain-its-separatist-armenia-backed-province
[7]https://www.theguardian.com/world/2016/apr/02/conflict-erupts-between-azerbaijani-and-armenian-forces
[8]https://www.theguardian.com/world/2014/jun/09/-sp-post-soviet-world-need-to-know-armenia
[9]https://www.mfa.gov.az/files/shares/Documents%20of%20international%20organizations.pdf
[10]https://www.trtworld.com/magazine/nagorno-karabakh-a-war-between-armenia-and-azerbaijan-is-dangerously-close-40112
https://www.bbc.com/news/world-europe-54356334
[11]https://president.az/articles/40969
[12]https://www.aa.com.tr/en/azerbaijan-front-line/azerbaijan-liberates-town-several-occupied-villages/2001488
[13]https://twitter.com/Ali_F_Alizada/status/1312811953627242496?s=19
[14]http://mofa.gov.pk/foreign-policy-2/
http://mofa.gov.pk/renewed-tension-in-nagorno-karabakh/27Sep2020