مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے 10 نومبر 2020ء کو اسلام آباد میں ’’جونا گڑھ یومِ سیاہ‘‘ پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا-عزت مآب نواب جہانگیر خانجی (نواب آف جوناگڑھ) نے سیمینار کی صدارت کی جبکہ صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ابتدائی کلمات ادا کیے- اسامہ بن اشرف (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-
ابتدائی کلمات :
صاحبزادہ سلطان احمد علی
( چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ)
تقسیم ہند سے پہلے برصغیر پاک و ہندمیں 562 شاہی ریاستیں تھی اور جوناگڑھ کا شمار دوسری بڑی ریاست کے طور پر ہوتا ہے- قانونِ تقسیمِ ہند 1947ء نے شاہی ریاستوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ پاکستان یا انڈیا کے ساتھ شامل ہو جائیں یا خود مختاری کا اعلان کر دیں- جونا گڑھ پہلی شاہی ریاست تھی جس نے 15 ستمبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ باقاعدہ الحاق کیا- 9 نومبر 1947ء کو انڈیا نے جونا گڑھ پر حملہ کر دیا اور ریاست پر غیر قانونی تسلط قائم کر لیا- سر محمد ظفراللہ خان جنوری 1948ء میں جوناگڑھ کے کیس کو اقوامِ متحدہ لے گئے- جونا گڑھ اقوامِ متحدہ کے قدیم ترین حل طلب مسائل میں سے ایک ہے- یہ مسئلہ ہمیشہ سے توجہ اور کوشش کا طلبگار ہے- آذربائیجان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح انہوں نے نگارنو کاراباغ پر اپنے حق کا مطالبہ کیا-قانونی طور پر جونا گڑھ پاکستان کا حصہ ہے اور نواب آف جونا گڑھ کا اس ریاست پر یہ مطالبہ قائم رہے گا- میں اپنے نوجوانوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے کامیابی سے ٹویٹر پر ’’جوناگڑھ پاکستان ہے‘‘کا ٹرینڈ قائم کیا-
صدارتی کلمات:
عزت مآب نواب جہانگیر خانجی (نواب آف جونا گڑھ)
ہم 9 نومبر کو جوناگڑھ یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ اس دن غاصب بھارتی افواج نے ریاست جونا گڑھ پر بزور طاقت قبضہ کر لیا جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر رکھا تھا- انڈین حکومت کا یہ اقدام اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی تھا-تقسیم برصغیر کے وقت جوناگڑھ کے نواب مہابت خانجی نے ریاستی کونسل سے مشورہ کے بعد پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا- اب ہم نے دوبارہ اس معاملہ کو خانوادہ حضرت سلطان باھُوؒ سے تعلق رکھنے والے عزت مآب صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب کی توجہ اور کاوش سے اٹھایا ہے- نواب محابت خانجی کے ساتھ جونا گڑھ کے لوگوں نے کراچی ہجرت کی اور آزادی کے وقت سے پاکستان کی اقتصادی و صنعتی ترقی کیلیے کوشاں ہیں-ہم نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ انڈیا کے غاصبانہ قبضے سے جونا گڑھ کی آزادی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی-جوناگڑھ پاکستان تھا، ہے اور رہے گا- ہم وزیرِ اعظم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیر کی طرح جوناگڑھ کے بھی سفیر بنیں-
مہمانِ خصوصی
سردار مسعود خان(صدر آزاد جموں و کشمیر)
پاکستان کے نئے سیاسی نقشہ کی اشاعت کے بعد، انڈیا کشمیر سے بھی زیادہ جوناگڑھ کے مسئلہ پر اشتعال میں ہے- اس لیے آج کا یہ پروگرام بہت اہم ہے اور اس کے انعقاد پر مَیں مسلم انسٹیٹیوٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں- مسلم انسٹیٹیوٹ اپنے قیام کے آغاز سے ہی جوناگڑھ کے بارے آگاہی پیداکرنے میں مصروف ہے-بروشر میں چھاپے گئے دستاویز الحاق جوناگڑھ کا امیج بہت مقدس ہے کیونکہ اس دستاویز پر قائد اعظم محمد علی جناح کے دستخط ثبت ہیں- اس لیے جوناگڑھ کے پاکستان سے الحاق کے متعلق کوئی شکوک و شبہات نہیں ہیں- الحاق کے بعد انڈیا کی جانب سے جس قسم کی دہشتگردی اور غیر قانونی قبضہ کا مظاہرہ کیا گیا اس کو ہم کبھی بھی قبول نہیں کریں گے- نواب آف جوناگڑھ کی یہ ڈیمانڈ کہ اسلام آباد میں بھی جونا گڑھ کا سیکریٹریٹ ہونا چاہیے بالکل جائز ہے- آزاد جموں و کشمیر کا ایک مکمل ریاستی ڈھانچہ موجود ہے اور اسی لیے مسئلہ کشمیر زندہ ہے- ریاست پاکستان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے تمام مقبوضہ علاقہ جات حاصل نہ کر لے- پاکستان کے لوگوں اور تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مل کر ہندوتوا کا مقابلہ کریں کیونکہ یہ ایک سول وار ہے-
مہمان مقرر
صاحبزادہ محمد محبوب سلطان
(وفاقی وزیر سیفران)
صرف وہی قومیں زندہ رہتی ہیں اور اپنی شان و شوکت برقرار رکھتی ہیں جو اپنی علاقائی سالمیت کو ہر چیز سے بالاتر سمجھتی ہیں- جیسے ہر شخص کے لیے انفرادی مسائل بھی اہمیت رکھتے ہیں اسی طرح قومی اور اجتماعی مفادات کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے- بطور ایک زندہ قوم ہم اپنے تاریخی حقوق اور معاہدات فراموش نہیں کر سکتے- تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ نواب آف جوناگڑھ نواب مہابت خانجی نے تقسیمِ برصغیر کے وقت قائد اعظم کے ساتھ الحاق پاکستان کی دستاویز پر دستخط کیے اور پاکستان کے ساتھ مضبوط قومی وحدت کا اظہار کیا- جب تک پاکستان جونا گڑھ کی سر زمین کو حاصل نہیں کر لیتا ، کشمیر کی طرح جونا گڑھ کا مسئلہ پاکستان کی توجہ کا مرکز رہنا چاہیے- نواب آف جوناگڑھ نواب جہانگیر خانجی مسئلہ جوناگڑھ کو زندہ رکھنے کے لیے انتھک کاوششیں کر رہے ہیں اور پر عزم ہیں کہ جوناگڑھ کو بھارتی شکنجوں سے آزاد کروایا جائے- پاکستان اس مسئلہ کو ہر عالمی پلیٹ فارم پر اٹھائے گا اور اس مسئلہ کے حل میں ہر ممکن کردار ادا کرے گا- پاکستان کے نئے سیاسی نقشہ کا اجراء اس کی واضح مثال ہے- موجودہ حکومت ان مسائل کے حل میں نہایت سنجیدہ ہے- سیاسی نقشہ کا از سر نو جائزے کا مقصد دہائیوں پرانے مسئلہ کشمیر اور جوناگڑھ میں نئی جان ڈالنا تھی- جوناگڑھ انشاءاللہ پاکستان کا حصہ بنے گا-
مہمان مقرر
شہریار خان آفریدی
(چیئرمین کشمیر کمیٹی)
جوناگڑھ، جموں و کشمیر اور بھوپال پر انڈیا نے وہاں کے حکمرانوں اور عوام کی خواہشات کے خلاف قبضہ کر لیا- اسی طرح انڈیا نے اپنے غاصبانہ عزائم کی پیروی کرتے ہوئے 1949 ءاور 1975ء میں مانی پور اور سکم کی ریاستوں پر قبضہ کر لیا- پاکستان نے دنیا کی سالمیت کے لیے بہت کچھ کیا ہے جیسا کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف خوفناک جنگ کا سامنا کیا - اس کے علاوہ سرد جنگ میں اور افغان امن کیلیے پاکستان کا کردار سب کے سامنے ہے- آج بھی پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کی انسانی بنیادوں پر مہمان نوازی کر رہا ہے جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی- دوسری جانب انڈیا افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور پورے خطے میں بد امنی پھیلا رہا ہے- انڈیا کا برسوں سے ایک سیکولر ملک، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ابھرتی ہوئی معیشت کا تاثر ابھارا گیا ہے- لیکن حقیقت بالکل مختلف ہے اور انڈیا جو کچھ کر رہا ہے وہ دنیا کی نظروں سے پنہاں نہیں ہے- اس وقت انڈیا میں ایک فاشسٹ اور ہندو توا کے فلسفہ پر بر سر پیکار حکومت قائم ہے- 5 اگست 2019ء کو انڈیا نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35اے کو منسوخ کردیا اور اس وقت سے معصوم کشمیریوں کا فوجی محاصرہ کر رکھا ہےجو کہ نہ صرف اخلاقی اقدار کی پامالی ہے بلکہ عالمی قوانین کے بھی خلاف ہے-نئے سیاسی نقشہ پر کشمیر اور جونا گڑھ کی پاکستان میں شمولیت پاکستان کے اصل جغرافیائی نقشہ کی تکمیل کی جانب ایک اہم قدم ہے- ہم اپنے مقبوضہ علاقہ جات کے حصول کیلیے ہر ممکن آپشن کا استعمال کریں گے-
مہمان مقرر
پروفیسر ڈاکٹر اعجاز اکرم
(پروفیسر آف ریلیجن اینڈ ورلڈ پالیٹکس، ساوتھ ویسٹرن یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ لاء چونگ کنگ چائنہ)
موجودہ دنیا میں پاکستان کے بہت سے دوست اور دشمن ہیں- دشمن پاکستان کی سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں- بہت سے تخریبی عناصر کو پاکستان کے دشمنوں کی امداد حاصل ہے- اس کے علاوہ پاکستان مغرب کے نظریہ کے مطابق ایک مکمل جمہوریہ نہیں ہے کیونکہ ایک جمہوریہ میں اقتدار اعلیٰ کا مالک عوام ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے آئین میں یہ درج ہے کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے- اس لیے پاکستان نہ تو جمہوریہ ہے اور نہ ہی ایک نیشن سٹیٹ ہے بلکہ یہ مختلف قومیتوں پر مشتمل ریاستوں کا ایک اتحاد ہے اور اس اتحاد کی بنیاد رنگ و نسل نہیں بلکہ ایک ایمان اور عقیدہ ہے- اسلامی تہذیب میں ترکی، ہندوستان، فارس، مغرب، چینی، افریقی بلکہ پورے روئے زمین کے مسلمان شامل ہیں کیونکہ اسلام کسی خطے یا نسل تک محدود نہیں ہے- پاکستان اسلام کے نظریہ پر قائم ہوا ہے اور اسی نظریہ کے تحت کشمیر اور جونا گڑھ پاکستان میں شامل ہوں گے- اگر پاکستان کے مسلمان اسلام کی روحانی تعلیمات کی جانب رجوع نہیں کریں گے تو دشمن ان کو اپنی سرزمین سے محروم کر دے گا- پاکستان کو مغربی نظریات کو ترک کر دینا چاہیے- آج چینی بھی اپنے آپ کو ایک قومی ریاست نہیں کہتے بلکہ وہ ایک علیحدہ تہذیب پر مبنی ریاست کا دعویٰ کرتے ہیں- حالیہ دنوں میں ترکی لیبیا میں دہشتگردوں کے خلاف اور شامی مسلمانوں کی خودمختاری کیلیےاہم کردار ادا کر رہا ہے- اس کے علاوہ روہنگیا، فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کیلیے ترکی کی اخلاقی و سفارتی امداد قابل قدر ہے- ترکی نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کو توہین رسالت کے ایشو پر بھی ٹف ٹائم دیا- پاکستان مسلم دنیا کی واحد نیوکلیر پاور ہے جو اہم کردار ادا کرسکتی ہے- اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی تنظیم نو بھی جوناگڑھ کے کیس کو تقویت بخشے گی-
مہمان مقررہ
ڈاکٹر ماریہ سلطان
ڈائریکٹر جنرل، ساؤتھ ایشین سٹریٹیجک سٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ
ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ پاکستان کیوں جونا گڑھ کا دعویدار ہے اور نئے سیاسی نقشہ کے اجراء سے تاریخ کا از سر نو جائزہ لینا چاہتا ہے- مسئلہ جوناگڑھ اور کشمیر میں بہت سے پہلوؤں کے حوالے سے مماثلت پائی جاتی ہے- جونا گڑھ تقسیم ہند کا حل طلب مسئلہ ہے- 1947ء میں جونا گڑھ کی ریاستی کونسل نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی منظوری دی- اس کے فوراً بعد انڈین حکومت اور فوج نے ریاست پر قبضہ کر لیا- بھارتی حکومت نے نواب ٓاف جوناگڑھ پر اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے دباؤ ڈالا- جب نواب صاحب نے اپنے فیصلہ کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا تو بھارت نے ریاست کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی- اسی طرح انہوں نے ریاست کی پوسٹل سروسز اور فضائی رسائی بند کردی اور 3000 پولیس اہلکاروں کو جوناگڑھ کی ریاستی مشینری پر قبضہ کرنے کیلیے بھیجا- اسی طرح 5000 انتہا پسند ہندو غنڈے بھیجے گئے جنہوں نے مقامی ریاستی مشینری کو ہجرت پر مجبور کر دیا- بھارت نے چالاکی سے مقامی انتظامیہ کو ان کے عہدوں سے محروم کر دیا- پاکستان کو ضرور جوناگڑھ کا کیس دوبارہ اقوام متحدہ لے کر جانا چاہیے- انڈیا میں نافذ کئے جانے والے شہریت کے قانون سے انڈیا اپنی تاریخ کو دہرا رہا ہے اور بھارتی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں- نواب آف جونا گڑھ ان تمام شہریوں کو جمع کر سکتے ہیں جنہوں نے ظلم بربریت کو برداشت کیا اور ہجرت پر مجبور ہوئے- ان کو واپس جانا چاہیے اور اپنی جونا گڑھ کی شہریت کادوبارہ مطالبہ کرنا چاہیے - اس سے ان کے کیس کو پیش کرنے میں ہمیں مزید تقویت ملے گی-
وقفہ سوال و جواب:
بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی دستاویز آج تک منظر عام پر نہیں آئی ہے اور نہ ہی کسی ریاستی کونسل یا کشمیری عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ نے اس کی تو ثیق کی- علاوہ ازیں، تحریک آزادی کشمیر دستاویز الحاق پر دستخط سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی اور اس وقت کسی ریاستی کونسل نے پاکستان یا انڈیا میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا تھا- مہاراجہ جنوبی انڈیا چلا گیا تھا اور بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو گئی- انڈیا سیکیورٹی کونسل میں گیا اور یہ دعویٰ کیا کہ شیخ عبداللہ کی قیادت میں آئین ساز اسمبلی تشکیل دے دی گئی ہے جس نے کشمیر کی انڈیا میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے- سیکیورٹی کونسل نے کہا کہ چونکہ اس وقت کلی طور پر ریاست جموں و کشمیر پاکستان یا بھارت کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے اس لیے کشمیر کی قسمت کا فیصلہ غیر جانبدرانہ استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا- پس تقسیم کا عمل مکمل نہ ہو سکا اور انڈیا نے 5 اگست2019ء تک کشمیر پر ایک صدارتی آرڈنینس کے ذریعہ حکومت کی-دوسری جانب اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ جوناگڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق عالمی قوانین کے عین مطابق تھا- جب جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کر لیا تو وہاں بھارت نے ایک جھوٹا ہندو مسلم فساد کھڑا کیا کیونکہ مسلمانوں نے بڑی تیزی سے جونا گڑھ کی جانب ہجرت کرنا شروع کردی تھی- ان مہاجرین کی تعداد 10 لاکھ کے لگ بھگ تھی- علاوہ ازیں ریاست گجرات سے بھی بڑی تعداد میں ہندؤوں کے مظالم کا شکار مسلمان جونا گڑھ آئے اور ہندو بھی جوناگڑھ کو چھوڑ رہے تھے جس سے یہ ریاست تیزی سےمسلم اکثریتی علاقہ میں تبدیل ہورہی تھی- اس صورتحال پر قابو پانے کیلیے، بھارت نے 300 سے زائد انڈین سول سروس کے افسران کو سپیشل پولیس یونٹ کے ہمراہ جوناگڑھ میں متعین کر دیا- اس کے علاوہ انڈیا نے ریاست کی پوسٹل سروسز بند کر دی اور خوراک کی رسد پر پابندی لگا دی- مسلمانوں پر بھی وہاں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے گئے- مختصراً، اگر تمام تاریخی واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان جونا گڑھ پر قانونی حق رکھتا ہے-
٭٭٭