لیبیا رقبہ کے اعتبار سےجنوبی افریقہ کا چوتھا بڑا ملک ہے جس کے شمال میں بحیرۂ روم، مشرق میں مصر، جنوب مشرق میں سوڈان، جنوب میں چاڈ(Chad) اور نائیجیر جبکہ مغرب میں تیونس اور الجیریا واقع ہے- اس خطے کا بیشتر حصہ صحرا پر مشتمل ہے- لیبیا کا دارالحکومت قدیم شہر طرابلس (Tripoli) ہے جسے عربی میں طرابلو بھی کہا جاتاہے- لیبیاکےاہم شہر وں میں بین غارا، مستارا، البیزہ، خنس اور زاویا شامل ہیں جبکہ اس کی موجودہ آبادی لگ بھگ ساڑھے چھ ملین ہے جس میں اکثریت ( 96%) سنی مسلمانوں کی ہے اور باقی اقلیتوں میں عیسائی، یہودی اور بدھ ازم کے ماننے والے شامل ہیں- عربی یہاں پر سرکاری زبان کے طور پر رائج ہے- اس کے علاوہ بیشتر شہروں میں اٹلین اور انگریزی بھی بولی اورسمجھی جاتی ہے-
تاریخی اعتبار سے لیبیا بہت قدیم ملک ہے-یہ مختلف حکومتوں کے زیر سایہ رہا اور اس کودیگر ناموں سے پکاراجاتا رہا ہے:
“The usage of the term Libya is a fairly modern development, the Greeks used it to refer to all North Africa”.[1]
’’لیبیا کی اصطلاح جدید دور کی ہے جبکہ یونانی اسے شمالی افریقہ سےمنسوب کرتےتھے ‘‘-
لیبیا میں آبادکاری کرنے والوں میں سب سے قدیم قبیلہ بربر شمار کیاجاتا ہے- یاد رہے عظیم فاتح اندلس(طارق بن زیاد)اسی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا- تاریخ کے اوراق گرداننے سے معلوم ہوتا ہے کہ لیبیا ایک وقت میں فارس کی سلطنت کے زیر اثر بھی رہا جبکہ ایک دور ایسا بھی گزرا کہ جولیس سیزر کے مصر فتح کرنے سے پہلے تک اس پرمصری حسینہ قلو پطرہ کی حکومت قائم تھی؛ اور یوں قلو پطرہ کے دورِ حکومت کے خاتمے پر رومیوں نےاس خطے پر قبضہ کر لیا اور ان ادوار میں مقامی آبادی کو زبردستی عیسائی بنایا جاتا رہا- اس ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں محکوم اقوام کی حمایت اور ظالم حکمرانوں کی داد رسی کے لیے دین حق نے آواز بلند کی- 647 ء میں سیدنا حضرت عمروؓ بن العاص کی قیادت میں عظیم مسلم سپہ سالارحضرت عبداللہ بن سعدؓ نے لیبیا کے قدیم شہر طرابلس کو فتح کیا- اس فتح سے نہ صرف اسلام کی ترویج و اشاعت ہوئی بلکہ اس خطے میں امن و آشتی، عدل و انصاف اور انسان دوستی کو فروغ ملا-
لیبیا کی قسمت میں روشن باب اس وقت آیا جب عہدِ بنی امیہ میں پورے لیبیا پر اسلامی پرچم لہرا گیا- اس خطے کو دور ِعباسیہ میں بھی مزید استحکام و ترقی ملی- مزید برآں! خلیفہ ہارون الرشید نے لیبیا کو جدید خطوط پر منظم کیا،جس سے نہ صرف معاشرتی اقدار کو فروغ ملا بلکہ داخلی طور پر بھی مضبوط حکومتی نظام قائم ہوا-سقوطِ غرناطہ کے بعد ہسپانوی و پرتگالی صلیبی جنگجؤوں کی کئی مہمات افریقہ میں شروع ہوگئیں اور ایک لمبا عرصہ تک لیبیا صلیبی قبضہ میں رہا-بعد ازاں عثمانی خلیفہ سلیمان عالیشان کے عہد میں مشہور ایڈمرل خیر الدین بربروسہ نے اسے صلیبی قبضہ سے رہا کروایا - اس کے ساتھ لیبیا کا شہر طرابلس سولہویں سے انیسویں صدی تک عظیم سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترقی کی منزل کی طرف گامزن رہا-اسی دوران نوآبادیات کے حامی اور طاقت کے پوجاری لیبیا کے استحکام اور عثمانیہ کی عظمت کے خلاف برسر پیکار رہے مگر 1835ء میں سلطنت عثمانیہ نے طرابلس اور لیبیا پر پوری طرح اپنی حکومت قائم کرلی-یہ شکست طاقت و دولت کی بھوک رکھنے والی نام نہاد مہذب قوم کو ہضم نہ ہوئی-
المختصر! یہ کہ ذاتی مفاد کی آڑ میں اقوام عالم کے امن تو تار تار کرتے ہوئے اٹلی نے 29 ستمبر 1911ء کو ایک دن کی دھمکی کے بعد لیبیا پر حملہ کر دیا- جنگ کے دوران سنوسی تحریک (لیبیا کے جنوبی صحرائی علاقوں میں یہ تحریک سنت نبوی(ﷺ) اور شریعت مطہرہ کی پابندی کی غرض سے چلائی گئی تھی)نے سلطان کی پھرپور حمایت کی- سلطان کو 1911ء میں سنوسی تحریک نے ٹیلی گرام میں اپنی وفاداری کی یقین دہانی کروائی اور بیرونی طاقتوں کے حملے سے لیبیا کے دفاع میں شرکت کی-
اس جنگ کے بعد 1912ء میں معاہدہ لوازن (Treaty of Lausanne) کے تحت لیبیا اٹلی کی دسترس میں چلا گیا- یوں اٹلی کی حاکمانہ پالیسی کے سبب دنیا کو پہلی جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑا- اس جنگ عظیم میں ترکی اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا- لیبیا کے غیرت مند اور غیور عوام نے اٹلی کی دسترس کو قبول نہ کیا اس کے خلاف عظیم مجاہدِ آزادی عمر مختیار کی قیادت میں تحریک آزادی چلائی- عمر مختیار کی سیاسی بصیرت، شجاعت، بہادری، حریت پسندی اور فراست کے تحت نہ صرف لیبیا کی عوام ان کو اپنا قومی ہیرو گردانتے ہیں بلکہ اہل مغرب بھی ان کی شہرت سے بخوبی واقف ہیں :
“Loin of the desert”[2]. ’’صحراکا شیر‘‘
اطالوی حکومت نے اس تحریک آزادی کو دبانے کے لیےظلم و بربریت کی روش اختیار کی جو ہمیشہ سے نام نہاد امن کے داعیوں کاوطیرہ رہا ہے-عمر مختیار کو اطالوی حکومت نے پھانسی دے کر شہید کر دیا تاکہ آزادی کی تحریک کو ختم کیا جاسکے مگر انہیں منہ کی کھانی پڑی- اس پر دلیل کے طور پر قارئین کے پیش خدمت ہے:
’’اٹلی کی فوج نے مقامی لوگوں کے خلاف شدید مظالم ڈھائے حریت پسند مجاہدین کوچن چن کر مارنا شروع کر دیا- اس کے باوجود مقامی لوگوں کے جوش و جذبہ میں کمی نہ آئی‘‘-[3]
لیبیا کی عوام میں جذبہ شہادت کی عکاسی فاطمہ بنت عبد اللہ کی شہادت سے بخوبی ہوجاتی ہے- قوم کی بہادر بیٹی نے میدانِ جنگ میں اپنے زخمی بھائیوں اور غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا- اس شہادت نے حکیم الامت علامہ محمداقبالؒ کو متاثر کیا جس پر علامہ اقبال نے فاطمہ کی شہادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ:
فاطمہ! تو آبرُوئے امّتِ مرحوم ہے |
1943ء میں لیبیا پر اتحادی افواج (برطانیہ اور فرانس) نے قبضہ کرلیا جس کی تقسیم یوں تھی کہ اس کے دو صوبوں پر برطانیہ قابض ہوگیا اورایک صوبہ فرانس کے ماتحت چلا گیا- بالآخر بابائے قوم عمر مختیار کےآزادی کے خواب کو تعبیر تب ملی جب 24 دسمبر 1951ءمیں اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق لیبیا خود مختار ریاست بن گئی-
لیبیا دنیا کا پہلا ملک ہے جس کو آزادی اقوام متحدہ کی حمایت اور قرار داد کی رو سے ملی- شاہ ادریس کو پہلا بادشاہ منتخب کیا گیا،اس وقت لیبیا کی معاشی و معاشرتی حالت دیگر ممالک کی نسبتاً اچھی نہ تھی- ان حالات میں ایک ایسی دریافت ہوئی جس نے عالمی دنیا کی نگاہوں میں لیبیا کی اہمیت و اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کر دیا، یہ 1959ء میں تیل کی دریافت تھی- لیبیا کی سیاسی تاریخ میں اہم موڑ اس وقت آیا جب شاہ ادریس کی حکومت کی لاپرواہی سے عوام میں یاس و قنوطیت پیدا ہوئی اور سیاسی عدم استحکام کے باعث معمر قذافی نے بادشاہ کی حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کیا جسے ’’الفتح انقلاب‘‘ کے نام سےمنسوب کیاجاتاہے-
یکم ستمبر1969ء لیبیا کی تاریخ میں پہلا مارشل لاء معمر قذافی نے لگا کر شاہ ادریس کی حکومت کا تختہ الٹ کراپنی حکومت قائم کی- لیبیا نے قذافی کے دور حکومت میں نہ صرف معاشی، سماجی اور تعلیمی ترقی کی بلکہ استعماری طاقتوں کی سازشوں کو بھی ناکام بنا یا-ایک تحقیق کے مطابق:
’’معمر قذافی کے زمانے میں وہاں سو فیصد تعلیم تھی ہر فرد کو گھر دیا جاتا تھا- پیدائش کے بعد ہی بچے کے نام وظیفہ جاری کردیا جاتاتھا-قذافی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے امریکا اور یورپ کے سامنے سر تسلیم خم اور ان کے نظام کو اپنانے کی بجائے اپنا نظام مرتب کیا‘‘-[4]
معمر قذافی کے دور میں اتحاد عالم اسلام کیلیے کی جانے والی خدمت قابل تحسین ہے- عراق کی بقاء اور صدام حسین کی حمایت کرنے اور استعماری نظام کی تردید کی پاداش میں تیونس سے عرب بہار تحریک کو جنم دیا گیا- جس کا اولین مقصد عالم اسلام کے اتحاد کو توڑنا ا ور قذافی کو راستے سے ہٹانا تھا - سیا سی و سماجی انتشار پھیلا کر دشمن نے باغیوں کے ہاتھوں 17 اکتوبر 2011 ءمیں معمر قدافی کو شہیدکروایا، یو ں لیبیا کی خوشحالی اور مضبوط ریاست کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا- کرنل معمر قذافی کی قائم کردہ جمہوریت کے بارے میں گریکائی چنگو نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ہے:
“Gaddafi’s Libya was Africa’s Most Prosperous Democracy”.[5]
’’قدافی کا لیبیاافریقہ کی سب سےزیادہ مستحکم جمہوریت تھی‘‘-
لیبیا اقوام متحدہ جیسی عالمی،عرب لیگ اور او آئی سی جیسی علاقائی تنظیموں کا رکن ہے- اس کی موجودہ سیاسی صورت حال اطالوی دور حکومت جیسی ہی ہے-لیبیا کے کچھ حصے پر سلطان فیض السراج کی حکومت قائم ہے جسے جی این اے (GNA) بھی کہا جاتا ہے- یہ حکومت اقوام متحدہ کی قائم کردہ ہے اسے دنیا کی بڑی بڑی اقوام نے بھی تسلیم کیا- اس کے برعکس لیبیا کے کچھ حصے پر جنرل ہفتار کی حکومت بھی قائم ہے-اس کی حکومت کی پشت پناہی استعماری سوچ کے حامل ممالک اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لیےکرتے ہیں- سیاسی انتشار سے وہ لیبیا کے نہ صرف تیل کے ذخائر پر نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ دوبارہ اسے نوآبادی کالونی میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں- اس خانہ جنگی کی وجہ سے نہ صرف لیبیا میں سیاحت بلکہ تعلیمی، سماجی، ثقافتی اور معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے- یو این عالمی سیاحت کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری (طلب رفائی) نے حال ہی طرابلس کا دورہ کیا اور انہوں نےلیبیا کی سیاحت کے متعلق اپنی رائے کا اظہاریوں کیا کہ:
“Libya is already behind by four decades in this sector. There is no more time to waste”.[6]
’’اس شعبے میں لیبیا پہلے ہی چار عشرے پیچھے ہے اور مزید وقت ضائع کرنے کےلیےنہیں ہے‘‘-
عالمی سیاست میں سفارت کاری کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے یہ نہ صرف ملکی وقار و سالمیت کی ضامن ہوتی ہے بلکہ قومی نظریہ حیات کی عملی تصویر کی عکاسی کرتی ہے- پاکستان اور لیبیا کی سفارت کاری کی تاریخ دونوں ممالک کے دنیا کے نقشہ پر آنے سے بھی پہلے کی ہے-تاریخ میں ایسے بہت کم دیکھنے اور پڑھنے میں ملتا ہےکہ دو اقوام جواپنی آزادی کے لیے جد و جہد کر رہی ہوں وہ آپس میں سفارتی تعلقات قائم کرلیں لیکن یہ اس قوم کی دوراندیش قیادت کے سبب ہی ممکن ہوپاتا ہے- لیبیا اور پاکستان کے تعلقات کی بنیاد رکھنے والے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ہیں جنہوں نے پاکستان بنانے کا خواب دیکھا تھا- یاد رہے کہ اس وقت لیبیا اطالوی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کیلیے جد و جہد کر رہا تھاجبکہ ہندوستان کےمسلمان ایک طرف برطانوی استعمار اور دوسری جانب برہمن سامراج (جو کہ مسلمانوں پر ابدی حکمرانی کرنے کا خواہاں تھا) سے آزادی کی تحریک چلائے ہوئے تھے- ان تعلقات کی بنیاد علامہ محمد اقبالؒ کی نظم ’’حضور رسالت مآب (ﷺ)‘‘ کے آخری بند سے عیاں ہوتی ہے -آخری بند قارئین کی پیش خدمت ہے کہ:
جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں |
ان تعلقات کی بنیاد مندرجہ بالااشعار ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے روحانی، معاشرتی، ثقافتی اور سفارتی تعلقات کا احاطہ کیاگیا ہے- لیبیا کی بات کی جائے تو اسلامی کانفرنس کے دوسرے اجلاس جو کہ 1974ء میں لاہور میں منعقدہوا- اس اجلاس میں معمر قذافی نے شرکت کی- اس میں کرنل قذافی نے تاریخی جملہ کہا جو آج بھی نہایت اہمیت کا حامل ہےکہ:
“Pakistan is the fort of Islam”.
’’پاکستان اسلام کا قلعہ ہے‘‘-
اس جملے میں پاکستان کی اتحاد عالم اسلام کی کاوشوں و کردار کو سراہا گیا -دونو ں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ترین ہوئے اور یوں دونو ں ممالک ایک دوسرے کہ شراکت دار بنے-
لیبیا کا سیاسی عدم استحکام عرب بہار (Arab Spring) کی لائی ہوئی خزاں کا نتیجہ ہے جو پھر سے طرابلس کے نواجواں کے خون سے نو آبادیتی بہار کی خواہاں ہے- عجیب بات ہے کہ چوروں کو دنیا کی مہذب اقوام کہا جاتا ہے یہ چور نہ صرف طاقت و دولت کی ہوس رکھتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے خون و قتل عام کی شدید پیاس میں مبتلا ہیں- لیبیااس وقت تک استحکام سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جب تک اندرونی انتشار کا خاتمہ نہ کر لے-
او آئی سی اور اس کے کارکن لیبیا کے سیاسی انتشار کوختم کرنے کے لیے اپنا پھرپور کردار ادا کریں- اسلامی دنیا کے مسلمانوں اور ریاستوں کی نجات اتحاد عالم اسلام میں مضمر ہے-اسلامی دنیا میں اتحاد کی کمی اور قیادت کے فقدان کے باعث فرانسیسی صدر کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ کائنات کی سب سے عظیم ہستی حضور نبی مکرم (ﷺ) کی شان میں گستاخی کی ناپاک جسارت کرسکے- اسلامی روایات و اقدار اور نظریہ حیات سے دوری کے باعث چند اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں جو کہ ایک شرم ناک فعل ہے-
نہ صرف لیبیا بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی عزت، عظمت، توقیر اور شان و شوکت صرف و صرف اسلام سے ہے-
٭٭٭
[1]Journal of Middle Eastern and Islamic Studies (in Asia) Vol. 6, No. 1, 2012
[2]https://www.theguardian.com/film/filmblog/2011/jun/30/lion-of-the-desert-libya-gaddafi
[3]https://www.mirrat.com/article/11/330
[4]https://irak.pk/libya/
[5]https://www.ibrattleboro.com/opinion/op-ed/2019/07/time-to-expose-media-manufactured-uprising-libya/
[6]https://www.reuters.com/article/us-libya-tourism-idUSBRE95I0W820130619