بھارت میں انصاف کا قتل

بھارت میں انصاف کا قتل

بھارت میں انصاف کا قتل

مصنف: طارق اسمٰعیل ساگر دسمبر 2020

بھارت میں گزشتہ چند برسوں میں ہندو انتہاپسندانہ نظریات، نسلی و مذہبی تعصب ، انسان دشمنی اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے- گو کہ ہندوشدت پسند فاشسٹ طبقات کی جانب سے مسلم دشمن پالیسی گزشتہ کئی دہائیوں بلکہ صدیوں سے جاری ہے لیکن ہندو دہشت گرد تنظیمRSSکی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایک ریاستی دہشت گردی شروع ہے- ہندو انتہا پسند ناصرف ’’ہندو‘‘ مذہب کے علاوہ دیگر تمام مذاہب کو نجس قرار دیتے ہیں بلکہ دیگر مذاہب سےتعلق رکھنے والی بھارتی اقلیتوں سے بھارت کو ’’پاک ‘‘کرنے کی سازش کر رہے ہیں-گزشتہ برس متنازع شہریت ترمیمی قانون (CAA)اسی کی ایک کڑی ہے- اس وقت بھارت میں کم و بیش تمام ریاستی ادارے مکمل طور پر ’’ہندوتوا ‘‘ سوچ کی حامل ہندو فاشسٹ دہشت گرد تنظیم RSS کے مکمل کنٹرول میں ہیں جو علاقائی و بین الاقوامی امن و استحکام کے لیے شدید خطرہ ہیں -بھارتی عدلیہ کی جانب سے بابری مسجد انہدام کیس کے حالیہ فیصلے سے یہ بات ثابت ہو چکی کہ بھارتی عدلیہ بھی ہندو نسلی و مذہبی تعصب اور جانبداری کا شکار ہے -

لکھنو کی ایک خصوصی عدالت نے 1992ء سے زیر سماعت بابری مسجد انہدام کیس میں تمام مرکزی ملزمان کو بری کر دیا ہے- بابری مسجد کی شہادت میںBJPکے رہنما اورسابق نائب وزیر اعظم لال کرشنا ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اتر پردیش کے سابقہ وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو باعزت بری کرنے کے انتہائی جانبدارانہ فیصلے نے دنیا بھر میں ہر ذی شعور شخص کو چونکا کر رکھ دیا ہے-گزشتہ برس نومبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر کے ایک اور کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ مسجد کو منہدم کیا گیا ہے اور یہ ایک مجرمانہ فعل تھا- جبکہ خصوصی عدالت کے متعصب جج ایس کے یادو کے مطابق 28 سال چلنے والے اس مقدمے میں نامزد ملزمان میں سے کسی ایک ملزم کے خلاف بھی ٹھوس شواہد نہیں ملے-یہ جانبدارانہ فیصلہ بھارتی عدلیہ پر ہندو انتہا پسندانہ سوچ کے غلبے کی عکاسی کرتا ہے-اس مقدمے کے ایک ملزم جے بھگوان گویل نے اپنے بیان میں برملا اظہار کیا ہے کہ :

’’ہم نے مسجد توڑی تھی اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی سے اس سزا کو قبول کر لیتے- عدالت نے سزا نہیں دی- یہ ہندو مذہب کی فتح ہے، ہندو قوم کی فتح ہے‘‘-

بابری مسجد سے متعلق بھارتی عدالتوں میں 1992ء سے دو اہم مقدمات زیر سماعت تھے-پہلا مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا- اس مقدمے کے متعلق بھارتی متعصب سپریم کورٹ نے گزشتہ برس جانبدارانہ فیصلہ دیا تھا کہ جس جگہ بابری مسجد قائم تھی وہ دراصل مندر کی زمین تھی-حالانکہ تاریخی شواہد سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ بابری مسجد کی جگہ پر کبھی کوئی مندر تعمیر تھا-دوسرا مقدمہ بابری مسجد کی شہادت سے متعلق تھا-6 دسمبر 1992ء کو ایودھیا کی 500 سال پرانی تاریخی بابری مسجد کو BJP اور RSS کے ہندو انتہا پسندوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ’ابرہہ کا چلن ‘اختیار کرتے ہوئے منہدم کیا تھا-یہ عمل مسلمانانِ عالم بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اسلامی تاریخ ، تہذیب و ثقافت و مسلم طرز حیات پر ایک قاتلانہ حملہ تھا-یہ تاریخی مسجد 1528ء میں مغلیہ سلطنت کے بانی، ظہیر الدین بابر کی ہدایات پر تعمیر کی گئی تھی جو بابر کے نام کی وجہ سے بابری مسجد کے نام سے موسوم تھی-ہندو انتہا پسند دہشت گردوں کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد ان کے بھگوان رام چندر کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی تھی البتہ ان کے اس دعوے کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں -مزید یہ کہ مذہبی رواداری کے عَلم بردار ، اعتدال پسند ،ظہیر الدین بابر ، سے اس امر کی توقع عبث ہے کہ اس نے کسی قدیم مندر کے نشانات پر مسجد تعمیر کروانے کا حکم دیا ہو-مسجد کے منہدم ہونے کے بعد دو مقدمات درج ہوئےتھے-ایک مقدمہ نامعلوم ہندو انتہا پسندوں کے متعلق اور دوسرا مقدمہ انہدام کی سازش کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے متعلق تھا-ابتدائی طور پر مقدمہ 48 لوگوں کے خلاف درج ہوا تھا جن میں سے 16 ملزمان اس32 سالہ مقدمے کی سماعت کے دوران فوت ہو گئے-جبکہ بقیہ تمام کو حالیہ فیصلے میں باعزت بری کر دیا گیا-

اس وقت بھارت میں مسلمان مخالف رویہ اور بیانیہ ایک معمول بنتا جا رہا ہے- پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان نے اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے حالیہ خطاب میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے بھارتی ریاست بھارت سمیت عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے بیانیے اور سوچ کو فروغ دے رہی ہے-کووڈ19 کی حالیہ عالمی وباء میں بھی بھارت میں مسلم دشمن شدت پسند عناصر نے مسلمانوں کو بھارت میں وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جو انتہائی جانبدارانہ و انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے- گزشتہ ایک برس میں مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد سرچ آپریشنز میں 300 سے زائد معصوم نوجوان کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے- متنازع بھارتی شہریت ترمیمی قانون کی رو سے ممکن ہے کہ لاکھوں بھارتی مسلمانوں کو شہریت کے بنیادی حق سے محروم کر دیا جائے - اکیسویں صدی کے ہٹلر ’نریندرا مودی‘ کے دورِ حکومت میں بعین وہی اقدامات کیے جارہے ہیں جو گزشتہ صدی میں ہٹلر نے جرمنی میں کیے تھے- اگر عالمی برادری نے حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے فی الفور ضروری اقدامات نہ کیے تو وہ وقت دور نہیں کہ بھارت میں جرمنی کی تاریخ دہرائی جائے گی جو شاید ایک جوہری جنگ کی طرف لے جانے کا سبب بن جائے-پاکستان سمیت دیگر تمام امن دوست ممالک پر لازم ہے کہ بھارت کے اس مکروہ چہرے کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر بے نقاب کیا جائے اور بروقت اس ناسور سے جنوبی ایشیا کو چھٹکارا دلوایا جائے-

اب وقت آن پہچا ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان دنیا بھر میں بھارتی ریاست کے مکروہ اور متعصب چہرے کو بے نقاب کریں-اگر آج بھی بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت قیامِ پاکستان کے وقت بھارتی حمایت کی غلطی کو ’’Undo‘‘ نہیں کرتی تو بھارت میں اندلس ماڈل اور اسرائیل ماڈل دہرائے جانے کی ذمہ دار یہی قیادت ہوگی جو ’’ہندو توا‘‘ کا جن بوتل سے باہر آ جانے کے باوجود بھی ’’سیکولر بھارت سیکولر بھارت‘‘ کی چوسنی چوس رہی ہے-آج ہندوستان کے مسلمانوں کو پھر ایک محمد علی جناح کی ضرورت ہے جو ان کا مقدمہ لڑے اور انہیں ان کا جائز اور اصولی حق دِلوا کے رہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر