مسلم انسٹیٹیوٹ نے 14 ستمبر 2020ء کو ’’یومِ الحاق جونا گڑھ‘‘ کے موضوع پر ایک ویبینار کا اہتمام کیا- محققین، ماہرینِ تعلیم، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، صحافیوں، سیاسی رہنماوں، طلباء اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ویبینار میں شرکت کی- مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیالات مختصر صورت میں پیش کیے گئے ہیں-
ویبینار میں شامل ماہرین:
v تعارفی و اختتامی کلمات، صاحبزادہ سلطان احمد علی چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ
v معزز مہمان، صاحبزادہ محمد محبوب سلطان وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور
v معزز مہمان، علی محمد خان وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور
v معزز مہمان، پروفیسر ڈاکٹر محمد خان شعبہ، سیاست و بین الاقوامی تعلقات، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آبا د
v معزز مہمان ڈاکٹر سیف الرحمٰن ملک ڈائریکٹر انڈیا سٹڈی سنٹر، انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈی، اسلام آباد
v معزز مہمان، ائیر کموڈور (ر) خالد اقبال صدر فوکس، پاکستان
v اختتامی کلمات، عزت مآب نواب آف جونا گڑھ نواب محمد جہانگیر خانجی
آج ہم جوناگڑھ ریاست کا یومِ الحاق منا رہے ہیں- آج کے دن ریاست جونا گڑھ نے قانونی طور پر پاکستان سے الحاق کیا تھا- اس وقت کی خودمختار ریاست جونا گڑھ کے عزت مآب نواب آف جونا گڑھ نواب مہابت خانجی نے اپنی ریاست کے عوام کی خواہش کے مطابق الحاق کی دستاویز پر قائدِ اعظم کے ساتھ دستخط ثبت کیے- تاہم، انڈیا نے کشمیر کی طرح بزور طاقت ریاست جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا- عالمی قانون کے مطابق، جونا گڑھ اب بھی پاکستان کا حصہ ہے- نواب آف جونا گڑھ عزت مآب مہابت خانجی اور ان کے خاندان نے پاکستان کیلیے عظیم قربانیاں دیں اور جلاوطنی اختیار کرنے والے موجودہ نواب جونا گڑھ عزت مآب جہانگیر خانجی نے بھی پاکستان کے ساتھ اپنی ثابت قدمی کو برقرار رکھا ہوا ہے-
جونا گڑھ بر صغیر پاک و ہند کی سٹیٹ ایجنسی کاٹھیاواڑ میں واقع خودمختار ریاست تھی- جوناگڑھ کا رقبہ 3336 مربع میل تھا جو وسیع اور زرخیز زمینوں پر مشتمل ہے- یہ جزیرہ نما کاٹھیا واڑ کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھی اور اس کے جنوب میں بحیرہ عرب تھا- ریاست کے دائرہ کار میں 84 میل پر محیط خوشنما اور سنہری سمندری ساحل تھا- اس کے ساحل پر 16 بندرگاہیں واقع تھی جس میں ویراوال سرفہرست ہے- مختلف شہروں اور قصبہ جات کی تعداد 999 تک تھی- ریاست جونا گڑھ کے دارالحکومت کا نام بھی جوناگڑھ تھا جو کہ گرنار اور دتار پہاڑیوں کی ڈھلوان میں ساحل سمندر سے 70 میل کی مسافت پر واقع تھا اور انڈیا کے سب سے دلکش علاقوں میں اس کا شمار ہوتا ہے- مغل بادشاہوں اکبر اور جہانگیر کے زمانہ میں موجودہ نواب صاحب کے آباء و اجداد گجرات کے بہت بڑے علاقے کے منتظم تھے- مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے زمانہ حکومت میں نواب جونا گڑھ کے آباء میں سے بہادر خان بابی گہرے اثرو رسوخ کے حامل تھے- ان کے پوتے جو کہ اپنے وقت کے نامی گرامی سیاستدان تھے، نے مغل صوبیدار کے زیر سایہ بہادر خان کے خطاب کے ساتھ 1735 میں جوناگڑھ میں اپنا آزاد اقتدار قائم کیا-اس وقت سے جوناگڑھ کے حکمرانوں کا خطاب نواب ہے- موجودہ نواب صاحب ، نواب محمد جہانگیر خانجی جوناگڑھ کے پہلے نواب بہادر خانجی کے نویں جانشین ہیں-
جونا گڑھ کاٹھیاواڑ کی مرکزی ریاست تھی اس لیے اس کے حکمرانوں کو وزیرِ اعظم کی حیثیت حاصل تھی- ریاست کے پاس شاہی نیزہ بردار دستے بھی تھے جن کو جوناگڑھ کی ریاستی افواج کہا جاتا تھا- یہ ایک منظم فوج تھی اور اس کو ہندوستان کی ریاستی افواج میں نمایاں مقام حاصل تھا- اس کے علاوہ پیدل فوج پر مشتمل دستے ’’مہابت خانجی انفینٹری‘‘ بھی ریاست کے زیر سایہ قائم تھی-ریاست کی بنیادی پیداوار کپاس، گندم، چاول، گنا، تمباکو، میوہ جات، ناریل، بانس،آم وغیرہ پر مشتمل تھی- ’’جونا گڑھ ریاست ریلوے‘‘ کے نام سے ریاست کا اپنا ریل کا نظام تھاجبکہ مفت تعلیم، علاج معالجہ اور ادویات کی فراہمی بھی ریاست کی ذمہ داری تھی- غریب اور نادار افراد کیلیے ریاست کی جانب سے مفت راشن اور کھانا تقسیم کیا جاتا تھا-
1947ء میں تقسیمِ ہند سے پہلے، برصغیر کے دو حصے تھے- ایک برٹش انڈیا تھا جس پر برطانوی حکومت کی براہ راست عملداری تھی اور دوسرا حصہ 562 نوابی ریاستوں پر مشتمل تھا جن کا انتظام و انصرام وہاں پر حکومت کرنے والے نواب کے ذمہ تھا لیکن یہ ریاستیں مختلف معاہدات کے توسط سے تاجِ برطانیہ کے زیر نگیں تھیں- 1947ء میں جب تقسیم ہند کا اعلان ہوا تو ان ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ یا تو وہ انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ایک ریاست سے الحاق کر لیں یا پھر آزادی اختیار کر لیں-
موجودہ نواب صاحب کے دادا جان عزت مآب سر مہابت خانجی سوئم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور 15 ستمبر 1947ء کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے- درحقیقت، الحاق کا فیصلہ صرف نواب جوناگڑھ نے اپنے طور پر نہ کیا بلکہ اس میں ہندو اور مسلم اراکین پر مشتمل ریاستی کونسل کی رضا مندی شامل تھی- جب نواب جوناگڑھ نے بھارتی دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تو انڈیا نے اپنی فوجی قوت کو استعمال کرتے ہوئے ریاست کی ناکہ بندی کردی اور اخلاقی اقدار، عالمی قوانین اور معاہدہ آزادی ہند کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں-
9 نومبر 1947ء کو بھارتی افواج ریاستی مشینری کی مدد کے بہانے ریاست میں داخل ہو گئیں اور جوناگڑھ کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا- یہ پاکستان کی عالمی سرحدوں کی پہلی خلاف ورزی تھی اور پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کیا گیا- اس وقت سے نواب جونا گڑھ اور ان کی اولاد پاکستان میں مقیم ہیں- نواب جوناگڑھ کی مسئلہ جوناگڑھ کے ساتھ لگن مثالی ہے- پاکستان نے سرزمین جوناگڑھ پر بھارتی جارحیت کے حوالے سے اقوام متحدہ میں کیس داخل کیا جو کہ آج تک زیر التواء ہے- جوناگڑھ تقسیم ہند کا ایک اور تشنہ تکمیل ایجنڈہ ہے-نواب جوناگڑھ کا فیصلہ جغرافیائی وجوہات کی بناء پر پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا- جوناگڑھ اس وقت وسائل سے بھرپور ایک ریاست تھی جس کو دیکھ کر ہندوستان نے لالچ میں آ کر قبضہ کر لیا-
برصغیر کی تقسیم سے پہلے وی پی مینن، نہرو اور لارڈ ماونٹ بیٹن جیسے لوگوں نے تمام 562 نوابی ریاستوں پر انڈیا کے ساتھ الحاق کے لیے دباؤ ڈالا- لیکن جوناگڑھ ان ریاستوں میں سے تھی جنہوں نے الحاق ہندوستان سے صاف انکار کیا بلکہ نواب جوناگڑھ نے بیان دیا کہ وہ صرف پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے- علاوہ ازیں لوگ مہاراجہ ہری سنگھ کی دستاویز الحاق کی مثال دیتے ہیں اور اس کا موازنہ جوناگڑھ سے کرتے ہیں- ان کے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہری سنگھ نے 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر پر ہندوستانی حملہ سے پہلے دستایز الحاق پر دستخط نہیں کیے تھے- جبکہ نواب جونا گڑھ نے نہ صرف پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے بلکہ پاکستان سے فوجی امداد کی درخواست بھی کی- حتیٰ کہ پاکستان کا پر چم الحاق کے ایک ماہ بعد تک جونا گڑھ کے ریاستی اداروں کی عمارات پر لہراتا رہا- اسی طرح جونا گڑھ کی دستاویز الحاق عالمی قوانین کے عین مطابق تھی بلکہ بعد میں 1969ء میں قانون معاہدات پر ہونے والے ویانا کنونشن سے مطابقت رکھتی تھی- یہ ایک قانونی دستاویز ہے اور پاکستان جوناگڑھ کے کیس کی عالمی فورمز جیساکہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف پر پیروی کر سکتا ہے-
مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی خصوصی توجہ کی وجہ سے جونا گڑھ عالمی برادری اور پاکستان کے پالیسی سازوں کی توجہ حاصل نہ کرسکا- 4 اگست 2020ء کو پاکستان نے جوناگڑھ کو اپنے نئے سیاسی نقشہ میں شامل کیا- یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس مسئلہ کو مختلف عالمی فورمز پر اٹھایا جائے- اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد کس طرح جوناگڑھ کا کیس عالمی فورمز پر لڑ سکتا ہے؟ اس مسئلہ کو اٹھانے کیلیے پاکستان کے پاس یہ موزوں وقت ہے کیونکہ ہندوستان کے دوسرے ہمسایوں نیپال، بھوٹان اور چین نے بھی اپنے سیاسی نقشے ظاہر کیے ہیں اور ہندوستان کی جانب سے غاصبانہ قبضہ کیے جانے والے علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے- پاکستان کو چاہیے کہ انڈیا کی جانب سے 1947 سے ناجائز طور پر مختلف علاقہ جات قبضہ میں رکھنے کی مذمت کرے اور 15 ستمبر کو یوم الحاق جوناگڑھ اور 9 نومبر کو یوم سقوط جوناگڑھ سرکاری سطح پر منایا جائے- پاکستانی سفارت کاروں کو بھی اپنے سفارتخانوں کے ذریعے عالمی سطح پر آواز اٹھانی چاہیے- حکومت پاکستان کو اسلام آباد میں جوناگڑھ ہاؤس قائم کرنا چاہیے اور میڈیا کو عوام الناس میں مسئلہ جوناگڑھ کے مختلف پہلوؤں سے متعلق آگاہی پیدا کرنی چاہیے- پاکستان میں زیادہ تر کراچی میں جوناگڑھ کے تقریباً 30 لاکھ افراد مقیم ہیں جنہوں نے نواب جوناگڑھ کے ساتھ قیام پاکستان کے موقع پر ہجرت کی تھی- ان میں سے بیشتر معاشی و مالی مسائل کا شکار ہیں جن کے حل کیلیے حکومت پاکستان کو ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ یہ لوگ بھی قومی دھارے میں شامل ہوسکیں-
ہمیں ابھی بھی جوناگڑھ کے مسئلہ پر بہت سی کوششوں کی ضرورت ہے- اس امر کی ضرورت ہے کہ سفارتی ذرائع کے موثر استعمال سے کشمیر اور جوناگڑھ کے ایشوز کو ایک ساتھ مختلف فورمز پر اٹھایا جائے- پاکستان اس کیس کو آخری حد تک لڑے گا کیونکہ پاکستان کا جونا گڑھ پر قانونی اور منصفانہ حق ہے- زندہ اقوام کبھی بھی قومی سالمیت کے ایشوز کو نظر انداز نہیں کرتیں- اگرچہ پاکستان کی وزارت خارجہ اس مسئلہ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے لیکن جونا گڑھ خصوصی توجہ کا ضرورت مند ہے اور وزارت خارجہ کو اس مسئلہ کے حل کیلیے تمام تر سفارتی وسائل بروئے کار لانے چاہیئں- جوناگڑھ کے کیس کے نئے پہلووں کے تجزیہ کیلیے اس پر علمی تحقیق بھی ہونی چاہیے- اس ایشو سے متعلق معلومات کو گوگل، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر پھیلانا چاہیے- یہ ہمارے قومی میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ توجہ کے طلبگار اس مسئلہ کو ضروری کوریج دیں-
وقفہ سوال و جواب:
مقررین کی جانب سے خیا لات کے اظہار کے بعد وقفہ سوال و جواب منعقد ہوا جس میں کی جانے والی ڈسکشن کو مختصر صورت میں پیش کیا گیا ہے-
جہاں تک قومی میڈیا کی بات ہے، الیکٹرونک میڈیا نے اس مسئلہ کو مناسب سطح تک اجاگر نہیں کیا- پاکستان کے نوجوانوں کو سوشل میڈیا جیسا کہ یو ٹیوب، فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے جوناگڑھ کے مسئلہ کو اجاگر کرنا چاہیے- بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر پاکستان اور کشمیر کے نوجوانوں نے دنیا کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرنے کیلیے بہت موثر کردار ادا کیا- اس پر بہت سے فیس بک اور ٹوئیٹر اکاونٹس کو بلاک بھی کیا گیا کیونکہ بھارتی لابی ان سوشل میڈیا ذرائع پر بہت زیادہ اثر رکھتی ہے-تاہم پھر بھی پاکستانی اور کشمیری نوجوانوں نے ہار نہیں مانی اور مختلف سوشل میڈیا اکاونٹس سے عالمی دنیا کو کشمیر کی صورتحال سے باخبر رکھا- اسی طرح کی کاوشیں جوناگڑھ کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کیلیے ضروری ہیں- اس کے علاوہ جوناگڑھ کے ایشو پر مزید زور و شور سے کام کرنے کیلیے تحقیقی تھنک ٹینکس بھی قائم کیے جائیں-
٭٭٭